1676046599977_54337925
Open/Free Access
124
مولانا حیدر حسن صاحب محدث ٹونکی کی وفات
مولانا حیدر حسن خاں صاحب محدث ٹونکی جو تقریباً دس پندرہ برس تک دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں شیخ الحدیث رہ کردوسال ہوئے کہ ریاست کی خواہش پر اپنے وطن چلے گئے تھے، افسوس ہے کہ چند روز ہوئے کہ اپنے وطن ہی میں وفات پائی ، محدث مرحوم اورا ن کے بڑے بھائی مولانا محمود حسن خاں صاحب مصنف معجم المصنفین اس وقت کے علماء میں ایسے دو نامور فرد تھے کہ جن کے وجود پر علم و فضل اور ورع و تقویٰ کو ناز تھا، الحمدﷲ کہ ابھی مولانا محمود حسن خاں صاحب ہم میں موجود ہیں، مگر افسوس ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی مولانا حیدر حسن خاں صاحب نے اس عالم فانی کو الواداع کہا، ایسے زمانہ میں جب نام کے مولویوں کی تعداد گو کثرت حاصل کررہی ہے، مگر کام کے علماء روز بروز کم سے کم ہوتے جارہے ہیں، مرحوم کی وفات مشرقی علم و فضل کی کائنات میں حادثہ عظیم سمجھی جائے گی۔
مرحوم بڑے جامع العلوم تھے، علوم عقلیہ و نقلیہ و ریاضیہ کے وہ یکساں ماہر تھے، زیادہ تر اپنے بڑے بھائی مولانا محمود حسن خاں صاحب سے پڑھا تھا، حدیث کی سند شیخ حسین صاحب عرب یمنی خزرجی سے حاصل کی تھی، استفادہ باطنی میں بھی ان کا مرتبہ بلند تھا، انہوں نے مکہ معظمہ جاکر حضرت حاجی شاہ امداد اﷲ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ سے فیض حاصل کیا تھا، اور ماشاء اﷲ زہدو عبادت بے تکلفی اور تواضع میں بزرگوں کا نمونہ تھے، علم عقلیہ و ریاضیہ میں بھی ان کا درجہ بلند تھا، اور علوم نقلیہ میں وہ ماہر کامل تھے، علم حدیث کو بطرز حنفیہ بہت خوبی سے پڑھاتے تھے، رجال پر ان کی نظر وسیع تھی، ان کے درس کا طریقہ یہ تھا کہ حدیث پڑھاتے وقت احادیث کی ساری کتابیں اور اسماء الرجال اور اصول کی کوئی مستند کتاب ارد گرد رکھ لیتے تھے، ہر نزاعی مسئلہ پر وہ دادتحقیق دیتے وقت اپنے شاگردوں کو ہر حوالہ کی حدیث کو نکال کر دکھاتے اور رجال پر بحث کرتے وقت راوی کی حالت زبانی بیان کر کے مزید تشفی کے لیے ان کو کتاب کھول کر اس راوی پر جرح و توثیق کے اقوال بھی دکھادیتے اور اصول سے اپنے مدعا کو ثابت کرتے تھے۔
ان سے اکثر مسائل میں گفتگو آتی رہتی تھی، مگر وہ ہمیشہ حاضر العلم نظر آئے، اور جب کبھی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی، صاف اقرار کرلیتے تھے، اور دوسرے وقت وہ اس کو دوبارہ سمجھ کر بحث میں لاتے تھے، اس علم و فضل پر بے حد منکسر، بیحد خاکسار، بیحد متواضع، اتباع سنت اور پابندی شریعت میں ممتاز تھے، ان کی نماز خضوع و خشوع اور سکون و طمانیت کی تصویر ہوتی تھی، دارالعلوم کی مدرسی کے زمانہ میں لکھنؤ کے اکثر اہل علم ان کے معترف و مداح تھے، اور مسائل میں ا ن کا فیصلہ قول فیصل کا حکم رکھتا تھا، اﷲ تعالیٰ اس مجموعہ خوبی کو اپنے فضل و کرم سے نوازے ، اور مراتب اعلیٰ عنایت فرمائے۔
(سید سلیمان ندوی، جولائی ۱۹۴۲ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |