Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا ابو عماد شبلی (فقیہ ندوہ)

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا ابو عماد شبلی (فقیہ ندوہ)
ARI Id

1676046599977_54337951

Access

Open/Free Access

Pages

152

مولانا شبلی (فقیہ ندوہ)
اعظم گڑھ کی سرزمین سے تین شبلی پیدا ہوئے، اور اتفاق سے تینوں کسی نہ کسی حیثیت سے ندوہ سے وابستہ رہے، ایک نے وہاں تعلیم و تربیت پائی اور شبلی متکلم کے خطاب سے مشہور ہوئے، اس وقت مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کے مہتمم اور صدر مدرس ہیں، دوسرے اس کے معتمد تعلیم بلکہ روح رواں تھے، جن کو دنیا علامہ شبلی کے نام سے جانتی ہے، تیسرے مولانا شبلی فقیہ ندوہ تھے، جنھوں نے نہ وہاں تعلیم پائی اور نہ کسی خاص شہرت کے مالک ہوئے، مگر ندوہ اور ندویوں کو ان کی ذات سے ان کے دوسرے ہمنام بزرگوں سے کم فائدہ نہیں پہنچا، ندوہ کے ابتدائی چند سالوں کے علاوہ اس کی پچاس سالہ زندگی کے ہر دور میں یہ ہمارے مولانا شبلی نظر آئیں گے، اس دور کا کوئی ایسا ندوی نہیں ہے، جو ان کا شاگرد نہیں، اور ان کے سامنے اس نے زانوے تلمذ تہ نہیں کیا۔
ولادت اور تعلیم و تربیت: غالباً ۱۸۷۲؁ء میں ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں جیراجپور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد عربی کی تحصیل کے لئے فرنگی محل لکھنو اور پھر مدرسہ عالیہ رامپور گئے، وہاں کئی برس رہ کر تعلیم کی تکمیل کی۔
مولانا اپنے قیام رامپور کا قصہ اکثر بیان کرتے تھے، فرماتے تھے کہ دو ڈھائی روپیہ ماہانہ کل خرچ ہوتا تھا، دن میں دونوں وقت کھانا کھاتا تھا، ۴ چراغ کے تیل پر خرچ ہوتا تھا، اور ۴ دھوبی صابون وغیرہ اور ۲؍۴ حجامت وغیرہ پر۔
تکمیل تعلیم کے بعد ہی مولانا مدرسہ چشمہ رحمت غازیپور میں صرف و نحو کے مدرس مقرر ہوئے۔
ندوہ میں آمد: علامہ شبلی نعمانی مرحوم مردم شناس بھی تھے، ایک مرتبہ اتفاق سے غازیپور گئے ہوئے تھے، چشمۂ رحمت میں بھی جانے کا اتفاق ہوا، اور مولانا شبلی کا انداز تدریس دیکھ کر ان کو آمادہ کرکے اپنے ساتھ ندوہ لے آئے، غالباً مولانا ۱۹۰۶؁ء میں ندوہ آئے، اور ۴۰ برس تک مسلسل ندوہ کی خدمت کرتے رہے، پچھلے سال فالج کا حملہ ہوا، اس سے وہ درس و تدریس سے تقریباً معذور ہوگئے، اور کچھ دنوں کے بعد دارالعلوم ہمیشہ کے لئے ان کے فیوض و برکات سے محروم ہوگیا، اور اسی مرض میں گزشتہ ۱۷؍ رمضان المبارک کو اپنے وطن میں انتقال کیا۔
مولانا میں چند خصوصیتیں ایسی تھیں کہ ہر شخص ان سے مانوس ہوجاتا تھا۔
اتباع سنت: مذہبی زندگی میں وہ اکابر علمائے خیر کی صف میں ممتاز تھے، عقائد و عبادات کے علاوہ اخلاق و معاملات اور معاشرت میں بھی سنن و مستحبات کا اہتمام رکھتے تھے، چنانچہ پوری زندگی پاجامہ کے بجائے تہبند کا استعمال رکھا، اپنا سارا کام اپنے ہاتھ سے کرتے، اور طلبہ سے کام لینا پسند نہیں کرتے تھے، بکریاں پالتے تھے، اور ان کی جملہ ضروریات اپنے ہاتھوں سے پوری کرتے، جب وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے، تو بادل ناخواستہ بکریاں پالنا چھوڑ دیں۔
