1676046599977_54337935
Open/Free Access
128
سید سجاد حیدریلدرم مرحوم
۱۲؍ اپریل ۱۹۴۳ء کی رات کو سید سجاد حیدر مرحوم نے جو ادب کی دنیا میں یلدرم کے نام سے مشہور تھے، قلب کے عارضہ سے دفعتہ وفات پائی، یہ علی گڑھ کالج کے پرانے تعلیم یافتوں میں اور اسی تعلق سے کالج کے ان چند طالب علموں میں تھے جنہوں نے مولانا شبلی مرحوم کے درس اور صحبت سے شعر و ادب کا ذوق حاصل کیا تھا، مرحوم مولانا کے درس کے اس قسم کے واقعات کو مزے لے لے کر بیان کیا کرتے تھے، ان کا اصل وطن نہٹور (یوپی) میں تھا، ۱۹۰۱ء میں بی، اے کی سند پاکر تعلیم سے فراغت پائی۔
ہماری زبان میں اس وقت ادب لطیف کا جو رواج ہے، اس کے پرانے لکھنے والوں میں سب سے پہلا نام سید حیدر مرحوم کا ہے اور چونکہ قادر مطلق کو ان سے یہ کام لینا تھا، اس لئے ان کی زندگی میں اس کا مناسب سامان بھی پیدا کردیا یعنی یہ کہ کالج کے زمانہ ہی میں ان کو ترکی پڑھنے کا خیال ہوا، علی گڑھ میں نواب محمد اسمٰعیل خان صاحب رئیس علی گڑھ کے والد بزرگوار ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے تھے، وہیں نواب محمد اسمٰعیل خاں صاحب کی تعلیم و تربیت ہوئی، اس زمانہ میں ترکی وہاں کی سرکاری زبان تھی، اس لئے ان کو ترکی بھی پڑھائی گئی اور جب وہ ہندوستان آئے تو وہ ترکی ادب کے گویا نمائندہ ہوکر آئے، چنانچہ سرسید کے ’’تماشائے عبرت‘‘ میں وہ اسی ہیئت سے اسٹیج پر آئے ہیں اور معارف علی گڑھ میں جس کے وہ شریک ایڈیٹر تھے، وہی ترکی ادب کی اشاعت کا ذریعہ بنے۔
بہرحال سجاد حیدر مرحوم نے انہی سے ترکی زبان سیکھی اور اس کا یہ فائدہ ان کو پہنچا کہ سرکار انگریزی نے ان کو علی گڑھ کالج کے پرنسپل ماریسن صاحب کی سفارش سے اپنے ترکی سفارت خانہ میں ترجمان کی حیثیت سے لے لیا اور عراق میں ان کا تقرر ہوگیا، یہ ۱۹۰۴ء کا واقعہ ہے، جدید ترکی ادب پر فرانسیسی ادب کے بے حداثرات تھے، مرحوم نے ترکی ادب کے انہی اثرات کو قبول کیا اور ان کو اردو ادب میں منتقل کیا، اسی زمانہ میں ۱۹۰۱ء سے مخزن لاہور نے جنم لیا تھا، مرحوم نے اسی زمانہ میں ترکی ادب کا یہ تحفہ عراق سے ہندوستان کو بھیجا اور مخزن کے خوانِ ادب میں وہ شہر بہ شہر ہاتھوں ہاتھ بٹا، اسی زمانہ میں مخزن میں ایک معاشرتی افسانہ حقوق نسواں سے متعلق چھپا تھا، استاد مرحوم کی زبانی باربار اس کی تعریف سنی تھی ان کے ان مضمونوں کا مجموعہ ۱۹۰۸ء میں خیالستان کے نام سے چھپا تھا۔ ۱۹۰۸ء میں وہ بغداد سے ہندوستان آکر دہرہ دون میں سابق شاہ افغان امیر یعقوب خاں کے اسسٹنٹ پولیٹیکل افسر مقرر ہوئے، تین سال کے بعد ترکی کے انقلاب اول کے بعد ۱۹۱۱ء میں ترکی گئے، چھ ماہ کی سیاحت کے بعد وہاں سے واپس آکر دوبارہ اپنے عہدہ کا چارج لیا، ۱۹۱۴ء میں وہ مہاراجہ محمودآباد کے پرائیوٹ سکریٹری بنے، ۱۹۱۸ء میں ڈپٹی کلکٹر ہوکر سلطان پور (اودھ) میں مامور ہوئے، ۱۹۲۰ء یا ۱۹۲۱ء میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کے بعد وہ یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار اور اردو کے صدر مقرر ہوئے۔ جنگ عظیم کے بعد مصطفی کمال پاشا کے انقلاب کے بعد ۱۹۲۴ء میں دوبارہ چھ ماہ کے لئے ترکی کا سفر کیا اور وہاں سے بہت سے نئے حالات کا مطالعہ کیا اور ترکی علم و ادب کے نئے اصحاب سے تعارف پیدا کیا اور بہت سی اچھی کتابوں کا تحفہ ساتھ لائے، میری ان کی ملاقات علی گڑھ کے دوران میں ہوئی تھی جو ذاتی روابط کے حد تک بڑھ گئے تھے، انہیں دارالمصنفین سے دلچسپی تھی۔
۱۹۲۹ء میں انہوں نے عراق و ایران کا سفر کیا اور وہاں سے واپسی پر پہلے ہردوئی میں ڈپٹی کلکٹر مقرر ہوئے، ایک سال کے بعد وہ جزائر انڈمان کے یونیو کمشنر ہوکر انڈمان گئے وہاں سے واپس ہوکر غازی پور میں ڈپٹی کلکٹر ہوئے، غازی پور کے زمانہ قیام میں اپنے پرانے شوق کو پورا کیا، یعنی دارالمصنفین آکر استاد مرحوم کی قبر کی زیارت کی اور دارالمصنفین کو دیکھا، ۱۹۳۳ء میں انہوں نے فریضۂ حج ادا کیا اور ایک سال کے بعد ۱۹۳۵ء میں پینشن پاکر دہرہ دون میں سکونت اختیار کی، ۱۹۳۶ء میں راقم بھی دوماہ کے لئے دہرہ دون تبدیل آب و ہوا کے لئے جاکر رہا تھا، اس زمانہ میں ان سے بار بار ملاقاتیں ہوتی رہیں، وہ وہاں ایک اسلامیہ اسکول کے سکریٹری تھے، مگر صحت اچھی نہیں رہی تھی، اس لئے علیل رہتے تھے، ۱۹۳۷ء میں بچوں کی تعلیم کی خاطر لکھنؤ آکر رہے اور موجودہ راجہ صاحب محمود آباد کے پرائیوٹ سکریٹری بنے اسی زمانہ میں اگست ۱۹۴۲ء میں کابل کا سفر کرکے بلاد اسلامیہ کی سیاحت پوری کرلی اور ۱۲؍ اپریل ۱۹۴۳ء کو ہمارے سیاح عالم نے عالم آخرت کا سفر اختیار کیا۔
وہ بغداد کے زمانہ قیام میں شاید سرکاری ملازم ہونے کے سبب سے اپنے شروع کے مضمونوں میں اپنے نام کے بجائے ’’یلدرم‘‘ لکھا کرتے تھے، جو مشہور ترکی سلطان بایزید کا لقب تھا، جس کے معنی بجلی کے ہیں، چونکہ وہ اپنے دشمنوں کی بے خبری میں ان کے سروں پر اس تیزی سے آکر گرتا تھا کہ لوگ اس کو یلدرم کہتے تھے۔
سجاد حیدر یلدرم ہماری زبان میں ایک نئی صنف ادب کے جس کو ادب لطیف کہتے ہیں بانی تھے اور اس لئے ہماری ادبی تاریخ میں ان کا ایک پایہ ہے، وہ کئی ادبی افسانوں کے مصنف اور ترکی ناولوں کے مترجم ہیں، وہ بڑے متواضع، مرنج و مرنجان، ہنس مکھ، ملنسار، شگفتہ دل، بذلہ سنج اور شریف و نرم طبع تھے، ان کے دوستوں کو ان کی یاد بہت آئے گی، ان کی وفات کا حادثہ لکھنؤ میں پیش آیا اور وہیں کی خاک کے سپرد ہوئے، اﷲ تعالیٰ ان کی قبر پر اپنے فیض و کرم کے چھینٹے برسائے۔ (سید سلیمان ندوی،مئی ۱۹۴۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |