Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سگمنڈ فرائڈ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سگمنڈ فرائڈ
ARI Id

1676046599977_54337903

Access

Open/Free Access

Pages

110

سگمنڈ فرائڈ
گذشتہ ستمبر میں آسٹریلیا کے مشہور محلل نفسی سگمنڈ فرایڈ کا پچاسی سال کی عمر میں لندن میں انتقال ہوگیا۔
نفسیات میں اس کا موضوع جنسی جبلت تھا، پچاس برس تک وہ اس پر غور و فکر کرتا رہا، شروع میں اس نے پانچ سال تک وائنا میں عصبی المزاجی پر تحقیقات کی، ۱۸۹۶؁ء میں جب اس نے اپنے لکچروں میں یہ دعویٰ کیا کہ عصبی المزاج اشخاص کے مرض کا سبب ان کی جنسی جبلت میں پایا جاتا ہے، تو عام طور سے اسے مضحکہ انگیز سمجھا گیا، لیکن عصبی المزاجی کے مریض رفتہ رفتہ سگمنڈ فرائڈ کی طرف رجوع کرنے لگے، ان میں بعض ایسے تھے، جو جانوروں سے غیر معمولی طور سے خوفزدہ رہتے تھے یا گفتگو میں ہکلاتے تھے، یا تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنے ہاتھوں کو پانی سے دھوتے رہتے تھے، یا سر کے درد یا کسی اور بیماری میں مدتوں سے مبتلا رہتے تھے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مفلوج تھے، ان میں سے اکثر جنون کی حد تک پہنچ چکے تھے، فرائڈ ان تمام امراض کا علاج نفسیاتی طریقہ سے کرنا چاہتا تھا، مگر اس سے اس کو اب تک واقفیت نہیں ہوئی تھی۔
اس قسم کے امراض کا علاج عموماً مصنوعی نیند کے ذریعہ سے کیا جاتا تھا، ایک دن فرائڈ کے ایک دوست ڈاکٹر جوزف بردار نے اس سے اپنی ایک مریضہ کا واقعہ بیان کیا، مریضہ کی عمر اکیس سال تھی، اس کا باپ ایک مہلک مرض میں مبتلا تھا، وہ اس کی تیمارداری کرتی تھی، کہ ایک دن اس کے داہنے ہاتھ اور دونوں پیروں میں فالج گرگیا، ڈاکٹر مذکور نے مصنوعی نیند کی حالت میں مریضہ سے مختلف سوالات کئے، اس سے مرض کے تمام علامات ظاہر ہوتے گئے، تیمارداری کے زمانہ میں لڑکی نے اپنی بہت سی خواہشوں کو غیر سنجیدہ، غیر اخلاقی اور خود غرضانہ سمجھ کر دبا رکھا تھا، ان میں سے ہر خواہش مرض کا سبب ثابت ہوئی، مثلاً ایک شام کو وہ اپنے باپ کے پاس بیٹھی تھی کہ پڑوس کے مکان سے ناچ کے باجہ کی آواز سنی، اس کے دل میں ناچ میں شریک ہونے کی خواہش پیدا ہوئی، لیکن اس نے اس خواہش کو دبا دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ ناچ کے باجہ کی آواز سنتی تو زور سے کھانسنے لگتی، اس واقعہ کا حیرت انگیز حصہ یہ ہے کہ جب مریضہ کو اپنے مرض کے اسباب اور اس کی نوعیت سے واقفیت ہوئی تو اس کے سارے امراض جاتے رہے۔
فرائڈ کو اس واقعہ سے بڑی دلچسپی ہوئی، اور وہ اپنے ڈاکٹر دوست کے ساتھ کام کرنے لگا، وہ بھی عصبی المزاج اشخاص سے مصنوعی نیند میں مختلف قسم کے سوالات کرکے نفسیاتی نتائج پر پہنچنے کی کوشش کرتا تھا، اور اس نے دبے ہوئے جذبات اور خواہشوں کے ازالہ کی صورتوں پر غور و تحقیقات شروع کی۔