تواضع و اخلاق: نہایت خلیق، متواضع اور خوش مزاج تھے، کبھی کسی استاد یا طالب علم کو ان سے شکایت نہیں پیدا ہوئی، اور انھوں نے اپنی چالیس سالہ زندگی میں بھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، راستہ میں ہر چھوٹے بڑے کو بلاتفریق سلام کرنے میں سبقت کرتے، مولانا حیدر حسن خان صاحب سابق شیخ الحدیث جب مکان تشریف لے جاتے، تو مولانا ہی کو اپنا قائم مقام بناتے، مگر مولانا غایت تواضع میں کبھی ان کی کرسی پر نہیں بیٹھتے بلکہ دوسری جگہ بیٹھ کر فرائض متعلقہ انجام دیتے۔
سادگی: مولانا نے ہمیشہ سادہ اور یکساں لباس پہنا، گرمیوں میں تہبند ،کرتا، اور دوپلی ٹوپی اور جاڑوں میں ایک دگلا اور تہبند کے نیچے ایک روئی دار پائجامہ، ایک خاص قسم کی چپل جو شاید انہی کے لئے خاص طور سے بنوائی جاتی تھی، جسے دیکھ کر صحابہ کی تسمہ نما چپل کی یاد آجاتی تھی، شاید اس کا التزام بھی اتباعِ سنت ہی کے ذوق کے ماتحت رہا ہو، عصا بھی ہمیشہ ساتھ رکھا کرتے تھے۔
دارالعلوم ندوہ کی زیارت کے لئے دنیا کے تقریباً ہر گوشہ کے مشاہیر آئے، ندوہ کے بیسیوں ماہانہ و سالانہ جلسے ہوئے، اور سیکڑوں دعوتیں ہوئیں، مگر مولانا ان تمام مجلسوں تقریبوں اور دعوتوں میں اسی سادگی کے ساتھ شریک ہوئے، کبھی کوئی خاص اہتمام نہیں کیا۔
درس و تدریس اور مطالعہ: مولانا کا درس بہت ہی دلنشین اور دلچسپ ہوتا تھا، اثنائے درس میں دو ایک خوش کن قصے ایسے ضرور سناتے جس سے طلبہ ان کے درس سے اکتاتے نہیں تھے، درس کی تقریر اتنی سلجھی اور دلنشین ہوتی کہ پیچیدہ سے پیچیدہ بحث کو کم فہم طلبہ بھی آسانی سے سمجھ لیتے، کوئی طالب علم اگر کوئی سوال کرتا تو بہت خوش ہوتے اور خندہ پیشانی سے اس کا جواب دیتے، بغیر مطالعہ کے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھاتے تھے، فرماتے تھے کہ بغیر مطالعہ کے میزان کا پڑھانا بھی حرام اور دیانت کے خلاف ہے، اخر عمر میں بینائی کمزور ہوگئی تھی اور مطالعہ سے تقریباً معذور ہوگئے تھے، تو جس جماعت کو پڑھانا ہوتا، اس جماعت کے کسی ہوشیار طالب علم کو بلالیتے اور کتاب مع حواشی و شروح پڑھواکر سن لیتے، یہ ان کی خاص خصوصیت تھی، حافظہ بھی نہایت اچھا تھا، فرماتے تھے کہ شرح وقایہ اولین کا اکثر و بیشتر حصہ زبانی سناسکتا ہوں، طلبہ اور اساتذہ کو فقہی یا علمی مسائل کی تحقیق کرنی ہوتی تو فقہی مسائل میں مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے، اور علمی مسائل میں حضرت شاہ حلیم عطا شیخ الحدیث مدظلہ کی طرف، مولانا ہر فن کی کتاب بے تکلف پڑھا لیتے، مگر فقہ سے خاص لگاؤ تھا، ندوہ میں جب تک رہے، فقیہ اول رہے، خلافیات حدیث پر بھی پوری نظر تھی، مگر اس میں غلو نہیں تھا اور متکلمانہ و مناظرانہ طرز کے بجائے محدثانہ طرز سے پڑھاتے تھے۔
دارالاقامہ کی نگرانی: مولانا کی زندگی کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ وہ چالیس برس تک دارالاقامہ کی نگرانی کے فرائض انجام دیتے رہے، اس طویل مدت میں سیکڑوں لڑکوں نے ان کے ہاتھوں سے مار کھائی، اور سزائیں پائیں، مگر اس کے باوجود کبھی کسی طالب علم کو ان سے کوئی شکایت نہیں پیدا ہوئی، شکایت نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ جذبہ انتقام یا تذلیل کے لیے کبھی کسی کو کچھ نہیں کہتے تھے اور اگر سزا بھی دیتے تو اس میں پدرانہ شفقت کار فرما ہوتی تھی۔
مولانا نے کچھ دنوں تک چھوٹے بچوں کی نگرانی بھی کی، ان کے ساتھ ان کا سلوک بالکل مادرانہ ہوتا تھا، جب کبھی کوئی بچہ بستر پر پیشاب کردیتا تھا، تو خود اپنے ہاتھوں سے بستر دھوتے، اور ان کے کھانے، کپڑے، رہنے سہنے اور کھیلنے کودنے کا پورا خیال رکھتے تھے۔
میں ۱۹۳۹؁ء میں ندوہ گیا، اس وقت مولانا شبلی دارالاقامہ کے جو بڑے لڑکوں کے لئے مخصوص ہے نگران تھے، مولانا کا معمول تھا کہ فجر کی نماز کے وقت پورے بورڈنگ کا ایک چکر لگاتے، مگر اس سے پہلے اپنی چار پائی سے ہر کمرہ کے اس لڑکے کا نام لے لے کر آواز دیتے، جو نماز میں زیادہ سست ہوتا، اس پیرانہ سالی میں بھی مولانا کی آواز میں کسی قسم کا ضعف نہیں آیا تھا، پھر مولانا اپنی چارپائی سے اٹھتے، مولانا کی چپل کی آواز کے ساتھ ہی سارے طلبہ اپنے اپنے کمرہ سے باہر ہوجاتے، بعض لڑکے یہ شرارت کرتے، کہ چارپائی کے نیچے گھس جاتے، اس لیے مولانا کبھی کبھی چارپائی کے نیچے ڈنڈے کے ذریعہ سے جائزہ لیتے، اگر کوئی لڑکا ڈنڈے کی زد میں آجاتا، تو پھر ان کی خیر نہیں تھی۔
اسٹرایک: ندوہ میں لڑکوں نے کئی مرتبہ اسٹرایک کی دو تین مرتبہ خود میرے سامنے ہوئی، لڑکے اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے جب اڑ جاتے اور کوئی صورت مصالحت کی باقی نہ رہ جاتی تو مولانا درمیان میں پڑکر صلح و مصالحت کرادیتے، بڑے سے بڑا انقلابی لڑکا بھی ان کے سامنے پہنچ کر بے حد معتدل بن جاتا تھا۔
کھانے کا ذوق: مولانا کھانا کھلانے کے طبعاً بڑے شائق اور فیاض تھے، بغیر گوشت کے کھانا پسند نہیں کرتے تھے، بقرعید کے دنوں میں ہمہ وقت مولانا کی انگیٹھی گرم رہتی تھی، خود اپنے ہاتھ سے گوشت پکاتے اور طلبہ و اساتذہ کو کھلاتے، مولانا عبدالسلام صاحب ندوی جب لکھنو جاتے، تو ان کی بڑی پرتکلف دعوت کرتے تھے، جس میں مرغ اور کباب خصوصیت سے ضرور کھلاتے۔
افسوس ہے کہ ایسی فیض بخش و بابرکت ذات سے ندوہ ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا۔ (’’م ۔ج‘‘، دسمبر ۱۹۴۵ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...