Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > حکیم حبیب الرحمن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

حکیم حبیب الرحمن
ARI Id

1676046599977_54337956

Access

Open/Free Access

Pages

158

حکیم حبیب الرحمن مرحوم ڈھاکہ
ڈھاکہ کے متعدد دوستوں کے خطوط سے یہ معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا کہ بنگال کے جادو نگار ادیب اور نادرۂ روزگار طبیب شفاء الملک حکیم حبیب الرحمن نے یکم ربیع الثانی ۱۳۶۶؁ھ کی شب میں ضغطہ دم (بلڈ پریشر) کی بیماری میں سنہ قمری سے اڑسٹھ اور شمسی سے چھیاسٹھ برس کی عمر میں دفعتہ وفات پائی، مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی تھانوی اپنے والا نامہ میں لکھتے ہیں:
’’آپ کو وفیات لکھنے میں ملکہ ہے ایک اور وفات نامہ معارف میں لکھ دیجیے، آپ کے اور میرے مخلص دوست حکیم حبیب الرحمن صاحب کا یکم ربیع الثانی ۱۳۶۶؁ھ مطابق ۲۳؍ فروری ۱۹۴۷؁ء کی شب میں دفعتہ بلڈ پریشر بڑھ جانے سے انتقال ہوگیا، اناﷲ۔
مرحوم حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے ابتدائی صرف ونحو کے شاگرد اور بڑے عاشق تھے، علامہ شبلی کے دوستوں میں تھے، مسلم لیگ کی جب بنیاد ۱۹۰۶؁ء میں ڈھاکہ میں رکھی گئی اور نواب سر سلیم اﷲ خان اس کے صدر ہوئے تو مرحوم جوائنٹ سکریڑی ہوئے تھے، علم طب حکیم عبدالمجید خان صاحب سے حاصل کیا، اور اس میں کمال کا درجہ پایا، بنگال میں اس وقت ان کے درجہ کا کوئی طبیب نہیں سنا گیا، ڈھاکہ میں طبیہ کالج قائم کیا، اور بڑی ہمت سے اس کو چلانے سے گورنمنٹ نے شفاء الملک کا خطاب دیا، جس کو ( لیگ کی تحریک کی بنا پر) ستمبر میں واپس کردیا‘‘۔
ان کے اس کالج سے بہت سے اطبا پیدا ہوئے اور اب بھی سلسلہ درس جاری ہے اور خدا کرے برابر جاری رہے۔
مولانا شبلی مرحوم مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے سلسلہ میں ۱۹۰۶؁ء میں ڈھاکہ تشریف لے گئے تھے، وہاں سے دو دوستوں کے نام ہم لوگوں کے لیے تحفہ میں اپنے ساتھ لائے، ایک کا نام مرزا فقیر محمد صاحب اور دوسرے کا حکیم حبیب الرحمن، مولانا مرحوم کے بعد ان دونوں کی دوستی و محبت کا سلسلہ اس حقیر راقم الحروف کی طرف منتقل ہوا، مرزا صاحب کا مدتوں سے پتہ نہیں، خدا جانے وہ جیتے بھی ہیں یا نہیں، حکیم صاحب مرحوم نے اخیر تک دوستی نباہی، ان کے اخلاق کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جن دوستوں سے ان کی دوستی رہی اس کو وہ اخیر تک بکمال احتیاط و اہتمام نباہتے رہے۔
خط و کتابت کی معرفت تو مولانا شبلی مرحوم کے عہد سے شروع ہوچکی تھی، مگر ملاقات جسمانی کی نوبت ۱۹۳۰؁ء کے آل انڈیا اورینٹل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پٹنہ میں آئی، اس کے بعد بارہا وہ ڈھاکہ بلاتے اور ا س کے لیے ڈھاکہ یونیورسٹی کے تعلق سے نئی نئی تقریبیں پیدا کرتے رہے، مگر جانا اور ملنا نصیب نہیں ہوا۔
مرحوم نسباً فاروقی اور وطناً یاغستانی علاقہ یوسف زئی کے باشندہ تھے، ان کے والد اخوند محمد شاہ صاحب مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلیؒ کے شاگردوں میں تھے، لکھنؤ سے ڈھاکہ اپنے ماموں محمد نعمان صاحب مرحوم کے یہاں آئے اور یہیں شادی کرکے بس گئے، اور اس تقریب سے سرحد ہند کی یہ دولت بنگال کی قسمت میں آئی۔
