Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا سلیمان اشرف

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا سلیمان اشرف
ARI Id

1676046599977_54337902

Access

Open/Free Access

Pages

109

مولانا سید محمد سلیمان اشرف
چار سلیمانوں کی رباعی قاضی محمد سلیمان صاحب مصنف رحمتہ للعالمین کی وفات سے مثلث ہوگئی تھی، شاہ سلیمان صاحب پھلواروی کی رحلت سے وہ فرد بن گئی تھی، اب اخیر اپریل ۱۹۳۹؁ء میں مولانا سلیمان اشرف صاحب (استاذ دینیات مسلم یونیورسٹی) کی موت سے مصرع ہوکر رہ گئی، دیکھنا یہ ہے کہ یہ مصرع بھی دنیا کی زبان پر کب تک رہتاہے۔
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
مولانا سید محمد سلیمان اشرف صاحب مرحوم بہار کے ایک مردم خیز دیہات کے رہنے والے اور شرفائے سادات کے خاندان سے تھے، ان کے والد مرحوم حکیم عبداﷲ صاحب اور ان کے اعمامِ محترم مولانا عبدالقادر صاحب، مولوی عبدالرزاق صاحب، مولوی عبدالغنی صاحب و مولانا عبید اﷲ صاحب اہل علم و فقر تھے، مولانا مرحوم نے درس کا بڑا حصہ مولانا محمد احسن صاحب استھانوی بہاری سے حاصل کیا تھا اور کچھ دن دارالعلوم ندوہ میں بسر کئے تھے، اور آخر میں مظق و فلسفہ کی آخری کتابیں مولانا ہدایت اﷲ خان صاحب رامپوری ثم الجونپوری سے پڑھی تھیں، جو یورپ میں خیر آبادی سلسلہ کے خاتم تھے، مولانا سید سلیمان اشرف صاحب مرحوم کو حقیقت یہ ہے کہ اپنے استاد کے ساتھ عقیدت ہی نہیں، بلکہ عشق تھا، ان کے حالات وہ جب کبھی سناتے تھے، تو ان کے طرز بیان گفتار کی ہراد اسے ان کی والہانہ عقیدت تراوش کرتی تھی۔
مرحوم خوش اندام، خوش لباس، خوش طبع، نظافت پسند، سادہ مزاج اور بے تکلف تھے، ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی خودداری اور اپنی عزت نفس کا احساس تھا، ان کی ساری عمر علی گڑھ میں گذری جہاں امراء اور ارباب جاہ کا تانتا لگا رہتا تھا، مگر انھوں نے کبھی کسی کی خوشامد نہیں کی، اور نہ ان میں سے کسی سے دب کر یا جھک کر ملے جس سے ملے برابری سے ملے اور اپنے عالمانہ وقار کو پوری طرح ملحوظ رکھ کر، علی گڑھ کے سیاسی انقلابات کی سیاسی آندھیاں بھی ان کو اپنی جگہ سے ہلا نہ سکیں، علی گڑھ کے عشرت خانہ میں ان کی قیامگاہ ایک درویش کی خانقاہ تھی، یہاں جو آتا جھک کر آتا، اگر مجلس سازگار ہوئی تو دعائیں لے کر گیا، ورنہ الٹے پاؤں ایسا واپس آیا کہ پھر ادھر کا رخ نہ کیا۔
وہ نہایت فیاض، کشادہ دست اور سیرچشم تھے، دو تین سال کے علاوہ ان کی ساری عمر تجرد کی حالت میں گذری کوئی اولاد نہ تھی، خاندان کے عزیزوں سے طبیعت کو چنداں مناسبت نہ تھی، جو کچھ تھا احباب کی نذر تھا، استاد زادوں اور دوستوں اور دوستوں کی اولادوں کے ساتھ وہ کچھ کیا جس کو اس زمانہ میں مشکل سے کوئی دوسرا کرسکتا ہے، انتہا یہ ہے کہ مرتے دم جو کچھ چھوڑا وہ بھی نذرِ احباب۔
ان کی مجلس سدا بہار تھی، وہ خود سدابہار تھے، فکر و غم کا ان کے ہاں گذر نہ تھا، اپنی ضعیف والدہ کی اطاعت اور اپنے ایک دیوانہ بھائی کی رفاقت اور خدمت میں عمر اس طرح گذاری کہ اس کی نظیر مشکل ہے، ان کی مجلس میں پچھلے علماء کے حالات اور ان کی خوبیوں کے تذکرے اکثر رہا کرتے کبھی کبھی کسی علمی مسئلہ پر اظہار خیال ہوتا، ان کی تقریر و وعظ میں بڑی دلچسپی اور گرویدگی تھی، ادھر بیس (۲۰) برس سے تقریر چھوڑ دی تھی، ایک دو جگہیں مخصوص تھیں جہاں وہ سال میں ایک دفعہ میلاد پڑھا کرتے تھے، ان کے مذہبی خیالات علمائے بریلی کے مطابق تھے اور ان کے بڑے مداح تھے، پھر بھی ان کی ملاقات اور میل جول ہر خیال کے لوگوں سے تھا وہ کسی سے مناظرہ نہیں کرتے تھے اور جب کرتے تھے تو گتھ جاتے تھے طبیعت میں ظرافت اور لطافت تھی غصہ بھی جلد آجاتا تھا، اپنے مزاج کے خلاف ایک حرف سن نہیں سکتے تھے۔
تحریر و تالیف کا بھی ذوق تھا، خسرو کی ایک مثنوی پر مقدمہ لکھا ہے، حج کے مسائل اور عربی کے فضائل پر دو رسالے لکھے ہیں، ایک کتاب مبین نام عربی فیلالوجی پر لکھی تھی، جس پر ہندوستانی اکیڈمی نے پانچ سو کا انعام دیا تھا اور بھی متفرق مضامین لکھے تھے، یونیورسٹی میں علوم اسلامیہ کے درس کے علاوہ عصر کے بعد قرآن پاک کی تفسیر پڑھایا کرتے تھے، خاص خاص شوقین طالب علم اس میں شریک ہوتے۔
ان کی وفات سے دو تین ہفتے پہلے ان سے علی گڑھ میں ملاقات ہوئی تھی، کمزور و نحیف تھے، مسلسل بخار نے ان کو نیم جان کردیا تھا، پھر بھی حسب دستور بعد عصر اپنی قیامگاہ کے برآمدہ میں مونڈھے پر بیٹھے تھے، احباب آس پاس حلقہ باندھے اور وہ مصروف خوش کلامی تھے میں نے عمر پوچھی تو ٹال گئے، میں نے اپنی عمر کے اندازہ سے ان کا اندازہ لگا کر عرض کیا کہ عجیب نہیں کہ آپ کی پیدائش ۱۸۷۸؁ء کی ہو، ہنس کر بولے، مجھے تو اپنی عمر آپ معلوم نہیں اور آپ کو معلوم ہے، یہاں تک کہ سنہ بھی بتادیا، اس انکار پر بھی میرا قیاس یہی ہے کہ ان کی پیدائش کا سال قریب قریب یہی ہوگا، اور اس وقت ان کی عمر ساٹھ پینسٹھ کے بیچ میں ہوگی، دیکھنے میں تنومند، اور صحیح معلوم ہوتے تھے، مگر اندر سے کھوکھلے ہوچکے تھے، اخیر ملاقاتوں میں اپنے وطن کے بعض دوستوں کی بے وقت موت اور عزیزوں کی محبت کی محرومی سے بے حد متاثر تھے، رحمۃ اﷲ علیہ۔
(سید سلیمان ندوی، جون ۱۹۳۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...