Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناحاجی محمد عمر

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناحاجی محمد عمر
ARI Id

1676046599977_54337955

Access

Open/Free Access

Pages

158

مولانا حاجی محمد عمر
کرنول علاقہ مدراس کیا ایک عالم دین کی وفات
احا طہ مدراس کا وہ خطہ جس کو اب اندھرا کہنے لگے ہیں، اور جو مدراس اور حیدرآباد دکن کے بیچ میں واقع ہے وہ بھی کبھی اسلام کی قوت کا مرکز تھا، اس میں کرنول نام مشہور مقام ہے، جہاں پہلے ایک نوابی قائم تھی، وہ مٹ چکی ہے، اور اس کا یادگار خاندان حیدرآباد دکن منتقل ہوگیا ہے، وہاں کی اسلامی طاقت کے زوال سے وہاں کے مسلمانوں کی علمی و دینی کیفیت بھی زوال کے قریب پہنچ چکی تھی، کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے اپنے ایک بندہ کو مامور فرمایا، ان کا نام مولانا حاجی محمد عمر صاحب تھا، ان کے علم و فضل اور نیکی و تقوی کے سبب سے حاکم و محکوم دونوں طبقوں میں ان کو ہردل عزیزی حاصل تھی، حکومت نے شمس العلماء کے لقب سے ملقب کیا تھا، اور عام مسلمانوں نے بھی ان کی دینی قیادت اور رہبری کو قبول کیا، موصوف نے اسی ۸۰ برس کی عمر پائی، اور یہ پوری عمر علوم دینی کی تعلیم و تدریس میں بسر کرکے گذشتہ ۲۰؍ جولائی ۱۹۴۶؁ء کو وفات پائی، ان کی وفات سے اس علاقہ میں علوم قدیمہ کا خاتمہ ہوگیا، مرحوم مولانا احمد حسن صاحب کان پوریؒ کے ارشد تلامذہ میں تھے، اور جس جلسہ میں نددہ کی ابتداکی تحریک کی گئی اسی میں ان کی دستار بندی ہوئی تھی، ۱۳۱۱؁ھ میں کان پور سے فارغ ہوکر واپسی کے بعد کرنول میں قیام کیا، اور آخر تک وہیں قیام پذیر رہے، وہاں ایک چھوٹے سے مدرسہ کا انتظام جس کی ماہوار آمد نی پندرہ بیس روپیہ سے زیادہ نہ تھی، ا پنے ہاتھ میں لیا، اﷲ تعالیٰ نے ان کے کام میں برکت دی مرحوم کے مساعی کی بدولت آج اس کے املاک و عمارات تقریباً تین لاکھ کے مساوی ہیں، آندھرا اور مدراس علاقہ کے اردو فارسی اور عربی اساتذہ میں تقریباً تین ربع بالواسطہ یا بلاواسطہ ان سے فیض تلمذ رکھتے ہیں، کانپور میں حضرت مولانا تھانوی سے مثنوی پڑھی تھی، اور ان کے سلسلہ ادارت میں شامل تھے، مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی سے بھی فیض پایا اور مسلسلیت وغیرہ کی اجازت لی تھی، افسوس ہے کہ وہ گنجینہ علم مفقود ہوگیا، رنج اس بات کا ہے کہ یہ جگہ کچھ ایسی خالی ہوئی ہے کہ اب اس کے پرہونے کے آثار نہیں، اسلاف کی زندگی کا نمونہ تھے، باوجود ہر طرح کے آرام کے ہمیشہ خود اختیاری فقری کی زندگی پسند کی اور دنیاوی املاک میں سے نہ زمین چھوڑی نہ مکان اور نہ نقد ہمیشہ یہی آرزو رہی کہ دنیا سے ایسے روانہ ہوں کہ ترکہ کا حساب نہ دینا پڑے، وہی بعینہٖ پیش آیا، رحمہ اﷲ۔
ندوۃ العلماء کے اغراض و مقاصد سے واقف تھے، اور اصلاح نصاب کے مسئلہ سے متفق تھے، اسی لیے انہوں نے اپنے مدرسہ میں بہت سی اصلاحات جاری کیں، اور مدرسہ کو پرانے علوم کے ساتھ نئے طرز طریق سے آشنا کیا، مرحوم نے اپنا لائق جانشین چھوڑا، افضل العلماء ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب پرنسپل محمڈن کالج مدراس کو مرحوم نے پہلے عربی علوم پڑھا کر عالم بنایا، پھر افضل العلماء کا عربی امتحان مدراس یونیورسٹی سے دلا کر انگریزی پڑھائی اور ان کو ایم اے کرایا، فراغت کے بعد وہ محمڈن کالج مدراس میں پہلے استاد مقرر ہوئے پھر چند سال ہوئے کہ لندن جا کر علم تفسیر پر ریسرچ کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، اور اب وہ محمڈن کالج مدراس کے پرنسپل ہیں، اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اپنے باپ سے علم وعمل دونوں کی برکت حاصل کی ہے۔
مرحوم سے مجھے سے مدراس کے سفر میں کئی مرتبہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا، بڑے نیک و صالح اور متقی بزرگ تھے، وعظ بھی فرمایا کرتے تھے، سادہ بیان تھا، تکلف و تصنع سے تمام تر بری تھے، اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنی نوازشوں سے سرفراز فرمائے، اور جس مدرسہ کو انہوں نے اپنی روحانی یادگار چھوڑا ہے، وہ ان کی جسمانی یادگار کے زیر سایہ قائم و باقی رہے۔ (سید سلیمان ندوی، مارچ ۱۹۴۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...