1676046599977_54337941
Open/Free Access
137
آہ! شمس العلماء مولانا محمد حفیظ اﷲ
سابق مدرس اعلیٰ دارالعلوم ندوہ
حضرت مولانا ابوالحسنات عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کی آخری یادگار مٹ گئی یعنی ان کے آخری شاگرد یعنی مولانا محمد حفیظ اﷲ صاحب، جو ان کی مجلس درس کی اکیلی یادگار رہ گئے تھے، ۱۳۶۲ھ کے خاتمۂ ماہ میں وفات پاگئے۔
مرحوم ۱۸۵۶ء کے آخر میں ضلع اعظم گڑھ کے چھوٹے سے گاؤں بندی میں پیدا ہوئے تھے، غدر ۱۸۵۷ء میں وہ ۶ ماہ کے تھے اور اسی قدر وہ مولانا شبلی نعمانی سے بڑے تھے، ابتدائی کتابیں گھر پر پڑھ کر وہ اپنے عزیز مولانا سلامت اﷲ صاحب جیراجپوری (والد حافظ اسلم صاحب جیراجپوری) کے ہمراہ بنارس تعلیم کے لئے گئے، وہاں سے واپس آکر مدرسہ چشمۂ رحمت غازی پور میں پڑھنے کے لئے گئے، وہاں فارسی کی اونچی کتابیں پڑھیں، اس زمانہ میں غازی پور میں حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب فرنگی محلی کے شاگرد رشید مولانا غلام جیلانی صاحب تھے، ان سے باصرار عربی کتابیں شروع کیں اور چند سال میں ان سے متوسطات تک پڑھ کر انہی کے مشورہ سے فرنگی محلی لکھنؤ میں مولانا ابولحسنات عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کی مجلس درس میں حاضر ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا، جب داروغہ حیدربخش کی مسجد جو چوک میں عربی اور طب پڑھے والوں کا گویا دارالاقامۃ تھا، نئی بن کر تیار ہوئی تھی، چنانچہ حضرت مولانا عبدالحئی صاحب کی سفارش سے ان کو اس کے حجرہ میں رہنے کی جگہ ملی، اور یہاں کئی سال رہ کر معقولات اور دینیات کی تعلیم حاصل کی، فراغت کے بعد جو غالباً ۱۸۸۰ء میں ہوئی ہوگی وہ کاکوری ضلع لکھنؤ کے ایک مقامی مدرسہ میں مدرس مقرر ہوئے، یہی سلسلہ ہے جس سے وہ جناب منشی احتشام علی مرحوم رئیس کاکوری سے ملے، کہ پھر ان کے دل الگ نہ ہوئے اگلے زمانہ میں دوستوں کی وضعداریاں، آج عجیب معلوم ہوتی ہیں، چند ہی سال کے بعد ریاست رامپور کے مشہور مدرسۂ عالیہ میں مدرس مقرر ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا جب کہ رامپور اہل علم کا مرکز تھا، مولانا عبدالحق خیرآبادی کا وہاں طوطی بول رہا تھا، اس عہد میں ان کا وہاں جانا اور اہل علم کی نگاہوں میں وقار پیدا کرنا معمولی کارنامہ نہیں، دونوں میں نواب صاحب کے سامنے ایک دفعہ کسی فلسفیانہ مسئلہ پر مناظرہ بھی ہوا، مولانا مرحوم کو زیادہ تر شوق معقولات ہی کا تھا، قدیم فلسفہ و منطق میں بڑی دسترس حاصل کی تھی، ساتھ ہی ریاضیات میں کمال پیدا کیا تھا، چنانچہ رامپور کے زمانۂ قیام میں تصریح پر ۱۳۱۲ھ میں حاشیہ لکھا، جو عام طور سے شائع ہے۔
رامپور کے زمانۂ قیام میں جنرل عظیم الدین مرحوم کا عہد دیکھا تھا، ان کے شجاعانہ کارنامے وہ خوب خوب بیان کرتے تھے، یہ تو رزم تھی، بزم میں جناب منشی امیر احمد صاحب مینائی مرحوم کی صحبت اٹھائی تھی، ان کے شاعرانہ کمالات اور بعض مشاعروں کے حالات بڑی دلچسپی سے سناتے تھے، آداب مجلس سے خوب واقف تھے اور بڑی مزہ دار باتیں کرتے تھے، لطائف و ظرافت کی بھی کمی نہ تھی، سیروشکار کا بھی شوق تھا، بڑے قادر انداز تھے۔
رامپور سے وہ لکھنؤ آئے اور دارالعلوم ندوہ کے افتتاح کے وقت ۱۳۱۷ھ میں وہ اس کے مہتمم اور مدرس اول مقرر ہوئے، جس پر وہ ۱۹۰۸ء تک فائز رہے، ہیچمدان نے اسی زمانہ میں ان سے مدرسہ دارالعلوم میں معقولات و منقولات کی کتابیں پڑھیں۔
مولانا شبلی مرحوم کے وہ معاصر تھے، اس لئے جب صحبت ہوتی تو دونوں میں خوب نوک جھونک ہوتی، گفتگو کا موضوع کوئی فلسفہ کا مسئلہ یا عقل و نقل کی تطبیق کی معرکہ آرائی ہوتی۔
دارالعلوم سے وہ ۱۹۰۸ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں گئے، ۱۹۲۱ء میں وہاں سے پنشن یاب ہوئے، اسی سال وہ حج کوگئے اور وہاں سے واپس آکر لوگوں کے اصرار سے دوبارہ ندوہ کی صدر مدرسی قبول کی اور کئی سال تک یہ خدمت انجام دینے کے بعد ۱۹۳۰ء میں ندوہ سے الگ ہوکر وطن واپس آگئے تھے اور یہیں ۷؍ ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ کو وفات پائی۔
مولانا عبدالحئی مرحوم کی شاگردی کے باوجود مرحوم آخر میں عامل بالحدیث ہوگئے تھے، عدم تقلید کا میلان پہلے سے رکھتے تھے، جو شاید مولوی سلامت اﷲ صاحب کی ابتدائی صحبت کا اثر رہا ہو، ان کی تصانیف میں تصریح الافلاک کا حاشیہ علمی یادگار ہے۔
۱۸۵۶ء کے آخر میں پیدا ہوئے تھے، اس حساب سے وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً ستاسی اٹھاسی سال کی تھی، لیکن دو چار سال پہلے ان کی صحت و توانائی قابل رشک تھی اور ان کے جسمانی قویٰ نہایت اچھے ہوتے تھے، ادھر چند برسوں سے البتہ ضعف و اضمحلال کا اثر نمایاں، اور آخری زمانہ میں ذہول و نسیان کا غلبہ زیادہ ہوگیا تھا۔
اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت و مغفرت سے سرفراز فرمائے۔
(سید سلیمان ندوی، جنوری ۱۹۴۴ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |