Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > چودھری خوشی محمد ناظرؔ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

چودھری خوشی محمد ناظرؔ
ARI Id

1676046599977_54337948

Access

Open/Free Access

Pages

147

چودھری خوشی محمد ناظرؔ مرحوم
کشمیر جنت نظیر کا ایک پھول یکم اکتوبر ۱۹۴۴؁ء کی رات کو مرجھا کر گرگیا، یعنی چودھری خوشی محمد ناظر نے اس تاریخ کو بعارضۂ فالج و فات پائی۔
آج کل کے نئے نرالے ادیب، نئے ادب کے نقیب یہ سمجھتے ہیں، کہ وہی اپنے زمانہ کے نئے نرالے ہیں، حالانکہ نیا اور پرانا ہونا ہمیشہ اسی طرح سے ہوتا آیا ہے جس طرح جوان اور بوڑھا ہونا، اب اگر کوئی آج کا جوان یہ سمجھے کہ دنیا میں وہی پہلی مرتبہ جوان ہوا ہے، تو وہ کیسا احمق ہے، اسی طرح آج کے نئے ادیب و شاعر جو ادب کو زندگی سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہی پہلی دفعہ یہ راگ الاپ رہے ہیں، تو اُن کے اس خیال کو حماقت کہتے ہوئے تو ڈرتا ہوں،مگر پھر کیا کہوں۔
آج جس مرحوم کی یاد کے مزار پر دو آنسو بہانا چاہتا ہوں وہ کبھی اپنے دور میں نیا اور نرالا شاعر تھا، اردو ادب کے تجدیدی دور میں بیسویں صدی کا پہلا سال ۱۹۰۱؁ء اس حیثیت سے یادگار ہے کہ شیخ عبدالقادر کے مخزن کا جلوس انگریزی و عربی خوانوں کے جلو میں اسی سال نکلا تھا، اسی رسالہ نے اقبال کے نام کو اچھالا، خوشی محمد ناظر کو پبلک میں پیش کیا اسی میں ابوالکلام کا پہلا مضمون اخبار چھپا، حسرت موہانی نے شعر و ادب پر دادِ سخن پہلے اسی میں دی، خود راقم الحروف کا پہلا مضمون ’’وقت‘‘ اسی میں شائع ہوا، اور اس زمانہ کے کتنے بوڑھے ادیب و شاعر سب سے پہلے اسی کے صفحات پر ظاہر ہوئے۔
ناظر کا وطن پنجاب میں لائل پور کے ضلع میں چک جھمرا ایک گاؤں تھا، ابتدائی اور ثانوی تعلیم دیہات کے سرکاری مدرسہ میں پائی، مگر ساتھ ہی اپنے گاؤں کے فارسی مکتب میں بھی پڑھتے رہے، اور اس لیے بچپن ہی سے شاعری اور وہ بھی فارسی شاعری سے دل کو لگاؤ پیدا ہوا انھوں نے اپنی پہلی نظم ۱۸۸۱؁ء میں حضرت پیران پیر شیخ جیلانیؒ کی مدح میں لکھی، جس کا پہلا مصرع یہ تھا، ع
بلبل طبعم بہ باغ وصف تو پرواز کرد
جس کو ان کے استاذ اولین مولوی انوارالدین صاحب انور نے یوں بدل دیا، ع
بلبل طبعم بہ باغ وصف تونے رنگین نواست
اس کے بعد اس زمانہ میں چند فارسی غزلیں بھی کہیں، جب وہ مڈل میں پہنچے، تو مولوی محمد حسین صاحب آزاد کی آب حیات اور بعض اردو دیوان ان کی نظر سے گزرے جس سے ان کو اردو میں غزل کہنے کی تحریک ہوئی، ان کی پہلی غزل کا مطلع یہ تھا:
کیا ان دنوں نگاہِ ستمگر ہے تیز تیز
تیر نظر کی چوٹ دلوں پر ہے تیز تیز
کالج کی تعلیم کے لیے یہ غالباً ۱۸۹۵؁ء کے پس و پیش زمانہ میں علی گڑھ آئے، یہ وہ وقت تھا، جب مولانا شبلی وہاں فارسی و عربی کے استاذ اور وہاں کے شعر و سخن کی محفل کے صدر نشین تھے، اور مولانا حالی بھی اکثر آکر وہاں قیام فرمایا کرتے تھے۔ ناظر کو گو ان سے تلمذ کا شرف حاصل ہوا، مگر ان کی شاعری کو مناسبت مولانا حالی سے ہوئی اور انہی سے اصلاح لی، کالج میں اس وقت پروفیسر آرنلڈ کی تحریک سے نیچرل شاعری پر طبع آزمائی کی خاص تحریک تھی، چنانچہ ناظر نے یہاں ’’اخوت اور چار موسم‘‘ کے نام سے دو نظمیں کہیں، اور دونوں پر انعام پایا، اس کے بعد کالج کے یونین اور ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسوں میں نظمیں پڑھتے رہے، اور داد پاتے رہے، علی گڑھ سے واپسی کے بعد پنجاب میں حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسوں میں اہل ذوق سے خراج تحسین حاصل کرتے رہے۔
ان کی خوش نصیبی کہ ان کی قسمت میں کشمیر کا خطہ آیا، ریاست کشمیر کی سرکاری خدمت پر مامور ہوئے، اور لداخ کے گورنر اور منسٹر بندوبست و مال ہوکر بڑا حصہ کشمیر میں گذارا یہاں کی فرح بخش آب و ہوا، اور قدرتی مناظر نے ان کو اپنی شاعری کے لیے بہترین مواقع فراہم کئے، چند اصحابِ ذوق دوستوں کے شمول میں مفرح القلوب نام ایک چھوٹی سی مجلس ترتیب دی، جو کشمیر کے مختلف باغوں میں جمع ہوتی جس میں شعر و سخن کے ترانے بلند ہوتے، یہ مجلس ۱۹۰۱؁ء سے ۱۹۰۲؁ء تک قائم رہی، یہی زمانہ مخزن کے عروج اور ناظر کے کلام کے فروغ کا ہے، یہی زمانہ ہے جس میں ناظر نے اپنی وہ مشہور عالم نظم لکھی، جس کا نام ’’جوگی‘‘ ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ چھوٹی سی نظم ناظر کا شہ کار ہے جس کو پڑھے ہوئے گو چالیس برس سے زیادہ ہوچکے، مگر اس کا سماں اب تک آنکھوں میں ہے، مطلع تھا:
کل صبح کے مطلعِ تاباں سے جب عالم بقعہ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوے خورشید کا نور ظہور ہوا
یہ نظم اُس زمانہ میں ہر صاحب ذوق کی زبان پر تھی، اور جس طرح مولانا حالی نے اپنے مسدس کا پیوند جو چند سال کے بعد جوڑا، وہ اصل سے میل نہ کھا سکا، اسی طرح حق یہ ہے کہ ناظر نے اپنی اس نظم کا ایک تتمہ تیس برس کے بعد جو لکھا، وہ اصل سے بے میل ہی رہا، مرحوم کی دوسری نظم کشمیر کے ایک مرقع کی تصویر ہے، جو مناظر کشمیر کے متعلق ان کی پہلی نظم ہے، اسی کا مطلع ہے:
اﷲ اﷲ ہے کیا حسنِ چمن پانی میں
سبزۂ لالۂ و گل، سروو چمن پانی میں
کیسے کیسے ہیں دل افروز نظارے اس میں
کوہ پانی میں، چمن پانی میں بن پانی میں
یہ پوری نظم اسی طرح پانی میں کی مشکل ردیف کے باوجود نہایت سہل و رواں ہے۔
دوسری نظم دریائے تلودری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ منظرکشی کی شاعری کا کامیاب نمونہ ہے:
کیا آب و تاب تجھ میں نہر تلو دری ہے
پربت کی تو ہے دیوی یا قاف کی پری ہے
سرسید اور حالی کے مریثے بھی لکھے، مطائبات اور غزلیں بھی، مگر مناظرِ قدرت کی تصویر کشی میں ان کے قلم کی جولانی اردو میں بے مثال ہے، ماشاء اﷲ ان کا دل یادِ حق سے بھی زندہ تھا، عشق الٰہی اور عشق نبوی سے بھی خالی نہ تھے۔
ترے درپہ خالق ذوالمنن جو میری جبین نیاز ہو
مجھے بیکسی پہ غرور ہو ، مجھے بینوائی پہ ناز ہو
میری یاس کی شب تار میں مرے گم کے گرد و غبار میں
ترالطف چارہ نواز ہو، ترا نور جلوہ طراز ہو
مرا روز جلوہ فروز ہو، ترے رخ کے نور جمال سے
مری شب کی محفل انس میں تری بوئے زلف دراز ہو
میری ان کی پہلی ملاقات یاد نہیں کب ہوئی اور کہاں ہوئی، تاہم یہ یاد ہے کہ مولانا شبلی مرحوم کے تعلق سے محبت اور شفقت سے پیش آئے، اور آخری ملاقات ابھی چند سال ہوئے حمایت اسلام لاہور کے جلسۂ سالانہ میں ہوئی، لمبا قد، چھریرا بدن، بدن پر کوٹ، سر پر پنجابی صافہ، داڑھی فرنچ کٹ، مونچھیں بڑی، مزاج میں کسی قدر کم سخنی، اور کم آمیزی، بڑھاپے کا اثر نمایاں۔
ان کی نظموں کا مجموعہ نغمہ، فردوس کے نام سے ۱۹۳۷؁ء میں شائع ہوا، اس کے مقدمہ کے طور پر کچھ اپنے حالات بھی لکھے تھے، مگر وہ حصہ چھپنے سے رہ گیا، شاید اب کسی کو توفیق ہو، ان کی عمر انتقال کے وقت ستر سے کم نہ ہوگی۔
اﷲ تعالیٰ اس نغمہ فردوس کے مصنف کو فردوس بریں میں جگہ دے، ان کی نظمیں ان کے مومن دل کی پوری شہادت دیتی ہیں، غالباً سلسلہ چشت سے دل کا تعلق تھا، چنانچہ کہتے ہیں:
مراحسبی اﷲ حصار ہو، مرا لا تخف پہ قرار ہو
ہو مرا مقام بلند تر، جو کمند فتنہ دراز ہو
تجھے ناظر اتنی ہو فکر کیوں ، غم و اضطراب کا ذکر کیوں
ترے فکر کار میں رات دن جو ترا غریب نواز ہو
مرنے والے کے وہ چار شعر اور سن لیجئے:
ہم پرستار خدا ہیں ہم خدا کے ساتھ ہیں
ہر گھڑی ہر لخط، اور ہر دم خدا کے ساتھ ہیں
ساز فطرت ہے ہمارا عشق سے رنگیں نوا
نغمہ ہائے دل کے زیر و بم خدا کے ساتھ ہیں
ایک پیمانہ سے سب کو کردیا مست الست
عہد و پیمانِ ازل محکم خدا کے ساتھ ہیں
پر توِ مہرِ ازل میں ہست و بود اپنی ہے گم
ہم مثالِ قطرۂ شبنم خدا کے ساتھ ہیں
دشتِ حرماں میں رہے نا محرمانِ کوئے دوست
اور حریم عشق کے محرم خدا کے ساتھ ہیں
سرنگوں فعرِ مذلت میں رہے باطل پرست
انتم الا علون کے پرچم خدا کے ساتھ ہیں
شش جہت میں ساری وسائر ہے نور لم یزل
صد ہزاراں عرصۂ عالم خدا کے ساتھ ہیں
چپکے چپکے کان میں یہ کہہ رہا ہے دل کہ ہم
لی مع اللّٰہ ہر نفس ہر دم خدا کے ساتھ ہیں
ذرہ ہو خورشید تاباں سے بھلا کیونکر جدا
ہم خدا کے ساتھ تھے اور ہم خدا کے ساتھ ہیں
منزل ہستی میں ناظرؔ کاروانِ عشق کے
سب نشاط و عیش و رنج و غم خدا کے ساتھ ہیں
اﷲ تعالیٰ خدا کی معیت کے اس مشتاق کو آخرت میں اپنے صالحوں کی معیت نصیب فرمائے۔ (سید سلیمان ندوی، نومبر ۱۹۴۴ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...