1676046599977_54337934
Open/Free Access
128
مولانا محمد معزاﷲ خیرآبادی
ایک زمانہ تھا کہ رامپور علمائے اعلام کا مرکز تھا اور خیرآبادی سلسلہ کے تعلق کے سبب سے وہاں کا مدرسہ علوم عقلیہ کی سب سے بڑی درسگاہ تھی، لیکن مولانا فضل حق رامپوری مرحوم کی وفات پر اس کا بھی خاتمہ ہوگیا، اب پیران کہن سال میں وہاں ایک ہی صاحب رہ گئے تھے، یعنی مولانا محمد معزاﷲ صاحب مرحوم، افسوس کہ ۶؍جنوری ۱۹۴۳ء کی رات کو انہوں نے بھی رحلت کی، یہ مولوی عبدالحق صاحب خیرآبادی کے آخری شاگرد اور مدرسہ کے پرانے اساتذہ اور بزرگوں کے فیض یافتہ تھے، فقہ میں مولانا ارشاد حسین صاحب مجددی سے (جو فقہ و اصول میں مولانا شبلی مرحوم کے بھی استاد تھے) اور مولانا حسن شاہ صاحب محدث رامپوری سے بھی استفادہ کیا تھا، سلسلہ نقشبندیہ اور قادریہ و چشتیہ کے مجاز بھی تھے، رامپور میں مرحوم کا علمی مرتبہ اتنا بلند تھا کہ کسی فتویٰ پر جب تک ان کے دستخط نہ ہوتے وہ عام طور پر مستند نہیں سمجھا جاتا تھا، خاکسار کو دو سال ہوئے کہ مرحوم سے ملاقات کا اور ان کے درس کے سننے کا اتفاق ہوا تھا، اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے افسوس کہ پچھلے مدرسین اٹھتے جاتے ہیں اور زمانہ کی نئی آب و ہوا اس تجر اور مہارت کے نئے مدرسین عربی کی نشوونما سے عاجز ہے۔
(سید سلیمان ندوی، فروری ۱۹۴۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |