Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولوی محمدبہادر خاں(نواب بہادر یارجنگ)

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولوی محمدبہادر خاں(نواب بہادر یارجنگ)
ARI Id

1676046599977_54337943

Access

Open/Free Access

Pages

138

مولوی محمد بہادر خاں
(سابق نواب بہادر یارجنگ)
افسوس کہ گذشتہ مہینہ کی ۲۴؍ تاریخ کو مولوی محمد بہادر خاں (سابق نواب بہادر یار جنگ) نے حرکت قلب بند ہوجانے سے دفعتہ انتقال کیا، ان کی ناگہانی وفات نہ صرف حیدرآباد بلکہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لیے اندوہناک سانحہ ہے، مرحوم حیدرآباد کے ایک قدیم و ممتاز جاگیردار خانوادہ کے رکن، مخلص، دردمند اور علمی مسلمان، زبان آور خطیب، ریاست کے سچے وفادار، مسلمانوں کے غمگسار اور عام اہل ملک کے ہمدرد وبہی خواہ تھے، حیدرآباد کی ہر مفید اسلامی تحریک میں ان کا دست اعانت شامل رہتا تھا، وہ مجلس اتحاد المسلمین کے روحِ رواں اور آل انڈیا ریاستی مسلم لیگ کے بانی اور صدر تھے، ابھی کل ۴۱ سال کی عمر تھی جو قومی زندگی کے اعتبار سے بالکل نوجوانی کی عمر ہے، اس عمر میں مرحوم نے حیدرآباد کے مسلمانوں کی جو گوناگوں خدمات انجام دیں وہ کبھی فراموش نہ ہوں گی، اور اہل دکن کو مدتوں ان کا بدل نہ مل سکے گا، ملک و قوم کی خدمت کی خاطر انہوں نے اپنا خطاب اور جاگیرتک واپس کردی تھی، ان کی ذات سے بڑی توقعات تھیں،لیکن افسوس ان کی جوانمرگی سے اہل دکن کو ان کی صلاحیتوں اور خدمات سے فائدہ اٹھانے کا زیادہ موقع نہ مل سکا، اﷲ تعالیٰ اس مخلص خادم قوم کو اپنی رحمت و مغفرت کے انعام سے سرفراز فرمائے۔ (شاہ معین الدین ندوی، جولائی ۱۹۴۴ء)
اگست ۱۹۴۴ء
ایک بہادر مسلمان کی موت
چار پانچ ہفتے ہوئے میں ایک گاؤں میں تھا کہ دفعتہ ایک صاحب نے ایک انگریزی اخبار کے حوالہ سے نواب بہادر یار جنگ کی اچانک موت کی اطلاع دی، موت ہر وقت آتی ہے، اور ہر وقت آسکتی ہے، تاہم جن کے مرنے کو دل نہیں چاہتا، ان کے مرنے کی خبر کا یقین بھی دفعتہ نہیں آتا، ان کا ہشاش بشاش تبسم چہرہ، ان کا صحیح و تنومند جسم، ان کا خوبصورت اور دلفریب قد بالا، ہر چیز بجلی کی کوند کی طرح سامنے آئی، اور ان کی موت کی خبر کو جھٹلا کر چلی گئی، خود جا کر اخبار پڑھا، ورقوں کو الٹا پلٹا، روایت نے صدیق کی، اور صدق نے یقین کی، اور یقین نے آنسوؤں کی صورت اختیار کی، اور اناﷲ کے ساتھ دل کی گہرائی سے مغفرت کی دعا نکلی۔
مرحوم سے جان پہچان اور بار بار کی ملاقات تو بارہ تیرہ برس سے تھی، مگر ابھی اسی سال فروری مارچ اور وسط اپریل تک حیدرآباد میں دارالعلوم ندوہ کے سلسلہ سے تقریباً ان سے روزانہ ہی ملنا جلنا اور ساتھ ساتھ لوگوں کے پاس آنا جانا اور گھنٹوں بیٹھ کر ہر موضوع پر اظہار خیال کا اور ہر پہلو سے ان کے جانچنے اور پرکھنے کا موقع ہاتھ آیا، وہ ہر پہلو سے محبوب ہی نظر آئے ارادہ کے پکے، بات کے دھنی، مخلص وفادار، خدا ترس، عاشق رسولﷺ مجاہد اسلام، بہادر مسلمان سپاہی، اور ہر معنی میں سپاہی، بہادر پٹھان اور بہادر مسلمان۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ زبان کے تیز ہاتھوں کے کمزور ہوتے ہیں یعنی باتوں کے دھنی ہاتھوں کے سست ہوتے ہیں۔ مگر وہ زبان اور ہاتھ دونوں کے تیز تھے، اور اسی کا کرشمہ تھا کہ صرف چند سال کے اندر کشمیر کی پہاڑیوں سے لے کر دکن کے کناروں تک پورے ہندوستان پر چھاگئے۔
بارہ تیرہ سال گذرے ہوں گے کہ مجھے ان کا نام حیدرآباد میں پہلے پہل ایک مدراسی فاضل دوست افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق کے ایک تار میں جس کو کرنول سے انھوں نے حیدرآباد میرے نام بھیجا تھا نظر آیا اس تار میں مجھے نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ کرنول کے ایک جدید مدرسہ کے افتتاح میں بلایا تھا آنکھوں نے تار کی سطروں میں نواب بہادر یار جنگ کا نام پڑھا، دل نے کہا نواب! عیش کا پروردہ! دولت کا آفریدہ، راحت کا خوگر، محراب و منبر سے نا آشنا، وہ قومی و مذہبی مجالس کا ہیرو ہو، میرا قیام اپنے عزیز دوستوں مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی، و مولانا عبدالباری صاحب ندوی کے گھر میں تھا، میں نے ان سے حیرت کا اظہار کیا، مولانا گیلانی نے بڑھ کر ان کی تحسین کی، اور فرمایا جی ہاں میں انھیں بچپن سے جانتا ہوں خوب بولتے ہیں، اور بڑی دلنشین تقریر کرتے ہیں، اسکول میں جب پڑھتے تھے، مجھے بلا بلا کر اپنے جلسوں میں لے جاتے تھے، تقریر کے انعامی مقابلوں میں میں انھیں تمغے اور انعام دیا کرتا تھا، آج کل میلاد کی مجلسوں میں ان کی تقریریں بہت پسند کی جاتی ہیں، یہ وہ زمانہ تھا، جب نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی صدر الصدور دولتِ آصفیہ تھے، اور ان کے سبب سے میلاد کی محفلوں کی بڑی کثرت اور چہل پہل تھی، شستہ اور محتاط مقررین کی تلاش رہتی تھی، اس سلسلہ میں تازہ وارد نوجوان بہادر خاں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔
اتفاق دیکھئے کہ چند ہی روز بعد مہاراجہ کشن پرشاد آنجہانی صدر اعظم دولتِ آصفیہ کے یہاں دعوت ہوئی، بہت سے مہمان تھے، کھانے سے فرصت ہوئی، تو ایک خوبصورت سڈول نوجوان شروانی اور ترکی ٹوپی میں ملبوس، بے تکلفی کے ساتھ آگے بڑھا، اور ادب سے ہاتھ ملاکر گویا ہوا، میں خود اپنا تعارف کراتا ہوں میں ہوں آپ کا شاگرد بہادر خاں، آنکھوں نے حیرت سے صورت دیکھی، ناآشنا پایا، تفصیل پوچھی، فرمایا آپ کی کتابوں کو پڑھ کر علم پایا، اور خطبات مدراس کورٹ کر میلاد کی محفلوں کو گرمایا، ان کی اس تواضع سے دل شرمندہ ہوا، اور ان کی اس شرافت سے سننے والے کی گردن جھک گئی۔
اُن کی یہ تواضع اور خاکساری تنہائیوں ہی میں نہیں، ہزاروں کے مجمعوں میں اسی طرح ظاہر ہوتی تھی، مولانا گیلانی کے ساتھ ان کی ممونیت برملا ان کی زبان سے ظاہر ہوتی تھی، مولانا شروانی کی حوصلہ افزائیوں کا اعتراف علی گڑھ یونین کی پہلی تقریر میں خود میرے کانوں نے سنا، دارالمصنفین کی کتابوں کے احسان کی کہانی اسی سال مارچ میں دارالسلام حیدرآباد کے عظیم الشان جلسہ میں سب نے سنی۔
مرحوم کی تقریر میں فصاحت و بلاغت اور بدائع تینوں کے جوہر تھے، شاعری وہ نہیں کرتے تھے، مگر ان کی نثر شاعری کا نمونہ ہوتی تھی، ان کی تقریریں بار ہا سنیں، ان کی اساس تین چیزیں ہوتی تھیں، اسلامی تاریخ کے معلومات، اقبال کے اشعار، ابوالکلام کے الفاظ، انھوں نے اقبالؔ کو بہت پڑھا تھا، اور بہت سمجھ کر پڑھا تھا، بیشتر کلام ان کے حافظ کے خزانہ میں محفوظ تھا، جس کو وہ اپنی تقریروں میں بہت دلنشیں انداز میں موقع موقع سے پڑھتے تھے، اور حاضرین سے خراج تحسین وصول کرتے تھے۔
علی گڑھ یونیورسٹی یونین سے داد پانا آسان نہیں، یونین میں ان کی پہلی تقریر تھی، موضوع حیدرآباد میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت اور دعوائے اقتدار تھا، جب تک وہ تقریر کرتے رہے تاثیر کا دریا بہتا رہا اور ہر شخص کو تسکین ہوگئی کہ حیدرآبادی مسلمانوں کا دعویٰ بالکل صحیح ہے، ایک اچھے مقرر لیڈر کو یہ کہتے سنا کہ انھوں نے اپنے کیس کو بہت خوبی سے پیش کیا، طالب علموں نے ان پر تحسین و آفرین کے پھول برسائے یہ علی گڑھ میں ان کی پہلی جیت تھی۔
جس زمانہ میں حیدرآباد میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی پہلی شورش ہوئی، اور چند مسلمان کسی ہندو محلہ میں شہید کردئیے گئے، تو سارے حیدرآباد میں آگ سی لگ گئی تھی، ان شہیدوں کا جنازہ لاکھوں مسلمانوں نے بڑی دھوم سے اٹھایا، اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس مجمع کا جوش سارے شہر میں ہندوؤں کوتہ تیغ کئے بغیر ٹھنڈا نہ ہوگا، سر حیدری کی وزارت تھی، نواب بہادر یار جنگ کو تقریر کی ممانعت تھی، دم بدم مجمع کا جوش بڑھ رہا تھا، اور خطرہ سب کے سامنے تھا، اس وقت اعلیٰ حضرت نظام خلد اﷲ ملکہ کی اعلیٰ سیاست نے اس شخص کو جان لیا جو اس بھڑکتے ہوئے شعلہ پر پانی ڈال سکتا تھا، مرحوم کہتے تھے کہ میں اپنے گھر میں تھا کہ خود اعلیٰ حضرت نے مجھ سے ٹیلیفون پر ارشاد فرمایا، کہ بہادر خاں! میں تم سے خواہش کرتا ہوں کہ تم اس فتنہ کو فرو کرو، عرض کی اعلیٰ حضرت! یوں نہ فرمائیں بلکہ حکم دیں، فدوی ہتھیلی پر سر رکھ کر ابھی جاتا ہے، اور حکم شاہانہ بجالاتا ہے، چنانچہ وہ تنہا اس مجمع میں گئے، اور چند منٹ کی موثر تقریر میں سارا مجمع امن و سکون کے ساتھ منتشر ہوگیا، مسز سروجنی نائیڈو مکان کی چھت سے یہ سارا تماشا دیکھ رہی تھیں، انھوں نے بعد کو مرحوم سے کہا کہ میں نے امن و سلامتی کی حالت میں اسٹیج کے لیڈر اور مقرر تو بہت دیکھے ہیں، مگر انتقام کی آگ سے مشتعل اور جوش سے بھرے مجمع کو اس طرح قابو میں لے آنا والا لیڈر اور مقرر میں نے آج ہی دیکھا ۔
مرحوم کی تقریروں کا اصلی میدان مسلم لیگ کے اجلاس اور اتحاد المسلمین حیدر آباد کے جلسے ہوتے تھے، مرحوم کا مذاق مذہب آمیز سیاست تھا، اُن پر دینی سیاست کا راز کھل چکا تھا، اور وہ یہی راز سب کو بتانا چاہتے تھے، اور جیسے جیسے زمانہ گذرتا جاتا تھا، ان کا یہ رنگ تیز سے تیز تر ہوتا چلا جاتا تھا، یہاں تک کہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کراچی کے بعد سے لیگ کے خالص دنیاوی سیاسیوں پر ان کی تقریر بار ہونے لگی تھی۔
حیدرآباد میں اگر ان پچھلے چند برسوں کے اندر جب سرحیدری کی سیاست حیدرآباد کے دستور کی ترکیب و تحلیل میں مصروف تھی، نواب بہادر یار جنگ کا وجود نہ ہوتا، تو حیدرآباد کے نظم و نسق کا کچھ اور ہی انداز ہوگیا ہوتا، بیرونی ہندو لیڈروں اور دکن کے مرہٹوں نے ریاست کی امن دوست اور وفادار غیر مسلم رعایا کو بھڑکانے میں کوئی کمی نہیں کی، اور یہ دعویٰ کیا، کہ مردم شماری کے مطابق ریاست میں دونوں قوموں کے حقوق مانے جائیں، یہ سب کچھ ہورہا تھا مگر اس ملک کے مسلمان بالکل خواب غفلت میں تھے، اور بجز عیش و آرام ان کا کوئی دوسرا مشغلہ نہ تھا، وہاں کے مسلمان جاگیر دار جو اس ملک کی بڑی قوت ہیں محو استراحت تھے، دکن کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ صدیوں سے حکومت کے سر پر سارا بوجھ رکھ کر آرام طلبی اور بے فکری کے عادی ہوگئے ہیں، اس بیکاری سے ان کے دست و بازوشل اور قوائے عمل معطل ہیں، ان کا کوئی قومی تخیل اور سیاسی جذبہ زندہ نہیں رہا ہے، اور کسی حال میں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ ان کشور ستانوں کی یاد گار ہیں جنھوں نے اپنے کو بڑی مشکلوں میں ڈال کر دکن کی آصفی حکومت کو قائم کیا تھا۔
مرحوم کا بڑا کارنامہ اسی جذبہ کو زندہ کرنا تھا، انھوں نے جاگیر داروں کو جھنجھوڑ کر جگایا، اور بتایا کہ اگر انھوں نے اٹھ کر اپنی زندگی اور ملک کو اپنی ضرورت کا یقین نہیں دلایا، تو زمانہ کا سیلاب ان کے اقتدار کو بہا لے جائے گا، عام مسلمانوں کو یہ یاد دلایا، کہ یہ ملک تمھارا مفتوحہ اور مقبوضہ ملک ہے، اور تم بحیثیت قوم کے اس کے کشور کشا اور فاتح ہو، اور خانوادۂ آصفی کا سرتاج تمھاری حکومت کا نمائندہ، تمھاری طاقت کا مظہر، تمھاری بادشاہی کا ستون اور تمھاری وفاداری کا مرکز ہے۔
مرحوم نے اپنے اس سیاسی تخیل کی بنا پر تکلیفیں بھی اٹھائیں، ان پر پابندیاں بھی عائد ہوئیں انکے متعلق غلط فہمیاں بھی پیدا کرائی گئیں،تاہم انھوں نے ایثار کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا، یہاں تک کہ اپنے خطاب و منصب سے بھی دستبردار ہوگئے، اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
مرحوم کی کوششوں سے دکن کے مسلمانوں نے صدیوں کے آرام کے بعد کروٹ لی اور اتحاد المسلمین کے زیر سایہ ایک مرکز پر جمع ہوگئے، اس کی شاخیں سارے ممالک محروسہ میں قائم ہوگئیں، اس کی آواز نے ملت کی آواز کا رتبہ پایا، اس کے سالانہ اجلاس میں بیک دفعہ پچاس ہزار آدمی جمع ہوجاتے تھے۔
مرحوم کا خیال تھا اور بجا خیال تھا کہ کسی ملک کی سرکاری تعلیم سے قومی روح زندہ نہیں ہوسکتی اس لیے حیدرآباد میں وہ ایک خالص قومی اسلامی درسگاہ قائم کرنا چاہتے تھے، جو دکن میں اسلامی روح پیدا کرے اور جب تک یہ درس گاہ قائم نہ ہو، ایک اسلامی بورڈنگ کی بنا ڈالی جائے، جس میں شہر کے ہر اسکول و کالج کے مسلمان طلبہ اقامت پذیر ہوں، اور وہ بورڈنگ کی تعلیم و تربیت میں رہیں، چنانچہ انھوں نے پچھلے ہی سال قومی چندہ سے ایک لاکھ میں حیدرآباد کے گویا وسط میں ایک بہت بڑی عمارت خریدی جس میں آئندہ تعمیرات کے لیے بہت بڑی وسعت ہے یہی عمارت دارالسلام کہلاتی ہے، اور یہی ان کے اتحاد المسلمین کا مرکزی دفتر ہے اسی عمارت میں ایک قومی کتب خانہ اور ایک اسلامی دارالاقامہ اور علوم مشرقیہ کی ایک چھوٹی سی درسگاہ قائم کی تھی، اس سال کے شروع میں یہ ادارے قائم ہوئے، اور اس کے ظاہر کرنے میں مجھے مسرت ہے کہ ان کے سیاسی و مذہبی تخیلات کی آبیاری، اور ان اداروں کی سربراہی میں جو گمنام آدمی کام کررہا ہے، وہ تمام تر دارالعلوم ندوۃ العلماء کی پیداوار ہے، ندوہ کے لیے یہ شکر کا مقام ہے کہ دین و دنیا کی جامعیت کے ساتھ جب کہیں کوئی کام شروع ہوتا ہے تو اس کے فرزند اس کے لیے بہترین اہل ثابت ہوتے ہیں، مولوی عبدالقدوس ہاشمی ندوی جو تکمیل کے بعد ہمیشہ علمی مشاغل میں مصروف رہے، مرحوم کی رفاقت کے لیے وہ بہترین رفیق ثابت ہوئے اور مرحوم بھی ان کی کماحقہ قدر کرتے تھے، بہر حال ان اداروں کی نگرانی ان کے سپرد کی، اور انھوں نے وہیں قیام اختیار کرلیا۔
اس سال فروری اور مارچ اور نصف اپریل کے چند مہینے ندوہ کی قومی امداد کے سلسلہ میں ان کے بہت قریب گذرے ہر دوسرے تیسرے ان کے مکان پر جانا ہوا، جب گیا ان کو مصروف اور بہت مصروف پایا، صبح سے شام تک ضرورت مندوں اور ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، ٹیلیفون سامنے ہوتا اور ڈاک دوسری طرف رکھی ہوتی تھی، معمولی مسلمان سے لے کر، تاجر، بیوپاری، وکیل، اہل سیاست، اہلِ مشورہ اور حکام سب ہی قسم کے اشخاص باری باری سے آتے، اور باتیں کر کے واپس جاتے تھے ملنے ملانے اور کہیں آنے جانے کے لیے کئی کئی روز پہلے وقت مقرر ہوتا اور پھر بھی ان کا کام پورا نہ ہوتا میں نے حیدرآباد کے لیڈروں میں ان سے زیادہ ہر دلعزیز کوئی آدمی نہیں دیکھا جس کا سکہ ہر کہہ و مہہ کے دل پر یکساں چلتا تھا۔
ان کی عربی تعلیم کچھ زیادہ نہ تھی، تاہم حج کے موقع پر حجاز میں اور حج کے بعد مصر میں کچھ روز ان کا قیام رہا تھا، اور اس طرح عربی کی کچھ مہارت بہم پہنچائی تھی، اور چونکہ قرآن پاک کی تلاوت کا سلسلہ برابر جاری تھا، اس لیے قرآن پاک کی آیتوں کے معنی بے تکلف سمجھ لیتے تھے، اور تفسیروں کی مدد سے قرآن پاک کے سمجھنے کی کوشش بلیغ کرتے تھے، صبح کو نماز کے بعد تقریباً نو بجے تک اپنے قریب کی مسجد میں خود ہی لوگوں کو قرآن پاک کا درس سناتے تھے، اور ہفتہ میں ایک دن شام کو ان کے ہاں اقبال کی کتابوں کا درس ہوتا تھا، اور اقبال کے فلسفہ کی گھتی سلجھائی جاتی تھی۔
مرحوم ۱۹۰۵؁ء میں پیدا ہوئے تھے، وہ نسل کے سدوزئی پٹھان تھے، ان کے آباؤ اجداد ہندوستان کے آخری مغل عہد میں جب ہر شمشیرزن قسمت آزما تھا، کچھ حوصلہ مند سپاہیوں کی جمعیت کے ساتھ ہندوستان وارد ہوئے پہلے ریاست جے پور میں طرح اقامت ڈالی، اور راجہ سے کچھ جاگیر پائی، اور بعدازیں حیدرآباد وارد ہوئے اور جمعدار کے عہدہ پر فائز ہوئے اور تیس ہزار کی نسلاً بعد نسلاً جاگیر پائی، مرحوم نے اپنی یہ خاندانی داستان کئی بار سنائی مگر کیا معلوم تھا کہ یہ داستان گو اب چند ہی روز کا مہمان ہے، ورنہ اس داستان کا حرف حرف محفوظ رکھا جاتا۔
بہادر خان سا آدمی صدیوں میں پیدا ہوتا ہے، اور جب پیدا ہوتا ہے انقلاب انگیز ہوتا ہے، اس کی ذات سے امت اسلامی کو بڑی بڑی امیدیں قائم تھیں، اور خصوصیت کے ساتھ دکن کے مسلمانوں کے حق میں اس کا وجود آبِ حیات کا حکم رکھتا تھا، تاہم انسان ناچارہے، اس کی ناچاری کا راز ایسے ہی موقعوں پر کھل جاتا ہے تقدیر کا نوشتہ اور قضا کا حکم ناقابل تغیر ہے۔ فاذا جآء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔[الاعراف:۳۴] ۲۵؍ جون ۱۹۴۴؁ء کو دفعتہ وہ حکم آیا اور بندہ نے بلاچون و چرا ایک لمحہ کے اندر اس کی دعوت پر لبیک کہا، اور اس دنیائے دوں سے چل بسا اس پر اﷲ تعالیٰ کی صدہا رحمتیں ہوں اور بے شمار نوازشیں، غالباً مارچ ۱۹۴۴؁ء کی کوئی تاریخ تھی، نواب دوست محمد خان (جاگیردار) کے یہاں دعوت تھی، جو مرحوم کے بڑے دوستوں میں تھے، احباب کا مجمع تھا، گفتگو علمی اور مذہبی تھی، مرحوم نے بڑے پُر اثر انداز میں کہا، آج قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے جب وہ مصر سے نکل کر مدین پہنچے ہیں، یہ دعا تلاوت میں آئی۔ رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر[القصص:۲۴] (اے میرے پروردگار! تو میرے لیے بہتری کا جو سامان بھی مہیا فرمائے میں اس کا محتاج ہوں) مرحوم نے اس موثر دعا کے ایک ایک لفظ کو بڑی تاثیر کی حالت میں پڑھا، اور سامعین کے سامنے اس کی تشریح کی، خدائے بے نیاز کی بارگاہ میں عرض ہے کہ اے بارالٰہا! آج جب اس دعا کا خوستگار تیری حضور میں ہے، اور تیرے گھر مہمان، تو تو اس کے لیے وہی فرما جس کا وہ محتاج ہے۔
(سید سلیمان ندوی، اگست ۱۹۴۴ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...