Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مہاتما گاندھی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مہاتما گاندھی
ARI Id

1676046599977_54337959

Access

Open/Free Access

Pages

163

گاندھی، مہاتما
فداے انسانیت گاندھی!
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
واحسر تاکہ آج قلم کو امن و سلامتی کے اس داعی عدل و انصاف کے اس علمبردار اور اخلاص و عمل کے اس پیکر کا ماتم کرنا پڑا جو ساری عمر ملک و قوم کا غم گسار رہا، اور اس کی راہ میں جان عزیز تک قربان کردی اور کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ اس بدقسمت ملک و قوم کے ایک فرد کے ہاتھوں اس کے محسن اعظم کی شمع حیات گل ہوئی، جس کی عزت و سربلندی کے لئے اس نے اپنی پوری عمر صرف کردی اور اس کو زمین کی پستی سے اٹھا کر آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا، لیکن دنیا کے بہت سے اکابر اور محسنین انسانیت اس درجہ عظمیٰ پر سرفراز ہوئے، پھر یہ جلیل القدر انسان اس خلعت امتیاز سے کیوں محروم رہتا، یہ تو اس کی عظمت و جلالت کی آخری اور سب سے بڑی سند ہے۔
مادیت کے اس تاریک دور میں جب کہ مہذب انسان انسانیت کی بربادی کے درپے ایٹم بم کی تیاری میں مشغول، ساری دنیا آگ و خون کے سمندر میں غرق اور امن و سلامتی کو ترستی ہے، اس محسن انسانیت نے دنیا کو الفت و محبت اور اخوت و مساوات کا پیام دیا اور اخلاق و روحانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلادیا اور بے تیغ و تفنگ کے اخلاقی قوت سے فتح حاصل کرنا اور دلوں کو مسخر کرنا سکھایا، اور عملاً ثابت کرکے دکھا دیا کہ دنیا میں اصل طاقت اسلحہ کی نہیں بلکہ اخلاق کی ہے اور اسی کے ذریعہ دنیا میں ہندوستان کا سر اونچا کیا، اس نے مکر و فریب کی سیاست میں سچائی کی روح پھونکی وہ مظلوموں کا حامی، غریبوں کا سہارا اور بے نواؤں کا آسرا تھا، اس نے غریب بن کر غریبوں کی خدمت کی، اور غربت ہی میں اس دنیا سے سدھارا، اس نے نیکی اور سچائی کے لئے جان دی، عدل و انصاف کے لئے جان دی، اخلاق و شرافت کے لئے جان دی اس لئے اس کی موت درحقیقت ہندوستان کی عزت و ناموس اور اس کے وقار و عظمت کی موت اور عالم انسانیت کا حادثہ ہے۔
اس کی زندگی میں ہندوستان کی سیاست میں بڑے بڑے انقلاب آئے، نفرت و عداوت کی آندھیاں چلیں وحشت و درندگی کے طوفان اٹھے، سفاکی اور خونخواری کے پہاڑ ٹوٹے، لیکن یہ کوہ وقار اپنی جگہ قائم رہا اور کوئی قوت اسے ہلا نہ سکی، اس استقلال میں جان تک دے دی اور مرکر ثابت کردیا کہ وہ کسی خاص فرقہ و قوم کا نہیں بلکہ پورے ہندوستان کا لیڈر تھا۔
اس لحاظ سے وہ خوش نصیب تھا کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے آزادی کا بیچ بویا اور اس کے نازک پودے کو سیاست کے طوفانی حوادث سے بچاکر پروان چڑھایا، لیکن یہ کتنے حسرت و اندوہ کا مقام ہے کہ جب اس کے برگ و بار لانے کا وقت آیا تو باغبان خود اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور اپنے چمن کی بہار نہ دیکھ سکا، ابھی تو آزادی کا صرف دروازہ کھلا تھا، اصل منزل مقصود دور تھی کہ کارروان آزادی کا سالار خود کوچ کرگیا، آزادی ملتے ہی نفرت و عداوت کی ایسی آگ بھڑکی جس نے ہندوستان کے حاصل اور اصل خرمن ہی کو جلاکر خاکستر کردیا، ہندوستانیوں کی پیشانی پر ایسا کلنک کا ٹیکہ ہے جو مٹائے نہ مٹے گا، لیکن جانے والا اس جہان سے سرخرو اٹھا اور دنیا میں ہمیشہ کے لئے نیک نام چھوڑ گیا،
ہرگز نہ میرد آن کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
یہ سنت اﷲ ہے کہ سچی قربانی کبھی رائگاں نہیں جاتی، قربانی کرنے والے کا مادی وجود تو ختم ہوجاتا ہے لیکن اس کا نصب العین ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتا ہے اور جو روح زندگی نہ پیدا کرسکی تھی وہ موت پیدا کردیتی ہے، دنیا کی تاریخ اس کی شاہد ہے، ہندوستان کے فدائی اعظم نے اس کے لئے سب سے بڑی قربانی پیش کی ہے، یہ اپنا اثر رکھا کر رہے گی اور ہندوستان کا چمن اس کے خون کی آبیاری سے لہلہائے گا۔
اگر ہماری عقلوں پر پردے نہیں پڑگئے ہیں تو گاندھی کی موت ہندوستان کی زندگی بن سکتی ہے، اس وقت بلاتفریق مذہب و ملت ہر ہندوستانی اس کی یاد میں دلفگار اور تلافی مافات کے لئے بے قرار ہے، ان جذبات سے اس کے مشن کا کام لیا جاسکتا ہے، گاندھی کی سب سے بڑی محبت اور سب سے بڑی یادگار یہی ہے کہ اس مشن کو مقصد بنالیا جائے، یہی امن و سلامتی کی راہ اور ہندوستان کی فلاح و ترقی کا صحیح راستہ ہے اور اسی سے اس کی روح مسرور ہوگی، اگر ہم اتنا بھی نہ کرسکے تو ہماری محبت کے سارے دعوے باطل ہیں۔ (شاہ معین الدین ندوی، فروری ۱۹۴۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...