Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانااشرف علی تھانوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانااشرف علی تھانوی
ARI Id

1676046599977_54337938

Access

Open/Free Access

Pages

130

مولانا اشرف علی تھانویؒ
محفل دوشیں کا وہ چراغ سحر جو کئی سال سے ضعف و مرض کے جھونکوں سے بجھ بجھ کر سنبھل جاتا تھا بالآخر ۸۲ سال ۳ ماہ ۱۰ روز جل کر ۱۵؍ رجب ۱۳۶۲؁ھ کی شب کو ہمیشہ کے لئے بجھ گیا۔
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
یعنی حکیم امت، مجددِ طریقت، شیخ الکل حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مرض ضعف و اسہال میں کئی ماہ علیل رہ کر ۱۹ اور ۲۰ جولائی کی درمیانی شب کو ۱۰ بجے نماز عشاء کے وقت اس دارفانی کو الوداع کہا، اور اپنے لاکھوں معتقدوں اور مریدوں اور مستفیدوں کو غمگین و مہجور چھوڑا، انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اب اس دور کا بالکلیہ خاتمہ ہوگیا جو حضرت شاہ امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی، مولانا یعقوب صاحب نانوتوی، مولانا قاسم صاحب نانوتوی، مولانا شیخ محمد صاحب تھانوی کی یادگار تھا، اور جس کی ذات میں حضرات چشت اور حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت سید احمد بریلوی کی نسبتیں یکجا تھیں، جس کا سینہ چشتی ذوق و عشق اور مجددی سکون و محبت کا مجمع الجرین تھا، جس کی زبان شریعت و طریقت کی وحدت کی ترجمان تھی، جس کے قلم نے فقہ و تصوف کو ایک مدت کی ہنگامہ آرائی کے بعد باہم ہم آغوش کیا تھا اور جس کے فیض نے تقریباً نصف صدی تک اﷲ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے اپنی تعلیم و تربیت اور تزکیہ و ہدایت سے ایک عالم کو مستفید بنا رکھا تھا، اور جس نے اپنی تحریر و تقریر سے حقائق ایمانی، دقائق فقہی، اسرارِ احسانی اور رموزِ حکمتِ ربانی کو برملا فاش کیا تھا، اور اسی لئے دنیا نے اس کو حکیم الامت کہہ کر پکارا، اور حقیقت یہ ہے کہ اس اشرف زمانہ کے لئے یہ خطاب عین حقیقت تھا۔
سوانح: حضرت کی پیدائش ۵؍ ربیع الثانی ۱۲۸۰؁ھ کو چہارشنبہ کے دن ہوئی، ابتدائی عربی تعلیم تھانہ بھون میں مولانا فتح محمد صاحب تھانوی سے حاصل کی ۱۲۹۵؁ھ سے شروع ۱۳۰۱؁ھ تک مدرسہ دیوبند میں رہ کر مولانا یعقوب صاحب کے حلقہ میں تکمیل کی، فراغت کے بعد ہی ۱۳۰۱؁ھ میں مدرس ہو کر کانپور آگئے اور چودہ سال یہاں مقیم رہے اور اپنے درس، مواعظ اور فتاوی سے لوگوں کو مستفید کیا۔
حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کے ذریعہ سے بواسطہ خط کے غائبانہ بیعت مہاجر الی اﷲ حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی رحمتہ اﷲ علیہ سے ۱۲۹۹؁ھ میں ہوچکی تھی، لیکن ۱۳۰۱؁ھ کے آخر میں ایام حج میں بعد حج حضرت حاجی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں اخذ فیض فرمایا، اور واپس آکر ۱۳۰۶؁ھ تک علمی مشاغل تصنیف و تالیف اور تدریس کے ساتھ ذکر و شغل بھی ضمناً معمول رہا، مگر ۱۳۰۷؁ھ میں رنگ نے پلٹا کھایا اور یہ رنگ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ ۱۳۱۰؁ھ میں مضطربانہ اور والہانہ حج کا دوبارہ ارادہ کیا، اور حضرت حاجی صاحب کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر دوبارہ ایک زمانہ خاص تک رہ کر استفادہ باطنی فرمایا، واپس آکر ۱۳۱۴؁ھ تک پھر کان پور میں رہے، آخر حضرت حاجی صاحب کے مشورہ کے مطابق ۱۳۱۵؁ھ میں کانپور سے ترک تعلق فرما کر تھانہ بھون میں متوکلانہ اقامت فرمائی، اور اس وقت سے لے کر آخری وقت تک یعنی اس ۱۳۶۲؁ھ تک اسی شان سے خانقاہ امدادیہ کی سہ دری میں بیٹھ کر افادہ و افاضہ میں برابر مصروف رہے اور ایک خلق کو اپنی برکات سے بہرہ مند فرمایا، اس اثناء میں اپنی مواعظ، تصانیف و ملفوظات سے لاکھوں کو انسان، ہزاروں کو مسلمان اور سیکٹروں کو متقی کامل بنادیا، اور حضرت حاجی صاحبؒ کی یہ دعا یا پیشنگوئی پوری ہوئی۔
’’بہتر ہوا کہ آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے، امید ہے کہ آپ سے خلائق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ و مسجد کو ازسرِ نو آباد کریں، میں ہر وقت آپ کے حال میں دعا کرتا ہوں اور خیال رہتا ہے‘‘۔ (۱۲؍ ربیع الثانی ۱۳۱۵؁ھ)
تصانیف:حضرتؒ کی تصانیف و رسائل کی تعداد آٹھ سو کے قریب ہے، اور کل کی کل تحقیقات علمیہ حقائق دینیہ اور نکات احسانیہ سے لبریز ہیں، ان میں تفسیر البیان، شرح مثنوی، فتاوی امدادیہ، التعرف الی التصوف اور بہشتی زیور وغیرہ کتابیں کئی کئی جلدوں میں ہیں، ملفوظات اور مواعظ و خطابت کی تعداد سیکٹروں کی حد تک ہے، ان تصانیف میں قرآن پاک کی مشکل آیات کریمہ کی تفسیر احادیث شریف کی شرح، فقہ کے مشکل مسائل کا جواب، سلوک طریقت کے نکتے، اخلاقی فضائل و رذائل کی حکیمانہ تحقیق اور اُن کے حصول و ازالہ کی تدابیر اور زمانہ حال کے شکوک و شبہات کے جوابات سب کچھ ہیں، تصانیف میں متفرق علوم و مسائل اس کثرت سے ہیں کہ اگر اُن سے کسی ایک موضوع کے مباحث کو علیحدہ علیحدہ کیا جائے تو ایک ایک مستقل کتاب بن جائیں، چنانچہ حضرت کے تربیت یافتوں نے اس قسم کے بیسیوں مجموعے تیار کئے ہیں، سب سے آخر میں اس قسم کا مجموعہ ’’بوادر النوادر‘‘ کے نام سے ایک ہزار صفحوں میں چھپ کر شائع ہوا ہے، خطوط کے جوابات کا جن کے متعلق وفات کے دن تک اہتمام یہ رہا کہ آج کے خط کا جواب کل کے لئے اٹھانہ رکھا جائے عظیم الشان دفتر الگ ہے۔
تصنیفات میں بلکہ ہر تحریر میں اہل نظر کو یہ معلوم ہوگا کہ گویا مصنف کے سامنے سارے مسائل و مواد یکجا ہیں، اور وہ سب کو اپنی اپنی جگہ احتیاط سے رکھتا جاتا ہے، عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ مصنف جس موضوع پر قلم اٹھاتا ہے اس کو اس میں ایسا غلو ہوجاتا ہے کہ دوسرے گوشوں سے اس کو ذہول ہوجاتا ہے، حضرت کی تصانیف کی خاص بات یہ ہے کہ قلم ہر ایک کی احتیاط اور رعایت کر کے اور غلو سے بچ کر اس طرح نکلتا ہے کہ جاننے والوں پر حیرت چھا جاتی ہے حضرت کا ترجمہ قرآن پاک تاثیر، سہولت بیان اور وضوح مطالب میں اپنی آپ نظیر ہے، بہشتی زیور کہنے کو تو عورتوں کی کتاب ہے، مگر فقہ حنفی کی ضروریات کے لئے انتہائی احتیاط و کاوش کا نتیجہ ہے، تفسیر القرآن کو یوں سمجھنا چاہئے کہ روح المعانی اور تفاسیر ماسبق کی اردو میں حد درجہ محتاطانہ ترجمان ہے، سلوک و طریقت کی کتابوں کا بھی یہی حال ہے۔
حضرت کی تجدید طریقت کا بڑا کمال یہ ہے کہ طریقت کو جو ایک زمانہ سے صرف چند رسوم کا مجموعہ ہوکر رہ گئی تھی، اس کو زوائد و حواشی سے صاف کرکے قدماء اور سلف صالحین کے رنگ پر لے آئے۔
کبھی فرصت سے سن لینا بڑی ہے داستان میری
علالتِ طبع:حضرت کی صحت ادھر چند سال سے روبانحطاط تھی، دو دفعہ خاص علاج کی غرض سے لکھنؤ تشریف لانا ہوا، اور دونوں دفعہ صحت و عافیت کے ساتھ مراجعت ہوئی، علالت اصلی یہ تھی کہ معدہ و جگر کا فعل صحیح نہیں رہا تھا، علاج سے طبع مبارک اصلاح پذیر ہوجاتی تھی، مگر بالکلیہ ازالہ نہیں ہوتا تھا، اس دفعہ دو تین ماہ سے طبیعت پر اضمحلال طاری تھا، چنانچہ علاج کے لئے سہارنپور تشریف لے گئے اور چند روز قیام فرماکر واپس تشریف لے گئے، لیکن طبعیت صاف نہیں ہوئی، وطن میں حکیم سعید صاحب گنگوہی کا علاج شروع ہوا، اور ورم جگر و معدہ کا مرض تشخیص ہوا، مگر فائدہ نہ ہوا، اشتہاساقط تھی، روزانہ اسہال کی تعداد چالیس پچاس تک پہنچ گئی اور ضعف روز بروز بڑھتا گیا، وصال سے قریب بیس روز پہلے حکیم خلیل صاحب سہارنپوری کا علاج شروع ہوا، ضعف معدہ اور ضعف جگر کی تجویز تھی، حکیم صاحب کے علاج سے دستوں میں کمی آگئی، مگر اشتہا بالکل ہی ساقط تھی، اور ضعف میں ترقی ہی ہوتی رہی۔
