Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نواب فصاحت جنگ جلیلؔ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نواب فصاحت جنگ جلیلؔ
ARI Id

1676046599977_54337952

Access

Open/Free Access

Pages

153

درویش شاعر
جلیل القدر نواب فصاحت جنگ جلیل رحمہ اﷲ تعالیٰ
یکم صفر ۱۳۶۵؁ھ مطابق ۶؍ جنوری ۱۹۴۶؁ء کو مشہور شاعر استاد حضرت جلیل نے پچاسی برس کی عمر میں حیدرآباد دکن میں داعی اجل کو لبیک کہا، اﷲ تعالیٰ اس درویش شاعر کو اپنی داد رحمت سے شاد فرمائے۔
اﷲ اﷲ! زمانہ کی نیزنگیاں کیا کیا انقلاب دکھاتی ہیں، بچہ جوان، جوان بوڑھا، اور بوڑھا راہ عدم کا مسافر ہوتا ہے، انگریزی کی بیسویں صدی کا پہلا سال تھا جب میری عمر ۱۶، ۱۷ برس کی ہوگی کہ میں دارالعلوم ندوہ لکھنؤ میں داخل ہوا، شعر و سخن کا چسکا مکتبی بیت بازی کے سبب سے پہلے سے تھا، اب لکھنؤ آیا، جہاں کے ذرہ ذرہ کے خمیر میں شعر و سخن کا عنصر ہے، مدرسہ میں بھی اس وقت طالب علم مشاعرے کرتے تھے اور غزلیں پڑھتے تھے، تجمل شاہجہاں پوری، سید ظہور احمد ناحل شاہجہاں پوری (جو بعد کو وحشی شاہجہانپوری ہوگئے تھے) دانا سہسرامی (حکیم رکن الدین دانا ندوی) مصطفےٰ ملیح آبادیؔ صدیق حسن، اثرؔ مانکپوری، شرر بہاری (مولوی عبدالغفور شرر) اور یہ خاکسار اس میں پوری دلچسپی لیتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب امیروداغ کے زمزموں سے ہندوستان پر شور تھا اور خاکسار کا میلان امیر مرحوم کی طرف تھا اور ان کا دیوان مراۃ الغیب پیش نظر رہتا تھا۔
صدیق حسن صاحب اثر مانکپوریؔ حضرت جلیل کے فرزند تھے اور ان سے اور مجھ سے شعراء انشاء کی دلچسپی کے رشتہ سے یارانہ تھا، اس تعلق میں ان کے والد ماجد کی حضرت امیر مرحوم کے ساتھ شاگردی کی نسبت نے محبت کی گرہ کو اور زیادہ استوار بنا دیاتھا، مولوی صدیق حسن صاحب (حال وظیفہ یاب سرکار نظام) کے پاس ان کے والد کی غزلوں کا سفینہ تھا، میں اس کو اکثر دیکھتا اور اس کے اچھے اشعار یاد کرتا، چنانچہ ان کی ایک غزل کے یہ چند شعر اسی وقت سے یاد ہیں۔
کھول کر جوڑا نکلنا اس ہوا میں قہر ہے،
منہ تمہارا چوم لے زلفِ پریشان تو سہی
گیسو و رُخ کا اگر دو دن یہی عالم رہا
یار کا کلمہ پڑھیں ہندو مسلمان تو سہی
شعر کیا رنگین کہے ہیں وصفِ لب میں اے جلیلؔ
خون تھوکے رشک سے لعل بدخشاں تو سہی
دربار امیری سے مزید وابستگی کا باعث یہ تھا کہ مدرسہ میں ہمارے استاد و مہتمم شمس العلماء مولانا حفیظ اﷲ صاحبؒ اس سے پہلے جنرل اعظم الدین خاں کے زمانۂ تولیت میں رامپور کے مدرسہ عالیہ میں مدرس اول رہے تھے اور ان سے امیر مینائی مرحوم اور ان کے تلامذہ اور فرزندان عزیز اختر مینائی وغیرہ سے تعلقات تھے۔ امیر اللغات کی مجلس شوریٰ کے وہ ایک ممبر تھے، ہمارے اوقات درس میں کبھی کبھی ان کے تذکرے بھی آتے تھے اور ہم لوگ ان کو بڑے شوق سے سنتے تھے، یہ گوناگوں اسباب تھے جن کی بناء پر اختر مینائی مرحوم اور حضرت جلیل سے شاعرانہ عقیدت تھی اور اس وقت ان سطروں کے لکھنے میں بھی یہ نسبتیں اثر انداز ہیں۔
حضرت جلیل کا پورا نام جلیل حسن تھا، مانکپور ضلع پرتاب گڑھ کے رہنے والے تھے، حفظ قرآن سے مشرف، فارسی کی اعلیٰ استعداد اور عربی کی تھوڑی واقفیت تھی، لیکن شعر و سخن کے اصول و فروع اور لغت اردو کی تحقیق میں یدطولیٰ رکھتے تھے اور یہ فیض ان کو اپنے استاد حضرت امیرمینائی سے پہنچا، جوانی تھی، کہ استاذ کے قدموں آکر لگے، استاد نے بھی جوہر قابل پاکر پوری تربیت کی، امیراللغات کی تربیت کا کام انجام پارہا تھا، جو ۱۸۸۲؁ء سے شروع تھا، استاد نے اس کام کا سررشتہ شاگرد کے سپرد کیا، پہلی جلد الف ممدودہ کی شائع ہوئی اور دوسری جلدوں کے مسودے تیار ہونے لگے تھے کہ رامپور میں ریاستی انقلاب کا دور آیا، اتفاق وقت کہ اسی زمانہ میں حضور نواب میر محبوب علی خاں نظام سابق کشور دکن ہندوستان آئے، اس سفر میں داغؔ بھی ہمرکاب تھے، داغؔ پہلے رامپور میں رہ چکے تھے اور امیر مرحوم سے ان کا دوستانہ تھا، اس بنا پر داغ کے سلسلہ سے امیر مرحوم نے حضور نظام کی خدمت میں باریابی پائی اور حضور نظام نے ان کو دکن آنے کا ایما فرمایا، چنانچہ کچھ دنوں کے بعد اس بڑھاپے میں ۱۳۱۸؁ھ؍ ۱۹۰۰؁ء میں وہ دکن کو سدھارے، دکن کو کیا سدھارے، اپنے اصلی وطن کو سدھارے، یعنی دکن پہنچے، ایک مہینہ اور کچھ دن ہوئے تھے کہ وہاں وفات پائی اور مشہور عام شعر بالکل صادق آیا۔
دو چیز آدمی راکشد زور زور
یکے آب ودانہ دگر خاک گور
آب و دانہ تو میسّر نہ آیا، خاک گور میسّر آئی، شاہ خاموش کے احاطۂ مزار میں اس شعر و سخن کے مرقد پر عمر میں دو دفعہ حاضری میسر آئی، دعائے مغفرت کے پھول نچھاور کئے۔
اس سفر میں شاگردوں میں حضرت جلیل اور صاحبزادوں میں سے حضرت اختر مینائی ساتھ تھے اس غربت اور مسافرت کے عہد میں مہاراجہ کشن پرشاد نے جو شعر و سخن کے شائق اور علوم مشرقی کے بڑے قدر دان تھے، امیر کے ان دونوں عزیزوں کی بڑی قدر کی اور ان کو فوراً اپنے سایۂ عاطف میں لے لیا، اس وقت سے ان دونوں صاحبوں نے حیدرآباد کو اپنا وطن بنالیا اور تقریباً پانچ چھ برس تک صرف مہاراجہ کی سرپرستی میں زندگی بسر کرتے رہے، اس زمانہ میں ایک گلدستہ اور ایک نثر کا ماہوار رسالہ دبدبۂ آصفی کے نام سے ان کے اہتمام میں نکلنے لگا، حضرت جلیل نے اسی زمانہ میں ’’تذکیر و تانیث‘‘ پر ایک محققانہ کتاب لکھی، جس میں سات ہزار الفاظ کی تذکیر و تانیث کا فیصلہ درج کیا، پھر اردو کے فن عروض پر ایک رسالہ لکھا، جس میں اردو کے مستعمل اوزان و بحور کی تشریح کی، اس کے بعد اور بھی کتابیں لکھیں، جن کا ذکر آگے آئے گا۔
