Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا سید محمد عیسیٰ الہ آبادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا سید محمد عیسیٰ الہ آبادی
ARI Id

1676046599977_54337942

Access

Open/Free Access

Pages

138

وفاتِ عیسیٰ الٰہ آبادی
حضرت مولانا سید محمد عیسیٰ صاحب الہ آبادی نے جو حضرت مولانا تھانویؒ کے اولین خلفا میں تھے، ۲۵؍ ربیع الاول ۱۳۶۳؁ھ مطابق ۲۱؍ مارچ ۱۹۴۳؁ء کی سہ پہر کو جونپور میں جہاں وہ بغرض علاج آئے تھے ۶۳ برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ خیال تھا کہ مرشد رحمۃ اﷲ علیہ کے بعد ان کی ذات مرجع انام بنے گی، مگر اﷲ تعالیٰ اپنی مصلحتوں کو آپ جانتا ہے، ان کا وطن محی الدین پور ضلع الہ آباد تھا، نسبتاً سادات کرام میں تھے اور گھر کے خوش حال زمیندار تھے، غالباً ۱۳۰۱؁ھ کی پیدائش ہوگی، بچپن ہی سے وہ زاہد و متقی تھے، باپ کے حکم سے انگریزی شروع کی اور بی اے تک پڑھ کر چھوڑ دیا اور ایک اسکول میں انگریزی کے ماسٹر اور آخر میں گورنمنٹ کالج الہ آباد میں عربی کے پروفیسر ہوگئے۔
نوجوان ہی تھے کہ الہ آباد کانپور میں حضرت مولانا تھانویؒ کے مواعظ سننے کا اتفاق ہوا، جو بات سنی، دل میں گھر کرتی چلی گئی اور روز بروز یہ نشہ تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ بیعت و ارادت سے مشرف ہوکر مجاہدہ ریاضت میں مصروف ہوئے، آخر تکمیل طریق کے بعد خلافت و اجازت سے سرفراز ہوئے۔
اﷲ تعالیٰ کی شان بندہ نوازی نظر آتی ہے کہ ایک انڈر گریجویٹ میں جس نے صرف انگریزی ہی کی تعلیم پائی تھی چند روز میں یہ انقلاب پیدا ہوا کہ اس نے اس عمر میں آکر سرکاری ملازمت کے ساتھ عربی تعلیم پوری کی اور قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا اور ساتھ ہی قرآن پاک حفظ کیا اور سیرت و صورت میں یہ رنگ پیدا کیا کہ کوئی دیکھ کر یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ انگریزی کا ایک لفظ بھی جانتا ہے۔
سلوک و طریقت، مسلک و مشرب، صورت و سیرت، حتیٰ کہ نشست و برخاست اور خط و کتابت اور گفتگو میں اپنے مرشد کاملؒ سے اس درجہ مشابہت حاصل کرلی تھی کہ ان کو دیکھ کر یہ کہنا پڑتا تھا۔
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
وہ نہایت ہی عابد، زاہد، متبع سنت اور مرشد کے اصولوں کے سختی سے پابند تھے، اطراف میں حلقۂ ارشاد بھی قائم تھا، اپنے مرشد کی متعدد کتابوں کے خلاصے اور شروح شائع کئے، جن میں سب سے اہم ’’انفاسِ عیسیٰ‘‘ ہے جو سلوک اشرفی کی معتبر ترین کتابوں میں ہے، مردوں کے لئے بہشتی زیور کا خلاصہ بہشتی ثمر کا نام سے کیا، جو مکاتب میں رائج ہوئی، تفسیر بیان القرآن کا خلاصہ مترجم قرآن کے حواشی کے طور پر کیا، جو الہ آبادی میں زیر طبع تھا، حضرت مولانا تھانویؒ کی کمالات امدادیہ کے طرز پر انہوں نے کمالات اشرفیہ لکھی جو فن سلوک و معرفت کے متعلق ان کی استعدا و صلاحیت کی آئینہ دار ہے۔ حدیث میں ازالۃ الوسن بالف من السنن اردو ترجمہ کے ساتھ ان کی مفید تالیف ہے زہد و ورع، اخلاق اور سلوک کی ایک ہزار حدیثیں جمع کی ہیں۔
صاحب مقامات مستجاب الدعوات اور واردات صحیحہ سے سرفراز تھے، کالج سے پنشن لینے کے بعد اپنے گاؤں میں مقیم ہوگئے تھے اور متوسلین کو اپنے رشد و ہدایت سے سیراب کرتے تھے، اسی عالم دو برس ہوئے کہ ایک شب تہجد کے لئے اٹھے تو فالج کا حملہ ہوا، اس کے بعد امسال دوسرا حملہ ہوا، جس کے بعد علاج کے لئے جونپور آئے، جہاں ۱۱؍ مارچ کو تیسرا حملہ ہوا اور زبان بند ہوگئی۔ وفات کے آخری لمحہ میں آخری بار زبان کھلی اور تین دفعہ بلند آواز سے اﷲ اﷲ کہا اور جان، جان آفرین کے سپرد کردی۔
عجیب بات یہ ہے کہ جونپور میں وہ بالکل مسافرانہ دارد تھے، لیکن حضرت مولانا تھانویؒ کے متعدد خلفاء مجازین اور صحب یافتہ بغیر کسی ظاہری داعیہ کے عین وقت پر پہنچ گئے۔ انہی میں سے ایک نے یٰسین پڑھی، ایک نے غسل دیا، ایک نے نماز جنازہ پڑھائی اور سب نے پڑھی اور دو نے قبر میں اتارا، جونپور ہی میں محلہ رضوی خان کی ایک اکبری مسجد کے عقب میں ۲ بجے رات کو تدفین عمل میں آئی، رحمہ اﷲ تعالیٰ۔
(سید سلیمان ندوی، اپریل ۱۹۴۴ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...