میری آخری حاضری: خاکسار جون کے آخر میں اپنے مستقر سے تھانہ بھون اور پھر بھوپال کے ارادہ سے روانہ ہوا، لیکن لکھنؤ پہنچ کر دارالعلوم ندوہ کے معاملات نے الجھالیا، لکھنؤ میں ہر روز حضرت کی شدت علالت کی اطلاعیں آرہی تھیں، حضرت کے ہزاروں معتقدوں کی طرح خاکسار بھی زیارت کے لئے بے چین تھا، حضرت کی طرف سے سخت قدغن تھی کہ باہر لوگوں کو اس شدت علالت اور کیفیت مزاج کی کوئی اطلاع نہ دیجائی تاکہ مخلصین میں اضطراب نہ پیدا ہو اور وہ سفر کی زحمت نہ اُٹھائیں، جو پہنچ جاتے تھے عام طور سے بطور تنبیہ ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں ملتی تھی، اس پر بھی خاکسار خلاف دستور بے اطلاع ۶؍ جولائی کو لکھنؤ سے روانہ ہوگیا، اور ۷؍ کی دوپہر کو عین بارش کی حالت میں اسٹیشن سے خانقاہ تک پیادہ پابھیگتے ہوئے پہنچا، دریافت حال سے معلوم ہوا کہ افاقہ کی صورت ہے جس سے تسکین ہوئی، میرا اس طرح خلاف دستور بے اطلاع اچانک پہنچ جانا حضرت کے لئے تعجب کا موجب ہوا، میری آمد کے خبر دینے والے سے پوچھا ’’تم مولوی سلیمان کو پہچانتے بھی ہو یا یونہی کہہ رہے ہو‘‘ اس نے اثبات میں جواب دیا تو ارشاد ہوا کہ ان کی عادت بے اطلاع آنے کی نہ تھی، حضرت کے عزیز خاص مولانا جمیل احمد صاحب نے عرض کی کہ حضرت کی علالت کی خبر سن کر چلے آئے ہوں گے، نماز ظہر کے بعد مجلس میں حاضری ہوئی، ضعف سے بستر پر لیٹے تھے، مصافحہ فرمایا، خاکسار نے دستِ مبارک کو بوسہ دیا، شفقت سے بشاشت ظاہر فرمائی، سفر کا حال پوچھا، کسی خادم کے ساتھ نہ لینے پر نصیحت فرمائی، قیام کے دن پوچھے، خاکسار نے بھوپال کے سفر کی ضرورت ظاہر کی کہ سرکار بھوپال نے اپنی ریاست میں مسلمان عورتوں کے طلاق و تفریق کے مسائل کے طے کرنے کے لئے علماء اور اہل قانون کی ایک مجلس مقرر کی ہے اُسی کی شرکت کے لئے مع مولانا مفتی کفایت اﷲ صاحب یہاں سے جانا چاہتا ہوں، اس لئے مجلس کی تاریخ کی اطلاع تک یہاں چند روز رہنا چاہتا ہوں۔
فرمایا اﷲ تعالیٰ والیہ بھوپال پر رحمت فرمائے کہ انہوں نے مسلمان عورتوں کے حال پر رحم کھایا، خاکسار نے عرض کی کہ حضرت وہاں اب والیہ نہیں، والی ہیں، فرمایا ٹھیک ہے، غرض اس حالت میں بھی کہ ضعف پوری شدت پر تھا تکلم میں تکلف تھا، پھر بھی حاضرین مجلس پر شفقت فرماکر ملفوظات سے ذرا تھم تھم کر بہرہ ور فرمارہے تھے، اور لوگوں کے آئے ہوئے خطوط سن رہے تھے، اور بدستور جواب لکھوارہے تھے، بلکہ بعض خطوط پر خود دست مبارک سے بھی لکھ دیتے تھے، کبھی جو قوت پاتے اور اس وقت کام کرنے لگتے یا ملفوظات ارشاد فرمانے لگتے تو تھوڑی دیر کے لئے حاضرین کو یہ خیال ہونے لگتا کہ حضرت بیمار ہی نہیں، مگر ادھر جوش بیان کم ہوا، اور اُدھر سرتکیہ پر رکھ دیا، ہمیشہ کی عادت یہ تھی کہ بڑا تکیہ پیٹھ سے لگا کر سر کو بے سہارے اونچا رکھتے تھے، یہی حال اس وقت بھی تھا، دیکھنے والوں کو تکلیف معلوم ہوتی اور اس مشورہ کو جی چاہتا تھا کہ دوسرا تکیہ اور رکھ کر اس پر حضرت سرِ مبارک کو رکھ لیں چنانچہ میں نے اپنی نادانی سے یہ عرض کیا تو ارشاد ہوا نہیں اس کی حاجت نہیں، بعد کو خواجہ صاحب (خواجہ عزیزالحسن غوری ریٹائرڈ انسپکٹر آف اسکولس یوپی) جو حضرت کے خلیفہ خاص، محرم خاص بلکہ خادم خاص ہیں نے فرمایا کہ حضرت کی ہمیشہ کی عادت یہی ہے، اس ضعف و اضمحلال کی حالت میں بھی مجلس کا وقار، نظم و ضبط اور اصول و قواعد کی پابندی بدستور جاری تھی، اور آخری لمحۂ حیات تک اس میں فرق نہیں آیا۔
عصر کے وقت مجلس برخاست ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ کھانے کے الگ انتظام کی ضرورت نہیں، چند روز کے مہمانوں کے لئے اس کی ضرورت نہیں، بڑے گھر سے کھانا جائے گا اور ایک خادم خاص کو اس کی ہدایت فرمائی، اس ناسزاوار کے لئے تو یہ خیر و برکت کا سامان تھا، یہ بھی ارشاد ہوا کہ جب چاہو اور جس وقت چاہو آسکتے ہو کوئی قید نہیں، یہاں سے اٹھ کر جب خانقاہ پہنچا تو بعد نماز حضرت والا کی طرف سے حضرت کی آخری تصنیف بوادر النوادر کا ایک نسخہ مولانا جمیل احمد صاحب نے ہدیہ لا کر عنایت فرمایا اور یہ ارشاد سامی پہنچایا کہ میرے مضامین سے اقتباسات جمع کر کے شائع کرو، اس حکم کو اپنی ہدایت و رہنمائی کا نسخہ سمجھ کر اپنی سعادت کا اظہار کیا، دوسرے دن حاضری کے موقع پر حضرت نے اپنی زبان مبارک سے خود یہ ارشاد فرمانا چاہا تو خاکسار نے حضرت کی زحمت تکلم کے خیال سے عرض کیا کہ یہ ارشاد مبارک مولانا جمیل احمد صاحب کے ذریعہ پہنچ چکا، مگر وہاں سے اُٹھنے کے بعد مولانا جمیل صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ حضرت کا مقصود کیا ہے، یعنی اس کتاب بوادر سے اقتباس یا عام کتابوں سے انہوں نے فرمایا اس کو میں نے اچھی طرح خود بھی نہیں سمجھا، بعد کی حاضری میں موقع پاکر میں نے تفصیل چاہی تو ارشاد ہوا نہیں عام کتابوں میں جو مضمون مفید نظر آئیں ان کو یکجا کرلیا کرو۔
آخری حالات: میری حاضری ۷؍ جولائی سے ۱۱؍ جولائی کی دوپہر تک رہی، اشتہاء کا سقوط اور ضعف کا استیلأ اپنی حالت پر رہا، دست پانچ چھ، سات تک آتے رہے، مزید یہ کہ ہاتھوں اور پاؤں پر ورم تھا، ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کے ناخنوں میں نیلا ہٹ نمودار ہوگئی تھی جو باعث تشویش تھی، دو روز کے بعد اس میں کمی آگئی، مگر وفات کے چند روز پیشتر وہ پھر عود کر آئی تھی۔
خدمت اور خاص کر رات کے وقت نوبت بہ نوبت جاگ کر خدمت کی سعادت خدام خاص کی خدمت میں آئی جس میں پہلا درجہ خواجہ صاحب کا ہے، ان کے علاوہ مولانا جمیل احمد صاحب، بندو میاں، (ملازم نواب صاحب باغپت) اور مولوی شبلی صاحب جو نپوری نے اس خدمت خاص کی سعادت اخیر تک پائی، بعد کو مولانا ظفر احمد صاحب بھی ڈھاکہ سے آکر اس میں شامل ہوگئے۔
حاضری کے دوسرے یا تیسرے دن استفساء ہوا کہ کھانا تو مزاج کے مطابق ہوتا ہے غرض کہ بالکل مطابق ہے، کس تواضع اور کس شفقت اور کس بلاغت سے ارشاد ہوا کہ میں معافی کا خواستگار نہیں، مستحق ہوں، اس نکتہ پر اہل نظر نے تحسین کی سعادت پائی کہ ضعف و نقاہت کے اس عالم میں بھی دل و دماغ ناقصوں کی تربیت میں مصروف ہیں اور اکرام ضیف کا نمونہ پیش کیا جارہا ہے۔
دو تین واقعے ذکر کے قابل ہیں، اسی اثنائے حاضری میں بنگال سے ایک متعقد با اخلاص کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جب نبیؐ کی وفات کا وقت آتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو اختیار دیتے ہیں کہ خواہ وہ دنیا میں رہنا پسند کرے یا اﷲ تعالیٰ کے یہاں جانا، یہ تمہید لکھ کر اس میں تھا کہ میرے اعتقاد میں بنیؐ کے متبعین خاص کو بھی اس اختیار خاص سے حسبِ استعداد حصہ ملتا ہوگا، اس لئے عرض ہے کہ ہم ناقصوں کی تربیت کے لئے حضرت والا چند روز اور اس دنیا میں قیام منظور فرمائیں خط کے جواب میں لکھوا دیا ’’تم اپنے دماغ کا کسی حاذق طبیب سے علاج کراؤ‘‘ پھر حاضرین سے خطاب کرکے فرمایا ’’اول تو یہ ثابت نہیں کہ جو انبیاؐ (علیم السلام) کو ملتا ہے اس میں اولیاء و مشائخ کو بھی حصہ ضرور ہی ملتا ہے‘‘۔ اور اس کے بعد فرمایا ’’اور اگر ایسا بھی ہو تو ان انبیاء نے کیا کیا؟ (یعنی اﷲ تعالیٰ کے قرب ہی کو حیات دنیا پر ترجیح دی) ایک دفعہ بعد ظہر خط لکھوا کر فارغ ہوچکے تھے کہ اونگھ آگئی، ہشیار ہوئے تو فرمایا کہ ایسا معلوم ہوا کہ اس تخت پر ایک لفافہ رکھا ہے جس پر عبدالعزیز لکھا ہے، خواجہ صاحب نے عرض کی ابھی حضرت نے خطوط لکھوائے ہیں وہی خیال قائم رہا۔ ارشاد ہوا ہاں یہ سچ ہے مگر عبدالعزیز نام کیوں ہے، بات ختم ہوگئی، مجلس کے برخاست کے بعد خواجہ صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی کی عمر کیا تھی؟ میں نے کہا اسی (۸۰) بیاسی (۸۲) برس یاد آتا ہے۔ (اب دارلمصنفین آکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ شاہ صاحبؒ کی عمر شریف اکاسی برس کے قریب یعنی اسی برس کچھ مہینے ہوئی ہے بہرحال اس سے خواجہ صاحب کی نکتہ شناس نظر حضرت شاہ صاحبؒ کے تشابہ حال پر پہنچ گئی)۔
ہر چند یہ تاکید تھی کہ شدت علالت کی اطلاع باہر کسی کو نہ دی جائے، احباب اشارات و تلمیحات اور اصطلاحات میں اپنے متعلقین اور دوستوں کو اطلاع دیتے تھے، غرض یہ تھی کہ زائرین ہجوم نہ کریں، اس پر بھی دور دور سے معتقدین آجاتے تھے، ایک صاحب نے پشاور سے آنے کی اطلاع کرائی، دوسرے نے گورکھپور سے کسی نے کسی اور دور مقام سے مگر ہر ایک سے یہی ارشاد ہوا کہ اجازت نامہ کہاں ہے جب وہ معذوری ظاہر کرتے اور اعترافِ قصور کرتے تو فرماتے تمہاری غلطی کا خمیازہ میں کیوں اٹھاؤں، پھر حاضرین کی طرف خطاب کرکے فرمایا، ان کو میں محروم کر کے بھی محروم نہیں کرتا ہوں، ایک سبق دے رہا ہوں ، پھراسی معنی کا خواجہ صاحب کا ایک مصرع پڑھا، پھر ارشاد فرمایا کہ ان کے ناکام واپس جانے کا یہ اثر ہوگا کہ اس کو سن کر دوسرے لوگ آنے سے رک جائیں گے اور اس سے ان کو فائدہ پہنچے گا، غرض یہ تھی کہ لوگ اس بیکار کی زحمت اور تکلیف سے خود بھی بچیں اور حضرت کو بھی ہجوم سے بچائیں۔
ایک روز بعد مغرب یاد فرمایا اور مشورہ چاہا کہ اشتہا مطلق نہیں اور ضعف بڑھ رہا ہے گو میں اس کے نتیجہ پر راضی ہوں، مگر بہرحال اگر اس کی تدبیر کوئی ضروری ہو تو کرنا چاہئے، اس اثناء میں خیال ظاہر فرمایا کہ ’’لکھنؤ میں ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب (ناظم ندوہ) کو (جو مزاج شناس تھے) لکھا جائے کہ صرف اشتہا پیدا ہونے کے لئے کوئی نسخہ تجویز کریں‘‘، خاکسار نے عرض کی کہ حضرت چار روز خط کے جانے میں اور چار روز آنے میں لگیں گے، اتنی دیر بہت ہے، پھر رائے ہوئی کہ سہارنپور میں کوئی اچھا ڈاکٹر ہو تو بلایا جائے، مگر دوسرے ہی دن مولوی محمد حسن صاحب اور دوسرے احباب لکھنؤ کا خط آیا کہ حکیم عبدالمجید صاحب لکھنوی جن کے علاج سے پہلے بھی فائدہ ہوچکا تھا اگر اجازت ہو تو ان کو لے کر حاضر ہوں، چنانچہ اجازت کا خط لکھا گیا طالبین کے خطوط بدستور آرہے تھے، لوگ حسب دستور ہدایا منی آرڈر سے بھیج رہے تھے، مگر شدت احتیاط بدستور قائم تھی اور وہ واپس ہورہے تھے، مگر اخلاص و صحبت کے سرمایہ کو بہت خوشی سے قبول فرما لیتے تھے، ایک قریب کے نواب صاحب کی ایک رقم آئی تو قبول فرما کر ارشاد ہوا کہ ان لوگوں کا ممنون ہوں کہ وہ دے کر اُلٹے خود ممنون ہوتے ہیں کہ اس نے (اپنی ذات کی طرف اشارہ) قبول کیا، ایک غریب نے کچھ پیش کیا تو اﷲ اکبر اس کو آنکھوں سے لگایا۔
یہ نصیب اﷲ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
حضرت گو ضبط، صبر، اور استقامت سے اپنی تکالیف ظاہر نہیں فرماتے تھے اور نہ آئندہ کے خطرہ کو زبان پر لاتے تھے کہ دوسروں کو بے صبری نہ ہو، مگر بات بات سے سفر کی آمادگی ظاہر ہوتی تھی، گو اُن کی زندگی اور طرز زندگی جس صفائی، پاکیزگی اور باقاعدگی کی عادی تھی اس کا اثر یہ تھا کہ وقت آخر کے لئے کوئی کام اٹھا نہیں رکھا، کہ سالکِ کامل ہر لمحہ کو لمحہ آخر سمجھتا ہے اور اسی کی تیاری رکھتا ہے، یہی حال حضرتؒ کا تھا، کوئی چیز کرنی باقی نہ تھی، تمام انتظامات، حساب و کتاب اور وصایا سے پوری پوری فراغت تھی، عادت شریف تھی کہ آج کا کام کبھی کل پر اٹھا کر نہیں رکھا، گویا ہر وقت آمادۂ سفر تھے۔
خاکسار کو بھوپال کی مجلس کی تاریخ ۹؍ کو تار سے معلوم ہوچکی تھی، ۱۰؍ کو رفیق سفر مولانا مفتی کفایت اﷲ صاحب کا بھی مکرمت نامہ آگیا، ۱۱؍ کو صبح کی مجلس کے بعد رخصت کی درخواست پیش کی، باایں ہمہ ضعف و قوت لیٹے ہی لیٹے دونوں ہاتھ رخصت کے لئے بڑھائے، حقیر نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر دستِ مبارک کو بوسہ دیا اور آنکھوں کو ملا، آہ! کس بلا کا رخصتانہ تھا، فرمایا ’’جاؤ خدا کے سپرد کیا‘‘۔ یہ لفظ کانوں نے پہلے نہیں سنے تھے، آنکھیں ڈبدبا آئیں اور دیر تک چہرۂ مبارک پر جمی رہیں کہ یہ جمال جہاں آرا شاید پھر دیکھنے کو نہ ملے، سو ایسا ہی ہوا۔
بعد کے آخری حالات: خاکسار کے جانے کے دو ایک روز کے بعد حکیم عبدالمجید صاحب تشریف لے آئے اور علاج اپنے ہاتھ میں لیا، پہلے روز عرق دانہ انار دیا، دوسرے روز ایک بٹیر کی یخنی دلوائی، تیسرے روز دو بٹیروں کی، مگر حکیموں کی ہر مسیحائی تدبیر محکمہ تقدیر سے رد ہوتی رہی، حکیم صاحب کا ایک ہفتہ علاج رہا، مگر حالت میں تغیر نہیں ہوا، میں نے بھوپال سے مولانا جمیل احمد صاحب کو طلب خیریت کا خط لکھا جس کے جواب میں دو شنبہ کے روز یعنی جس کی آنے والی شب میں وفات ہوئی یہ تحریر فرمایا:
ـ’’حکیم عبدالمجید صاحب آئے تھے، ہفتہ پورا کر کے کل واپس جارہے ہیں، حکیم سمیع اﷲ (حضرت کے خلیفہ حقداد خاں صاحب لکھنوی کے صاحبزادہ) رہیں گے، علاج ان ہی دونوں کا ہے، افاقہ کی صورت نہیں، دست بہت ہے، ضعف بے حد ہے، سانس میں تکلیف ہے، بائیں پاؤں میں کل سے سخت درد ہے، ہم سب پریشان ہیں‘‘۔ (جمیل احمد، دوشنبہ)
لکھنؤ میں ثقات سے جو حاضر تھے معلوم ہوا کہ دو شنبہ کے روز دست زیادہ آئے، ظہر کے بعد ضعف زیادہ محسوس ہوا، عصر کے بعد مولانا شبیر علی صاحب کو (جو حضرت کے بھتیجے اور تمام امور خانقاہ و مدرسہ کے مہتمم و متولی تھے) یاد فرمایا، اطلاع دی گئی کہ وہ سہانپور دوا لانے گئے ہیں، محل خورد سے فرمایا کہ امانتوں کا صندوقچہ اٹھا لو (امانتیں وہ رقمیں تھیں جن کو اہل خیر حضرت کو وکیل بنا کر کارخیر کے لئے بھیجتے تھے) مختلف تھیلیاں مدوار ہوتی تھیں، ایک تھیلی میں بی بی صاحبہ نے عرض کیا کہ پانچ روپے ہیں، فرمایا چھ ہوں گے، چنانچہ ہاتھ ڈالا تو ایک روپیہ کا نوٹ اور نکلا، ارشاد فرمایا کہ یہ کل رقمیں ان کے مالکوں کو واپس کردی جائیں، یہ اس مسئلہ شرعی پر عمل تھا کہ وکیل یا موکل کی موت کے بعد وکالت ختم ہوجاتی ہے، اور ملک مالک کے تصرف میں واپس جانی چاہئے، مولانا ظفر احمد صاحب کو کاپنتے ہوئے ہاتھوں سے ایک کاغذ پر یہ بشارت نامہ لکھ کر وجعلنا ھا وابنھا ایۃ للعٰلمین [الانبیاء:۹۱] دیا اور فرمایا میں نے سب کو معاف کیا میں کسی کی طرف سے کوئی غبار لے کر نہیں جارہا ہوں ۔
مغرب کے بعد حالت اور زیادہ نازک ہوئی، سانس کی تنگی محسوس تھی، مولانا ظفر احمد صاحب نے ڈھاکہ واپس جاکر لکھا:
آپ تھانہ بھون سے بھوپال گئے، اور یہاں سخت بھونچال آگیا کہ حضرت حکیم الامت قدس اﷲ سرہ نے دارالبقا کی طرف ارتحال فرمایا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
کادت لھاشم الجبال تزول
یہ ناچیز آخری وقت تک حاضر خدمت رہا، دل پر پتھر رکھ کر بیٹھا رہا، قلب اطہر کی طرف متوجہ رہا، تشنگی رفع کرنے کے لئے آب زمزم دیتا رہا، یہاں تک کہ آخری سانس میرے سامنے ختم ہوا۔ یٰسین اور کلمہ کی تلقین کرتا رہا، غسل بھی دیا، نماز بھی پڑھائی۔
رات کے دس بجے تھے کہ عشاء کی نماز کے لئے خدام قریب کی حوض کی مسجد میں گئے کہ اسی اثنا میں وہ دم آگیا جس دم کے لئے ہر دم تیاری رہتی تھی، اور ودیعۂ حیات کی آخری سانس اس دنیا میں لے کر واصل بحق ہوئی، اللھم انزل علیہ شابیب رحمتک وارفع درجتہ وارزقنامن برکاتہ۔
اس وقت خدام خاص کی کیفیت خیال کے قابل ہے جو ایک طرف اپنے محبوب کے فراق میں بیقرار تھے، اور دوسری طرف مقام صبر و رضا کی تعلیم سے بہرہ ور تھے، اور حق تھا کہ حضرت سرور انبیا سید الرسل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع میں وہی کہیں جو حضورؐ نے اپنے محبوب فرزند ابراہیم کی وفات کے وقت ارشاد فرمایا تھا کہ ’’اے ابراہیم ہم تیری جدائی سے غم گین ہیں، لیکن زبان سے ہم وہی کہیں گے جس میں ہمارے پروردگار کی رضامندی ہو‘‘۔ تاکہ محبت اور تسلیم و رضا دونوں کا حق ادا ہو۔
تجہیز و تکفین کے متعلق یہی فیصلہ ہوا کہ صبح کو ہو، صبح کے وقت خبر کے لئے دو آدمی سہارنپور بھیجے گئے، ایک مدرسہ مظاہرالعلوم میں جس سے حضرت کو بہت روحانی تعلق تھا اور دوسرا سہارنپور کے احباب کے پاس اس صبح کی جانے والی اور آنے والی گاڑیوں میں آدھ ہی گھنٹہ کا فرق ہوتا ہے، اس لئے جو لوگ سننے کے ساتھ جس حال میں تھے اسی حال میں چل پڑے وہ تو پہلی گاڑی سے روانہ ہوسکے، مگر اس کے بعد بھی سیکڑوں آدمی اسٹیشن پر پہنچ گئے، چنانچہ دوسری اسپیشل ٹرین چھوڑی گئی اور قریب ڈیڑھ ہزار آدمی کے جنازہ کے وقت تک پہنچ سکے۔
حضرت نے ہر چیز کا انتظام پہلے سے کررکھا تھا، یعنی ایک زمین لے کر اس کا تکیہ یا قبرستان خاص بنا کر وقف کردیا تھا، ایک مختصر سے احاطہ کے اندر ایک زمین گھیر دی گئی تھی، جس میں کچھ درخت بھی لگادیئے گئے تھے، چھوٹی سی مسجد اور ایک مختصر سا سائبان بھی اس میں ہے، اسی میں دوسرے اعزہ اور خدام بھی آسودہ ہیں، اسی کے بیچ میں اس مخدوم کی استراحت ابدی کے لئے زمین چنی گئی۔
جنازہ کی نماز کے لئے مولانا شبیر علی صاحب نے مولانا ظفر احمد صاحب کو اشارہ کیا، مجھے معلوم ہوا کہ پہلے تو مولانا ظفر احمد صاحب نے تواضع کرنا چاہا، مگر انھیں اپنا خواب یاد آیا تو آگے بڑھ گئے اور نماز جنازہ ادا کی، میں نے سنا کہ مولانا ظفر احمد صاحب ڈھاکہ میں تھے اور حضرت کی شدت علالت کی خبر یں جارہی تھیں اور گھر سے آنے کے لئے شدید تقاضا بھی ہورہا تھا تو انہوں نے خواب دیکھا کہ وہ تھانہ بھون پہنچے اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ایک نماز پڑھانے والا آگیا۔
یہ واقعات تھانہ بھون میں ۱۹؍ اور ۲۰؍ جولائی کو پیش آئے مگر باہر والوں کو اطلاع دو دن بعد ملی، دہلی میں ۲۱؍ کو اور لکھنؤ میں ۲۲؍ کو مذہبی حلقوں میں اور عربی مدرسوں میں سناٹا چھا گیا۔
خاکسار اب تک بھوپال میں تھا، عنایت الٰہی دیکھئے کہ عین شب وصال کو خواب دیکھا کہ مولانا شبیر علی صاحب مجھ سے فرمارہے ہیں کہ حضرت مولانا کو پوری صحت ہوگئی، صبح اُٹھ کر میں نے حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اﷲ صاحب سے یہ خواب بیان کیا، دونوں چُپ رہے، مفتی صاحب ۲۱؍ جولائی کو اور خاکسار ۲۲؍ جولائی کو بھوپال سے روانہ ہوئے، میں ۲۳؍ کی دوپہر کو لکھنؤ پہنچا اور ندوہ آیا، حادثہ سے بالکل بے خبر تھا، مدرسہ پہنچنے کے ساتھ میرے بچہ سلمان سلمہ نے سب سے پہلے خبر دی، اور اتفاق دیکھئے کہ بھوپال سے خط تو میں نے خیریت کے لئے مولانا جمیل احمد کو لکھا تھا، چنانچہ انہوں نے دوشنبہ کے روز شدت علالت اور مایوسی کی اطلاع لکھی، اور اس کی دوسری طرف بلا توقع مولانا شبیر علی صاحب کے قلم کی عبارت یہ تھی۔
حضرت مخدوم معظم دام ظلکم العالی، السلام علیکم ورحمتہ اﷲ،
بعد تحریر خط ہذا ۱۹، ۲۰؍ جولائی کی درمیانی شب میں حضرت والاکا وصال ہوگیا، انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ بجز اطلاع کے اور کیا عرض کرسکتا ہوں، کیونکہ الفاظ اظہار کے لئے نہیں ملتے۔
مصیبت زدہ شبیر علی عفی عنہ از تھانہ بھون
۲۴؍ کو سہارنپور اور دہلی سے مولانا زکریا صاحب شیخ الحدیث مظاہرالعلوم سہارنپور اور مولانا الیاس صاحب کاندھلوی لکھنؤ دارلعلوم میں آئے تو مزید اطلاعات اور تفصیلات معلوم ہوئیں، ۲۶؍ جولائی کا لکھا ہوا مولانا مفتی کفایت اﷲ صاحب کا غم نامہ ملا۔
مکرم محترم، دامت معالیہم
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، امید ہے کہ آپ بھوپال سے واپس آگئے ہوں گے، میں نے دہلی پہنچ کر حضرت مولانا تھانوی کے وصال کی خبر سنی، آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھاگیا، فوراً یاد آیا کہ جس شب کو مولانا نے دنیا کو چھوڑا، یعنی دوشنبہ سہ شنبہ کی درمیانی شب اسی رات کی صبح کو جناب نے بھوپال میں مجھ سے ذکر کیا تھا کہ آپ نے مولوی شبیر علی صاحب کو خواب میں دیکھا کہ وہ کہہ رہے ہیں حضرت مولانا بالکل صحت یاب ہوگئے، آپ کا خواب سچا ہوا، مولانا نے دنیاوی تکالیف سے بالکل صحت پائی، اور رفیق اعلیٰ سے جاملے، انا ﷲ وانا الیہ راجعون، رحمہ اﷲ رحمۃً واسعۃ واسکنہ الفردوس الاعلی، ہندوستان ایک حکیم الامتہ مجددالملتہ سے محروم ہوگیا۔
حضرت کے ایک خلیفہ جن کو صدق رویا کی نعمت ملی ہے، وصال کی دوسری یا تیسری شب کو خواب میں دیکھا کہ حضرت فرمارہے ہیں کہ میرے فیوض اب بھی جاری رہیں گے، اﷲ تعالیٰ نے مجھے مقام شہداء (فرمایا یا مقام شہود) عطا فرمایا، حضرت نے اسہال کے مرض سے وفات فرمائی،اور حدیث نبوی ہے کہ والمبطون شھید، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے۔
مجھ سے مولوی محمد حسن صاحب کا کوروی (علیگ) مالک انوار المطابع لکھنؤ نے جو حضرت کے خدام قدیم میں سے ہیں بیان کیا اور انہوں نے خواجہ عزیز الحسن صاحب غوری بی اے (علیگ) سے سنا ان کو چھوٹی پیرانی صاحبہ سے معلوم ہوا (خواجہ صاحب کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں) کہ جس وقت روح مبارک پرواز کررہی تھی حضرت کے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کے بیچ میں ایک نگینہ سا چمکتا معلوم ہوتا تھا جس کو انہوں نے دیکھا اور دوسری عورتوں نے بھی دیکھا، محرم خاص حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ چونکہ جو نورِ ہدایت حضرت کے ذریعہ پھیلا وہ زیادہ تر ان کی انگلیوں یعنی تصنیفات کے ذریعہ سے پھیلا، اس لئے وہ نور انگلیوں ہی کے درمیان ممثل ہوکر نظر آیا، واﷲ اعلم بالصواب۔
حضرت کے بہت سے محبین کی طرح ایک محب خاص مولانا مسعود علی صاحب ندوی کو اس عقیدت و عظمت کی بنا پر جو ان کے دل میں تھی حضرت کی مغفرت کے لئے دعا مانگنے میں دلی کشمکش محسوس ہوتی تھی، انہوں نے خواب دیکھا کہ وہ خانقاہ تھانہ بھون میں حاضر ہیں کہ دفعتہ حضرت تشریف لے آئے اور ان سے فرمایا کہ میری صحت کے لئے دعا مانگا کرو۔
حل ایں نکتہ ہم ازروے نگار آخر شد
اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ایک کامل زندگی کو جو کمال زہد و ورع، کمال اتباع شرع، کمال اتباعِ سنت کے ساتھ تھی، اس زمانہ میں نمونہ کے لئے پیدا کیا، وہ آئی اور ساٹھ برس کے مجاہدہ کا نمونہ دکھا کر واپس گئی، رحمہ اﷲ تعالیٰ وادخلہ اعلیٰ علیین، وصلی اﷲ تعالیٰ علی البنی الامین والہ واصحابہ اجمعین واخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العلمین۔ (سید سلیمان ندوی،اگست ۱۹۴۳ء)

تصحیح: گزشتہ پرچہ میں موت العالم کے تحت میں مولانا شبیر علی صاحب کے یاد فرمانے کا ذکر ہے، اس کے بعد اضافہ یہ کیا جائے کہ ’’اسی کے ساتھ حضرتؒ نے مولانا ظفر احمد صاحب کو بھی یاد فرمایا مگر وہ بھی نہ تھے، مغرب کی نماز کو چلے گئے تھے‘‘۔
گذشتہ پرچہ میں جس بشارت نامہ کا ذکر ہے، وہ وفات سے دو دن پہلے کا واقعہ ہے، مولانا ظفر احمد صاحب ارقام فرماتے ہیں ’’وصال سے ۲ دن پہلے ظہر کے بعد جب حضرت مسلسل باتیں کررہے تھے اور طبیعت روبافاقہ معلوم ہورہی تھی، دس پندرہ آدمی مجلس میں حاضر تھے، فرمایا قلمدان لاؤ قلمدان پیش کیا گیا، اس میں سے ایک پرزہ نکال کر کانپتے ہوئے ہاتھ سے تحریر فرمایا، ھنیأً الکم انموذج آیۃ وجعلنا ہاوابنھا آیۃ للعالمین، پھر مجھے بلا کر یہ تحریر عطا فرمائی اور فرمایا مجھ سے صاف نہیں لکھا گیا، اگر نہ پڑھ سکو پھر لکھ دوں، عرض کیا حضرت کو اس کے لکھنے میں بہت کلفت ہوئی، دوبارہ تکلیف نہ دوں گا، صرف لفظ اول نہیں پڑھا گیا، اس کو زبانی فرمایا جائے، ارشاد فرمایا، ھنیأً الکم مبارکباد، اس پر میں نے خوشی ظاہر کی تو ہنس کر فرمایا، ہاں خوشی کی بات ہے گزشتہ معارف میں اس واقعہ کے ذکر کے بعد جو باقی عبارت ہے اس کا تعلق مولانا ظفر احمد صاحب سے نہیں دوسرے لوگوں سے ہے، عبارت میں میرے سہو قلم سے ابہام سا ہوگیا ہے جس پر ندامت ہے۔ (سید سلیمان ندوی، ستمبر ۱۹۴۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...