حکیم صاحب مرحوم کی تعلیم جیسا کہ حسن معصومی صاحب (لکچرار فلسفہ اسلام ڈھاکہ یونیورسٹی) نے مجھے لکھا ہے، آگرہ اور بہارمیں ہوئی مگر جیسا کہ مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی نے ڈھاکہ سے لکھا ہے کہ ان کی تعلیم کا بڑا زمانہ کانپور میں گذرا ، کچھ درسیات اپنے والد سے حاصل کئے، ابتدائی صرف و نحو کے کچھ اسباق جیسا کہ پہلے گذرا حضرت حکیم الامتؒ سے پڑھے، جب حضرت والا رحمہ اﷲ کانپور میں درس دے رہے تھے، جس کا خاتمہ ۱۳۱۵؁ھ میں ہوا، اور زیادہ تر تعلیم مولانا محمد اسحاق صاحب بردوانی سے حاصل کی، معقول مولانا احمد حسن صاحب کانپوری، اور مولانا عبدالوہاب صاحب بہاری سے پڑھی، جب وہ کانپور میں مدرس تھے، حدیث مولانا مفتی لطف اﷲ صاحب علی گڑھی اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کے ایک شاگرد سے حاصل کی اور اجازت لی، طب حکیم عبدالمجید خان صاحب دہلوی المتوفی ۱۹۰۱؁ء سے پڑھی اور اس میں کمال کا درجہ حاصل کیا، ۱۹۰۴؁ء میں وہ تعلیم سے فارغ ہوکر ڈھاکہ لوٹے اور ایک طبیب کی حیثیت سے اپنی زندگی شروع کی، مرحوم کی تعلیم تمام تر پرانے طرز کی ہوئی تھی، مگر فطرت کے خزانہ سے وہ ایک ذہین و لطیف دماغ اپنے ساتھ لائے تھے، اپنے اسی فطری ذوق کی مدد سے تاریخ و ادب کی کتابیں پڑھیں اور طب کے بعد جن فنون سے ان کو ذوق رہا وہ بھی تاریخ و ادب تھے، اور اسی سلسلہ سے وہ مولانا شبلی کے حلقہ ادارت میں داخل ہوئے، چنانچہ ۱۹۰۶؁ء ان کی زندگی کے لیے بڑی اہمیت کا سال ہے، اسی سال مولانا شبلی سے ملاقات ہوئی، باتوں باتوں میں انہوں نے مولانا شبلی کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ حاجی خلیفہ کی کشف الظنون کی طرح ہندوستان کے ہر صوبہ کی تصنیفات پر ایک محققانہ کتاب لکھی جائے مولانا نے ان کے اس خیال کی تحسین کی، اور بنگال کا حصہ ان کے سپرد کیا، حکیم صاحب مرحوم کے اکثر خطوں میں ان کی اس تصنیف کے تذکرے ہوا کرتے تھے، بنگال سے متعلق ’’ثلاثہ غسالہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب اورا ن کے زیر قلم تھی ’’ثلاثہ غسالہـــ‘‘ کا نام انہوں نے حافظ شیراز کی اس غزل سے لیا تھا، جس کو حافظ نے سلطان بنگالہ کے نام لکھ کر بھیجا تھا:
زین قند پارسی کہ بہ بنگالہ می رود
اسی غزل کا ایک ٹکڑا ہے ’’ثلاثہ غسالہ می رود‘‘، ’’الفارق اور حیاتِ سقراط‘‘ ان کی طالب علمی کے رسالے ہیں، ان کی دوسری تصنیفات کے نام مساجد ڈھاکہ، ڈھاکہ اب سے پچاس برس پہلے شعرائے ڈھاکہ وغیرہ ہیں، آخری تصنیف آسودگانِ ڈھاکہ ہے، جو ابھی ۱۹۴۶؁ء کے اخیر میں چھپ کر شائع ہوئی، جس میں بزرگان ڈھاکہ کے مزارات کی تحقیق اور تذکرے ہیں، اس کے بعد آسودگان ڈھاکہ کا مصنف خود ڈھاکہ کی خاک میں آسودہ ہوگیا۔
ان کی ادبی تاریخ کا آغاز بھی ۱۹۰۶؁ء ہی سے ہوتا ہے، اس سال انہوں نے ڈھاکہ سے المشرق کے نام سے ہفتہ وار رسالہ نکالا، پھر جادو کے نام سے ایک اور ادبی و علمی رسالہ جاری کیا، معارف کے ابتدائی پرچوں میں بھی ان کے بعض مضامین چھپے ہیں۔
مرحوم کے قلم میں بڑی لطافت تھی، محمد حسین آزاد کی نقالی کسی سے نہ ہوسکی لیکن تھوڑی بہت اگر کسی سے ہوئی، تو عجیب بات ہے کہ وہ بنگال ہی کے جادوگران ادب سے ہوسکی، ان میں پہلا نام نواب نصیر حسین خان خیالؔ (کلکتہ) کا اور دوسرا حکیم حبیب الرحمن (ڈھاکہ) کا ہے، افسوس ہے کہ ان کی طبی مصروفیتوں نے ان کے ادبی کارناموں کو ابھرنے کا موقع نہیں دیا، اور ان کی یہ قوت انشاپردازی پوری طرح ظاہر نہ ہوسکی۔
ان کو اردو ادب اور بنگال کی تاریخ سے خاص ذوق تھا، اور تاریخ کے تعلق سے قدیم سکوں کے جمع کرنے کا شوق تھا، چنانچہ ان کے جمع کردہ سکوں کا پہلا مجموعہ اس وقت ڈھاکہ کے عجائب خانہ آثار قدیمہ میں ہے، جس کا تاریخ وار کٹیلاگ بھی چھپ کر شائع ہوچکا ہے، اس کے بعد جو سرمایہ ان کے پاس جمع ہوا، اس کو دارالمصنفین کے نام منتقل کرنے کا بارہا ارادہ انہوں نے کیا، مگر ارادہ پورا نہ ہوا۔
مرحوم طبیب اور حاذق طبیب تھے، قیافہ اور نباضی میں کمال رکھتے تھے، صورت دیکھ کر اور صرف حال سن کر مرض بتادیتے تھے، حضرت حکیم الامت کی علالت کا حال مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی سے سن کر مرض کی تشخیص کی اور دوا تجویز کی ، جب تھانہ بھون سے خطرناک حالت کی اطلاع آئی تو کہا کہ اب دوا بیکار ہے معلوم ہوتا ہے کہ وقت آخر آپہنچا اور آخر جیسا انہوں نے کہا ویسا ہی ہوا۔
مرحوم کی حذاقت کا ایک واقعہ مجھ سے متعلق ہے ،کئی سال کی بات ہے میں نے ریڈیو پر ایک تقریر کی، مرحوم نے ڈھاکہ سے لکھا میں نے ریڈیو پر آپ کی آواز سنی جو آپ کے ضعف قلب کا اعلان کررہی تھی اس کی جلد خبر لیں، چنانچہ چند ہی روز کے بعد مجھے اسی قسم کے ایک سخت مرض کا سانحہ پیش آیا، جس سے اﷲ تعالیٰ نے جانبری فرمائی۔
مگر آہ! میسحا نفس جو دوسروں کو موت کے پنجہ سے چھڑایا کرتا تھا، آخر وہ دن بھی آیا جب وہ خود اس کے پنجہ میں گرفتار ہوا، مرحوم کو کئی مہینوں سے اپنے اس آنے والے حادثہ کا خیال تھا، جنوری ۱۹۴۷؁ء میں بعض دوستوں سے کہہ چکے تھے، کہ میں جب جاؤں گا، دفعتہ جاؤں گا، جس دن حادثہ پیش آیا، متعدد مریضوں کو جاکر دیکھا، مغرب بعد نشست گاہ میں بیٹھ کر دوستوں سے باتیں کیں، ہنستے بھی رہے، ہنساتے بھی رہے، اور اسی سلسلہ میں فرمایا کہ آج مولانا عثمانی ڈھاکہ میں نہیں، اس کی فکر ہے، ان کو اپنی حالت سے اندازہ ہورہا تھا کہ کوچ کی منزل قریب ہے، اس لیے کچھ وصیتیں بھی کرچکے تھے، جن میں ایک یہ تھی کہ میری نماز مولانا ظفر احمد تھانوی پڑھائیں، اور اگر وہ نہ ہوں تو پیر جی عبدالوہاب مہتمم مدرسہ اشرف العلوم پڑھائیں، چنانچہ تقدیر یہی تھی، کہ مولانا عثمانی اس دن کہیں باہر تھے، تین بجے شب کو قلب کا دورہ پڑا، ڈاکٹر کے لیے آدمی گیا، جیسے ہی اس نے چوکھٹ پر قدم رکھا ہے، مسافر عالم بالا کے سفر پر روانہ ہوگیا، آناً فاناً خبر شہر میں پھیل گئی، صبح کو تجہیز و تکفین عمل میں آئی، جنازہ میں اتنا مجمع تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ڈھاکہ میں شاید ہی کسی کے جنازہ میں ایسا مجمع ہوا ہو، حسب وصیت پیرجی عبدالوہاب نے نماز پڑھائی، جو لال باغ کی شاہی مسجد میں ہوئی، اور ڈھاکہ کے ایک بزرگ کے احاطہ مزار میں سپرد خاک ہوئے۔مرحوم کے سانحہ وفات پر شہر میں کہرام ہے، عام و خاص سب ہی متاثر ہیں اہل قلم طبقہ پر مرحوم کی وفات کا جو اثر ہوا وہ ان دو عربی مرثیوں سے ظاہر ہے جو ڈھاکہ کے دو بزرگوں نے لکھ کر بھیجے ہیں۔
حبیبی! دوستوں نے تھارے لیے مرثیے لکھے، احباب نے تمھارے فراق میں آہِ جگر سوز کھینچی، جاننے والوں نے تمھارے اوصاف گنائے، ماننے والوں نے تمھارے احسانات یاد کئے، مگر تم اس دنیا میں ہو، جہاں اس دنیا کی مدح و ستایش کی حکایتیں نہیں پہنچتیں، مغفرت کی دعائیں ، تمھارے لیے ہیں، غفور و رحیم ان کو قبول فرمائے۔
(سید سلیمان ندوی،اپریل ۱۹۴۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...