Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانامعین الدین اجمیری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانامعین الدین اجمیری
ARI Id

1676046599977_54337907

Access

Open/Free Access

Pages

114

مولانا معین الدین اجمیرؔی
۱۰؍ محرم الحرام ۱؂ ۱۳۵۹؁ھ عین عاشورہ کے دن علم و عمل فضل و کمال، مجاہدہ و استقامت وطہارت کی ایک ایسی مسند خالی ہوئی جو غالباً عرصۂ دراز تک خالی رہے گی، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اس سے ہماری مراد حضرت مولانا معین الدین اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ کا سانحۂ ارتحال ہے، یہ حادثہ محض مولانا کے اہل خاندان یا مسلمانانِ اجمیر ہی کے لئے نہیں ہے، بلکہ سارا اسلامی ہند اس سے متاثر اور اپنی کم نصیبی پر نوحہ کناں ہے۔
وَمَا کَانَ قَیْس’‘ ھَلَکَ ھُلَکَ وَاحِدٍ
وَلٰکِنَّہٗ بُنْیَان قُوْمٍ تھَدّما
مولانا ایک نومسلم گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، والد ماجد مولانا عبدالرحمن صاحب مرحوم بلیاؔ کے رہنے والے نومسلم راجپوت تھے اور والدہ بھی داخل اسلام ہوئی تھیں اور دانا پور (بہار) ان کا گھر تھا تعلق راجپوتانہ سے اس طرح پیدا ہوا کہ مولانا عبدالرحمن صاحب ریاست ٹونک میں سیکریٹری کونسل تھے، چار یا پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ تھی، اسی علاقہ میں دیولی (راجپوتانہ) میں ۲۵؍ صفر ۱۲۹۹؁ء کو پیدا ہوئے اور باپ کے زیر سایہ زندگی کی ابتدائی منزلیں طے ہوئیں، بچپن ہی سے سعادت و فیروز مندی کے آثار نمایاں تھے، چنانچہ دولت و ثروت کی گود میں پلنے والے اس نوجوان نے ہمیشہ طالبعلموں میں مساوات ہی کی زندگی بسر کی، امیرانہ ٹھاٹھ اور رئیسانہ شان کا کبھی مظاہرہ نہ کیا۔
قسمت کی خوبی اور نصیب کی بلندی نے خاتم المحققین حضرت مولانا سید برکاتؔ احمد صاحب (بہاری، ثم) ٹونکی سے تلمذ کا رشتہ قائم کرایا، اس تعلق سے مولانا کا سلسلۂ تلمذ یہ ہے۔
حضرت مولانا معین الدین صاحب اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت مولانا سیّد برکات احمد صاحب ٹونکی رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت مولانا عبدالحق صاحب خیرآبادی رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت مولانا فضل امام صاحب خیرآبادی رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت مُلّا عبدالواجد صاحب خیرآبادی رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت مُلّا اعظم صاحب سندیلی رحمۃ اﷲ علیہ
استاذ الکل حضرت مُلّا نظام الدین ۲؂ صاحب سہالویؒ
جملہ معقول و منقول کی تکمیل مولانا برکات احمد صاحب ہی سے ہوئی، علم ریاضی حضرت مولانا لطف اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے حاصل فرمایا، بائیس سال کی عمر میں علوم میں ایسا رسوخ ہوگیا کہ جس کی نظیر کم دیکھی گئی ہے، اسی وقت سے درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہوگیا، ہندوستان اور ہندوستان سے باہر بلخ، بخارا، چین، افغانستان اور دوسرے ممالک سے طلبہ جوق در جوق آنا شروع ہوگئے، اسی زمانہ میں ایک خاص واقعہ نے آپ کی شہرت کو چار چاند لگادیئے۔
واقعہ یہ ہے کہ مولانا عبدالحق صاحب، صاحبِ تفسیر حقانی کے زیر اہتمام آریوں سے ایک مناظرہ ترتیب پایا تھا، آریوں کی طرف سے پنڈت داشنا نندجی بحث کررہے تھے، مسلمانوں کی طرف سے بڑے بڑے مناظر گفتگو کررہے تھے، تین دن سے سلسلہ جاری تھا، جب مولانا کی باری آئی تو آپ نے روح، مادّہ پر میشر کی قدامت کے سلسلہ میں حدوث و قدم کی طویل بحث کو اس خوبی سے بیان فرمایا کہ صرف سات منٹ میں پنڈت جی لاجواب ہوگئے اور موافق و مخالف آپ کے تبحر علمی کے قائل ہوگئے، اسی قسم کا ایک مکالمہ ہزہائنس نواب حامدؔ علی خان مرحوم رامپور کی تحریک پر مولانا عبدالوہابؔ صاحب منطقی بہاری مرحوم سے ایک خالص علمی مسئلہ پر ہوا تھا، جس کا نتیجہ بصورت کتاب شائع ہوچکا ہے۔
ڈھائی سال مدرسہ نعمانیہ لاہور میں صدر مدرس رہنے کے بعد ۲۶؁ھ میں اجمیر کو شرفِ سکونت بخشا اور ۲۷؁ھ میں مدرسہ معین الحق قائم کیا، سرکار نظام جب اجمیر تشریف لائے اور حضرت مولانا کے درس میں مسلسل چھ وقت شریک ہوئے تو اس قدر متاثر ہوئے کہ خلعتِ شاہانہ سے سرفراز فرمایا، اور مولانا انوار اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی تحریک پر مدرسہ معین الحق کو معینیہ عثمانیہ قرار دے کر ساڑھے بارہ سو روپے ماہانہ اس کے لئے جاری فرمایا، مولانا اس مدرسہ کے صدر مدرس ہوئے اور پندرہ سال تک یہاں درس دیا، ۳۷؁ھ میں کار پرداز ان مدرسہ اور مولانا میں اختلاف ہوا، چنانچہ انہوں نے استعفا دے کر محرم ۳۸؁ھ میں دارالعلوم حنفیہ صوفیہ کے نام سے ایک دوسرا مدرسہ قائم فرمایا، اور ۱۲ سال تک اس مدرسہ کے طلبہ کو اپنے فیوض علمی و عملی سے سرفراز فرمایا، یہ مدرسہ اب تک قائم ہے اور شہر کے غریب مسلمان اس کو چلا رہے ہیں، دارالعلوم معینیہ عثمانیہ سے علیحدگی کے باوجود اس کے اراکین، مدرسین، طلبہ اور دیگر متعلقین سے تعلقات خوشگوار رہے، ۵۱؁ھ میں مدرسہ کے اراکین حضرت مولانا کو پھر اپنے یہاں واپس لائے، لیکن سیاسی اختلافات کے نتیجہ کے طور پر ۱۲؍ مارچ ۱۹۳۸؁ء کو بحکم سرکار نظام دارالعلوم معینیہ عثمانیہ سے آپ الگ ہوگئے، لیکن اس علیحدگی کے بعد بھی حلقۂ درس پوری آب و تاب کے ساتھ قائم رہا۔
اس زمانہ درس و تدریس میں دوسرے علمی مشاغل بھی جاری رہے، چنانچہ مولانا نے تصانیف کا ایک معتدبہ ذخیرہ چھوڑا ہے، جس کا اکثر حصہ ابھی طبع نہیں ہوسکا ہے، مثلاً ترمذی شریف کا ایک ناتمام حاشیہ، وجود علم و معلوم، کلی طبیعی اور مسئلہ دہر پر مکمل اور جامع تقریریں، حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی محققانہ سوانح عمری وغیرہ! یہ چیزیں انشاء اﷲ جب اہل علم کے سامنے آئیں گی، اس وقت ان کو معلوم ہوگا کہ اجمیر کے اس بوریا نشین کی نگاہِ تحقیق کتنی بلند تھی۔