۱۹۰۵؁ء میں استاد داغ نے جو حضور نواب میر محبوب علی خاں آصف سادس کے استاد تھے، وفات پائی، تو اعلیٰ حضرت کی نگاہ انتخاب حضرت جلیل پر پڑی اور ان سے مشورۃً کلام فرمانے لگے، ۱۹۱۱؁ء میں جب حضور میر عثمان علی خاں بہادر تخت نشین ہوئے تو وہ مزید قدردانیوں سے سرفراز ہوئے اور اب وہ وقت آیا جو اس ماہر و کامل الفن کی قدرشناسی کے لئے مقدر تھا، چنانچہ اس وقت سے مرحوم نے اپنی رحلت تک پورے چھتیس برس اس شاہ عالی جاہ کے ظل عاطفت میں بکمال اطمینان و فارغ البالی بسر کئے اور بہت سے القاب و انعامات سے سرفراز ہوتے رہے۔
خاکسار کو سب سے پہلی دفعہ مارچ ۱۹۱۱؁ء میں نواب عمادالملک مرحوم کے کتب خانہ کو ندوہ میں لانے کے سلسلہ سے حضرت الاستاذ مرحوم کے حسب ایما حیدرآباد جانے کا اتفاق ہوا، وہ عقیدت جو حضرت جلیل سے مجھے تھی، کشاں کشاں ان کے آستانہ تک لے گئی، بڑی محنت اور شفقت سیؤ ملے، اس کے بعد جب کبھی حیدرآباد جانا ہوا انکے ہاں ضرور حاضری دی، پرانی وضعداری اور استقامت کی یہ مثال آج تعجب سے سنی جائے گی کہ ان سے پہلی ملاقات جس مکان، مکان کے جس سائبان اور سائبان کی جس سمت میں جس کرسی پر، جس ہیئت کذائی سے ہوئی تھی، اخیر ملاقات بھی اسی مکان میں اسی سائبان میں، اسی کرسی پر اور اسی صورت میں ہوئی۔ میانہ قد، دبلا بدن، رنگ گندمی، قریب سانولا، داڑھی میں سیاہ خضاب، آنکھوں میں سرمہ، ہاتھوں میں تسبیح، ابھی آخری زمانہ کی حاضری کے موقع پر جو جنوری ۱۹۴۵؁ء میں ہوئی، دیدار نہ ہوسکا، ایسے بیمار تھے کہ ذی فراش تھے، نقل و حرکت کی ممانعت تھی، یہی علالت کم و بیش قائم رہی اور مرض الموت ثابت ہوئی، محلہ سلطانپورہ کے جس کرایہ کے مکان میں رخت اقامت ڈالا، اخیر تک اسی میں گزار دیا۔
مرحوم نہایت دیندار، تہجد گزار، تسبیح خواں، ذکر الٰہی میں تر زبان، متین، سنجیدہ، کم سخن، متواضع، خاکسار اور بڑے پابند وضع تھے، پنج وقتہ نماز باجماعت کا اہتمام تھا، عشقِ رسول میں سرمست تھے، مرحوم کے یہ اوصاف جوانی ہی سے تھے، چنانچہ حضرت امیر ایک خط میں جو مکتوبات امیر میں چھپا ہوا ہے لکھتے ہیں۔
’’مجھے محبی جلیل سے سخت انفعال ہے اور ان کی کامیابی کا نہایت خیال ہے، آدمی یہ ایسے اچھے ہیں کہ جہاں ہوں وہاں اسلامی برکات پھیلیں، میں ان کی علیحدگی کو اپنی بدقسمتی جانتا ہوں مگر بمجبوری گوارا کرتا ہوں‘‘۔
یہ مجبورانہ علیحدگی بغرض طلب معاش یوں پوری ہوئی کہ استاد و شاگرد ایک قدرشناس کی تلاش میں راہی دکن ہوئے اور استاد شاگرد کو چھوڑ کر قضا و قدر کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود اس دارالمحن سے علیحدہ ہوگیا اور یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔
قبر ہی وادیٔ غربت میں بنے گی اک دن

Gاور کوئی نظر آتی نہیں گھر کی صورت

âامیر)
ì تقدیر نے کہا شاگرد اسی وادی غربت کو اپنا گھر بنائے گا اور یہاں اس کی ظاہری و باطنی ترقی کا ایوان رفیع تعمیر پائے گا۔
حضرت جلیل نے ۱۹۰۰؁ء سے لے کر ۶؍ جنوری ۱۹۴۶؁ء تک ادھیڑ عمر سے زندگی کے اخیر لمحہ تک حیدرآباد میں گزارا اور اس کو اپنا ایسا وطن بنایا جس کو مرنے کے بعد بھی نہ چھوڑا کہ وہیں آسودۂ خاک ہیں۔
مرحوم نے اپنے بعد بہت سے فرزندان معنوی و ظاہری یادگار چھوڑے، فرزندان ظاہری میں بہت سی لائق اور برسر روزگار باعزاز اولادیں اور اولادوں کی اولادیں ہیں اور فرزندان معنوی ان کی منظوم و منثور حسب ذیل تصنیفات ہیں:
۱۔ تاجِ سخن (دیوان اول غزلیات)
۲۔ جانِ سخن (دیوان دوم غزلیات)
۳۔ معراجِ سخن (نعتیہ دیوان)
۴۔ سرتاج سخن (مجموعۂ قصائد)
۵۔ گلِ صدبرگ (سو [۱۰۰] رباعیوں کا مجموعہ)
۶۔ عطرِ سخن (مثنوی) چندکتب و رسائل نثر میں بھی ہیں۔
۷۔ سوانح امیر مینائی
۸۔ تعلیم الصلوٰۃ
۹۔ معیار اُردو (محاورات)
۱۰۔ تذکیر و تانیث (اُردو الفاظ کی تذکیر و تانیث میں)
۱۱۔ اُردو کا عروض (اُردو شعر کے مستعمل اوزان)
۱۲۔ روحِ سخن (تیسرا دیوان جو ابھی تک غیر مطبوعہ ہے)
حضرت جلیل کو دنیا نے جانشین امیر کہہ کر پکارا، یہ جانشینی حقیقت میں پوری پوری تھی، ظاہری و باطنی دونوں اوصاف کے لحاظ سے وہ جانشین تھے، جو زہد و تقویٰ پابندی دینی اور ذکر و فکر و مراقبہ اور خدارسی استاد میں تھی، وہ شاگرد کو ملی تھی، اسی طرح شاعری کے جو اوصاف اور خصوصیات امیر میں تھے، وہی جلیل میں تھے، بلکہ امیر میں قدیم و جدید کے جو دو رنگ تھے وہی جلیل میں تھے، مرآۃ الغیب کا پرانا رنگ اور صنم خانۂ عشق کا نیا رنگ جلیل کے قدیم و جدید کلام میں نمایاں ہیں، استاد کا اتنا صحیح تتبعّ امیر کے تلامذہ میں کم کسی کو نصیب ہوا۔
جلیل کی شاعری کے خاص خصوصیات کلام کی فصاحت، زبان کی صحت، محاورات کی پیروی، بندش کی چستی، فن کے اصول و فروع کی پوری پابندی اور جملہ کلام کا حشووزوائد سے یکسر پاک ہونا ہے، جس کا اندازہ ان کے ہر شعر سے ہوتا ہے۔
موجِ ہوا حباب کو سنگ گراں ہوئی

Cلیتے ہی سانس شیشۂ دل چور چور تھا

ہائے اس عالم آشنا کی نظر

/ہر نظر میں جہاں ہے گویا

ہجومِ اشک میں ملتا نہیں دل

;مِرا یوسف ہے گم اس کارواں میں

خم تو ہے ساقیا شراب نہیں

3آسماں ہے اور آفتاب نہیں

ہمراہ ساتھیوں کے ہمارا یہ حال ہے

7جیسے غبارراہ پسِ کارواں چلے
Cبحرِ جہاں کی سیر بھی ہونا ضرور ہے

?آہستہ اپنی کشتیِ عمرِ رواں چلے

ہے آباد میرے تخیل کی دنیا

;حسین آرہے ہیں حسیں جارہے ہیں

جلیلؔ آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا

Qیہ اُن کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں

مار ڈالا مُسکرا کر ناز سے

;ہاں مِری جاں پھر اسی انداز سے

فغاں میں درد ، دعا میں اثر نہیں آتا

Iجو تم نہیں ہو تو کوئی ادھر نہیں آتا

نگاہ برق نہیں ، چہرہ آفتاب نہیں

Eوہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
¨ عاشقانہ کلام کے ساتھ ساتھ صوفیانہ رنگ بھی ان کے کلام میں فراوانی کے ساتھ موجود ہے۔
کرچکی ہے آپ سے باہر مجھے اس کی تلاش