اس کی تحقیقات پر اعتراضات ہونے لگے، اس وقت ڈاکٹر مذکور نے فرائڈ کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا، مگر فرائڈ برابر اپنے مریض کے بھولے ہوئے خیالات اور دبے ہوئے جذبات کو معلوم کرنے کے طریقوں پر غور کرتا رہا، ایک دن اس کے ایک مریض نے اپنی مصنوعی نیند کے سوال و جواب کو لفظ بلفظ دہرا دیا، اس سے فرائڈ کی تحقیقات کی نوعیت بالکل بدل گئی، اس لئے مصنوعی نیند کے طریقہ کو چھوڑ کر مریضوں سے براہ راست گفتگو کرنا زیادہ بہتر اور مفید سمجھا، وہ مریض کو اپنے دفتر میں لٹا دیتا، اور اس کے تمام افکار و خیالات کو معلوم کرنے کی کوشش کرتا، مریض شروع میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر کرتا، پھر رفتہ رفتہ وہ اپنی گذشتہ زندگی کے بھولے ہوئے واقعات کو دہراتا، فرائڈ اپنے نکتہ رس ذہن اور نفسیاتی تجزیہ کے ذریعہ واقعات کو ترتیب دے کر مرض کی نوعیت کو سمجھتا۔
عصبی المزاج اشخاص کی ایک بڑی تعداد کو دیکھنے کے بعد فرائڈ اس نتیجہ پر پہنچا ہے، کہ ان کے مرض کا واحد سبب ان کی جنسی پراگندگی ہے، جو محض ناخوشگوار ازدواجی زندگی اور ناکامیاب محبت کی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ بچپن کے اور بہتیرے واقعات بھی اس کا سبب ہوتے ہیں، چنانچہ فرائڈ نے اپنے نظریہ کی تشریح کے لئے دو اصطلاحیں وضع کی ہیں، Oedipus Complex) اور (Libido Libido لاطینی لفظ ہے، جس کے معنی جنسی خواہش کے ہیں، Oedipus یونانی قصوں میں تھیبس کا بیٹا بتایا جاتا ہے، اس نے اپنے باپ کو قتل کرکے ماں سے شادی کرلی تھی۔
فرائڈ کا نظریہ یہ ہے کہ انسان کی سب سے زبردست قوت اس کی جبلت جنسی ہے، لڑکپن میں اس کا اظہار انگوٹھا چوسنے، کھانے اور جسم سے فضلہ کے اخراج کے ذریعہ ہوتا ہے، آگے چل کر یہ جبلت یا تو شادی کے ذریعہ ایک دوسری ذات میں منتقل ہوجاتی ہے، یا غلط راستہ پر پڑکر ناروا صورت اختیار کرلیتی ہے، یالطیف اور بلند ہوکر تکوینی قوتوں کا باعث ہوتی ہے، فرائڈ کا خیال ہے کہ کسی ملک کا آرٹ، علم اور موسیقی وغیرہ اسی وقت ترقی کرسکتے ہیں جب اس کے افراد کی جنسی جبلت کی پست سطح کو بلند کردیا جائے۔
اسی جبلت کی بنا پر بعض اوقات لڑکے اپنی ماں سے غیر معمولی محبت اور باپ سے نفرت کرتے ہیں، جس کو فرائڈ ادیپس گرہ (Gedipus Complex) کہتا ہے، کبھی باپ کے ساتھ محبت بھی برقرار رہتی ہے، لیکن اندرونی طور پر بچوں کے دلوں میں باپ سے رشک و حسد ہوتا ہے، اسی جبلت کے ماتحت لڑکیاں باپ سے زیادہ اور ماں سے کم محبت کرتی ہیں، بچپن کے یہ ذہنی رجحانات بلوغ میں دوسری طرف منتقل ہوجاتے ہیں، مگر جو کمزور طبائع ان پر غالب نہیں ہوتے، وہ جنسی خواہشوں کی بے راہ روی سے عصبی المزاجی کے شکار ہوجاتے ہیں۔
جنگ عظیم سے پہلے وائنا میں جہاں ہر قسم کی آزادی حاصل تھی، فرائڈ کے نظریوں کا مذاق اڑایا گیا، اطباء نے اس کے خلاف احتجاج کیا کہ اس نے جنسی جبلت کو غیرمعمولی اہم بناکر بچپن کی معصومیت کے خوشگوار تخیلات کو درہم برہم کردیا ہے اور اولاد و والدین کی پرکیف محبت و شفقت کی خواہ مخواہ عیب جوئی کی ہے، لیکن جنگ کے بعد فرائڈ کے نظریہ سے عام دلچسپی پیدا ہوگئی، اس کی اصطلاحات کا حوالہ کثرت سے آنے لگا، بعض حلقوں میں فرائڈ کا نظریہ تعیش پسندی کا اجازت نامہ سمجھا گیا، مگر فرائڈ کا نظریہ ہرگز اس کا حامی نہیں، وہ تمدنی زندگی کے لئے تہذیب نفس کو بہت ضروری سمجھتا ہے، اور جنسی خواہشات کے نامناسب ضبط اور اس کی بے جا آزادی میں ایک درمیانی راستہ نکالنا چاہتا ہے۔
فرائڈ کے نظریہ کی حامی اور مخالف دونوں جماعتیں پیدا ہوگئی ہیں، حامیوں کی تعداد ممالک متحدہ امریکہ میں زیادہ ہے، مگر اس میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں، جن کو فرائڈ کے نظریہ سے پورا پورا اتفاق نہیں، وہ جنسی جبلت اور اڈیپس گردہ کو اتنی اہمیت نہیں دینا چاہتے ہیں، بلکہ ان کا خیال ہے کہ جنسی خواہشوں سے زیادہ سوسائٹی اور معاشرت شخصیت کو مجروح کرتی ہیں، چنانچہ زیورچ کے مشہور ماہر نفسیات کارل جنگ نے فرائڈ کے نظریہ سے منحرف ہوکر ’’نیم مذہبی طریقۂ علاج‘‘ کی تلقین کی، الفراڈ ایڈ لرنے فرائڈ کے نظریہ پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انسانی طبائع کا سرچشمہ جنسی خواہش نہیں، بلکہ جذبۂ برتری ہے، عام طور سے جسمانی کمزوری یا بزرگوں کی سختی اور دباؤ سے ان میں کمتری کا احساس پیدا ہوجاتا ہے، مگر اسی احساس کمتری کے ذریعہ کمزوری کو قوت اور کمی کو زیادتی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مثلاً ڈیمیوستھینیز ہکلا اور بیتھوون بہرا تھا، ان دونوں میں کمتری کا احساس پیدا ہوا، اور انھوں نے اسے دور کرنے کی اتنی کوشش کی، کہ ڈیمیوستھینیز کی خطابت آج تک مشہور ہے، اور بیتھوون کا موسیقی کا کارنامہ اب تک فخر سے بیان کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال جب نازیوں نے وائنا پر قبضہ کیا تو فرائڈ کی ساری ملکیت ضبط کرلی گئی، اس زمانہ میں اس کے جبڑے میں سرطان ہوگیا تھا، وہ آخری عمر میں اپنے وطن کو چھوڑنا نہ چاہتا تھا، لیکن مجبوراً اسے چھوڑ کر لندن میں پناہ لینی پڑی، یہاں اس نے بڑی پرسکون زندگی بسر کی، صرف خطوط کے جواب دیتا تھا، اور کبھی کبھی پرانے مریضوں کو کچھ ہدایت دے دیا کرتا تھا، لیکن اس کی زندگی کے دن پورے ہوچکے تھے، چنانچہ گزشتہ ستمبر میں وہ اس دنیا سے چل بسا، گزشتہ سولہ سال سے اس کی صحت اچھی نہ تھی، اس مدت میں اس کے پندرہ آپریشن ہوئے، مگر اپنی تکلیف کے متعلق کبھی ایک لفظ زبان پر نہ لایا، اور برابر مسرور مطمئن نظر آتا تھا۔
