1676046599977_54337936
Open/Free Access
129
منشی محمد احتشام علی کاکوروی
لکھنؤ کی سرزمین میں اپریل کے چوتھے ہفتہ میں ایک اور حادثہ پیش آیا یعنی کاکوری کے ممتاز خاندان کے رئیس جناب منشی محمد احتشام علی صاحب نے ۲۲؍ اپریل کی صبح کو ۷۵ برس کی عمر میں وفات پائی، کہنا چاہئے کہ اودھ میں قدیم شریفانہ جوہر وضعداری، دینداری، مروت، سیرچشمی، غربا نوازی اور مسکین پروری کا یہ اخیر نمونہ تھا، ان کی پوری زندگی میں جس میں وسعت کا زمانہ بھی تھا اور تنگی کا بھی، ان کے ہاتھ یکساں کھلے رہے اور اس اخفاء کے ساتھ کہ بائیں ہاتھ کو بھی داہنے ہاتھ کی خبر نہ تھی، وہ مولانا شاہ فضل رحمان صاحب گنج مراد آبادی سے بیعت تھے، اس تعلق کو اخیر اخیر وقت تک جس طرح نباہا، وہ ان کی سعادت مندی کا نشان ہے، پابندی یہ کہ مرتے وقت سجدہ عبودیت ادا کیا ہے اور صبر و شکر کے کلمے زبان سے نکلتے رہے۔
ان کی جوانی تھی کہ ندوۃ العلماء کا غلغلہ بلند ہوا، چونکہ اس مجلس کے سرپر فضل رحمانی سایہ فگن تھا۔ اس لئے حضرت شیخ کے سارے حلقہ بگوش اس کے حلقہ میں تھے اور اسی مناسبت سے جناب منشی محمد اطہر علی صاحب مرحوم اور ان کے ساتھ میں جناب منشی احتشام علی صاحب ندوہ کے خدام میں داخل ہوئے تھے، اپریل ۱۸۹۵ء میں اس کا پہلا جلسہ لکھنؤ میں ہوا تھا، اس اپریل ۱۸۹۵ء سے لے کر ۲۲؍ اپریل ۱۹۴۳ء کی صبح تک جب کہ انہوں نے زندگی کی اخیر سانس لی ہے، یکساں دلچسپی خلوص و انہماک سے اپنے فرائض کو انجام دیا ہے۔ نہ صرف رئیسوں میں بلکہ مسلمانوں میں اس قدامت خدمت اور مخلصانہ مذہبی خدمت گزاری کی مثال شائد ہی ملے۔
خیالی گنج میں ان کی بڑی اور وسیع کوٹھی، ان کے عزیزوں کا مسکن، نوواردوں کا مادیٰ، غریبوں کا ملجا، بڑے بڑے قومی خادموں کی فرودگاہ، علماء فضلاء اور صلحاء کا مہبط اور مسلمانوں کے بڑے بڑے قومی جھگڑوں اور فیصلوں کی عدالت گاہ رہی ہے۔ گو سیلاب نکل جانے کے بعد بھی زمین پر اس کے آثار باقی تھے، افسوس ہے کہ منشی صاحب مرحوم کی وفات کا حادثہ پچھلے دور خدمت کے قدیم جواہر فضائل کو بھی اپنے ساتھ لے گیا، اِنّالِلّٰہ، اب ان کے جانشین فرزندوں منشی محمد انعام علی اور منشی محمد احترام علی صاحب سے امید ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کے نیک نام کو اپنی خدمات سے زندہ رکھیں گے۔
(’’س‘‘، مئی ۱۹۴۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |