Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناابوالمحاسن محمد سجاد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناابوالمحاسن محمد سجاد
ARI Id

1676046599977_54337917

Access

Open/Free Access

سجاد، ابوالمحاسن محمد، مولانا
سجاد کی یاد
۲۳؍ نومبر ۱۹۴۰؁ء اور ۲۱؍ شوال ۱۳۵۹؁ھ کی سہ پہر تھی کہ پھلواری سے مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نائب امیر شریعت بہار کی وفات کی خبر آئی، دل کو یارائے ضبط نہ رہا، آنسوؤں کے چند قطرے زمین پر گرے، وہ زمین جواب مرنے والی کی خوابگاہ ہے، ابھی قلب میں یہ ہمت بھی نہیں کہ جی بھر کر ماتم کروں اور دل کے شیون کو سپرد قلم،
دریں آشوب غم عذرم بنہ گرنالہ زن گریم
جہانے راجگر خوں شد، ہمیں تنہا نہ من گریم
مرنا اور جینا دنیا کے روازنہ کے کاروبار ہیں، کون نہیں مرا اور کون نہیں مرے گا، آج وہ، کل ہماری باری ہے، اس پر بھی عزیزوں اور دوستوں کی موت پر رونے والے روتے ہیں، ان کی دائمی فراق پر ماتم اور فریاد کرتے ہیں، ان کی ایک ایک خوبی کو یاد کرکے ان کا نوحہ پڑھتے ہیں۔ عام حالت یہی ہے، لیکن بعض موتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کی خبر سن کر زبان بند ہوجاتی ہے، آنسو سوکھ جاتے ہیں، دل کی حرکت بڑھ جانے کے بجائے گھٹ جاتی ہے، اندر ہی اندر گھٹن محسوس ہوتی ہے، مگر جی نہیں چاہتا کہ کچھ بول کر دل کی بھڑاس نکالئے اور آنسو بہا کر غم ہلکا کیجئے، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد مرحوم کے سانحہ کا مجھ پر بالکل یہی اثر ہوا، دن بیت گئے ہفتے گزر گئے، مہینے ختم ہوگئے مگر زبان نہ کھلی اور دل کی امانت قلم کے سپرد نہ ہوسکی، عزیزوں اور دوستوں کو تعجب ہے کہ میرا قلم جو احباب کے سوگ میں ہمیشہ اشک زیر رہتا ہے، اس پہلی دفعہ وہ اپنے فرض کو کیوں بھولا ہے، مگر یہ کیسے بتاؤں کہ اس ناگہانی اور غیر متوقع غم سے مجھے کیوں چپ سی لگ گئی، ہر چند زبان خاموش تھی، لیکن کئی دن تک سوتے جاگتے مرحوم کی صورت آنکھوں میں پھرتی اور خواب میں نظر آتی رہی، تدمع العین و یحزن القلب ولا نقول الامایزضیٰ ربّنا وانا الفراقک لمحزونون۔
اکثر اکابر اور مشاہیر کی ملاقاتیں حالات کی بناء پر یاد رہتی ہیں اور یہ بھی یاد رہتا ہے کہ یہ ملاقاتیں کب ہوئیں، کہاں ہوئیں اور کیسے ہوئیں، لیکن اگر محبت کا عہد یاد کی عمر سے زیادہ ہوتو اس کو ازلی ملاقات کہہ سکتے ہیں، الارواح جنود بجندہ فما أتلفت وما اختلف منھا اختلفت، اسی اصول کی بناء پر مجھے یاد نہیں کہ دنیا میں میری ان کی ملاقات کب ہوئی کہاں ہوئی اور کیونکر ہوئی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرب مکانی، اتحادِ زمانی اور شدت ہم ذوقی کی بناء پر ہم ایک دوسرے سے اتنے آشنا تھے کہ پہلی ملاقات میں دید شنید پر کوئی نیا اضافہ نہ کرسکی۔
اس آخری زمانہ میں وہ سال میں ایک دفعہ میرے ایام قیام وطن میں کوئی نہ کوئی کام نکال کردیسنہ ضرور تشریف لاتے اور میری عزت بڑھاتے، ان کی تواضع میں بلندی، سادگی میں بناؤ اور خاموشی میں گویائی تھی، وہ اکیلے تھے، لیکن لشکر تھے، پیادہ تھے مگر برق رفتار تھے، وہ قال نہ تھے سراپا حال تھے، کہتے کم کرتے زیادہ تھے، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ’’راہ‘‘ اور ’’منزل‘‘ کے فرق کو کبھی فراموش نہیں کیا انہوں نے راہ میں ہمراہیوں کے لطف کلام میں پھنس کر منزل سے ہٹنا کبھی گوارہ نہیں کیا، وہ وطن کی آزادی اور احکام مذہبی کی پیروی کے درمیان التباس اور تصادم سے کبھی بے خبر نہیں رہے، جذبۂ آزادی کی پوری قوت کے باوجود انہوں نے کانگریس یا کانگریسی حکومت کے غلط قدم اٹھانے پر کبھی بزدلانہ یا صلح پسندانہ درگرز سے کام نہیں لیا، مرحوم کی زندگی کے سوانح لکھنے والے لکھیں گے، مگر عقیدت کی یہ چند سطریں ان کے دیرینہ نیاز مند کی طرف سے یادگار اوراق رہیں، تو محسن کے شکریہ کا بار اس کے کندھے سے کم ہو۔
وطن: صوبہ بہار کے قصبہ بہار اور گیا کے درمیان کا علاقہ ہندؤں کے عہد میں بودھوں اور جینیوں کی یادگاروں سے بھرا ہوا ہے اور راستہ میں قصبہ بہار کے چند میل آگے بڑھ کر بودھوں کی مشہور درسگاہ نالندہ کے آثار اور کھنڈر ہیں، اسی سے ملا ہوا پنہسَّا نام کا مسلمانوں کا ایک گاؤں ہے جہاں سادات کے کچھ گھرانے آباد ہیں، انہی میں سے ایک گھر میں مولانا سجاد کی ولادت ہوئی۔
تعلیم و تربیت: تیرہویں صدی کے شروع میں صوبہ بہار میں مولانا وحیدالحق صاحب استھانوی بہاری کے دم قدم سے علم کو نئی رونق حاصل ہوئی، قصبہ بہار میں انہوں نے مدرسہ اسلامیہ کی بنیاد ڈالی اور بہت سے عزیزوں کی تربیت کی، ان میں سے ایک مولانا سجاد بھی تھے، عربی کی ابتدائی تعلیم انہیں کے زیر سایہ ہوئی اور ان کی پہلی شادی بھی انہیں کی دختر نیک اختر سے ہوئی، آخری تعلیم الہ آبادی کے مدرسہ سبحانیہ میں مولانا عبدالکافی صاحب الہ آبادی کے درس میں ہوئی اور وہیں ۱۳۱۷؁ھ سے ۱۳۲۲؁ھ تک رہ کر سندِ فراغ حاصل کی۔
ابتدائی کام: تعلیم سے فارغ ہوکر مدرسی کی خدمت انجام دی، اس عرصہ میں کبھی وہ مدرسہ اسلامیہ بہار میں رہے اور کبھی مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں، ۱۳۲۹؁ھ تک یعنی سات برس تک وہ اس فرض کو انجا دیتے رہے، ۱۳۲۹؁ھ میں گیا میں مدرسہ انوار العلوم کی نبیاد ڈالی، مولانا عبدالوہاب منطقی بہاری بھی شریک کار تھے، یہ بات مجھے یوں یاد رہی کہ شاید ۱۹۱۰؁ء یا ۱۹۱۱؁ء تھا کہ مدرسۂ مذکور کے ایک جلسۂ سالانہ میں مولانا عبدالوہاب صاحب حقانی دہلوی مرحوم شریک جلسہ ہوئے تھے اور تقریریں کی تھی۔
مولانا سجاد صاحب مدرسہ انوارالعلوم کا یہ جلسہ سال بہ سال کیا کرتے تھے اور اس میں علماء کو بلاتے تھے اور ان سے تقریریں کراتے تھے، میرا خیال ہے کہ اکثر علماء سے ان کی ملاقاتوں کا آغاز انہی جلسوں میں ہوا، مجھے بھی ایک دو دفعہ ان جلسوں میں حاضری کا اتفاق ہوا۔
سیاسیات کا ذوق: ان کو سیاسیات کا ذوق جنگ عظیم میں ترکی کی شکست اور ممالک اسلامیہ کی پراگندگی سے ہوا، وہ اس وقت الہ آباد میں تھے، ان کے ایک انگریزی داں شاگرد ان سے عربی پڑھنے آتے تھے، وہ اپنے ساتھ اردو اور انگریزی اخبارات لاتے تھے، اور مولانا کو پڑھ پڑھ کر سناتے تھے، یہ آگ روز بروز بھڑکتی چلی گئی، مولانا ابوالکلام کے الہلال کی تحریک نے بنگال کے قرب کے سبب بہار پر پورا اثر کیا تھا اور بہت سے علماء نے ان کی اس تحریک پر لبیک کہا، ان میں سے مولانا سجاد کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔
رانچی کی اسیری کے زمانہ میں مولانا ابوالکلام نے ہم خیال و کارفرما علماء کی تلاش و تفتیش کا کا ایک مخلص کے سپرد کیا تھا، انہوں نے جن علماء کا نشان دیا ان میں سے ایک مولانا سجاد بھی تھے، جو اس وقت انوار العلوم گیا کی مسند درس پر تھے۔
۱۹۱۹؁ء سے تحریک خلافت کی ترقی کے ساتھ ساتھ مولانا کا ذوق سیاست بھی بڑھتا گیا، ۱۹۲۰؁ء میں مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محل کی تحریک اور مسیح الملک حکیم اجمل خان مرحوم کی تائید سے جب جمعیۃ العلماء دہلی کی بنیاد پڑی، تو موصوف اس کے لبیک کہنے والے میں سب سے اول تھے اور یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ان کے کتنے رفیق سفر تھک تھک کر اپنی جگہ پر بیٹھ رہے تھے، مگر انہی کی ایک ہستی تھی جو آخر تک جمعیۃ کے ساتھ لگی رہی، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ انہی کی روح تھی جو اس کے قالب میں جلوہ گر ہوتی رہی۔
بہار میں امارت شرعیہ کا قیام ان کی سب سے بڑی کرامت ہے، زمین شور میں سنبل پیدا کرنا اور بنجر علاقہ میں لہلہاتی کھیتی کھڑی کرلینا ہر ایک کا کام نہیں۔
۱۹۱۸؁ء میں معارف میں اس تحریک کو اٹھایا گیا اور اصلاحات کے سلسلہ میں اس کو پیش کیا گیا، پھر ۱۹۲۰؁ء میں یورپ سے واپسی کے بعد چاہا کہ اس کو تمام ہندوستان کا مسئلہ بنایا جائے، مگر اس عہد کے جدید تعلیم یافتہ علمبرداروں نے اس کو کسی طرح چلنے نہ دیا۔ مگر بہار میں مولانا سجاد صاحب کی قوت عمل نے اس کے باوجود کوقالب بخش دیا۔
مولانا سجاد مرحوم کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ علماء سیاسیات میں بھی قوم کی رہبری کا فرض انجام دیں، مسلمانوں میں دینی تنظیم قائم ہوجائے، جس کے تحت میں ان کے تمام تبلیغی و مذہبی و تعلیمی و تمدنی کام انجام پائیں، دارالقضا قائم ہوکر مسلمانوں کے ہر قسم کے مقدمات و معاملات تصفیہ پائیں، مسلمانوں کا بیت المال قائم ہوجائے جہاں مسلمانوں کے صدقات و مبرات و زکوٰۃ کی ساری رقمیں اکھٹی ہوکر ضروریات میں خرچ ہوں اور مستحقین میں تقسیم ہوں، مولانا نے عمر کے آخر بیس برس انہی کاموں میں صرف کئے اور حق یہ ہے کہ انہوں نے ہر قسم کی مالی بے بضاعتی، مددگاروں کی کمی، رفقاء کی نامساعدت اور حالات کی مخالفت کے باوجود جو کچھ کر دکھایا وہ ان کی حیرت انگیز قوت عمل کا ثبوت اور اﷲ تعالیٰ کی توفیق خاص ہے۔
بہار کی تنہا دولت: ان کا وجود گو سارے ملک کے لئے پیام رحمت تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ صوبہ بہار کی تنہا دولت وہی تھے، اس صوبہ میں جو کچھ تبلیغی، تنظیمی، سیاسی و مذہبی تحریکات کی چہل پہل تھی وہ کل انہی کی ذات سے تھی، وہی ایک چراغ تھا جس سے یہ سارا گھر روشن تھا، وہ وطن کی جان اور بہار کی روح تھے، وہ کیا مرے کہ بہار مرگیا۔
مرثیہ ہے ایک کا اور نوحہ ساری قوم کا
علم و فضل: فلسفہ و تاریخ کے ماہر کہتے ہیں کہ علم و عمل کم یکجا ہوتے ہیں لیکن کم یاب مثالوں میں مولانا سجاد کی ذات تھی، وہ اپنے وقت کے بڑے مشاق مدرس اور حاضر العلم عالم تھے، خصوصیت کے ساتھ معقولات اور فقہ پر ان کی نظر بہت وسیع تھی، جزئیات فقہ اور خصوصاً ان کا وہ حصہ جو معاملات سے متعلق ہے ان کی نظر میں تھا، امارت شرعیہ کے تعلق سے اقتصادی و مالی و سیاسی مسائل پر ان کو عبور کامل تھا، زکوٰۃ و خراج و قضا و امارت و ولایت کے مسائل کی پوری تحقیق فرمائی تھی، ہرچند کہ سالہا سال سے درس و تدریس و مطالعہ کا اتفاق نہیں ہوا تھا، مگر جب گفتگو کی گئی ان کا علم تازہ نظر آیا۔
فہم و رائے: ان کا علم کتابی نہ تھا، بلکہ آفاقی بھی تھا، معاملات کو خوب سمجھتے تھے، ان کو بارہا بڑے بڑے معاملات اور مقدمات میں ثالث بنتے ہوئے دیکھا ہے اور تعجب ہوا ہے کہ کیونکر فریقین کو وہ اپنے فیصلہ پر راضی کرلیتے تھے اور اس لئے لوگ اپنے بڑے بڑے کام بے تکلف ان کے ہاتھ میں دے دیتے تھے، کیونکر ان کے پاس اﷲ تعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ فکررسا اور رائے صائب تھی، مسائل اور حوادث میں ان کی نظر بہت دور دور پہنچ جاتی تھی، وہ ہرگتھی کو نہایت آسانی سے سلجھا دیتے تھے، حریف کی چالوں کی تہ تک پہنچ جاتے تھے، باوجود تواضع و خاکساری کے اپنی رائے پر پوری قوت کے ساتھ جمتے تھے اور محض ہٹ اور ضد سے نہیں، بلکہ دلائل کی قوت اور مصالح کی طاقت سے وہ دوسروں سے منوانے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔
اخلاق: وہ بے حد خاکسار اور متواضع تھے، کبھی کوئی اچھا کپڑا انہوں نے نہیں پہنا، کبھی کوئی قیمتی چیز ان کے پاس نہیں دیکھی، کھدر کا صافہ، کھدر کا لمبا کرتہ کھدر کی لمبی صدری، پاؤں میں معمولی دیسی جوتے اور ہاتھ میں ایک لمبا عصا، یہ ان کی وضع تھی، مگر اپنی اس سادہ اور معمولی وضع کے ساتھ بڑے بڑے لیڈروں اور بڑے بڑے مجمعوں میں بے تکلف جاتے تھے اور اپنا لوہا منواتے تھے، جوہر پہنچاننے والے بھی تلوار کی کاٹ دیکھتے غلاف کی خوبصورتی نہیں۔
ہر شخص کی مصیبت میں ہر وقت کام آتے تھے اور ہر ایک کی سفارش میں ہر وقت سینہ سپر ہوجاتے، اﷲ تعالیٰ نے ان کو جاہ و مرتبہ بھی عنایت فرمایا، انہوں نے خود اپنی پارٹی کی وزارت بھی بنائی اور بادشاہ گرنہیں تو وزیر گر ضرور بنے، کانگریسی حکومت کے زمانہ میں ان کو اچھا اقتدار حاصل رہا، مگر خدا گواہ کہ اس اثر و اقتدار کو اپنی ذات کے لئے کبھی کام میں نہیں لائے، جو کچھ کیا وہ مسلمانوں کے لئے۔
ان کی زندگی نہایت سادہ تھی، غربت و عسرت کی زندگی تھی، گھر کے خوشحال نہ تھے، امارت سے معاوضہ بہت قلیل لیتے تھے، سفر معمولی سواریوں اور معمولی درجوں میں کرتے تھے اور اسی حال میں پورب اور پچھم اور پچھم سے پورب اور اُتّر سے دکھن اور دکھن سے اُتّر دوڑتے رہتے تھے، ان کا دن کہیں گزرتا تھا اور رات کہیں، مسلمانوں کی سلامتی اور تنظیم کی ایک دھن تھی کہ ان کو دن رات چکر میں رکھتی تھی، کہیں قربانی کا جھگڑا ہو، مسلمانوں پر مقدمہ ہو، کہیں سیلاب آئے، کہیں آگ لگے، کہیں مسلمان کا تنازعہ ہو، ہر جگہ خود پہنچ جاتے تھے، معاملہ کا پتا لگاتے تھے، مظلوموں کی مدد کرتے تھے، ان کے لئے چندہ کرتے تھے۔ جہاں سے ہوسکتا وہ ان کو لاکر دیتے تھے اور خود خالی ہاتھ رہتے تھے۔
