Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولوی ضیاء الحسن علوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولوی ضیاء الحسن علوی
ARI Id

1676046599977_54337949

Access

Open/Free Access

Pages

149

ضیاء الحسن علوی مرحوم
افسوس کہ میرے رفیق قدیم اور صدیق حمیم مولوی ضیاء الحسن صاحب علوی ندوی نے ایک مختصر علالت کے بعد ۱۴؍ جون ۱۹۴۵؁ء کو الہ آباد میں جہاں وہ عربی مدرسوں کے انسپکٹر اور مشرقی امتحانوں کے رجسٹرار تھے ستاون برس کی عمر میں وفات پائی، اس حادثہ کی اطلاع مجھے ۱۸؍ جون کو لکھنو میں اسی مدرسہ میں ملی جہاں میں اور مرحوم مل کر ایک جان دو قالب ہوئے تھے، افسوس کہ ایک قالب خالی ہوگیا، اور دوسرا نیم جان موجود ہے، مرحوم مجھ سے عمر میں تقریباً پانچ برس چھوٹے (گو تعلیم کے درجہ میں وہ ایک سال بڑے تھے) اس لئے بظاہر امید یہی تھی کہ انہی کو میری جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑے گا، مگر تقدیر یہی تھی کہ مجھے ان کے فراق کا غم سہنا پڑے اس لئے امید غلط ثابت ہوئی، اور تقدیر کا فرمان نافذ ہوکر رہا۔
اکنوں چہ تواں کرد کہ تقدیر چنیں بود
مرحوم کا کوری ضلع لکھنؤ کے مشہور علوی خاندان کے چشم و چراغ تھے، دارلعلوم ندوۃ العلماء کے حامیوں بلکہ بانیوں میں رؤساء کا جو طبقہ شامل تھا، ان میں منشی محمد اطہر علی صاحب مرحوم کا نام بہت جلی ہے، یہ خاندان قطب وقت حضرت مولانا شاہ فضل الرحمان صاحب گنج مراد آبادی رحمتہ اﷲ علیہ کا ارادتمند و معتقد تھا، جو ندوہ کی تحریک کے روحانی مرکز و مدار تھے، اس لئے جب ۱۸۹۸؁ء (۱۳۱۶؁ھ) میں لکھنو میں ندوہ کا دارالعلوم کھلا تو منشی صاحب مرحوم نے اس درس گاہ کو اپنے سب سے چھوٹے بچے اور ایک ننھے بھتیجے کو نذر کیا، یہی ننھا بھتیجا مولوی ضیاء الحسن صاحب علوی ندوی تھے، دارالعلوم کے طلبہ کے داخلہ میں ان کا نمبر شاید دوسرا تیسرا تھا، عربی کی پوری تعلیم یہیں حاصل کی اور یہیں سے فراغت پائی۔
یوں دارالعلوم کے سارے اساتذۂ وقت مولانا حفیظ اﷲ صاحب، مولانا عبدالشکور صاحب (اڈیٹر النجم) عبداللطیف صاحب سب ہی سے تعلیم پائی تھی، مگر جس کی تعلیم نے ان کے لوح دل میں علم و فن کے ذوق کا نقش اولین بنایا، وہ دارالعلوم کے صدر مدرس مولانا فاروق صاحب چریا کوٹی تھے، وہ ادب اور معقولات کے امام تھے، اور یہی دونوں فن مرحوم کی گھٹی میں پڑے، اور عمر بھر انہی سے ان کو ذوق رہا۔
۱۹۰۴؁ء میں مولانا شبلی مرحوم حیدرآباد سے جب لکھنؤ دارالعلوم میں پہلے پہل آئے تو جو طلبہ ان کے حلقہ میں پہلے بیٹھے، ان میں سب سے پہلا نام مولوی ضیاء الحسن مرحوم کا ہے، چنانچہ مولانا کی مردم شناس نگاہ نے ان کے ذوق اور استعداد کو تاڑ لیا، مولانا کے حیدرآباد واپس چلے جانے کے بعد مرحوم نے جو سب سے پہلا خط ان کو لکھا، اس کا جواب مکاتیب شبلی کی دوسری جلد میں موجود ہے، خط ۱؂ کے آخر میں ہے:
’’میں چاہتا ہوں کہ چند روز تک آپ کا اور میرا ساتھ رہتا، تاکہ میں ادب اور فلسفہ کی بعض کتابیں آپ کو پڑھاتا، اور مضمون نگاری کی بھی تعلیم دیتا، دیکھئے کب خدا موقع لاتا ہے‘‘۔ (شبلی ۴؍ جنوری ۱۹۰۴؁ء)
