Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناابوبکر محمد شیث جو نپوری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناابوبکر محمد شیث جو نپوری
ARI Id

1676046599977_54337915

Access

Open/Free Access

Pages

118

مولانا ابوبکر محمد شیثؔ جونپوری
افسوس ہے کہ شیث جونپوری نے دو ڈھائی برس کی سخت علالت کے بعد اپنے وطن جونپور میں ۲۳؍ شعبان ۱۳۵۹؁ھ مطابق ۲۶؍ ستمبر ۱۹۴۰؁ء کی رات کو ۳ بجے اس جہانِ فانی کو الوداع کہا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مر حوم جونپورکے ایک مشہور علمی خاندان کے فرد تھے،اُن کے دادا مولانا سخاوت علی صاحب مولانا شاہ عبد الحئی صاحب دہلوی اور مولانا اسماعیل شہید کے فیض یافتہ اور پورب میں توحید و سنت کے سب سے بڑے داعی، اور اس دور میں اسلامی علوم وفنون کے بہت بڑے مدرس تھے، جونپور میں بیٹھ کر تنِ تنہا سینکڑوں علمائے دین پیدا کئے اور پورب کے خطّہ میں اُن کو جگہ جگہ پھیلا کر اس نازک مو قع پر اسلام کی مو رچہ بندی کی، وہ ہجرت کرکے بعد کو مدینہ منورہ چلے گئے تھے اور وہیں وفات پائی، راقم کو بھی یہ فخر حاصل ہے کہ اس کے دادا کے حقیقی بھائی انھیں کی مجلسِ درس سے مستفیض تھے۔
مو لانا کا پورا خاندان اس وقت سے اب تک علمائے دین کا خانوادہ ہے، جس کی سعی و کوشش نے پورب کی سرزمین کو بڑا فیض پہنچایا، مولانا مرحوم نے نیچے کی تعلیم گھر میں پاکر مولانا عبداﷲ صاحب غازی پوری سے مدرسۂ احمدیہ آراہ جاکر علوم کی تحصیل کی، اور واپس آکر اپنے خاندانی مدرسہ کے اہتمام وانتظام کا اور ساتھ ہی ملک کے مختلف گوشوں میں جاکر ہدایت و ارشاد کا کام انجام دینا شروع کیا۔
موصوف سے میری ملاقات ۱۹۲۰؁ء میں تحریک خلافت کے سلسلہ میں ہوئی ،یہ ملاقات دوستی، اور دوستی سے اتحاد کی اس منزل تک پہنچ گئی جس کے بعد خیال کی دوئی کا کوئی مرتبہ نہیں رہتا، ایک دفعہ میں نے کہا اور اُنھوں نے مانا تھا کہ ایک مذہب ہے جس کے دو ہی پیرو ہیں ایک وہ اور ایک میں، مقصود تقلید و عدم تقلیدکے مسائل میں اعتدال سے تھا، ابھی جب ان کے مرنے سے دو ہفتے پہلے میں جونپور ان کی عیادت کو گیا، تو زبان سے ٹھیک طور پر بول نہ سکے مگر غیر مفہوم آواز میں دو انگلیوں کو اٹھا کر اپنی طرف اور میری طرف اشارہ کیا، کیسا حسرتناک منظر تھا، چلتے وقت کا سلام اور فی امان اﷲ اور فی حفظ اﷲ کا ابدی پیام!
میں نے علماء میں ایسا شریف، ایسا نیک باطن، ایسا دور اندیش، ایسا فیاض، ایسا سادہ مزاج اس پر ایسا مستقل مزاج، خوش اخلاق، شیریں گفتار، باغ و بہار، ایسا خشک اور ایسا تر آدمی نہیں دیکھا، ایسا متقی و پرہیزگار اور ساتھ ہی ایسا وسیع المشرب اور وسیع اخلاق، وہ مذہبی تھے اور سخت مذہبی، لیکن وہ بھی ان کو مانتے تھے جو مذ ہب کو نہیں مانتے تھے، وہ بے دینوں میں بھی ایسے ہی پیا رے تھے جیسے دینداروں میں، اور یہ اُن کے حسنِ اخلاق کی بڑی کرامت تھی۔