Eیہ سفر اپنا سفر اندر وطن ہوجائے گا

حرم کیا میکدہ کیا میں اسے گھر گھر پکار آیا

Wیہی اب جی میں آتا ہے کہ دستک دوں درِ دل پر

ہستی ہے عدم مری نظر میں

7سوجھی ہے یہ ایک عمر بھر میں

جانتے ہیں تجھے ہم روزِ ازل سے لیکن

Mیہ نہیں جانتے کیونکر تجھے ہم جانتے ہیں

راہِ طلب میں ایسا وارفتہ کون ہوگا

Oمنزل پہ ہم پہنچ کر منزل کو ڈھونڈھتے ہیں

کریم کے جو کرم کا ظہور ہوتا ہے

?خطا سے پہلے ہی عفو قصور ہوتا ہے

حُبِّ نبویؐ کا ظہور ان کے نعتیہ کلام سے ہوتا ہے، ان کی ایک نعتیہ غزل جو ابھی حیدرآباد کے ایک اخبار میں نظر سے گذری، درجِ ذیل ہے۔
لب پہ جس دم مِرے نامِ شہ بطحا آیا
عمر رفتہ پلٹ آئی کہ مسیحا آیا
فرش پر بارش انوار تھی معراج کی رات
عرش پہ دھوم تھی ماہِ شب اسریٰ آیا
جس قدر دادیٔ غربت میں چُبھے تھے کانٹے
بھول سب ہوگئے جس وقت مدینا آیا
یانبیؐ کہہ کے جو کشتی کا اٹھایا لنگر
وجد موجوں نے کیا جوش میں دریا آیا
ہوگئی بے خودی شوق میں طے راہِ دراز
آنکھ کھولی تو نظر گنبدِ خضرا آیا
صرف حُبِّ نبوی حشر میں کام آئی جلیل
طاعتیں آئیں نہ زھد آیا نہ تقوےٰ آیا
آج شاعر بہت ہیں، مگر استاد کم ہیں، جو فن کے مسائل پر کامل عبور رکھتے ہوں، جو تمام اصنافِ سخن پر برابر کی قدرت رکھتے ہوں، جو لفظوں کے ہاتھوں میں نہ ہوں بلکہ لفظ ان کے ہاتھ میں ہوں، جن کے کلام سے زبان کے الفاظ، محاورات اور امثال کی تصدیق ہو، جن کا دیوان زبان کے سکوں کی ٹکسال ہو، حضرت جلیل اس دور کے جو میرؔ و مرزاؔ سے شروع ہوا تھا، بظاہر خاتم معلوم ہوتے ہیں، اب نیا زمانہ ہے، نئی شاعری ہے، نیا ذوق ہے اور نئے خیالات ہیں، پرانے قاعدے توڑے جارہے ہیں، پرانے اصول مٹ رہے ہیں، تشبیہوں اور استعاروں تک میں بے اصولی آ رہی ہے، اور زبان میں کمی بیشی ہورہی ہے اور بحور کے دریا میں بھی تلاطم ہے، ہنرور شاعر اور ہنرور بادشاہ میں بھی تلازم عہدِ عباسیہ سے شروع ہوا تھا، اس کو بھی حضرت جلیل اور میر عثمان علی خاں پر اب تمام سمجھئے۔ (سید سلیمان ندوی، مارچ ۱۹۴۶ء)

تصحیح: گذشتہ مہینہ حضرت جلیلؔ کے حالات میں ان کا وطن مانک پور ، ضلع الٰہ آباد لکھا گیا تھا، جناب محمد یعقوب صاحب ایڈوکیٹ چیف کورٹ لکھنؤ نے توجہ دلائی ہے، کہ مرحوم کا وطن مانک پور ضلع الٰہ آباد نہیں بلکہ ضلع پرتاب گڑھ اودھ تھا، مانک پور نام کی دو بستیاں قریب قریب ہیں، ایک ضلع الٰہ آباد میں، دوسری پرتاب گڑھ میں، مرحوم دوسرے مانک پور کے تھے۔ (سید سلیمان ندوی، اپریل ۱۹۴۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...