اس جلاوطنی کے زمانہ میں اس نے ایک کتاب ’’موسیٰ اور توحید‘‘ لکھی، جس میں یہودیوں کی تاریخ، روایات و قصص پر نظر ڈال کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہودی مذہب کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام یہودی (اسرائیلی) نہ تھے بلکہ مصری تھے، فرائڈ کا بیان ہے کہ اگر یہ دعویٰ تسلیم کرلیا جائے، تو پھر یہودیوں کی تاریخ نفسیاتی طور سے بالکل واضح اور صاف ہوجاتی ہے۔ اگر حضرت موسیٰ مصری تھے تو وہ موحد تھے، کیونکہ امن ہوٹپ چہارم کے زمانہ میں مصر میں توحید پرستی شروع ہوئی، اس نے تمام مقامی دیوتاؤں کو نیست و نابود کرکے اپنے ملک میں توحید کو رائج کیا، لیکن اس کے مرنے کے بعد توحید کو فروغ نہ ہوا، اور پھر پرانے دیوتاؤں کی پرستش شروع ہوگئی، صرف ایک محدود حلقہ میں توحید باقی رہ گئی، اگر حضرت موسیؑ مصری تھے، تو وہ اسی محدود حلقہ سے تعلق رکھتے تھے، امن ہوٹپ کی وفات کے بعد طوائف الملوکی کے دور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام غلام یہودیوں کو اپنا پیرو بناکر ان کو مصر سے باہر لے گئے، اور انھیں قانون، رسم و رواج اور معاشرتی نظام کی تعلیم دی۔ حضرت موسیٰ تندمزاج، سرگرم، لائق اور حوصلہ مند مصری تھے، چنانچہ فرائڈ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ یہودیوں نے آخر میں حضرت موسیؑ کو قتل کردیا لیکن ان کے قتل کے بعد توحید باقی رہی، سچائی، عدل، اور انصاف کا رواج ہوا، بتوں، سحر، جادو، اور دیوتاؤں سے عقیدت ختم ہوگئی، مگر یہودیوں کے دماغ پر اپنے پیغمبر کے قتل کا جرم محیط رہا، کہ نفسیاتی طور سے ان کا ذہن ہمیشہ پراگندہ اور منتشر رہا، ان کے ذہن کی یہ ژولیدگی اور پراگندگی اسی وقت جاسکتی ہے، جب وہ اپنے اس جرم کے ارتکاب کا صاف صاف اعتراف کرلیں۔
فرائڈ کا خیال ہے کہ یہودیوں سے جرمنوں کی نفرت کی وجہ ان کی توحید سے برگشتگی ہے، جرمن عیسوی مذہب کے پیرو ضرور ہیں، مگر ان کو جبرو اکراہ سے عیسائی بنایا گیا تھا، جس کے اثرات ان کے افعال میں غیرشعور طور پر اب تک نمایاں ہیں اور عیسائی مذہب سے ان کی برگشتگی یہودیوں کے سامی اور موحدانہ مذہب سے نفرت میں منتقل کی جارہی ہے۔
فرائڈ کے منطقیانہ دلائل، تاریخی واقعات اور انسانیاتی نتائج میں خامیاں ہیں، لیکن اس کتاب سے خاص دلچسپی لی جارہی ہے، کیونکہ فرائڈ نے قوموں کی تحلیل نفسی کرکے بعض عجیب و غریب تاریخی نظریے پیش کئے ہیں۔
(’’ص ۔ع‘‘، اکوبر ۱۹۳۹ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...