Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبداﷲ عمادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبداﷲ عمادی
ARI Id

1676046599977_54337958

Access

Open/Free Access

Pages

161

آہ! مولانا عمادی
حیدرآباد دکن کے اخبار البلاغ سے یہ معلوم کرکے سخت صدمہ ہوا کہ ہمارے قدیم دوست مولانا عبداﷲ العمادی نے حیدرآباد میں جہاں انھوں نے سکونت اختیار کرلی تھی، ۱۱؍ شوال ۱۳۶۶؁ھ کو داعی اجل کولبیک کہا، ان کی عمراس وقت ستر برس کے قریب ہوگی، مرحوم اردو، فارسی اور عربی کے مستند ادیب اور مورخ تھے اور تقریباً ہر علم و فن سے آشنا تھے۔
مر حوم کا وطن ضلع جونپور میں امرتھوا نام ایک موضع تھا، اورعمادالدین نام کے کسی بزرگ کے خاندان سے نسبی نسبت رکھتے تھے اور اسی تعلق سے اپنے کو عمادی لکھتے تھے، اصلی نام عبداﷲ تھا اور کبھی کبھی اخفائے نام کے لیے عبداﷲ کا فارسی ترجمہ ’’خدا بندہ‘‘ بھی لکھا ہے، جو سب سے پہلے نو مسلم تا تاری سلطان کا نام تھا، مگر شہرت عام عبداﷲ عمادی کے نام سے تھی۔
غالباً ابتدائی تعلیم کے بعد ہی یہ لکھنؤ آگئے تھے، اور مولانا عبدالعلی آسی مدراسی کے دامن تربیت میں پرورش پائی، مولانا عبدالعلی کا اصل وطن گو مدراس تھا، مگرجب سے تعلیم کے لیے لکھنؤ آئے یہیں کے ہوکے رہ گئے، یہیں فرنگی محل میں مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محل سے تعلیم پائی، ادب، شعر اور تاریخ گوئی میں ملکہ رکھتے تھے، اکثر کتابوں کے آخر میں جو ان کے مطبع میں چھپیں ان کی تاریخیں آپ کو مل سکتی ہیں، ان کی صحبت میں مولاناعمادی صاحب کو بھی زیادہ تر شعر و سخن اور ادب و تاریخ کا فائدہ پہنچا، مولانا عبدالعلی ایک زمانہ میں رامپور میں مدرس تھے، وہاں بھی وہ ان کے ساتھ رہے، پھر جب وہ لکھنؤ آئے، تووہ بھی ان کے ساتھ یہاں آئے اور یہیں ان کے مرغ شہرت نے پروبال پیدا کئے۔
مولانا آسی نے لکھنؤ محمود نگر کے محلہ میں سکونت اختیار کی اور اصح المطابع کے نام سے ایک مطبع قائم کیا، بعد کو اس کا نام ان کے صاحبزادہ قاری عبدالولی مرحوم نے آسی پریس رکھ دیا تھا، اس مطبع میں عربی کی بہت سی کتابیں چھپ کر شائع ہوئیں، مولانا آسی کو کتابوں کی تصحیح میں بڑی مہارت اور وقت نظر حاصل تھی، عربی متوسطات کے طالب علموں کو بھی وہ باجرت تصحیح کے کام پر رکھ لیتے تھے، اور مولانا کی صحبت میں وہ کچھ نہ کچھ بن جاتے تھے، مولانا عمادی بھی انہی خوش قسمت طالب علموں میں تھے اور اپنی خداداد استعداد سے اس صحبت سے بہرۂ وافر حاصل کیا۔
مرحوم کسی درسگاہ کے باقاعدہ طالب علم نہ تھے، اور نہ علم مروجہ کی درس و تدریس کی حیثیت سے تکمیل کی تھی، مگر موہبت الٰہی رسمی طریقہ تعلیم پر موقوف نہیں، اس کا فیض عام اور بقدر استعداد وتام ہے کتب بینی کے شائق تھے اور خصوصیت کے ساتھ اردو، فارسی اور عربی کی نظم و نثر کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور ان تینوں زبانوں میں ان کو شاعری اور انشاء پردازی کی قوت حاصل تھی، اور ان زبانوں کے ہزاروں شعر ان کے خزانہ و دماغ میں محفوظ تھے اور عربی و فارسی لغات پر بھی عبور رکھتے تھے۔
مرحوم مجھ سے فرماتے تھے کہ وہ عربی کی الف لیلہ سمجھتے نہیں تھے، مگر پھر بھی وہ اس کو دیکھا کرتے اور جو کچھ سمجھ جاتے اس پر خوش ہوتے، اور جو نہ سمجھتے، اس کو لغت سے حل کرتے یا شاید مولانا آسی سے دریافت کرلیتے، اور اس طرح ان کو عربی انشا پر دازی کا ذوق پیدا ہوا، اور عربی میں مضمون نویسی کی قدرت حاصل کی، جو اس زمانہ میں غیر معمولی بات تھی۔ اسی سلسلہ میں بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں مولانا آسی کی رہبری اور ان کی اڈیٹری میں البیان نام ایک اردو عربی ماہانہ رسالہ مطبع اصح المطابع لکھنؤ سے نکلنے لگا، اس کے ہر صفحہ میں اردو کالم ہوتے تھے، ایک میں عربی اور دوسرے میں اس کا اردو ترجمہ ہوتا تھا اور آخر میں چند صفحے عربی ممالک کی خبروں اور اردو مضمونوں کے ہوتے تھے، اس رسالہ کا مبادلہ مصر و شام و تیونس کے عربی اخباروں سے ہوتا تھا، یہ اخبارات ان کے ہاں آتے تھے اور وہ اس کو پڑھا کرتے تھے اور اس کے بدولت جدید عربی کے نئے الفاظ سے ان کو پوری واقفیت ہوتی رہتی تھی اور وہ ان کو اردو میں رواج دینے کی کوشش کرتے تھے چنانچہ ان کے بعض الفاظ رواج بھی پاگئے۔
اس زمانہ میں ہمارے استاد مولانا فاروق صاحب چریا کوٹی، مدرس اول دارالعلوم ندوہ لکھنؤ میں مقیم تھے، مرحوم ان کی خدمت میں آیا جایا کرتے تھے، یہ تو معلوم نہیں کہ ان سے پڑھا تھا یا نہیں مگر وہ ان کے صحبت یافتہ ضرور تھے، مولانا چریا کوٹی ۱۹۰۵؁ء تک لکھنو رہے تھے، اس کے بعد ہی اسی سال جب ان کے شاگرد رشید مولانا شبلی مرحوم دارالعلوم میں معتمد ہوکر آئے تو مولانا عمادی ان کی صحبتوں میں آنے جانے لگے اور یہی زمانہ مرحوم سے میرے آغاز ملاقات کا تھا، جوبحمداﷲ اس وقت سے شروع ہوکر آخر وقت تک قائم رہا۔
ندوہ کاعلمی پرچہ الندوہ جو پہلے دفتر ندوہ کے شاہ جہان پور ہونے کے سبب سے شاہ جہان پور سے نکلتا اور آگرہ میں چھپتا تھا، مولانا شبلی کے قیام لکھنؤ کے بعد لکھنؤ سے نکلنے لگا، اور اصح المطابع میں چھپنے لگا، اور مولانا عمادی کی آمدورفت اس تعلق سے زیادہ ہونے لگی، ۱۹۰۶؁ء میں مولانا شبلی نے اس کی سب اڈیٹری کا کام مولانا ابوالکلام کے سپرد کیا، چند ماہ کے بعد جب وہ وکیل امرتسر میں چلے گئے تو مولانا نے مرحوم کو ان کی جگہ الندوہ کا سب اڈیٹر بنایا، اس زمانہ میں انھوں نے جابر بن حیان مشہور عرب کیمیادان اور ابن خلدون وغیرہ پر چند علمی مضمون لکھے، مگر مرحوم کو کتابوں کے حوالے دینے کی عادت نہ تھی، اس سے مولانا شبلی کو ان کے حوالوں پر اعتماد نہیں ہوتا تھا، چنانچہ چند ہی ماہ کے بعد یہ خدمت خاکسار سے متعلق کی گئی، اس کے بعد اس بنا پر کہ ماہ بماہ پرچہ کا اہتمام مجھ سے نہ ہوسکا، پھر یہ خدمت عمادی صاحب کے سپرد کی گئی، اس کے بعد پھر یہ خدمت ہمارے دوست مولانا عبدالسلام صاحب ندوی کو اور کبھی مجھ کو ملتی رہی اور مجھ پر اس کا خاتمہ ہوا۔
