1676046599977_54337937
Open/Free Access
130
شمس العلماء عبدالرحمان شاطرؔ مرحوم
دکن ٹائمز مدراس میں یہ پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ مدراس کے مشہور و ممتاز فلسفی شاعر مولانا شاطرؔ کا وسط اپریل ۱۹۴۳ء میں انتقال ہوگیا۔
ارکاٹ احاطۂ مدراس میں اسلامی علم و تمدن کی فراموش شدہ تاریخ کا ایک ورق ہے، نواب ارکاٹ کا محل ارکاٹ کے جنگی خاتمہ کے بعد خود شہر مدراس ہے، شمس العلماء عبدالرحمان شاطر اسی برج فلکی کے آفتاب تھے، عمر ستر کے قریب ہوگی، اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں سے واقف تھے، نواب صاحب ارکاٹ کے سکریٹری بھی تھے اور مدراس ہائیکورٹ میں مترجم بھی رہے تھے، گو وطن مدراس تھا، مگر ۱۹۰۱ء اور ۱۹۰۳ء میں حیدرآباد دکن کے بزم علمی میں اس کے شریک تھے، جب مولانا شررؔ اور داغؔ اور گرامیؔ حیدرآباد کی زینت تھے، وہ ان کی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے اور ان سے اپنے ذوقِ ادب کی پرورش کرتے تھے اور اسی زمانہ سے وہ مولانا کے قریب رہنے والوں اور قریب سے جاننے والوں میں تھے اور ان کی وہی محبت تھی جو حضرت الاستاذ کی وراثت میں مجھے ملی تھی۔
عبدالرحمان مرحوم شاعر تھے، شاطرؔ تخلص کرتے تھے، اشعار حکیمانہ اور فلسفیانہ کہتے تھے، قطعات، رباعیات اور قصائد موزوں کرتے تھے، جدید سائنس اور فلسفہ کے مسائل کو اسلامی الٓہیات سے تطبیق دیتے تھے، زبان سخت تھی اور مشکل الفاظ کے استعمال سے ان کو پرہیز نہ تھا، ان کی سب سے مشہور فلسفیانہ نظم ’’اعجازِ عشق‘‘ ہے، جو ایک طویل رائیہ قصیدہ ہے جس میں جدید و قدیم فلسفیانہ مسائل و آراء سے الہیات اسلامیہ کی تفسیر و تشریح کی ہے یہ نظم ۱۹۰۴ء میں لکھی گئی تھی اور اس زمانہ کے تمام اکابر و مشاہیر مولانا حالی،مولاناشبلی، مولانا نذیر احمد، مولوی ذکاء اﷲ خاں، نواب عمادالملک، مولوی سیداکبر حسین، پروفیسر عبدالغفور شہباز، امجد علی اشہر، شاد عظیم آبادی، جلال لکھنوی، علی حیدر طباطبائی، استاد گرامی وغیرہ نے بے حد توصیف و تحسین کی تھی، ان میں سے مولانا شبلی کی جامع و مانع و مختصر تقریظ بطور نمونہ حوالہ قلم ہے:
’’آپ کا قصیدہ میں نے دیکھا، اس سے پہلے آپ کی مختلف نظمیں نظر افروز ہوئی تھیں، میں مدت سے آپ کی قادر الکلامی اور خوش فکری کا معترف ہوں، آپ کے کلام میں فلسفیانہ خیالات جس خوبی و برجستگی سے ادا ہوتے ہیں اس کی مثالیں اردو میں کم ملتی ہیں‘‘۔
معارف نومبر ۱۹۲۵ء میں مرحوم اور ان کے گھر کی شاعرانہ لیاقت و قابلیت کا ذکر بسلسلہ سفر مدراس کیا گیا تھا اور اسی کے پس و پیش زمانہ میں مثلاً اپریل ۱۹۳۰ء میں ان کی کچھ نظمیں بھی معارف میں نکلی ہیں۔دکن میں مولانا شاطر جیسے اردو کے حکیم شاعر کا وجود اس زبان کی عالمگیری کی دلیل قاطع تھی جس نے چالیس برس تک اہل دکن کو اپنی خوش نوائیوں سے مسرور و محسوس رکھا، افسوس کہ اس سرزمین دکن کا یہ بلبل شیریں نواب ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔ (سید سلیمان ندوی، جون ۱۹۴۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |