Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا الیاس کاندھلوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا الیاس کاندھلوی
ARI Id

1676046599977_54337944

Access

Open/Free Access

Pages

142

حضرت مولانا الیاس کاندھلوی
افسوس ہے کہ ۲۱؍ رجب ۱۳۶۳؁ھ کی صبح کو مولانا الیاس صاحب کاندھلوی مقیم بستی نظام الدین دہلی نے چند ماہ کی علالت کے بعد بستی نظام الدین دہلی میں انتقال فرمایا، وہ اس عہد میں ان نفوس قدسیہ کی مثال تھے جن کے دم قدم سے ہندوستان میں اسلام کا چراغ روشن ہوا، ان کا وجود اس دعوی کی کہ ہندوستان میں اسلام بادشاہوں کے تیغ و خنجر کے سایہ میں نہیں بلکہ بے نوا فقیروں کے فیوض و برکات کے زیرسایہ بڑھا اور پھلا پھولا ہے، سب سے تازہ دلیل ہے، اﷲ تعالیٰ حضرت مولانا رحمتہ اﷲ کی قبر پر اپنی رحمت کے پھول برسائے۔
پایہ تخت دہلی کے اردگرد ہزاروں میواتی جن کی تعداد کم و بیش پچاس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے، سینکڑوں برس کے شاہانہ جاہ جلال اور رعب و ہیبت کے باوجود ایسے ہی نومسلم تھے جو اسلام کے بجائے بت پرستی سے زیادہ قریب تھے اور ۱۹۰۷؁ء سے لے کر پچھلے آریہ فتنہ تک ان کے ارتداد کا خطرہ ہمیشہ مسلمانوں کا دامن گیر رہتا تھا، حضرت مولانا نے نہایت خاموشی کے ساتھ صرف اپنے مخلصانہ سادہ طریق اور صحیح اصول دعوت کے ذریعہ پچیس برس کی ان تھک محنت میں ان کو ان خالص و مخلص مسلمانوں کی صورت میں بدل دیا، جن کے ظاہر و باطن پر خاندانی مسلمانوں کو بھی رشک آتا ہے، رحمہ اﷲ تعالیٰ۔
(سید سلیمان ندوی، اگست ۱۹۴۴ء)

 

حضرت مولانا الیاس کاندھلوی
اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے، اور حضورانورﷺ نے مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ قیامت تک امت محمدیہ میں سے ایک جماعت حق پر استوار اور قائم اور غالب قوت کے ساتھ دنیا میں موجود رہے گی انشاء اﷲ تعالیٰ۔ اسلام کی تاریخ کا ہر پچھلا دور اس بشارت کی خبر کو دنیا میں سناتا، اور اپنے عمل سے اسکی صداقت کو ظاہر کرتا رہے گا۔
لوگ عموماً سلاطین اور بادشاہوں کو دین کا محافظ سمجھتے ہیں، اور ان کے فاتحانہ کارناموں سے خوش ہوتے ہیں، لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ ظاہری حکومت کی یہ طاقت اگر کسی روحانی قوت کے شمول سے محروم ہو، تو اس ظاہری حکومت کا جاہ و جلال حق کی قوت کے بجائے باطل کی قوت کے فروغ کا سامان ہوجاتا ہے، تاریخ کا ہر صفحہ اس دعوی کے ثبوت کی تازہ دلیل ہے، لیکن باطن کی قوت ظاہری طاقت کی محتاج نہیں ہوتی، اسلام کا ظہور اسی شکل سے ہوا، اور ہندوستان میں اس کی ترقی بھی کچھ اسی شان سے تقدیر الٰہی معلوم ہوتی ہے اور اسی طریقہ سے اس کی ظاہری قوت کا فروغ بھی تقدیر الٰہی میں بظاہر مقدر نظرآتا ہے، واﷲ اعلم بحقیقۃ الاحوال والمبدء والمآل فی الماضی والاستقبال۔
ہندوستان میں اسلام کی ظاہری طاقت دلّی کی مغلیہ حکومت کے خاتمہ پر ختم ہوجاتی ہے، مگر عین اسی وقت اﷲ تعالیٰ نے شاہانِ دہلی کا ایک اور سلسلہ کھڑ اکردیا، جن کے سپرد اس سرزمین میں اسلام کی حفاظت کا کاروبار کردیا، اور جس کو وہ اس وقت سے آج تک برابر سلسلہ بہ سلسلہ اسی طرح انجام دیتے چلے آرہے ہیں، جس طرح ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا چلا جاتا ہے، اس سلسلہ کے مسند نشین بے تاج و کلاہ، فوج و لشکر کے بغیر اور زرو جواہر کے خزانوں سے بے نیاز اپنے دلق مرقع میں اور اپنی شکستہ حصیر و بوریا پر بیٹھ کر دلوں پر حکمرانی کررہے ہیں۔
ان شاہان دہلی کا مسکن گو دلّی کا ایک ویرانہ تھا، جواب ایسا ویرانہ ہے، کہ جہاں اس سلسلہ کا ایک فرد بھی سکونت پذیر نہیں، تاہم اس کے وجود اور ظہور میں ہندوستان کے متعدد صوبے شریک ہیں، اجداد رہتک او رسون پت میں متوطن ہوکر دہلی آئے اور مادری سلسلہ ملتان ۲؂ سے چلا اور بہار ۳؂ آیا، اور یہاں سے جونپور کو منتقل ہوا، پھر اودھ کے ایک قصبہ سدھور سے پیوند ۵؂ ہوا، پھر وقت کے عین ۶؂ تقاضے پر سمٹ کر دلّی پہنچا، اور اطراف دلی کے ان قصبات سے آمیزہوا، جو آج مظفر نگر، میرٹھ اور سہارنپور کے اضلاع میں واقع ہیں، جس کی صورت یہ ہوئی کہ سلطان سکندر لودی کے زمانہ میں ان کے نانہالی مورث کو جو سدھورمیں سکونت گزین تھے، بارہہ کے پاس جاگیر میں کچھ گاؤں ملے، اور اس تقریب سے وہ خاندان سدھور سے پھلت (ضلع مظفر نگر) کو منتقل ہوگیا، اور اس طرح تقدیر الٰہی کے نقاش نے دلّی اور پھلت کے پیوند سے دلی کے ان شاہان فقر کے مرقع کو تیار کیا، اور اس تقریب سے ان بزرگوں کے دم قدم ان اطراف کے قصبات سے وابستہ ہوکر ان کے لیے سعادت کا باعث بنے ، اور ان بزرگوں کی آمد ورفت سے ان اطراف ودیار میں توفیق الٰہی اور علوم نبوی نے اس دور میں جلوہ گستری کی۔
ممکن ہے کہ یہ میری وہمی خوش عقیدگی ہو، لیکن کئی سال سے میرے دل میں یہ خیال بار بار آتا رہا کہ ان بزرگوں کے انفاس قدسیہ، توجہات قلبیہ اور برکات سماویہ ہی کے اثرات ہیں جو ان اطراف میں اس زمانہ اخیر میں اکابرامت، علمائے ملت، اور سالکین حقیقت انبوہ درانبوہ وجود پذیر ہوئے، اور جن کی بدولت اس تجدید ملت کے دورہ کو جس کا آغاز حضرت شاہ ولی اﷲ صاحبؒ نے فرمایا تھا، جس کا اشارہ بار بار انہوں نے کیا ہے، اب تک بقا اور امتداد کی سعادت حاصل ہورہی ہے، چنانچہ ان حضرات کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک ان اطراف کے قصبات و دیہات سے جس قدر علمائے کا ملین اور صلحائے متقین پیدا ہوئے، اس دور میں اس ملک کے کسی خطہ میں پیدا نہیں ہوئے، او یہ وہ واقعہ ہے، جس کی تصدیق مشاہدہ سے صاف نظر آتی ہے، پھلت، بڈھانہ، کاندھلہ، کیرانہ، جھنجانہ، گنگوہ، نانوتہ، تھانہ ھون، انبیٹھ، رائے پور، منگلور، سہارنپور، دیوبند وغیرہ قصبوں سے اس دور میں جو مبارک اور مقدس ہستیاں عالم وجود میں آئیں اور ان کے علمی و روحانی آثار و برکات سے پورے ملک ہند کے مسلمانوں نے اس زمانہ میں جو فیض پایا، کیا اس سے کوئی انکار کرسکتا ہے۔
کاندھلہ: سہارنپور شاہدرہ (دہلی) لائٹ ریلوے لائن کے وسط میں دہلی کے رخ پر یہ قصبہ واقع ہے، اس کی پرانی آبادی کا حال تو مجھے معلوم نہیں،لیکن حضرت شاہ عبدالعزیزؒ صاحب کے زمانہ سے آج تک قصبہ کا اس سلسلۂ فیض مسلسل نظر آتا ہے۔ حضرت مولانا مفتی الٰہی بخش کاندھلویؒ شاہ صاحب ممدوح کے محبوب تلامذہ میں تھے، اور شمائل نبوی میں شیم الحبیب ان کا مشہور رسالہ ہے اس قصبہ کے دوسرے بزرگ مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلویؒ ہیں، جو حضرت شاہ اسحاق صاحبؒ کے شاگرد تھے، اور علم و فضل کے ساتھ زہد و تقوی میں یگانہ تھے، اسی خانوادہ کے انتساب اور اتصال سے وہ بزرگ ہستی عالم وجود میں آئی جس کے تذکرہ کی سعادت ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
خاندان و ولادت: مولانا ممدوح اسی قصبہ میں اور اسی خاندان میں پیدا ہوئے، جس کا سلسلہ نسب صدیق اکبرؓ تک پہنچتا ہے، تاریخی نام الیاس اختر تھا، جس سے ۱۳۰۳؁ھ کی تاریخ پیدایش ظاہر ہے، مولانا کی والدہ حضرت مولانا مظفر حسین صاحب کی نواسی تھیں، اور مولانا مظفر حسین صاحب مولانا محمود بخش کے صاحبزادہ اور حضرت مولانا مفتی الٰہی بخش صاحب کے بھتیجے تھے، مولانا مظفر حسین صاحب بہت سیدھے سادھے بزرگ تھے، زہدو ورع اور اتباع سنت اور سادگی میں بے مثال تھے، گھروں اور مسجدوں میں وعظ فرماتے تھے، مستورات کو ان کے بیان سے بڑا فائدہ ہوتا تھا، ان کی ایک صاحبزادی بی بی امتہ الرحمان تھیں، جو اپنے باپ کی نمونہ تھیں، نہایت عابدہ و زاہدہ، یہاں تک کہ اکابر تک ان کے پاس حاضر ہونا اور ان سے دعائیں لینا برکت کا باعث سمجھتے تھے، انہی بزرگ خاتون کی صاحبزادی بی بی صفیہ مولانا الیاس صاحب کی والدہ تھیں، یہ بھی بہت عبادت گذار اور ذاکرہ و شاغلہ تھیں، قرآن پاک کی حافظہ تھیں، اور روزانہ دیگر اوراء و وظائف کے علاوہ قرآن کی تلاوت ایک منزل کرتی تھیں۔
مولانا کے والد حافظ اسماعیل صاحب تھے، جو بڑے فرشتہ صفت بزرگ دہلی کے آخری بادشاہ شاہ ظفر شاہ کے سمدھانہ میں بچوں کی تعلیم پر ملازم تھے، ۱۸۵۷؁ء کے غدر کے بعد وہ بستی نظام الدین میں رہنے لگے، یہاں مرزا الٰہی بخش نے (جن کی بیٹی بہادر شاہ کے ولی عہد مرزا فخرو سے منسوب تھیں) ایک مسجد بنوائی تھی، جس کو بنگلہ والی مسجد کہتے ہیں، مولانا اسماعیل صاحب نے اپنی بقیہ عمر اسی مسجد میں بسر کی اور وفات کے بعد اسی مسجدکے گوشہ مشرق و جنوب میں مدفون ہوئے، اس آبادی کے اطراف میں جو مسلمان آباد ہیں، مولانا اسماعیل کے فیض سے وہ مستفید ہوتے رہے۔
مولانا اسماعیل صاحب نے دو شادیاں کیں، پہلی سے مولوی محمد صاحب اور دوسری سے مولانا محمد یحییٰ صاحب شاگرد خاص حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ اور مولانا الیاس صاحب ہوئے، اور ماشاء اﷲ تینوں صاحبزادے عالم و فاضل اور صالح و متقی، مولانا یحییٰ کے صاحبزادہ مولانا زکریا صاحب ہیں، جو بالفعل مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کے شیخ الحدیث اور متعدد کتابوں کے مصنف اور موطا امام مالک کے آخری شارح ہیں۔
این خانہ تمام آفتاب است
تعلیم: مولانا نے ابتدائی تعلیم اور فارسی وغیرہ وطن کے مکتب میں اور خاندان کے بڑوں سے حاصل کی، ابتدائی عربی تعلیم کے زمانہ میں ان کو درد سر کا ایک خاص قسم کا دورہ ہوجاتا تھا، جس سے مہینوں کا ناغہ ہوجاتا تھا، اس لیے مولانا کے بڑے بھائی مولانا یحییٰ صاحب تلمیذخاص اور خادم خاص مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ ان کو اپنے ساتھ گنگوہ لے گئے اور ان کو ایک خاص نصاب کے ماتحت پڑھا کر مولانا محمود حسن صاحبؒ کے پاس دورہ حدیث میں شرکت کی غرض سے دیوبند بھیج دیا، اس سے فراغت کے بعد مظاہر العلوم سہارنپور میں داخل ہوکر مولانا خلیل احمد صاحبؒ کے حلقہ درس میں شریک ہوئے اور ان سے اور وہاں کے دوسرے اساتذہ سے باقی فنون کی تکمیل کی، جس سے فارغ ہونے پر اسی مدرسہ میں مدرس کردئیے گئے، متوسطات تک کی تعلیم ان کے سپرد تھی۔
بیعت واستفاضہ: مولانا کے معاصروں اور دیکھنے والوں کا متفقہ بیان ہے کہ وہ فطرۃً نہایت نیک ، صالح اور متقی تھے، خود مولانا یحییٰ صاحب ان کی بڑی قدر کرتے تھے اور بڑی محبت رکھتے تھے، دونوں بھائی ایک دوسرے کے جان نثار اور محب و محبوب تھے۔
مولانا گنگوہیؒ طالب علمی میں کسی کو مرید نہیں کرتے تھے، لیکن مولانا الیاس کو انہوں نے اسی زمانہ میں ان کی خواہش پر ان کو مرید کرلیا، مولانا گنگوہیؒ کی وفات کے بعد تکمیل علوم سے فارغ ہوکر مولانا خلیل احمد صاحبؒ کے دست مبارک پر دوبارہ تجدید بیعت کی اور تکمیل باطن میں مصروف ہوئے، اوریہاں تک ترقی کی کہ خلافت ارشاد سے مشرف ہوئے۔
بستی نظام الدین: جیسا کہ پہلے گذرا ہے کہ مولانا کے والد غدر کے بعد ہی سے بستی نظام الدین کی ایک مسجد میں مقیم ہوکر اطراف کے مسلمانوں کے رشد وہدایت میں مصروف رہتے تھے، ان کی وفات کے بعد ان کے بڑے صاحبزادہ مولوی محمد صاحب ان کے جانشین ہوئے، یہ بھی بڑے بزرگ اور نیک اور صالح تھے، عبادت و زہد و تقوی کے ساتھ پوری زندگی بسر کی، اطراف کے مسلمانوں کو ان سے فائدہ پہنچا، اور اہل میوات میں بکثرت ان کے مرید و معتقد تھے اور دہلی کے مسلمان بھی ان سے مستفید ہوئے، مرنے سے پہلے ۱۶ سال تک ان کی تہجد کی نماز قضا نہیں ہوئی اور مرتے دم تک نماز باجماعت کے پابند رہے، عشاء کی نماز کے بعد وتر کے سجدہ میں انتقال فرمایا۔
مولانا محمد صاحب کی وفات کے بعد یہ مسجدبالکل خالی رہی، مولانا کے دوسرے بڑے بھائی مولانا یحییٰ صاحب کا اس سے پہلے ۱۳۳۴؁ھ میں انتقال ہوچکا تھا، اور مولانا الیاس صاحب ابھی اپنی تکمیل میں مصروف تھے، اس سے جب فراغت ہوئی تو دہلی کے مخلصین کے پیہم اصرار پر مولانا خلیل احمد صاحبؒ نے ان کو بیعت و تلقین کی اجازت دے کر دہلی بھیج دیا، اور مولانا نے اپنے بھائی کی جگہ بستی نظام الدین میں متوکلانہ اقامت شروع کی، ابتدا میں ان کو بڑی تکلیفوں کا سامنا ہوا مگر ان کے پائے استقامت کو لغزش نہیں ہوئی، آخر اﷲ تعالیٰ نے ان کے کاموں میں برکت دی، اوران کو مسلمانوں میں حسن قبول عطا فرمایا۔
سب سے پہلے انہوں نے اس مکتب کو ترقی دی جو وہاں پہلے سے قائم تھا، اور اس کو مدرسہ کی سطح پر لے آئے، شروع سے ان میں علمی کے بجائے عملی رنگ گہرا تھا، یہی گہرائی ان کے کاموں میں بھی تھی، مدرسہ قائم کیا، تو ہر طالب علم کا یہ فرض قرار دیا کہ ہر نماز کے بعد ایک طالب علم کھڑا ہوکر نمازیوں کے سامنے ایک مسئلہ بیان کردے، دوسرا ایک حدیث کا ترجمہ سنادے، تیسرا قرآن پاک کی کسی آیت کا ترجمہ اور مطلب بیان کردے، اس طرح نمازیوں کا بڑا فائدہ ہونے لگا، اور اسی سے ان کی تبلیغی کوششوں کا آغاز ہوا۔
یاد ہوگا کہ تحریک خلافت کے شباب میں ۱۹۲۴؁ء میں شردھا نندجی کی کوشش سے آریہ تحریک نے زور پکڑا، اور خصوصیت کے ساتھ ملکھانوں اور میواتیوں میں اپنا کام شروع کیا، میوات کا بڑا علاقہ ہے جو دہلی کے پاس سے لے کر راجپوتانہ کی ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے، خیال ہے کہ اس قوم کی آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے، ان کا پیشہ کاشتکاری اور مویشی پالنا ہے، لیکن یہ لوگ حد درجہ لڑاکے اور چوری، ڈاکہ اور قتل میں بدنام تھے، کہنے کو مسلمان تھے، لیکن نام بھی مسلمانوں کا نہیں، اور کام بھی نہیں، مولانا نے یہ سمجھ کر کہ یہ سارا فساد ان کی جہالت کے سبب سے ہے، میوات کے پورے علاقہ کا بڑی محنت سے دورہ فرمایا، میلوں پیادہ چل کربیل گاڑی میں بیٹھ کر، اور جہاں سڑک تھی موٹر پر پورے علاقہ میں سالہا سال پھرتے رہے، جگہ جگہ مسجدوں اور مکتبوں کا انتظام کیا، ہرجگہ وعظ کہا لوگوں سے ملے، ان کو اپنے سے آشنا کیا، ان کو سمجھایا، ان کو دین بتلایا، کلمہ سکھلایا، جو جان چکے، اور سیکھ چکے ان کو آگے بڑھایا، ان کو دوسروں کے بتانے اور سکھانے کا کام سپرد کیا، جو اہل نظر آئے، ان کو ذکر و فکر کی تلقین کی، جو تعلیم کے قابل معلوم ہوئے ان کو تحصیل علم پر مامور کیا، اخلاص کا کام کرنے والوں کو آس پاس سے بٹورا، ان کو اپنے طرز دعوت سے آشنا کیا، اور ان کو تھوڑی تھوڑی تعداد میں اس شرط کے ساتھ کے وہ کھانے پینے اور سفر کا کل خرچ اپنی جیب سے کریں گے، گاؤں گاؤں میں بھیجا، اور اس طرح میوات کی پوری سر زمین مخلص مبلغ سپاہیوں کا کیمپ بن گئی اور چند سال کے بعد ڈاکوؤں اور چوروں کا جرائم پیشہ گروہ نیک صالح اور دیندار مسلمانوں کی جماعت بن گئی، یہ حضرت مولانا کی مساعی جمیلہ کی وہ کرامت ہے جس کو پولیس کی سرکاری رپورٹ میں بھی صحیح مان لیا گیا، اور جرائم پیشہ گروہ سے وہ خارج قرار دیا گیا۔
مولانا کا طریق دعوت بالکل سادہ تھا، خود سادہ تھے، سراپا اخلاص تھے، سراپا درد تھے، دین کے سچے غمخوار اور مسلمانوں کے بدلِ خدمت گذار، اﷲ پر متوکل، ایک دھن تھی کہ دن رات ان کو بے قرار رکھتی تھی، ان کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، جو تھا وہ صرف دین کی خدمت، اور مسلمانوں کی غمخواری اور اصلاح کی فکر تھی، یہی ان کی تقریر تھی، یہی ان کی گفتگو اور اسی کا شب و روز ملنے جلنے والوں سے اعلان و اظہار۔
میری ملاقات: مولانا کا ذکر خیرمدت سے سن رہا تھا، ہمارے مدرسہ العلوم ندوۃ العلماء کے متعدد اساتذہ کرام جن کے سر خیل مولانا ابوالحسن علی ندوی تھے، کئی دفعہ بستی نظام الدین جاکر مولانا سے مل چکے تھے، اور بابرکت فیض سے مستفید ہوچکے تھے، بلکہ ہمارے یہاں سے کئی سال سے متواتر طلبہ کے وفود مولانا کے حلقہ مبلغین میں داخل ہوکر خدمت کیا کرتے تھے، اور واپس آکر اپنے تاثرات بیان کرتے تھے، مگر خاکسار کو ذاتی طور سے نیاز کا شرف حاصل نہ تھا، اتفاق دیکھئے کہ گذشتہ سال مولانا ابوالحسن علی صاحب نے مولانا اور ان کے ساتھیوں کو لکھنؤ اور نددہ میں قیام کرنے کی دعوت دی، چنانچہ شعبان کی بیچ کی تاریخ اس کے لیے مقرر ہوئی، ادھر رجب کے شروع میں جولائی کی بیچ کی تاریخیں تھیں، خاکسار تھانہ بھون میں تھا کہ مولانا کی آمد کی اطلاع ملی اور تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہو ا، کہ واپس دہلی کے لیے اسٹیشن روانہ ہوگئے، مجھے بھی دہلی جانا تھا، اور اسی گاڑی سے، مولانا ظفر احمد صاحب کے ساتھ اسٹیشن آیا، دیکھا کہ ایک دبلے پتلے نحیف سے میانہ قد، بڑی داڑھی، کچھ کچی کچھ پکی، ہاتھ میں چھڑی، سر پر عمامہ، مگر وہ کبھی سر سے اترا ، اور کبھی سر پر رکھا ہوا، اسی طرح جسم پر لمبے کرتے کے اوپر ایک عباسا، مگر وہ بھی کبھی دربر اور کبھی باہر، ایک کمبل بچھائے ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہیں، ہم دونوں بھی سلام کے بعد پاس جاکر بیٹھ گئے، وہ اور مولانا ظفر احمد صاحب تو مدت کے رفیق اور ایک دوسرے کے محب اور دوست تھے، مولانا نے فوراً اپنی تبلیغ کی تقرر پر شروع کردی، اور ان کواپنے کام میں شرکت کی دعوت بڑے اصرار و الحاح سے فرماتے رہے، اور اپنے طریق دعوت کی توضیح بھی بیان فرماتے رہے، وہ مجھ سے بالکل ناآشنا تھے، اور میں ان کے نام اور کام سے آشنا مگر خود ان کی حقیقت سے ناآشنا تھا، میں ان کی باتوں کو چپ سنتا رہا، آخر میں یہ عرض کی کہ حضرت! ایسے لوگوں کو جو صرف وہ دوچار دن آپ کی صحبت میں رہے ان کو تزکیہ اور تصفیہ کے بغیر مبلغ بنا کر بھیجنا کیونکر مفید ہوگا، فرمایا مکتوبات مجدد الف ثانی پڑھئے، معلوم ہوجائے گا، دوبارہ عرض کی میں نے ان کو پڑھا ہے، مگر ان سے تو اس مشکل کا حل معلوم نہ ہوا، شاید مولانا کو کچھ اچھنبھا سا ہوا، مولانا ظفر صاحب سے پوچھا آپ کون ہیں، انہوں نے میر انام لیا، تو خوشی سے اچھل پڑے، کھڑے ہوگئے، سینہ سے لگایا اور مجبور کیا، کہ انہی کے ساتھ انہی کے ڈبہ میں سیکنڈ کلاس میں سفر کروں، میرا ٹکٹ بدلوایا، اور اس وقت سے لے کر کاندھلہ تک برابر ڈیڑھ دو گھنٹہ بڑے جوش و خروش سے کلام فرماتے رہے، ان کی زبان میں لکنت تھی، تقریر پر قادر نہ تھے، تقریر بھی الجھی ہوئی ہوتی تھی، مگر جوش و خروش کا سمندر ان موانع کے سارے خس و خاشاک کو بہائے لئے جاتا تھا، تھوری گفتگو کے بعد،
واہ ری تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا وہ بھی میرے دل میں ہے
جسمانی کمزوری اور ضعیف سینہ کے باوجود ان کے پھپھڑے ان کی پرزور تقریر اور پر جوش گفتگو کے تسلسل اور تواتر کے سبب سے ہر وقت اس طرح ابھر ابھر کر اٹھتے تھے، کہ مجھے توڈر لگتا تھاکہ کہیں یہ پھٹ نہ جائیں، یا گلے کی رگیں جو بار بار پھول پھول جاتی تھیں وہ نہ پھٹ جائیں، یہ سب سہی مگر دریا اپنی روانی میں ہر خطرہ سے بے خبر اور ہر افتاد سے بے پروا تھا۔
مولانا نے اس اثنا میں جو کچھ فرمایا، میں نے اپنی استعداد کے مطابق اس کو پوری طرح سمجھ لیا، اتنے میں کاندھلہ آیا، اور وہ اتر گئے، مگر مجھ سے یہ وعدہ لے لیا کہ کل رات کو دہلی میں پھاٹک حبش خان میں ان کا تبلیغی جلسہ ہے، میں اس میں شرکت کروں، چنانچہ شریک بھی ہوا، اور تقریر بھی کی، اور مولانا نے اس کی تصدیق و تصویب بھی فرمائی۔
میں اس سفر سے لوٹ کر جب لکھنؤ آیا، تو مولانا کے اہل تبلیغ مجاہدوں کی آمد لکھنؤ میں شروع ہوچکی تھی، اور ندوہ کی مسجد میں ان کا قیام تھا، اﷲ اﷲ کیا سادگی کی شان پائی، سادہ تکلف سے بری، شب زندہ دار، تہجد گذار، پچھلے پہر سے ذکر و فکر میں مصروف، صبح کی نماز پڑھ کر اپنے کام کے لیے مستعد اور تیار۔
