Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نصیر بیرسٹر

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نصیر بیرسٹر
ARI Id

1676046599977_54337930

Access

Open/Free Access

Pages

127

مسٹر نصیر بیرسٹر
بہار میں نئی تعلیم بنگال کے قرب بلکہ ملحقہ صوبہ ہونے کی وجہ سے بہت پہلے پھیلی، وہاں کے مسلمان شرفا کے جو نونہال ان میں سب سے زیادہ پھلے پھولے ان میں سید علی امام، حسن امام اور مظہرالحق وغیرہ کے نام ان کے بعض سیاسی اور قومی کارناموں کی وجہ سے بہت نمایاں ہیں، انہی کے معاصرین میں ایک نام مسٹر نصیر بیرسٹر کا ہے، پٹنہ کے قریب شرفا کا ایک مشہور قصبہ نگرنہسہ ہے، وہ وہیں کے انصاری خاندان کے چشم و چراغ تھے، خاندان میں عربی و فارسی علوم کا چرچا تھا، ان کے دادا، شاہ عبدالعزیز دہلویؒ یا حضرت شاہ عبدالغنی صاحب مجددی کے شاگرد تھے اور ان نفوس قدسیہ کے برکات کا خاصہ اثر اس مغربی تعلیم یافتہ کے ذہن و خیال پر تھا، افسوس کہ ستمبر ۱۹۴۲؁ء کے آخر میں اس دور کی یہ یادگار شخصیت بھی مٹ گئی۔
۱۸۹۸؁ء میں جب خاکسار پہلی دفعہ دیہات سے نکل کر شہر (پٹنہ) میں آیا تو سب سے پہلے انہی کی کوٹھی پر جو مرادپور کی سڑک کے شمالی رخ پر تھی اس تعلق سے قیام ہوا تھا کہ میرے چھوٹے چچا مرحوم اس زمانہ میں انہی کے ساتھ رہتے تھے، عمر میں پہلا اتفاق تھا، اس لئے ان کی ہر چیز مجھے عجیب معلوم ہوتی تھی،بہت گویا، بہت ہنس مکھ، ہر وقت خوش و بشاش، شعر و سخن کے دلدادہ، علمی صحبتوں کے شائق، بزرگوں کا ادب، دین کا پاس اور مذہب کا جوش، کوٹ پتلون اور ہیٹ کے اس پتلے میں عجیب رنگین کیفیت پیدا کردیتا تھا۔
۱۹۰۰؁ء میں ندوۃ العلماء کا ساتواں سالانہ جلسہ پٹنہ عظیم آباد میں تھا، جو قدیم تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم کا بھی مرکز تھا، اجلاس میں علماء کرام اور مشائخ عظام کے پہلو بہ پہلو جسٹس مولوی سید شرف الدین مرحوم کی سرکردگی میں ان نوجوان بیرسٹروں کا جھرمٹ بھی تھا اور شاید یہ پہلا دن تھا جب مقدس شملے اور ہیٹ یکجا نظر آئے تھے، اسی اثناء میں جوش و حمیت کا یہ پتلا پورے انگریزی ڈریس میں اسٹیج پر آیا اور وہ دلدوز تقریر کی کہ میری ان آنکھوں نے بڑے بڑے مقدس علماء مشائخ کو ڈھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا، مقرر کے جوش کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنا قیمتی کوٹ، گھڑی، انگوٹھی سب نذر کردی، جن لوگوں نے اس منظر کو دیکھا تھا وہ سماں آج تک نہیں بھولے ہیں۔
یاتو میں نے ان کو انگریزی کپڑوں اور انگریزی شکل و صورت میں دیکھا، یا پھر ابھی دس برس ہوئے، ریش سپید، مخملی ٹوپی اور اچکن اور کرتے میں دیکھا اور سنا کہ اب یہ عالم ہے کہ تسبیح و سجادہ سے سروکار ہے، مرحوم کی دوسری شادی نیورہ میں ہوئی تھی، چند سال ہوئے کہ وہاں اس سے بھی بڑھ کر محواستغراق پایا، مجھ سے عزیزانہ برتاؤ تھا، جوانی میں میلاد کا پرشوق رسالہ لکھا تھا اور پیری میں شاعری پر ایک اردو مثنوی جو خاکسار کے مقدمہ کے ساتھ مطبع معارف میں چھپی تھی۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو اپنی مغفرت سے سرفراز کرے، ان کے پورے حالات نقوشِ سلیمانی کے آخر میں ان کے مثنوی کے دیباچہ میں لکھے گئے ہیں۔
(سید سلیمان ندوی، نومبر ۱۹۴۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...