غالباً ۱۹۰۸؁ء کے شروع میں مولانا ابوالکلام نے اپنے والد ماجد کے مرض الموت کے سبب سے اپنے والد کے اصرار سے وکیل امرتسر کی ادارت چھوڑ کر کلکتہ گئے، تو وکیل کے مالک غلام محمد صاحب مرحوم نے مولانا عمادی کو ان کی جگہ بلایا اور وہ کئی سال اس تعلق سے امرتسر میں رہے اور وہاں انھوں نے سرسید کے تہذیب الاخلاق کو پھر زندہ کیا اور کئی نمبر اس کے نکالے اور اس کی طرف سے بعض اپنے رسائل اور دوسروں کی کتابوں کی بااجازت اشاعت کی اور سرسید کے بعض رسالوں کو دوبارہ چھاپا، مرحوم نے وہاں جو رسالے لکھے ان میں سے عرب قدیم اور صناع العرب کے نام اس وقت یاد ہیں ان کے امرتسر چلے جانے کے بعد البیان کی ادارت میرے حصہ میں آئی اور تقریباً سال بھر اس کو میں چلاتا رہا۔
۱۹۱۲؁ء میں مولانا ابوالکلام کی ادارت میں جب کلکتہ کے افق سے ہلال (الہلال) نمودار ہوا تو چند ماہ کے بعد میں الہلال کی ادارت میں شامل ہوا، میرے کچھ ہی دنوں کے بعد مولانا عمادی بھی وہیں آگئے، اور چند مہینوں تک میں اور وہ دونوں ایک ہی ساتھ ایک جگہ الہلال کے دفتر میں رہے، اور کام کیا کئے اس زمانہ میں الہلال میں انھوں نے جو مضمون لکھے، ان میں سے اسوۂ نوح، اسوۂ ابراہیمی اور کشف ساق تین عنوان یاد ہیں۔
چند ہی مہینوں کے بعد ہم دونوں الگ ہوگئے، وہ زمیندار لاہور میں چلے گئے، اور میں حضرۃ الاستاذ علامہ شبلی کے حسب الحکم دکن کالج پونا چلا گیا، نومبر ۱۹۱۴؁ء مطابق ذی الحجہ ۱۳۲۸؁ھ میں جب مولانا شبلی کی اور دسمبر ۱۹۱۴؁ء مطابق محرم ۱۳۲۸؁ء میں مولانا حالی کی وفات ہوئی ہے، تو مولانا عمادی زمیندار میں تھے، اور اسی اخبار میں ان دونوں مرحومین پر پراثر مضمون لکھے، اور مولانا شبلی مرحوم کی وفات کے سلسلہ سے انہی کے تعلق کے سلسلہ سے میرے چند مسلسل مضمون نکلے پھر زمانہ کا انقلاب دیکھئے، کہ حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ کی نصابی کتابوں کے لیے دارالترجمہ قائم ہوا، اور زمیندار کے اڈیٹر ظفر علی خان اعلیٰ حضرت حضور نظام میر عثمان علی خان کے ایام شاہزادگی کے سابقہ معرفت کے سبب سے جب دکن آئے، تو مولانا عمادی کے حیدر آباد آنے کا وہ ذریعہ بن گئے، ظفر علی خان تو سیاسی شورشوں کے طوفان میں بہہ گئے، مگر مولانا عمادی اپنے فضل و کمال اور مرنجان مرنج طبیعت کے سبب سے اپنے جگہ جمے رہے، اور ایسے جمے کہ مر کر ہٹے۔
دارالترجمہ میں وہ اپنے لغات دانی اور جدید عربی مصطلحات علمی کی واقفیت کے سبب سے بہت کارآمد ثابت ہوئے وہ دارلترجمہ کی دو جماعتوں میں سے اس جماعت میں تھے، جو اردو میں عربی مصطلحات کے رواج کے لیے کوشاں تھی، میں نے سنا ہے کہ ان کی کثرت لغات کے سبب سے اعلیٰ حضرت حضور نظام نے ان کو کبھی قاموس کہہ دیا تھا اور خیال تھا ان کو قاموس جنگ کا خطاب نہ مل جائے۔