ایک دو روز کے بعد مولانا مع اپنے دوسرے رفقا کے ساتھ آئے، اور ندوہ کے مہمان خانہ میں ساتھ ہی قیام فرمایا، اور تقریباً ایک ہفتہ تک دن رات ساتھ رہا، ہر گفتگو میں شرکت اورہر مجلس میں رفیق، جیسے جیسے ملتا جلتا تھا، ان کی تاثیر بڑھتی جاتی تھی، مولانا کی تقریرگو الجھی ہوئی اور بیان ژولیدہ بدستور تھا، مگر میں نے دیکھا کہ جو آیا وہ اثر سے خالی نہ گیا۔
ادھر کہتا گیا اور ادھر آتا تھا دل میں
اثر یہ ہو نہیں سکتا کبھی دعوئے باطل میں
لکھنؤ میں کئی جلسے ہوئے اور باربار تقریریں ہوئیں، لوگوں نے مطلب سمجھا شرکت پرآمادہ ہوئے، کام کا آغاز ہوا، دلّی سے آئے ہوئے مبلغین لکھنؤ کے کوچہ کوچہ میں پھرے اور مسلمانوں کو کلمہ اور نماز کی تلقین کی، ایک ہفتہ کے بعد کانپور کی جانب کوچ ہوا، دو تین روز قیام رہا، خاکسار بھی ساتھ تھا، یہاں بھی ہروقت ان کی صحبت اٹھائی، ان کی تقریریں سنیں، ان کے کام کو جانچا ان کی دھن کو دیکھا ان کے دل سے جولگی تھی، اس کے اٹھتے ہوئے شعلوں کو خیال کی انکھوں سے دیکھا، ہر وقت مسلمانوں کی اصلاح دین کی سربلندی، اور اعلائے کلمہ کے لیے درگاہ الٰہی میں دست نیاز دراز، آنکھیں پرنم، آواز دلگیر۔
زیادہ دیکھنے والوں اور بار بار ملنے والوں کو تو خدا جانے ان کی کیا کیا ادائیں پسند ہوں گی، لیکن مجھے اس تھوڑی سی ملاقات میں ان کی تین ادائیں بہت پسند آئیں، صبح کی نماز کے بعد مقتدیوں کے رخ بیٹھ کر وہ کام کرنے والوں کو دین کا کام سمجھاتے تھے، اور بار بار ان کی کامیابی کے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعائیں فرماتے تھے، ان دعاؤں میں لفظ اﷲ ان کے دل کی گہرائی سے نکل کر دوسروں کے دلوں کی گہرائی میں گھر کرلیتا تھا، ہرچہ ازدل خیزد بردل ریزد، مختلف اوقات میں ان کی زبان سے کسی قدر آواز میں یہ دعائے ماثور:
یاحی یا قیوم برحمتک استغیث اصلح لی شانی کلہ ولا تکلنی الیٰ نفسی طرفۃ عین
(اے حی و قیوم خدا میں تری رحمت سے چاہتا ہوں کہ تو میری فریاد کو سنے، تو میری حالت کی درستی فرما دے، اور ایک لمحہ کے لیے بھی مجھے میرے نفس پر نہ چھوڑے)
نکلتی تھی، اور ان کے فقر و التجا والی اﷲ کی کیفیت کو ظاہر کرتی تھی، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہتے تھے، اور ان میں کسی قسم کا امتیاز نہیں چاہتے تھے، وہ لکھنؤ سے کانپور اپنے ہمراہیوں کے ساتھ تھرڈ کلاس میں سوار تھے، ان کے بعض معتقد فرسٹ کلاس میں تھے، بھیڑ کا یہ عالم تھا، کہ تھرڈ میں تو ہلنا، بلکہ اپنی جگہ سے نکلنا بھی مشکل تھا، سیکنڈ میں بیٹھنے کی جگہ تھی، مگر اندر جانے کی جگہ نہ تھی، فرسٹ میں گنجایش تھی، ہر اسٹیشن پر کوشش کی گئی کہ مولانا نکل کر فرسٹ کلاس میں چلے آئیں، مگر منظور نہیں فرمایا، آخر کانپور کے قریب پہنچ کر ظہر کی نماز یا اور کسی ضرورت کی بنا پر اس درجہ میں داخل ہوئے۔
لکھنؤ کے قیام میں ایک دفعہ ایک دوست کے ہاں عصر کے وقت چائے کی دعوت تھی، پاس کوئی مسجد نہ تھی، ان کی کوٹھی ہی میں نماز باجماعت کا سامان ہوا، خود کھڑے ہوکر اذان دی، اذان کے بعد مجھ سے ارشاد ہوا، کہ نماز پڑھاؤ، میں نے معذرت کی تو نماز پڑھائی، نماز کے بعد مقتدیوں کی طرف رخ کرکے فرمایا، بھائیوں! میں ایک ابتلا میں گرفتار ہوں، دعا کیجئے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے اس سے نکالیں، جب سے میں یہ دعوت لے کر کھڑا ہوا ہوں لوگ مجھ سے محبت کرنے لگے ہیں، مجھے یہ خطرہ ہونے لگا ہے کہ مجھ میں اعجاب نفس نہ پیدا ہوجائے، میں بھی اپنے کو بزرگ نہ سمجھنے لگوں میں ہمیشہ اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس ابتلا سے بسلامت نکال لیں، آپ بھی میرے حق میں دعا فرمائیں۔
مجھے کبھی بستی نظام الدین جانے اور ان کی مسجد میں قیام کرنے کا اتفاق نہیں ہوا، مگر جانے والوں سے سنا کہ پچھلے پہر رات کا سماں بڑا موثر ہوتا تھا، دن کے سپاہی رات کے راہب بن جاتے تھے، ہر طرف سے تہجد گذاروں اور ذاکروں، اور تسبیح خوانوں کی آوازیں بلند ہوتی تھیں، کوئی سجدہ میں ہوتا تھا تو کوئی رکوع میں کوئی گریہ و پکار میں تھا، تو کوئی دعاؤں میں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سچائی کا ایک آفتاب کیونکر متعدد ذروں کو اپنے پاس کھینچ کر روشن بنا دیتا ہے۔
مولانا کا جسمانی ضعف، پھر شب و روز کی یہ محنت اور دعوت کے کاموں میں ہمہ وقت کا یہ شدید انہماک، اور آرام و راحت کی ہر تدبیر سے کامل اعراض نے ادھر ان کو ضعیف بنا دیا تھا، مہینوں سے پیچیش اور اسہال کا عارضہ پیدا کردیا تھا، اور ضعف روز بروز بڑھتا جاتا تھا، ہر علاج ناکام رہا، مگر اس حالت میں بھی کام کے انہماک اور دعوت کے جوش کا وہی عالم تھا، آخر میں یوں تو نشست و برخاست دشوار ہوگئی تھی، سہارے سے اٹھتے بیٹھتے تھے، مگر اس حالت میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام اخیر اخیر تک رہا، بلکہ فرض نماز کھڑے ہوکر ادا فرماتے رہے، اور خداجانے اس وقت ان کے اندر کہاں سے طاقت آجاتی تھی۔
اس زمانہ میں جو لوگ ان سے ملنے اور ان کو دیکھنے گئے، سب نے ان کی بڑی پرتاثیر کیفیتیں بیان فرمائی ہیں، برادر عزیز مولانا ابوالحسن علی صاحب ندوی کی تحریر اخباروں میں آچکی ہے، یہ اخیر وقت تک مولانا کے ساتھ تھے، دوسری تحریرمولانا ظفر احمد صاحب نے لکھ کر بھیجی ہے، جو تبصرۃ للناس فی ترجمۃ الیاس کے نام سے الگ چھپے گی اور اپنے اس مضمون میں بھی میں نے اس سے استفادہ کیا ہے، یہ بھی اخیر زمانہ میں مولانا سے ملے تھے، اور اس زمانہ کے احوال و تاثرات قلم بند فرمائے ہیں، اﷲ تعالیٰ اس سے مسلمانوں کو نفع روزی فرمائے۔
۲۱؍ رجب ۱۳۶۳؁ھ (۱۳؍ جولائی ۱۹۴۴؁ء) کو وفات پائی اور اسی مقام بستی نظام الدین کی مسجد کے صحن کے باہر جنوبی و مشرقی گوشہ میں اپنے والد و برادر معظم کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔
چپہ چپہ پہ ہے وان گوہر یکتاتہِ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں ایسا خزانہ ہرگز
ذیل میں ہم تبرکاً اس خانوادہ کا پورا سلسلہ درج کرتے ہیں،
شجرۂ نسب
مولوی محمد اشرف بن شیخ جمال محمد شاہ بن شیخ بابن شاہ بن شیخ بہاء الدین شاہ بن مولوی شیخ محمد بن شیخ محمد فاضل بن شیخ قطب شاہ، از سلسلۂ اولاد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ
شجرہ
(شجرہ یہاں آئے گا)

(سید سلیمان ندوی، نومبر ۱۹۴۴ء)

۱؂ انفاس العارفین، ص: ۱۵
۲؂ ، ۳؂ ، ۴؂ ص ۱۶۰، ۵؂ ، ص ۱۷۶ ، ۶؂ ، ص۱۶۸

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...