1676046599977_54337939
Open/Free Access
136
مولانا عنایت اﷲ صاحب دہلوی مرحوم
گزشتہ اکتوبر کو علمی جماعت کے پرانے ممتاز رکن مولوی عنایت اﷲ صاحب دہلوی مرحوم سابق ناظم دارالترجمہ حیدرآباد دکن نے انتقال کیا، مرحوم علی گڑھ کالج کے دور اول کے ممتاز تعلیم یافتہ تھے، علم و ادب کا مذاق اپنے نامور باپ مولوی ذکاء اﷲ صاحب دھلوی سے ورثہ میں پایا تھا، طالب علمی ہی کے زمانہ سے ان کے یہ جوہر نمایاں تھے، سرسید کے بہت سے علمی اور ترجمہ وغیرہ کے کام وہی انجام دیتے تھے، اس دور کے ان کے بعض تراجم اب تک یادگار ہیں، ان میں سب سے اہم پروفیسر آرنلڈ کی مشہور کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کا ترجمہ ’’دعوتِ اسلام‘‘ ہے، تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۸۹۳ء میں وہ کالج لائبریری کے لائبریرین مقرر ہوئے، کچھ دونوں تک ریاضی کی پروفیسری کی۔ اعزازی خدمت اور تہذیب الاخلاق کی ادارت کے فرائض انجام دیئے، ۱۹۰۰ء میں گورنمنٹ کے سلسلۂ ملازمت میں داخل ہوئے اور جونپور کی عدالت ججی میں منصرم مقرر ہوئے، ۱۹۱۵ء میں ریاست گوالیار نے گورنمنٹ سے ان کی خدمت مستعار لے کر اپنے شعبہ فنانس کا انڈر سکریٹری بنایا۔ دوران ملازمت میں ترجمہ کا مشعلہ برابر جاری رہا اور اس میں ان کو اتنی شہرت حاصل ہوگئی کہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے سلسلہ میں حیدرآباد میں جب دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا، تو گورنمنٹ نظام نے ان کو حیدرآباد میں منتقل کراکے ۱۹۲۰ء میں ان کو دارالترجمہ کا ناظم مقرر کیا، ۱۴ سال تک بڑی قابلیت کے ساتھ اس خدمت کو انجام دیتے رہے، ۱۹۳۴ء میں اس سے سبکدوشی حاصل کرکے دہرہ دون کی پر سکون فضا میں قیام اختیار کیا اور یہیں ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۴۳ء کو وفات پائی۔
مرحوم کا خاص کمال ترجمہ کی مہارت تھی، اس میں ان کو ایسا ملکہ حاصل تھا کہ غیر زبانوں کی کتابوں کو اس طرح اردو کے قالب میں ڈھالتے تھے کہ تصنیف کا گمان ہوتا تھا، انگریزی کتاب سامنے رکھ کر اس کا ترجمہ اس روانی کے ساتھ پڑھتے جاتے تھے کہ معلوم ہوتا اردو کی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ وہ ضخیم سے ضخیم کتابوں کا ترجمہ چند مہینوں میں کر ڈالتے تھے، ان کے چھوٹے بڑے تراجم کی تعداد جن میں نظمیں، قصے، کہانیاں، ناول، افسانے اور ڈرامے بھی ہیں اور سنجیدہ علمی اور تاریخی کتابیں بھی پچاس ساٹھ سے اوپر ہیں، ان میں بیشتر کتابیں شائع ہوچکی ہیں، پھر بھی اس کا معتدبہ حصہ ابھی قلمی مسودہ کی صورت میں ہے، مستقل تصانیف بہت کم ہیں، لیکن ان کے بہت سے تراجم کی افادی حیثیت بھی مستقل تصانیف سے کم نہیں ہے، ان کی سب سے اہم علمی خدمت اندلس کا تاریخی جغرافیہ ہے جو ان کی سالہا سال کی محنت کا نتیجہ ہے، جس محنت و تحقیق و تلاش و جستجو سے یہ کتاب لکھی گئی ہے اسکا اندازہ صرف اہل علم ہی کرسکتے ہیں، درحقیقت یہ جغرافیہ نہیں ہے بلکہ ایک حد تک اندلس کی اسلامی فتوحات اور اسکی ابتدائی دور کی تاریخ بھی ہے، وہ طبعاً بڑے شریف، متواضع اور خاکسار تھے، ۷۳ سال کی عمر پائی۔ شادی نہیں کی اور ساری عمر عروس علم کی خدمت میں گزاردی، اﷲ تعالیٰ اس شیفتۂ علم کو اپنی عنایت بے پایاں سے سرفراز فرمائے۔ (سید سلیمان ندوی، دسمبر ۱۹۴۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |