Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر حا فظ محمود خان شیرانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر حا فظ محمود خان شیرانی
ARI Id

1676046599977_54337953

Access

Open/Free Access

Pages

156

پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی مرحوم
ہم کو ابھی تک اپنے ملک کے علماء اور محققین کی پوری قدر نہیں ہوئی، کیسے افسوس کی بات ہے کہ ہماری قوم اور ملک کے ایک نامور محقق پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی کا انتقال ۱۶؍ فروری ۱۹۴۶؁ء کو ٹونک میں ہوگیا، اور ہم میں سے بہتوں کو اس کی خبر نہیں ہوئی۔
شیرانی مرحوم کا وطن ٹونک تھا، شیرانی پٹھان تھے، اور ان کو اپنے پٹھان ہونے پر فخر تھا، ٹونک ہمیشہ سے علماء اور محققین کا مقام رہا، وہاں کا نادر کتب خانہ اکثر محققوں کو اپنی طرف کھینچ کر لے جایا کرتا ہے، اور شیرانی کا تو وہ وطن ہی تھا، شیرانی صاحب کی انگریزی کی استعداد پوری تھی، فارسی کی تعلیم متوسط اور عربی کی معمولی مگر ان میں تحقیق و تلاش کا مادہ فطرۃً تھا، تاریخ اور خصوصاً تاریخ ادب سے ان کو بے حد شغف تھا، تاریخ کے ذوق سے ان کو کتبوں اور سکون کا شوق تھا، اسی شوق سے وہ لکھنؤ بھی آتے تھے، اور چونکہ ہمارے مدرسہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے درس اول و شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خان صاحب مرحوم بھی ٹونکی تھے، اس تعلق سے وہ کبھی کبھی ہمارے مدرسہ میں بھی ٹھہرتے تھے اور اسی واسطہ سے میری ان کی ملاقات ہوئی، اور اس کے بعد جب وہ لاہور تھے، تو کئی بار ملنا ہوا۔
مرحوم کا سال پیدایش ۱۲۹۸؁ھ ہے، عمر قریباً سرسٹھ برس تھی ۱۹۰۴؁ء میں اسکول کی تعلیم چھوڑ کر بیرسٹری کے لیے لندن گئے، جہاں سے والد کی وفات پر ۱۹۰۶؁ء میں واپس آئے، پھر فوراً واپس گئے، اور ۱۹۱۴؁ء میں واپس آئے، بیرسٹرتو نہیں ہوئے، مگر قلمی کتابوں کا شوق پید اہوگیا، پیرس کے قومی کتب خانہ میں تین ماہ مصروف رہے، اور وہیں بعض فرانسیسی اہل علم کے ساتھ مل کر قلمی کتابوں اور تصویروں اور سکوں کی تجارت شروع کی پہلی جنگ ۱۹۱۴؁ء میں ہندوستان واپس آگئے، ۱۹۱۹؁ء میں لاہور آگئے، اور اورینٹل کالج میں اردو کے پروفیسر ہوگئے۔
مرحوم نیک مزاج، کم آمیز، سادگی پسند اور خاموش طبع تھے، ان کی طبیعت میں تلاش، محنت، تحقیق و تدقیق کا مادہ بدرجہ اتم موجود تھا، تاریخی تحقیقات کے ذوق سے ان کو قدیم بادشاہوں کے سکوں کے جمع کرنے کا جو شوق پیدا ہوا، وہ ان کو نہ صرف ہندوستان کے پرانے شہروں میں، بلکہ انگلستان تک ان کو لے گیا، اور اس سلسلہ میں وہاں کے مستشرقین سے بھی ان کے تعلقات قائم ہوئے، اور ان کو ان کے طریق تحقیق و تنقید سے بھی واقفیت ہوئی۔
ان کا سب پہلا تاریخی اور تنقیدی سلسلہ کا مضمون حضرۃ الاستاذ مولانا شبلی مرحوم کی شعرالعجم کی تنقید ہے، جو رسالہ اردو میں ۱۹۲۲؁ء سے نکلنا شروع ہوا اور کئی سال تک نکلتا رہا، اور اب انجمن کی طرف سے وہ مستقل کتاب کی صورت میں بھی شائع ہوگیا ہے، یہ تنقید درحقیقت صرف شعرالعجم کی نہیں، بلکہ ان فارسی تذکروں کی ہے، جو شعر العجم کا ماخذ ہیں، اور شعراء کے حالات میں ان میں تاریخی تحقیق و تنقید سے کام نہیں لیا گیا ہے، بلکہ صرف دلچسپی کی مشہور عام باتوں کو جمع کردیا گیا ہے، اس زمانہ میں یورپ کے علمائے مشرقیات نے بعض شعراء پر جو مستقل مضامین لکھے ہیں، یا کتب خانوں کی فہرستوں میں ان شعراء کے دواوین کے ضمن میں جو کچھ لکھا گیا ہے، یا پروفیسربراون نے اپنی کتاب میں ان منتشر تنقیدی معلومات کو جو یکجا کردیا ہے، پروفیسر شیرانی نے ان سب کوسامنے رکھ کر اپنی ذاتی تحقیقات کے بہت سے اضافوں کے ساتھ اس سلسلہ کولکھ کر فارسی ادب کی تاریخ کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔
مرحوم کا دوسرا کارنامہ اردو ادب کی تاریخ کی خدمت ہے، اور اس سلسلہ میں ان کی کتاب ’’پنجاب میں اردو‘‘ ذکر کے قابل ہے، گوان کا نظریہ اب بھی محل بحث ہے، تاہم انہوں نے جو سرمایہ ادب فراہم کیاہے وہ بہت کچھ بصیرت افروز ہے۔
اسی سلسلہ کی ایک مفید خدمت میر قدرت اﷲ قاسم کے تذکرہ شعرائے اردو مجموعہ نغز کی تصحیح و اشاعت ہے، جس کو مرحوم نے بڑی محنت و جانفشانی سے ایڈٹ کیا تھا، اور پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہوا ہے۔
ان کے علاوہ اور دوسرے مختلف لغوی، ادبی اور تنقیدی مضامین بھی خاص چیز ہیں، جو وہ اورینٹل کالج میگزین میں لکھتے رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک مضمون طالب تحقیق کے لیے معلومات کا ذخیرہ ہے، ان مضامین میں بہت سی مشہور عام باتوں کی تصحیح اور تنقید کی گئی ہے، یا گذشتہ معلومات کے سرمایہ میں نیا اضافہ کیا گیاہے، ان میں سے بعض مضامین کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں، ضرورت ہے کہ باقی کو بھی اسی طریقہ سے شائع کردیا جائے مرحوم کے ان تنقیدی مضامین نے ملک میں ان کی خاص حیثیت قائم کردی تھی، چنانچہ یہ پہلی مثال ہوگی، کہ کاغذی سند کی سند پر نہیں بلکہ ان کی عالمانہ تحقیق کی مثالوں کی سند پر پنجاب یونیورسٹی نے اورینٹل کالج میں ان کو اردو کا پروفیسر مقرر کیا تھا، جس خدمت کو وہ بہت دنوں تک انجام دیتے رہے، آخر ابھی چند سال ہوئے، کہ عمر کی زیادتی کی بنا پر اس سے الگ ہوئے اور ٹونک میں اقامت اختیار کی،جہاں انہوں نے فروری کے وسط میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
مرحوم کبھی کبھی شعر بھی کہتے تھے، چنانچہ انہوں نے سلطان ٹیپو کا ایک پردرد مرثیہ لکھا تھا جو نوجوانوں کو بے حدپسند آیا، اور ان کی محفلوں میں وہ اکثر سنایا گیا، لیکن ان کی شاعری اتفاقی تھی۔
مرحوم کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کی شانددار روایات کا بڑا اثر تھااور خصوصاً پٹھان بادشاہوں کی علمی، تمدنی خدمات کا پرجوش تذکرہ ایک دفعہ لاہور میں ان کی زبان سے میں نے سنا تھا۔ حافظ قرآن تھے، یہ خود ایک بڑی نعمت ہے اور وسیلہ مغفرت، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ساتھ یہی معاملہ کرے۔(سید سلیمان ندوی، اپریل ۱۹۴۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...