آخری زمانہ میں درگاہ بل کی اصلاح کے متعلق جو فتویٰ مولانا نے مرتب فرمایا تھا وہ اس قدر جامع اور موثر تھا کہ ایک طرف تو ہندوستان اور حرمین کے علماء نے اس کی تائید کی اور دوسری طرف ممبران اسمبلی نے اس بل کے ان تمام نقائص کو دور کیا، جن کا شریعت اسلام سے تصادم ہوتا تھا۔
یہ تھی مولانا کی علمی زندگی! عملی زندگی کا یہ حال تھا کہ اجمیر میں صدہا بدعات کا خاتمہ کیا، اسلامی نقطۂ نظر سے ملک کی صحیح رہنمائی میں باوجود مشکلات کے کبھی مطلق کمی نہیں فرمائی۔
تحریک خلافت میں مذہبی فتویٰ کے جرم میں دو سال کی قید و بند کو اس پامردی اور عالی ہمتی سے برداشت کیا کہ علی برادران نے قدم چوم لئے، جس زمانۂ ابتلاء میں مولانا کفایت اﷲ صاحب صدر جمعیۃ العلماء اور مولانا احمد سعید ناظم جمعیۃ العلماء قید و نظر بندی کی تکلیفیں اٹھا رہے تھے، اس وقت تحریک کی رہنمائی کے لئے آپ ہر ہفتہ دہلی تشریف لے جاتے اور جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد مسائل حاضرہ پر تقریر فرماتے، جمعیۃ العلماء کے اجلاس امروہہ کی صدارت فرمائی اور مستقل نائب صدر رہے، صوبۂ راجپوتانہ کی مجلس خلافت کو آپ کی صدارت کا ہمیشہ فخر حاصل رہا، تحریک کشمیر کے زمانہ میں مجلس احرار اسلام کے ڈکٹیٹر رہے، مسلمانوں کے سوا برادرانِ وطن بھی آپ کی سیاسی بصیرت کے معترف اور اس سے متاثر تھے۔
ان علمی اور سیاسی مشاغل کے ساتھ ساتھ سلوک اور تزکیۂ باطن کی طرف بھی پوری توجہ تھی، مولانا کے والد حضرت شاہ عبدالرزاق صاحب فرنگی محلی سے بیعت تھے اور خود مولانا شاہ صاحب کے صاحبزادہ حضرت مولانا شاہ عبدالوہاب صاحب (والد حضرت مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی مرحوم) سے بیعت تھے۔
استغناء، رجوع اﷲ، توکل وغیرہ آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکے تھے، آخری سال تو بڑے ہی صبر و استقامت اور متوکلانہ زندگی کے تھے، فرائض تعلیم و افتاء اور رشد و ہدایت کی ادائیگی کے بعد کبھی لوگوں میں بلا ضرورت نہ ٹھہرتے، اربابِ دولت اہل دنیا، خصوصاً امراء و حکام سے ہمیشہ بے تعلق رہے، لیکن جب کوئی خدمتِ والا میں حاضر ہوتا تو اپنے قلب میں مولانا کے اخلاق فاضلہ کا خاص اثر لے کر واپس جاتا۔
عبادت کا یہ حال تھا کہ فرائض کے سوا نوافل و مستحبات کے بھی ہمیشہ پابند رہے، تادم واپسیں اپنے اور ادواشغال میں فرق نہ آنے دیا، حق گوئی میں کسی بڑی سے بڑی طاقت سے بھی نہیں ڈرے، اسلاف کی سنت کے مطابق قید و بند کی مصیبت سے بھی دوچار ہوئے لیکن اس کو بھی ہنسی خوشی برداشت کیا اور ہمیشہ وہی کیا جو ایک مجاہد اور ربانی عالم کو کرنا چاہئے۔
ذاتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ بخاری وغیرہ میں جب یہ حدیث آتی کہ حضورؐ کے مرض وفات کی تکلیف دیکھ کر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا بے اختیار پکار اٹھیں، ’’یا ابتاہ‘‘ (اے میرے باپ) سرکار دو عالمؐ نے فرمایا: لَا کَرَبَ عَلیٰ اَبِیْکَ بَعْدَ الْیَوم (آج کے دن کے بعد تمھارے باپ پر مصیبت نہیں ہے) تو اس جملہ پر حضرت مولانا بیتاب ہوجاتے، آنسو نکل آتے، چیخ نکل جاتی، بسااوقات غشی طاری ہوجاتی، مدرسہ میں درس دیتے وقت ہر مرتبہ یہ واقعہ پیش آیاہے۔
طلبہ اور علماء سے بہت محبت فرماتے تھے، ہونہار طالب علم مولانا کا مرکزِ توجہ بن جاتا تھا، ہر سال موسم بہار میں طلبہ کا ایک تفریحی جلسہ جس کو اجمیر کی اصطلاح میں ’’گوٹ‘‘ کہتے ہیں، منعقد ہوتا، اس جلسہ میں ہر ملک کے طلبہ کے مروجہ کھیلوں کا مظاہرہ ہوتا تھا، مولانا طلبہ کی خاطر اس تفریحی اجتماع میں بھی شرکت فرماتے، بیت بازی ہوتی، اس میں ایک فریق کی طرف مولانا بھی ہوتے، آپ ہی کا فریق اکثر غالب رہتا، اس لئے کہ مولانا کو اردو فارسی کے ہزارہا اشعار یاد تھے۔
یہ واقعہ حیرت کے ساتھ سنا جائے گا کہ مولانا گو ڈیڑھ سو روپیہ مشاہرہ پاتے تھے، لیکن تیس روپیہ ماہوار کے سوا باقی پوری رقم طلبہ، سامانِ تعلیم اور نادر کتب کی فراہمی پر صرف کردیتے تھے، کتاب کتنی ہی قیمتی ہو لیکن امکان بھر اس کو ضرور خریدتے، خواہ دوگنی، سہ گنی قیمت اداکرنی پڑتی، مگر نسخہ خریدتے، قرآن پاک بہتر سے بہتر طباعت کے مہیا فرماتے، کلکتہ کے بہترین کارخانہ میں بھیج کر اعلیٰ قسم کی جلدیں بندھواتے تھے۔
۵؍ محرم الحرام ۵۷؁ھ کو ایسا بیمار ہوئے کہ آخر وقت تک پاؤں سے معذور رہے، دل، دماغ البتہ صحیح رہے اور اس حالت میں بھی سلسلۂ درس و تدریس جاری رہا، وفات سے دس یوم پیشتر تک حدیث کے اسباق ہوتے رہے۔
زندگی میں ہی عرصۂ دراز سے گورِ غریباں کو اپنا مسکن بنالیا تھا، احباب کے اصرار سے وہیں ایک مختصر مکان بن گیا تھا، جس کی تکمیل دارالعلوم کی اس رقم سے ہوئی، جو کمیٹی نے بطور اعتراف خدمات مولانا کو پیش کی تھی، اسی مکان میں مولانا کا انتقال ہوا، ہزارہا مسلمانوں نے جنازہ میں شرکت کی، جنازہ کی چارپائی میں لمبی لمبی بَلیّاں باندھی گئیں تھیں، بیک وقت پچاسوں مسلمان کندھا دیتے تھے، پھر بھی ہجوم اور لوگوں کے اشتیاق کی کوئی حد نہ تھی۔ خواجہ اجمیری کی درگاہ میں مسجد شاہجہانی کے زیر سایہ تدفین ہوئی، قبر میں اتارتے وقت درودیوار اور درختوں پر انسانوں کا ہجوم تھا، پس ماندگان میں دو بچے (مولوی عبدالباقی صاحب اور ایک صاحبزادی) اور ایک بیوہ ہیں۔
اجمیر کے قیام کی مدت ۲۴ سال اور کل مدت حیات ۶۰ سال ہے۔
یہ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ ٹھیک عاشورہ محرم میں جب لوگ واقعۂ کربلا سے سوگوار تھے۔ اس شہید علم و عمل نے دنیا سے کوچ کیا اور اجمیر میں اہل دل نے دوہرے محرم کا سوگ کیا۔ (سید سلیمان ندوی، اپریل ۱۹۴۰ء)
۱؂ مولانا کی وفات کے سلسلہ میں احباب نے خطوط اور مضامین میں جو کچھ لکھ کر بھیجا تھا، اس مضمون میں وہ تمام معلومات جمع کردیے گئے ہیں، ان سب دوستوں کی اطلاعات کا شکریہ۔
۲؂ معارف: مشہور یہی ہے کہ ملا اعظم سندیلی ملانظام الدین سہالوی کے براہ راست شاگرد تھے، مگر میری تحقیق میں یہ صحیح نہیں ہے۔ ملااعظم ملا کمال الدین سہالوی کے شاگرد تھے اور وہ ملانظام الدین کے۔ سید سلیمان ندوی

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...