Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سیدمحفوظ علی بدایونی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سیدمحفوظ علی بدایونی
ARI Id

1676046599977_54337940

Access

Open/Free Access

Pages

136

سیّد محفوظ علی بدایونی مرحوم
اسی مہینہ میں ۲۰؍ اکتوبر کو ایک اور پرانے ادیب سید محفوظ علی صاحب بدایونی مرحوم نے فالج کے مرض میں انتقال کیا، مرحوم بدایوں کے ایک قدیم اور شریف خانوادہ کی یادگار علیگڑھ کالج کے ممتاز تعلیم یافتہ اپنے دور کے نامور ادیب اور علی گڑھ منتھلی، اولڈ بوائے، دکن ریویو، نقیب اور ہمدرد کے دور اول کے ممتاز لکھنے والوں میں تھے اور اس زمانہ میں ان کے مضامین بڑے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے تھے، وہ سنجیدہ اور ظریفانہ دونوں طرز کے شگفتہ نگار ادیب تھے، غالباً متفرق مضامین کے علاوہ کوئی مستقل قلمی یادگار نہیں چھوڑی، ادھر برسوں سے علم و ادب کا کوچہ چھوڑ کر خلوت گزینی کی زندگی اختیار کرلی تھی، وہ ابتداء سے بڑے دیندار اوظاہری وضع و قطع میں بھی پابند شریعت تھے، ناواقف شخص ان کو دیکھ کر انگریزی تعلیم یافتہ ہونے کا گمان بھی نہیں کرسکتا تھا اور یہ رنگ برابر گہرا ہوتا گیا، آخر میں بڑا ذوق و شوق اور بڑی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور اسی پر ان کا خاتمہ ہوا، اﷲ تعالیٰ اس طالب آخرت کو اپنی رحمت و مغفرت سے سرفراز فرمائے، ہماری پرانی بزم ادب کی شمعیں ایک ایک کرکے بجھتی جاتی ہیں، جو باقی ہیں وہ بھی شمع سحر ہیں اور جب تک ہیں غنیمت ہیں، ان کے بعد یہ روشنی بھی نظر نہ آئے گی۔
مرحوم مولانا شبلی مرحوم کے زمانہ میں علی گڑھ میں پڑھتے تھے، اس نسبت سے ان کو میرے ساتھ بھی یک گونہ محبت سی تھی اور خصوصیت کی ملاقات مرحوم دوست مولانا عبدالماجد صاحب بدایونی کی وساطت سے ہوئی اور ایسی ہوئی جو ان کے اخیر لمحہ تک قائم رہی، وہ اپنے مذہبی انقلاب کا ایک عجیب ظریفانہ واقعہ بیان فرماتے تھے۔
ایک دفعہ گرمیوں میں وہ علی گڑھ سے کہیں جارہے تھے، پیاس شدت کی تھی، گاڑی میں سوار ہوئے تو دیکھا ایک بزرگ نہایت ثقہ صورت اس میں بیٹھے تھے، سامنے نہایت نازک اور سبک صراحی جس پر سرخ یکرنگہ (ٹول) کا کپڑا منڈھا تھا اور آبخورہ بھی تھا، یہ داڑھی صاف علی گڑھ کے نوجوان تھے، پیاس کی طلب نے یہ صراحی دیکھ کر بیتاب کردیا تھا، صاحب صراحی سے پانی پینے کی اجازت چاہی، انہوں نے کہا کہ پہلے یہ تو معلوم ہوکہ آپ مسلمان بھی ہیں، میرصاحب نے کلمہ پڑھا، انہوں نے کہا کہ کلمہ تو ہندو بھی پڑھ دیتا ہے، یہ ظریفانہ شوخی کے ساتھ بولے تو اپنے اسلام کا ثبوت پیش کروں، وہ بزرگ بھی بڑے بے دھڑک نکلے، یہ ثبوت تو یہودی بھی پیش کرسکتا ہے، اب میرصاحب کا ترکش خالی ہوگیا، ہار مان لی، شرم سے پسینہ آگیا، آخر ان بزرگ نے پانی دیا اور انہوں نے پیا، اس ساقی کے ایک جام نے ان کے خیالات کی دنیا بدل دی۔
بعض اچھے سرکاری عہدوں پر رہے۔ افریقہ میں برطانی عہدہ دار ہوکر گئے کہتے تھے وہیں کی آب و ہوا نے وقت سے پہلے ان کو بوڑھا بنادیا اور سن سپید ہوگئے، ماشاء اﷲ بڑی نورانی صورت پائی تھی، سپید لمبی داڑھی، کبھی کبھی سرپر عمامہ باندھتے تھے۔
وہ کہتے تھے کہ ان کے بال افریقہ کے قیام کے زمانہ میں پک گئے اور جوانی ہی میں بوڑھے ہوگئے وہ افریقہ میں ایک برٹش آفیسر کی حیثیت سے گئے تھے، وہاں سے واپسی پر وہ حیدرآباد رہے، محمد علی مرحوم سے ان کی ملاقات اور تعلقات کی وابستگی علی گڑھ کالج کے زمانہ سے تھی، محمد علی مرحوم نے جب ہمدرد نکالا تو دوسرے لکھنے والوں کے ساتھ ان کو بھی اس اخبار میں زبردستی کھینچا، تجاہل عارفانہ کے نام سے علی گڑھ کے معاملات اور حاجی نواب اسحاق خان مرحوم کے خلاف جو مزاحیہ مضمون نکلا کرتا تھا، وہ مرحوم ہی کی جدت قلم کا نتیجہ تھا۔
اخیر میں اپنے گھر میں اپنی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہوکر رہ گئے تھے، اور دن رات اﷲ اﷲ کرنا ان کا کام رہ گیا تھا۔ (سید سلیمان ندوی، دسمبر ۱۹۴۳ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...