Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا سید عنایت احمد نقوی بدایونی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا سید عنایت احمد نقوی بدایونی
ARI Id

1676046599977_54337904

Access

Open/Free Access

Pages

112

ایک صاحبِ علم کی وفات
مولوی سید عنایت احمد نقوی بدایونی
آج کل ہندوستان میں جب علوم مشرقی کے واقف کے کار روز بروز کم ہورہے ہیں، کسی پرانے صاحب علم کے سانحہ ارتحال پر دلی صدمہ ہوتا ہے، جوکہ ان کی جگہ جو آئیں گے وہ اپنے قدیم علوم کے اتنے واقف بھی نہ ہوں گے۔
بدایوں ہمیشہ سے فضل و کمال کا گھر رہا ہے یہیں ایک پرانا خاندان مولینا علاؤالدین اصولی کا تھا، مولینا ممدوح الشان علم ظاہر و باطن دونوں میں ممتاز تھے، اور یہ فخر کچھ کم نہیں کہ حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء انکے شاگردوں میں تھے، فقہ حنفی میں قدوری مولینا سے پڑھی تھی، کہتے ہیں کہ بچپن میں وہ شیخ جلال تبریزی کے فیض سے مشرف ہوئے تھے، زہد و ورع اور فقر و فاقہ کی زندگی بسر کی، مگر کسی سے نذر و ہدیہ ضرورت سے زیادہ کبھی قبول نہیں فرمایا، اصولی کے لقب سے شہرت کے یہ معنی ہیں کہ وہ اصول فقہ میں کمال رکھتے تھے، زمانہ وفات معلوم نہیں لیکن بہر حال و ہ ساتویں صدی ہجری میں تھے۔
مولینا اصولی کی مبارک یادگار اس زمانہ میں مولوی سید عنایت احمد صاحب نقوی بدایونی تھے، افسوس ہے کہ موصوف نے ابھی پچھلے مہینہ ۲۳؍ رمضان ۱۳۵۸؁ھ کو بدایوں میں وفات پائی، ان کا بڑا علمی کارنامہ علامہ کمال الدین فارسی شاگرد علامہ محمود بن مسعود شیرازی کی تنقیح المناظر کے نسخوں کی تصحیح و مقابلہ ہے، تنقیح المناظر مشہور عالم بصریات (علم المرایا و المناظر) ابن ہیثم المتونی ۴۳۰؁ھ کے وسائل علم المناظر کی تلخیص و تشریح ہے، نواب عماد الملک مرحوم جو اسلامی علوم و فنون کے اس زمانہ میں سب سے بڑے قدردان تھے، ان کو ابھی کتاب کی اشاعت کی جو مسلمانوں کی علم نور اور علم بصر کی عظیم الشان تحقیقات پر مشتمل ہے، بڑی فکر تھی، اس کتاب کے دو نسخے ہندوستان میں موجود تھے، ایک رامپور کے اور دوسرا پٹنہ کے کتب خانہ میں، اور تیسرا نسخہ لیڈن کے کتب خانہ میں ملا، چونکہ یہ کتاب ریاضیات کے اہم مسائل پر مبنی تھی، اس لیے اس کی تصحیح کوئی آسان کام نہ تھا، چنانچہ نواب عماد الملک مرحوم نے اس کے لیے مولوی عنایت احمد صاحب نقوی کا انتخاب کیا، موصوف نے رامپور اور پٹنہ کے نسخوں کا مقابلہ کیا، اور حتی الامکان تصحیح فرمائی، اور یہ کام مئی ۱۹۲۱؁ء میں انجام دیا، اس کے بعد یہ نسخہ لیڈن کے نسخہ کے مقابلہ کے لیے مستشرق کرنکو کے پاس لندن بھیجا گیا، اور اس کے بعد دائرۃ المعارف حیدرآباد نے اس کو دو جلدوں میں ۱۳۴۸؁ھ میں چھاپ کر شائع کیا۔
مرحوم کا یہ کام چونکہ اسلامی علوم و فنون کی ترقی و بقا کی راہ میں ہمارے شکریہ کا مستحق ہے، اس لیے ان کی زندگی کے مختصر سوانح کو جو ان کے صاحبزادہ خان بہادر سید آل علی نے لکھا ہے جو ہم ذولقرنین سے لیکر شائع کرتے ہیں۔ سید سلیمان ندوی
مولوی سید عنایت احمدصاحب نقوی مرحوم و مغفور بدایوں کے معزز و قدیم خاندان سادات قبائی سے تعلق رکھتے تھے، اس خاندان کے مورث اعلیٰ مولینا سید علاؤالدین اصولیؒ حضرت شاہ نظام الدین اولیاء سلطان جی صاحب بدایونی ثم الدہلویؒ کے استاد تھے، اور یہ خاندان علم و فضل اور خوشنویسی کے لیے بھی مشہور رہا ہے۔
سید صاحب مرحوم ۱۲۷۹؁ھ میں پیدا ہوئے، ابتداء میں اپنے گھر پر رہ کر مولینا مجید الدین صاحب مرحوم سنبھلی سے فارسی و عربی کی درس نظامی کے مطابق تکمیل کی، خاندانی ماحول کی علمی فضا، قابل اور شفیق استاد کی تربیت اور ذاتی شوقِ علم کا یہ نتیجہ تھا، کہ سید صاحب کو مدۃ العمر مطالعہ کتب اور اضافہ معلومات کا شغف رہا، اور باخبر اصحاب کو بخوبی معلوم ہے، کہ سید صاحب کا علم آخر عمر تک مستحضر رہا اور وہ اپنی وسعتِ نظر روشن خیالی اور ذہانت کی وجہ سے نہ صرف مذہبی و علمی امور میں بلکہ زمانہ حاضرہ کے واقعات و مسائل پر بھی صحیح و صائب رائے رکھتے تھے، عربی علوم کی تکمیل کے بعد سید صاحب نے امتحانِ وکالت پاس کیا، بعد کو شاعری سے بھی ذوق پیدا ہوا، اور نواب مرزا خان داغ دہلوی سے اصلاح لیتے رہے، اور ان کے ارشد تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
سید صاحب مرحوم نے ابتداً شاہجہاں پور وبدایوں میں وکالت کی، بعدازاں اپنے خاندانی تعلقات و حقوق کی بنا پر ریاست گوالیار میں تقریباًتیس سال تک منصف و مجسٹریٹ و سپرنٹنڈنٹ پولیس و پرسنل اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس کے معزز عہدوں پر تعینات رہے، پرسنل اسسٹنٹی کے زمانہ میں انھوں نے ریاست گوالیار کا پویس مینوئل مرتب کیا، ۱۹۱۳؁ء میں ریاست گوالیار کی ملازمت سے سبکدوش ہوکر وطن میں واپس آئے اور چند سال بدایوں و سہسوان میں وکالت کرتے رہے، یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ باوجود مشاغل ملازمت اور وکالت ممدوح کا علمی شوق اور مطالعہ کتب برابر جاری رہا، ۱۹۲۰؁ء میں وکالت ترک کردی، بعدہ نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی مرحوم نے ان کو ایک نہایت گرانقدر اور اہم ترین خالص علمی خدمت کے لیے انتخاب کیا، علامہ ابن الہیثم کی نادر اور شہرۂ آفاق تصنیف کتاب المرایا و المناظر کے قلمی نسخہ موجودہ حیدرآباد (جس کے تمام دنیا میں صرف تین قلمی نسخے حیدرآباد و پٹنہ و رامپور میں موجود تھے) کے دیگر دو نسخوں سے مقابلہ اور تصحیح اور اپنی نگرانی میں ازسر نو لکھائے جانے کا کام کئی سال تک انجام دیا، یہ کتاب سلطنت آصفیہ حیدرآباد کے زیر اہتمام قبل ازیں چھپ کر شائع ہوگئی ہے، ۱۹۲۴؁ء کے بعد سے سید صاحب مرحوم گوشہ نشین تھے، اور عبادت الٰہی سے جو وقت بچتا تھا، باوجود ضعف بصارت زیادہ تر مطالعہ کتب میں صرف کرتے تھے۔
انتقال سے چند ماہ قبل سید صاحب بدایوں آگئے تھے، چار ماہ بعارضۂ فالج علیل رہنے کے بعد تقریباً اسی سال کی عمر میں برور دوشبنہ ۲۳؍ رمضان المبارک ۱۳۵۸؁ھ کو واصل بحق ہوئے اور اپنے خاندانی باغ میں اندر احاطہ درگاہ جناب مذاق میاں صاحبؒ دفن ہوئے۔
انتقال کے وقت سید صاحب مرحوم نے تین فرزند، پانچ صاحبزادیاں، پانچ پوتے پوتیاں، ۲۰ نواسے نواسیاں اور دو پرنواسے چھوڑے، تینوں صاحبزادے بفضلہ معزز عہدوں پر ممتاز ہیں۔ (۱)خان بہادر سید آل علی نقوی ایم۔ اے۔ پی۔ ای۔ ایس رجسٹرار ڈیپارٹمنٹل امتحانات صوبہ متحدہ۔ (۲)ڈاکٹر سید آل محمد نقوی ایم۔ بی۔ بی۔ ایس پرسنل فزیشن نواب صاحب ٹونک (۳)سید سبط نبی نقوی، ایم۔ ایس۔ سی اسسٹنٹ میٹرولاجیکل ڈیپارٹمنٹ گورنمٹ ہند پونا۔
(مارچ ۱۹۳۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...