وہ دارالترجمہ میں واضع اصطلاحات کے علاوہ مترجم بھی رہے، ان کے قلم سے متعدد عربی تاریخوں کے ترجمے اردو میں دارالترجمہ سے شائع ہوئے ہیں، اس سلسلہ میں تاریخ طبری، طبقات ابن سعد اور تاریخ یعقوبی کے ترجمے انھوں نے غالباً کئے ہیں، مترجم کے علاوہ وہ دارالترجمہ کے ناظر مذہبی بھی رہے، یعنی دارالترجمہ کی مترجمہ اور مولفہ کتابوں پر اس حیثیت سے نظر ڈالتے تھے، کہ ان میں مذہبی معتقدات اور مذہب کے خلاف کوئی بات تو نہیں، اور غالباً اسی خدمت کے بعد ان کو پنشن ملی، مگر اس پنشن کے بعد بھی انھوں نے حیدرآباد کو نہیں چھوڑا، بلکہ وہیں توطن اختیار کرلیا، اور ان کے فرزند اور بعض عزیز حیدرآباد کی ملازمتوں پر سرفراز کے گئے، اور اب بھی ہیں۔
مرحوم حیدر آباد کی علمی مجلسوں اور محفلوں کے جز ہوگئے تھے، دائرۃ المعارف اور کتب خانہ آصفیہ جو مملکت دکن کے دو اہم اور عظیم الشان علمی مرکز ہیں، وہ ان دونوں کے مشیر اور رکن رکین تھے۔
مرحوم نہایت خلیق اور ملنسار تھے، اور اپنے ہر ملنے والے کی اتنی تعظیم و تکریم کرتے تھے، کہ بسا اوقات اس بیچارہ کو یہ غلط فہمی ہوجاتی تھی، کہ وہی مخاطب سے ہر حیثیت میں بڑا ہے لیکن اس باب میں وہ اپنی سادہ فطرت کے ساتھ تکلف کو بھی کام میں لاتے تھے، اس لئے حقیقت مشتبہ ہوجاتی تھی، ان کو شواذ اور نوادر مسائل سے بھی دلچسپی تھی اور اس لیے وہ کبھی کبھی بطور بحث کسی شاذرائے کو ثابت کرنے کے لئے بڑا زور لگاتے تھے لطائف و ظرائف کا ذخیرہ بھی ان کے پاس کم نہ تھا، کسی بات کو وہ غلط بھی جانتے ہوں مگر کیا خوب! وہ اس طرح کہتے تھے کہ سننے والا یہ سمجھتا تھا کہ وہ اس کی تحسین کررہے ہیں۔
عزیز پروری ان کی خصوصیت تھی ایک دفعہ کلکتہ سے اپنے وطن جارہے تھے، اور بہت سے روپیوں کی ضرورت ظاہر کررہے تھے میں نے پوچھا اتنے روپے کیا ہوں گے، فرمایا جب گھر جاتا ہوں تو غریب اعزہ آتے ہیں ان کی مدد کرنے کو جی چاہتا ہے، ہر ایک کو اس کے حسب حیثیت کچھ دیتا ہوں حیدرآباد جب میرا جانا ہوتا، مرحوم باصرار مدعو کرتے، اور ماحضر پیش فرماتے، اور طعام و کلام دونوں سے بہرہ اندوز کرتے۔
مرحوم مشرقی تعلیم کے ان نمونوں میں سے تھے جن کے مٹنے کے بعد ان کی جگہ ہمیشہ خالی رہے گی، جب وہ کلکتہ سے وطن کو جارہے تھے، تو میں نے کلکتہ میں اپنی تنہائی محسوس کر کے ان کو ایک خط میں اپنا ہی ایک عربی شعر لکھ کر بھیجا تھا۔
لوانی علمت ماتجسمت بعدہ
منحت الفظاران تمید برکبھا
جس کا ترجمہ یہ ہے اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ ان کے بعد مجھے کیا تکلیف ہوگی، تو میں ریل کو روک دیتا، کہ وہ اپنے سواروں کو لے کر اپنی جگہ سے حرکت نہ کرے لیکن اب اس رفیق قدیم کو وہ سفر پیش آیا جس کو شاعرانہ طور پر بھی روکا نہیں جاسکتا، اور جس سفر پر سب کو ایک دن روانہ ہونا ہے، اور جہاں کی رفاقت کا حق رفیق اعلیٰ کے سوا کوئی رفیق و عزیز بھی ادا نہیں کرسکتا، اور جس سفر کا زاد سفر عمل کے سوا کچھ نہیں، فرحمہ اﷲ تعالیٰ۔ (’’سـ‘‘، اکتوبر ۱۹۴۷ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...