Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > فضل حق آزاد عظیم آبادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

فضل حق آزاد عظیم آبادی
ARI Id

1676046599977_54337928

Access

Open/Free Access

Pages

125

حافظ فضل حق آزادؔ عظیم آبادی
۲۷؍ شعبان ۱۳۶۱؁ھ کو صوبہ بہار کے مشہور و ممتاز کہنہ مشق شاعر حافظ فضل حق آزاد عظیم آبادی نے اس دنیائے دوں کو الوادع کہا، مرحوم کی عمر اس وقت غالباً اسّی (۸۰) سے زیادہ ہوگی، کانوں سے اونچا سننے لگے تھے، مگر اس سن و سال میں بھی ان کی شاعری کے شباب کا وہی عالم تھا، غزلوں کے کہنے کا اتفاق کم ہوتا تھا، مگر قومی و علمی و اخلاقی اور فلسفیانہ نظموں کا شوق زیادہ تھا، زیادہ تر اردو میں اور کبھی کبھی فارسی میں کہتے تھے اور شاذو نادر عربی میں بھی طبع آزمائی کی نوبت آجاتی تھی۔
پٹنہ میں سرسید مرحوم کی تعلیمی و قومی تحریک کے علمبردار قاضی رضا حسین صاحب مرحوم تھے، یہ ان کے حیدرآباد کے وفد کے ایک رکن بھی تھے، قاضی صاحب مرحوم کی فیض بخش علمی صحبتوں میں بہار کے جو چند نوجوان ابھرے، بڑھے اور پھیلے، ان میں ایک نام حافظ آزاد مرحوم کا بھی ہے، چنانچہ سرسید مرحوم کے اس ۱۸۹۱؁ء والے حیدرآبادی وفد میں جس کے دوسرے ممبر مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حالی وغیرہ تھے، قاضی رضا حسین صاحب کیساتھ آزاد مرحوم بھی تھے۔
میں نے ان کو سب سے پہلے ۱۹۰۰؁ء میں جب میری نوعمری تھی ندوہ کے اجلاس پٹنہ میں اپنا ترکیب بند پڑھتے سنا، بلند قد، اونچی آواز، خود اعتمادی کے تیور، لہجہ پر جوش، کٹہرے میں شیر کی گرج سی سنائی دیتی تھی، سامنے علماء اور مشائخ کی صفیں تھیں، جن کی تعداد کئی سو سے کم نہ ہوگی، اکثر کی نورانی شکلوں کی یاد اب بھی دل کو منور کرتی ہے، شاعر نے جب ان کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے یہ شعر پڑھا ہے:
نشانِ کاروان رفتہ ہیں دل کے اجالے ہیں
غنیمت ہی غنیمت ہیں کہ سب اﷲ والے ہیں
تو تحسین و آفریں کی آوازوں سے ساری فضا گونج گئی تھی، اسی جلسہ میں آغا سنجر طہرانی بھی تھے، اور انہوں نے بھی اپنا وہ فارسی قصیدہ پڑھا تھا جس کا مطلع تھا:
ستایش می سزد البتہ یکتا ذات یزداں را
کہ اواز نطقِ تشریف شرف بخشید انساں را
مولانا شبلی مرحوم سے ان کی ملاقات اسی عہد جوانی کی تھی، مولانا مرحوم نے جن دنوں ۱۹۰۸؁ء میں اپنی ان فارسی غزلوں کا سلسلہ شروع کیا تھا، جو بوئے گل اور دستہ گل کے نام سے چھپ چکی ہیں اور ملک میں ان غزلوں کا پرجوش خیر مقدم کیا جارہا تھا اور اہل سخن ان کے جواب میں غزلیں لکھا کرتے تھے، تو ان میں سے ایک حافظ صاحب مرحوم بھی تھے، غالباً یہی سنہ تھا مولانا مرحوم کلکتہ سے لوٹ کر پٹنہ میں مولوی خدابخش خاں مرحوم (کتب خانہ والے) کے یہاں ٹھہرے تھے، خاکسار بھی حاضر تھا اتنے میں مولانا سے ملنے حافظ صاحب مرحوم بھی آگئے، اسی زمانہ میں مولانا کی ایک فارسی غزل نئی نئی شاق افتادہ بود، طاق افتادہ بود، نکلی تھی، وہ مولانا نے ان کو سنائی، انہوں نے بعد کو اس کا جواب لکھا، سب سے آخری دفعہ وہ ۱۹۲۷؁ء کے اجلاس ندوہ کانپور میں جس کے صدر حکیم اجمل خاں مرحوم تھے ادھر آئے تھے اور اپنی ایک نظم پڑھی تھی۔
مرحوم فطری شاعر تھے، کسی استادسے کبھی اصلاح نہیں لی، مشکل قافیوں اور ردیفوں کا بھی شوق تھا، زبان و محاورات و روزمرہ کے بجائے دقیق مضامین و معانی کا شوق زیادہ تھا، اسی لئے مشکل الفاظ سے پرہیز نہ تھا، طبیعت میں ذکاوت و ذہانت تھی اور اپنے لئے آپ راستہ پیدا کرنے کی دھن تھی، تقلید عام سے نفور تھے، جوانی میں شاد عظیم آبادی سے بھی بھڑتے رہتے تھے اور ’’الپنچ‘‘ میں مذاقیہ دادِ نظم بھی دیتے تھے، ادھر مدت سے خانہ نشین تھے، باہر کی آمدورفت بند تھی، کبھی کبھی ایک آدھ کسی رسالہ میں نکل جاتی تھی، اسی حالت میں اپنے وطن شاہو بگہہ ضلع گیا میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
؂ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا (سید سلیمان ندوی،اکتوبر ۱۹۴۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...