Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد سورتی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد سورتی
ARI Id

1676046599977_54337926

Access

Open/Free Access

Pages

125

مولانا محمد سُورتی ؒ
پچھلے مہینہ کا سب سے اندوہناک علمی حادثہ مولانا محمد سورتی کی وفات ہے، مرحوم اس عہد کے مستثنیٰ دل و دماغ اور حافظہ کے صاحب علم تھے، جہاں تک میری اطلاع ہے اس وقت اتنا وسیع النظر، وسیع المطالعہ، کثیر الحافظہ عالم موجود نہیں، صرف و نحو، لغت و ادب و اخبار و انساب و رجال کے اس زمانہ میں در حقیقت وہ امام تھے، وہ چند ماہ سے مرض استسقا میں مبتلا تھے، علی گڑھ میں ان دنوں قیام تھا اور وہیں ۷؍ اگست کو بروز جمعہ وفات پائی۔
مرحوم کا اصلی وطن سورت (گجرات) تھا، وطن میں ابتدائی تعلیم پاکر یہ دلّی آئے اور رامپور میں مولانا محمد طیب صاحب مکی کا تلمذ حاصل کیا، میری ان کی پہلی ملاقات ۱۹۰۸؁ء میں ہوئی، جب مولانا طیب مکی رامپور چھوڑ کر دارالعلوم ندوہ لکھنؤ میں ادیب اول کے عہدہ پر فائز تھے، فاضل استاد کے ساتھ یہ لائق شاگرد بھی لکھنؤ وارد ہوا اور اس زمانہ سے لے کر اخیر تک ان کے ساتھ میری علمی رفاقت اور ذاتی دوستی کا سلسلہ قائم رہا، معارف بھی ان کے رشحات قلم سے کبھی کبھی مستفید ہوتا رہا ہے۔
مرحوم اس فضل و کمال کے باوجود ہمیشہ پریشان حال رہے اور کہیں ایک جگہ جم کر بیٹھنا ان کو نصیب نہ ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے علم سے استفادہ بہت کم کیا جاسکا اور کوئی کارآمد تصنیف بھی اپنی یادگار نہ چھوڑ سکے اور نہ کوئی لائق شاگرد ہی ان کا قائم مقام ہوسکا، البتہ چند جسمانی اولاد ان کی یادگار ہیں۔
ایک زمانہ میں جامعہ ملیہ دہلی میں معلم رہے، پھر بنارس کے جامعہ رحمانیہ میں مدرس ہوئے، بعد کو بمبئی میں ایک اہلحدیث مدرسہ میں حدیث کا درس دینے لگے تھے، ٹونک کے مشہور کتب خانہ کی کشش بھی ان کو ٹونک لے جاتی تھی، انہوں نے شادی بھی ٹونک ہی میں کرلی تھی، قلمی کتابوں کی تلاش اور فراہمی اور نقل ان کا ذریعہ معاش رہ گیا تھا، اس تعلق سے وہ ٹونک، پٹنہ، رامپور، کلکتہ اور حیدرآباد کا سفر اکثر کیا کرتے تھے، لیکن آخرت کے سفر کے لئے ان کی تقدیر میں علی گڑھ کی مٹی لکھی تھی، ساٹھ کے قریب عمر پائی، سر بڑا، بدن گداز ہاتھ پاؤں بھاری تھے۔
مرحوم مسلکاً اہل حدیث تھے اور اپنے مسلک میں بے حد غالی تھے، طبیعت بے قرار اور وارستہ تھی، کسی ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتے تھے، ساتھ ہی نہایت سادہ مزاج، بے تکلف، احباب پرور، فیاض اور مستغنی تھے، کھانے اور کھلانے کے بیحد شائق تھے، ہمیشہ مقروض اور خانہ بدوش رہتے تھے۔
مرحوم کا پایہ علم و ادب اور رجال و انساب و اخبار میں اتنا اونچا تھا کہ اس عہد میں اس کی نظیر مشکل تھی، جو کتاب دیکھتے تھے وہ ان کے حافظہ کی قید میں آجاتی تھی سینکڑوں نادر عربی قصائد، ہزاروں عربی اشعار و انساب نوک زبان تھے۔ ان کو دیکھ کر یقین آتا تھا کہ ابتدائی اسلامی صدیوں میں علماء ادباء اور محدثین کی وسعت حافظہ کی جو عجیب و غریب مثالیں تاریخوں میں مذکور ہیں وہ یقینا صحیح ہیں، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (سید سلیمان ندوی، ستمبر ۱۹۴۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...