اس کے بعد جون ۱۹۰۵؁ء میں ندوہ تشریف لے آئے اور جس موقع کا انتظار تھا، وہ جلد مل گیا، مرحوم کے بعد اس طلب میں ان کا دوسرا رفیق سفر راقم الحروف تھا، ہم دونوں نے حضرۃ الاستاذ کے سامنے زانوئے ادب تہ کئے، اور علم کلام، معقولات اور اعجاز القرآن کے اسباق شروع ہوئے، مرحوم مجھ سے زیادہ دلیر اور بے تکلف تھے، وہ پرائیوٹ صحبتوں میں بھی شریک ہوتے تھے، اور ہر روز علم کا نیا فیض حاصل کرتے تھے، اسی زمانہ میں مولانا ابوالکلام آزاد ندوہ ہی میں مولانا کے پاس مقیم تھے، مولانا حمید الدین صاحب مصنف نظام القرآن بھی آیا کرتے تھے، اور ہفتوں ندوہ میں رہا کرتے تھے، مولانا عبداﷲ عمادی اڈیٹر البیان بھی لکھنؤ میں مقیم اور اکثر صحبتوں میں شریک ہوتے تھے، خواجہ غلام الثقلین بھی آتے جاتے رہتے تھے مرحوم ان لوگوں کے ساتھ بے تکلف ملتے جلتے تھے، اور اس خوانِ ادب سے بہرہ ور ہوتے تھے۔
مرحوم کو جدید علوم کے حصول کی طرف میلان مرزا ہادی صاحب رسوا (سابق عربی پروفیسر کرسچین کالج لکھنؤ) کی صحبتوں اور ملاقاتوں سے ہوا، وہ عربی کے عالم، انگریزی کے گریجویٹ اور جدید فلسفہ اور ریاضیات کے ماہر تھے، آخر میں دارالترجمہ عثمانیہ سے متعلق ہوکر فلسفہ کی متعدد کتابیں اردو میں ترجمہ کیں۔ مولانا شبلی نے ایک دفعہ ان کو مدرسہ میں ہم چند طلبہ کو جدید فلسفہ پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا، مگر وہ بڑے لااُبالی تھے، چند سبق سے زیادہ کا معاملہ ان سے نہ چل سکا۔
بہر حال مرحوم نے ۱۹۰۵؁ء میں عربی تعلیم سے فراغت پائی، اور ۱۹۰۶؁ء کے مشہور جلسہ دستار بندی میں میرے ساتھ ہی ان کی بھی دستار بندی ہوئی، اس جلسہ میں انھوں نے اعجاز القرآن کے موضوع پر ایک عالمانہ تقریر کی تھی، جو بعد کو مرتب ہو کر الندوہ میں شائع ہوئی، اور مدح و تعریف کی مستحق ہوئی۔
مرحوم کو اردو ادب کا ذوق فطرۃً تھا، گھر کا ماحول مشاہیر نظم و نثر کی ان کے ہاں آمدورفت، پیارےؔ صاحب رشید اور مرزا رسوا جیسے نظم و نثر کے ادیبوں سے ان کے خاندانی مراسم تھے، اور پھر بچپن سے لکھنؤ کی سکونت، ان سب کا اثر یہ تھا، کہ وہ اردو روزمرہ کے جان دادہ تھے، شعر بھی کہتے تھے، مگر صرف اپنے لئے، علمی مضامین توحضرۃ الاستاذ مرحوم کی پیروی میں لکھتے تھے، مگر عام انداز تحریر شوخ و شگفتہ روزمرہ کی بول چال کا تھا۔
مرحوم کا پہلا مضمون ’’صحت اور عمر کی درازی‘‘ ہے، جو المقطف مصر کے ایک مضمون کا ترجمہ تھا، اور رسالہ الندوہ ۱۹۰۵؁ء میں چھپا، اس کے بعد دوسرے مضامین لکھے، جوالندوہ ہی میں چھپائے کیے، ان کا ایک ابتدائی ادبی مضمون اردوئے معلی علی گڑھ میں چھپا، خواجہ غلام الثقلین ان دنوں دارالعلوم کے پاس ایک مکان میں رہتے تھے اور اسلامی کانفرنس کے صیغۂ اصلاح و تمدن کے سکریٹری تھے، اور اس تعلق سے وہ عصر جدید نام ایک ماہانہ رسالہ نکالا کرتے تھے، خواجہ صاحب کے تقاضے اور اصرار سے اس میں بہت سے اصلاحی مضمون لکھے، اور وہ چھپے۔
مرحوم نے عربی سے فراغت پاکر انگریزی کی طرف توجہ کی، جس کا آغاز لکھنؤ میں ہوچکا تھا۔ مگر انجام علی گڑھ میں ہوا، ۱۹۰۹؁ء میں وہاں سے میٹرک پاس کیا، حضرۃ الاستاذ نے مبارک باد لکھی۔
’’مبارک، تمھارے پاس ہونے سے بے حد خوشی ہوئی، اور تمھاری نسبت حسن ظن بڑھ گیا․․․․․․ اب تم ضرور کالج میں پڑھوگے، الندوہ میں تم پر نوٹ دوں گا‘‘۔
۱۹۰۹؁ء میں وہ کالج میں داخل ہوئے، اور ۶ برس میں ایم اے تک تعلیم پائی، اس زمانہ میں عربی کے پروفیسر یوسف ہارویز نام ایک جرمن فاضل تھے، جنھوں نے طبقات ابن سعد کے بعض اجزا کی تصحیح کی، اور جو علی گڑھ میں ۱۹۱۴؁ء کی گذشتہ جنگ عظیم کے شروع تک رہے، اور اس کے آغاز ہی میں قید ہو کر بعد کو جرمنی واپس چلے گئے تھے، مرحوم کالج میں پہنچ کر ان کے حلقہ میں داخل ہوئے،اور ان پر ایسے چھائے کہ ان کے جزو کل پر حاوی ہوگئے، اُن سے مستشرقین کے معلومات حاصل کیے، کچھ جرمن زبان اور کچھ عبرانی زبان کے سبق پڑھے، مولانا شبلی اور پروفیسر ہارویز کے درمیان ربط و ضبط کا واسطہ مرحوم ہی تھے۔
۱۹۱۶؁ء میں غالباً انھوں نے ایم اے پاس کیا، اس وقت یوپی کی گورنمنٹ عربی مدارس کی نگرانی کے لئے ایک انسپکٹر کے تقرر پر غور کررہی تھی، مرحوم سے بڑھ کر اس کام کے لئے دوسرا موزوں نہیں ہوسکتا تھا، وہ ایک طرف ٹھیٹھ مولوی اور دوسری طرف ممتاز گریجویٹ تھے، چنانچہ ۱۹۱۷؁ء میں وہ عربی مدرسوں کے انسپکٹر مقرر ہوئے، اور اسی عہدہ پر آخر تک قائم رہے، ابھی اسی جولائی میں وہ قید ملازمت سے چھوٹنے والے تھے، کہ اس سے چند روز پہلے قید حیات ہی سے آزاد ہوگئے۔
مرحوم نے عربی نصاب، اور اردو فارسی اور عربی کے سرکاری امتحانات کی اصلاح اور ترقی میں بہت بڑا کام کیا ہے۔ جب وہ اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے تو نام کے سوا اس صیغہ میں کچھ اور نہ تھا، لیکن انہوں نے چند برس کے اندر اپنی محنت، لیاقت، اخلاق اور محبت سے چالیس پینتالیس مدرسوں کو اپنا ہمنوا بنالیا اور اصلاح نصاب کا وہ خاکہ جو استاذ مرحوم صرف ندوہ کی حد تک کھینچ سکے تھے ان کے لائق شاگرد کے ہاتھوں وہ پورے صوبہ کے دائرہ میں وسیع ہوگیا۔
مرحوم کو کتابوں کا بہت شوق تھا، وہ خود بھی ہر قسم کی علمی کتابیں عربی اور انگریزی کی خریداری کرتے تھے، ان کا مطالعہ برابر جاری رہتا تھا، اور اہل علم دوستوں سے مسائل علمیہ پر مباحثہ کرتے تھے۔
ان کی علمی یادگار وہ چند ابتدائی مضامین ہیں جو الندوہ میں چھپے، یا اسلامی جہازوں پر ان کا وہ مضمون ہے، جو ۱۹۱۰؁ء کے قریب علی گڑھ منتھلی میگزین میں چھپا، اور حضرت الاستاذ کی پسند سے انعام کا مستحق ہوا، اسی طرح عصر جدید کے اصلاحی مضامین بھی ہیں، جو کبھی ان کے نام سے اور کبھی بے نام چھپے، آخر میں ان کا طویل مضمون جو ’’یاد ایام‘‘ کے عنوان سے جدید الندوہ میں ۱۹۴۱؁ء کے آٹھ نو نمبروں میں شائع ہوا تھا ذکر کے قابل ہے، یہ گویا ان کی آپ بیتی ہے جس میں جگ بیتی کے بہت سے دلچسپ مناظر شامل ہیں، اس مضمون میں لکھنؤ کی زبان کا مزہ اور روزمرہ کا چٹخارا ایسا تھا کہ سب اہل ذوق نے اس کو بیحد پسند کیا، افسوس کہ یہ کہانی ناتمام رہی۔
ان کو ادب سے فطری ذوق تھا، الف لیلہ ولیلہ جو عربی داستان سرائی کی بے مثال کتاب سمجھی جاتی ہے، اس کے اردو ترجمہ کی امنگ ان کے دل میں ایک مدت سے تھی، چنانچہ انہوں نے ایک زمانہ سے اس کام کو شروع کررکھا تھا، اس ترجمہ میں اس کا بھی خاص اہتمام تھا کہ عربی شعروں کا ترجمہ اردو ہی شعروں میں ہو، معلوم نہیں یہ چیز کہاں تک پہنچی، سبعہ معلقہ میں سے امراء القیس کے قصیدہ کا ترجمہ اردو نظم میں کیا تھا۔
وہ دارالمصنفین کے رکن تھے، اور استاذ مرحوم کی نسبت سے اس سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے، ان کی فرمایش سے ہمارے فاضل رفیق مولانا عبدالسلام صاحب ندوی نے امام رازی کی سوانح عمری اور ان کے فلسفہ پر تبصرہ کا کام انجام دیا، میں نے مناسب سمجھا کہ اس پر مرحوم سے ایک مقدمہ لکھوایا جائے جس میں امام رازی کے فلسفہ کو یورپ کے فلسفیوں کی نگاہ سے دیکھا جائے، اور موازنہ کیا جائے، افسوس کہ ان کی موت سے یہ کام بھی ناتمام رہ گیا۔
مرحوم کا بچپن مذہبی وصوفیانہ ماحول میں گذرا تھا، اس لئے باایں ہمہ ان پر یہ اثر غالب تھا، طالب علمی ہی میں حضرت مولانا شاہ ابو احمد صاحب مخدومی بھوپالی (مرید شاہ عبدالغنی صاحب مجددی مہاجر) سے لکھنؤ میں بیعت کی تھی، جو اس وقت اتفاق سے لکھنؤ آگئے تھے، اور میں نے بھی ملّامبین کی مسجد میں ان کی زیارت کی اور بھوپال میں تو کئی دفعہ حاضری کا اتفاق ہوا، چونکہ میرے بڑے بھائی صاحب مرحوم بھی انہی سے بیعت تھے، اور خلافت سے ممتاز تھے، اس لئے مرحوم ضیاء الحسن سے میری محبت کی نسبت میں اس نئے رشتہ سے اور مضبوطی پیدا ہوگئی تھی، حضرت شاہ صاحب کی وفات کے بعد مرحوم نے حضرت شاہ نجم الدین صاحب فتح پوری سے تعلق پیدا کیا جن سے وہ بچپن سے واقف تھے، کیونکہ دارالعلوم ندوہ کا افتتاح انہی کے مبارک ہاتھوں سے ہوا تھا، ان کی وفات کے بعد ایک اور بزرگ کی طرف انہوں نے رجوع کیا، جو غالباً کہیں آگرہ کے قریب کے تھے، مولانا شاہ ابوالخیر صاحب مجددی دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کے یہاں بھی کبھی کبھی حاضری دی ہے، ذکر و فکر و اشغال میں بھی مصروف رہتے تھے، اور ان کے برکات دوستوں میں کبھی کبھی بیان کرتے تھے۔
افسوس کہ میرے تعلیمی عہد محبت کا یہ نخل بارآور عمر کی ستاون بہاریں دیکھ کر اب ہمیشہ کے لئے مرجھا گیا، حضرۃ الاستاذ نے بھی عمر اتنی ہی پائی تھی، ستاون برس کی عمر کے حساب سے ۱۸۸۸؁ء یا ۱۸۸۹؁ء کی پیدائش ظاہر ہے۔
وکنا کندمانی جذیمۃ حبقۃ
من الدھر حتی قیل لن یتصدعا
ہم دونوں ایک مدت تک بادشاہ جذیمہ کے دو مصاحبوں کی طرح ایک ساتھ رہے یہاں تک کہ کہا گیا کہ اب یہ الگ نہ ہوں گے۔
فلما تفرقا کانی ومالکا
بطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا
پھر جب ہم الگ ہوگئے، میں نے اور مالک نے طول اجتماع کے ہوتے ہوئے بھی گویا ہم نے ایک رات بھی ایک ساتھ نہیں گذاری۔
مرحوم کی دو شادیاں ہوئی تھیں، پہلی بیوی سے ایک لڑکا اور لڑکی، دونوں بالغ ہیں لڑکے کا نام حسن ہے، جو امسال بی۔ اے، بی۔ ٹی ہوئے ہیں، اور ادبی ذوق میں اپنے باپ کی یادگار ہیں۔ دوسری بیوی سے چند بچے ہیں، اور سب چھوٹے اور کم سن۔
اﷲ تعالیٰ مرنے والے کی قبر پر رحمت کے پھول برسائے۔
(سید سلیمان ندوی،جولائی ۱۹۴۵ء)

۱؂ مکاتیب شبلی کی دوسری جلد میں بسلسلۂ تلامذہ ان کے خطوط شامل ہیں۔

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...