بہار میں زلزلہ کے زمانہ میں انہوں نے جس تن دہی سے کام کیا اور ایک ایک گاؤں میں جاکر جس طرح بے گھروں اور بے خانماؤں کو مدد دی وہ ان کی زندگی کا بڑا کارنامہ ہے، جس کا صلہ امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ سے ان کو عنایت فرمایا ہوگا۔
لیڈروں اور قومی کارکنوں کے پاس عام طور سے ان کے اثر کے ذریعے تین ہیں، یا دولت ہے یا حسن تقریر ہے یا زور قلم ہے، مرحوم ان تینوں سے محروم تھے، وہ غریب تھے اور اور غریبوں ہی میں زندگی بسر کی، زبان میں لکنت تھی، جس سے وہ بولنے پر قادر نہ تھے، اور اسی لئے تقریر بہت کم کرتے تھے اور ان کے قلم میں وہ زور بھی نہ تھا جو آج کل کی انشا پردازی کا کمال ہے، تاہم ان سب کا بدل ان کے پاس ان کا اخلاص تھا، جو ان کی ہر کمی کو پورا کردیتا تھا، عجب نہیں کہ زبان اور قلم کا عجز ہی تھا جو ان کی قوت عمل کی صورت میں ظاہر ہوا۔
جمعیۃ العلماء کے اجلاس کلکتہ کے خطبہ میں میرے قلم سے ان کی نسبت یہ الفاظ نکلے تھے جو پہلے مدح تھی، اب مرثیہ ہے:
’’۱۳۴۳؁ھ کے اجلاس خاص مراد آباد کے موقع پر بھی مجھے یہ عزت عطا ہوئی تھی، مگر عین وقت پر وفد جدہ کی شرکت نے انکار پر مجبور کیا اور میں خوش ہوں کہ اس کی بدولت ایک خاموش ہستی بولی، ایک بے زبان نے زبان کے جوہر دکھائے اور ایک ہمہ تن سوز و گداز نے کاغذ کے صفحوں پر اپنے دل کے ٹکڑے بکھیرے‘‘۔
یہ بھی مولانا ہی کی قوت حاذبہ تھی جو مختلف الخیال علماء اور مختلف الرائے سیاسی رہنماؤں اور قومی کارکنوں کو ایک ساتھ ایک پلیٹ فارم پر جمع کیے اور ایک شیرازہ میں باندھے ہوئے تھی۔
شاید یہ کم لوگوں کو علم ہو کہ مولانا کی خانگی زندگی غم سے بھری ہوئی تھی، ان کے بڑے بھائی مجذب تھے، ان کی بیوی معذور و مختل تھیں، ان کا بڑا لڑکا جو پڑھ لکھ کر فاضل اور گھر کا کام سنبھالنے کے قابل ہوا، عین اس وقت کہ اس کے نکاح میں چند روز باقی تھے، باپ نے اس کی دائمی جدائی کا داغ اٹھایا اور یہ سننے کے قابل ہے کہ وہ لڑکا․․․․․․ مرض الموت میں تھا کہ مسلمانوں کی ایک ضرورت ایسی سامنے آئی کہ باپ بیمار بیٹے کو چھوڑ کر سفر پر روانہ ہوگیا، واپس آیا تو جوان بیٹا دم توڑ رہا تھا۔
ان کی اپنی زندگی بھی دین و ملت ہی کی نذر ہوئی، ترہت کے دور افتادہ علاقہ میں جہاں کے ملیریا کے ڈر سے ادھر کے لوگ ادھر جانا موت کے منھ میں جانا سمجھتے ہیں، یہ مرد خدا جان کو ہتھیلی پر رکھ کر سال میں کئی کئی دفعہ جاتا تھا اور کئی کئی دن وہاں رہتا تھا، آخری سفر بھی وہیں ہوا اور وہیں سے ملیریا کی سخت بیماری اپنے ساتھ لایا اور اسی حال میں جان جان آفریں کے سپرد کی۔
جانے والے تیری روح کو سلام! جب تو زندہ تھا تو تیری قوم نے تیری قدر نہ پہچانی اب تو عالم ابد میں ہے، میرے کان غیب سے تیری زبانِ مجاز سے یہ آواز سنتے ہیں۔
یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ
وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ۔ [یٰسین:۲۶۔۲۷]
اے کاش کہ میری قوم جانتی کہ خدا نے مجھے بخشا
اور مجھے ان میں داخل کیا جن پر اسکا کرم ہوا ہے۔
(سید سلیمان ندوی، دسمبر ۱۹۴۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...