وہ ۱۹۲۵؁ء سے لے کر ۱۹۴۰؁ء تک پندرہ برس مسلم یو نیورسٹی میں ناظم دینیات رہے، اس عرصہ میں کئی انقلاب آئے مگر وہ اپنی جگہ پر تھے، ساتھ ہی ان کے جُبۂ و دستار کی شان میں وہ بلندی رہی کہ کوٹ پینٹ اور ہیٹ والے ان کے آگے جُھک جُھک جاتے تھے، مگر اس میل جول اور نرمی، اور نرم خوئی میں حق کے خلاف کوئی بات سن کر چپ نہیں رہ سکتے تھے، غرض وہ اپنے علم و عمل میں پہاڑ، اور اخلاق و کرم میں بہتے پانی کی طرح تھے۔
نئے تعلیم یا فتوں، بلکہ نئے تعلیم کے اصل مرکز میں مذہبی وقار کو سلامت رکھنا کوئی آسان کام نہیں، انھوں نے اس مشکل کام کو آسان کر دکھا یا تھا، ان کا فضل و کمال کسی خاص علم و فن میں محدود نہ تھا، یہاں تک کہ حدیث و فقہ و تفسیر سے آگے بڑھ کر شعر و شاعری اور ریاضیات تک سے ان کو یکساں دلچسپی تھی، اُن کی سادگی کو دیکھ کر کسی کو ان کی اس گہرائی کا یقین نہیں آتا تھا، اور ان کی اس گہرائی کو دیکھ کر ان کی اس سادگی پر سب کو تعجب ہو تا تھا، اس قدر سادہ اور اس قدر رنگین!
وہ آکلہ (کینسر) کے مرض میں جس سے ایک طرف کا پورا رخسار اور جبڑا آدھے منہ تک خالی ہو گیا تھا، دو ڈھائی برس تک ہر قسم کی مصیبت اور ہر طرح کی تکلیف جھیلتے رہے، اور اس پوری مدت میں ایک دفعہ بھی بے صبری کی آہ اور تکلیف کی کراہ ان کے منھ سے نہیں نکلی، کوئی نماز ترک نہیں ہوئی، اور صبر و شکر کا دامن ایک لمحہ کے لئے ہا تھ سے نہیں چھوٹا، دیکھنے والے ان کی حالت کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لاتے تھے، اور وہ ہا تھ اور زبان کے اشاروں سے صبرو استقلال کی نصیحت کرتے تھے۔
آہ! کہ فضل و کمال کا یہ پیکر، حسن و اخلاق اور شرافت کا یہ پتلا دینداری اور پرہیز گاری کا یہ مرقع، تواضع اور خاکساری کا یہ سراپا، صبرو استقلال کا یہ مجسمّہ ساٹھ برس دنیا کی نیرنگی کا تماشہ دیکھ کر دنیائے رنگ و بو سے مٹ گیا۔
مر حوم کی یادگار، چند اولادیں اور چند کتا بیں ہیں، مگر ان سب سے بڑھ کر ان کی یادگار، ان کے حسنِ اخلاق کی یاد ہے، مرنے والے کا مد فن تو زمین کا ایک گو شہ ہے، مگر اس یاد کا مزار اُن کے دوستوں کے دل ہیں۔
بعد از وفات تربتِ مادر زمیں مجودر سینہ ہائے مردم عارف مزار ماست
جانے والے جا! رحمت الٰہی تیری منتظر اور مغفرت الٰہی تیرے لئے چشم براہ ہو گی!
(سید سلیمان ندوی، اکتوبر ۱۹۴۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...