Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر ضیاء الدین

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر ضیاء الدین
ARI Id

1676046599977_54337960

Access

Open/Free Access

Pages

164

ڈاکٹر ضیاء الدین مرحوم
افسوس ہے کہ گزشتہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۴۰؁ء کو ڈاکٹر سر ضیاء الدین مرحوم نے بعارضہ فالج لندن میں انتقال کیا، مرحوم اپنے علمی کمال میں ہندوستان کے مشاہیر میں تھے، وہ تعلیم کے ماہر اور ریاضیات کے ممتاز فاضل تھے، انھوں نے اپنی تعلیم کے زمانہ میں ان فنون میں ہندوستان اور یورپ کی درسگاہوں میں جو امتیازات حاصل کئے، وہ اس دور میں کم ہندوستانیوں کو حاصل ہوئے تھے، چند دنوں جامعہ ازہر میں بھی رہے تھے، اس لئے عربی سے بھی کچھ واقف تھے، ان کی پوری زندگی علم و تعلیم کی خدمت میں گزری اور وہ نصف صدی سے زیادہ کسی نہ کسی حیثیت سے مدرسۃ العلوم اور اس کے بعد مسلم یونیورسٹی سے وابستہ رہے، کئی مرتبہ وائس چانسلر ہوئے، ابھی تھوڑے دن ہوئے کہ اس عہدہ سے سبکدوش ہوئے تھے، برسوں مجلس مقننہ کے ممبر رہے، مالیات میں ان کی رائے اور مشوروں کو خاص اہمیت حاصل تھی، ان کو اس زمانہ کے بڑے سے بڑے اعزاز حاصل ہوئے، جن سے یونیورسٹی کو بھی فوائد پہنچے اور ان کے دور میں اس کو بڑی ترقی ہوئی، ان کا آخری کارنامہ میڈیکل کالج کا قیام ہے، چند مہینے ہوئے جدید تعلیمی نظام کے مطالعہ کے لئے یورپ اور امریکہ گئے تھے، کہ لندن میں پیام اجل آپہنچا۔
مرحوم اس دور کی پیداوار تھے، جب مسلمانوں پر مغربی تمدن مسلط تھا، اور اس کا سب سے بڑا مرکز علی گڑھ تھا، لیکن انھوں نے اس کا بہت کم اثر قبول کیا، اب تو ضعیفی کی عمر تھی، وہ ہر زمانہ میں نہ صرف عقیدے بلکہ ظاہری وضع قطع میں بھی مسلمان رہے، ان کی زندگی بڑی سادہ اور بے تکلف تھی، ان کی سادگی میں ایک صاحبِ کمال کی شانِ بے نیازی پائی جاتی تھی، شخصی طور پر بھی ان سے لوگوں کو بڑے فوائد حاصل ہوئے، ان کی ذات سے سینکڑوں غریب طالب علموں نے تعلیم حاصل کی ، اور انھوں نے بہتوں کو جن کا کوئی سہارا نہ تھا، ملازمتیں اور بڑے بڑے عہدے دلوائے ۔
کمزوریوں سے کوئی انسان مستثنیٰ نہیں، وہ سیاست میں علی گڑھ کی پروانی روایات کے حامی تھے، اس لیے ایک طبقہ کو ان کے خیالات اور طریقہ کار سے اختلاف رہا، لیکن ان کی علمی فضیلت اور خدمات سے کسی کو انکار نہیں، مسلمانوں میں جو صاحبِ کمال بھی اٹھ گیا، اس کا بدل نہ پیدا ہوسکا، مرحوم کی جگہ بھی مشکل سے بھر سکے گی، اللھم اغفرہ مغفرۃ واسعۃ۔
ان کو یونیورسٹی کے انتظامی امور اور دوسری قومی و سیاسی مشغولیتوں کی وجہ سے تالیف و تصنیف کا کم موقع مل سکا اور دو تین مختصر تعلیمی کتابوں کے علاوہ اپنے علم کے شایانِ شان کوئی علمی یادگار نہیں چھوڑی۔ (شاہ معین الدین ندوی، فروری ۱۹۴۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...