Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولوی عبدالرزاق کانپوری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولوی عبدالرزاق کانپوری
ARI Id

1676046599977_54337961

Access

Open/Free Access

Pages

164

مولوی عبدالرزاق کانپوری
ماتم گسارِ برامکہ کا ماتم
مولوی عبداراق صاحب کانپوری نے جو البرامکہ کے مصنف کی حیثیت سے مشہور تھے، پچاسی برس کی عمر میں، ۱۸؍ فروری ۱۹۴۸؁ء کو بمقام بھوپال اپنی نواسی کے گھر میں ۳ بجے رات کو یکایک انتقال کیا، وہ کچھ دنوں سے بیمار تھے، ان کے داماد ان کو علاج کی خاطر دلی لے گئے تھے، اور غرض یہ بھی تھی کہ ان کے بعض پچھلے مسودات وہاں چھپ جائیں کہ دلی میں ہنگامہ ہوا، اور لوگوں میں بھگڈر مچی، مولوی صاحب موصوف کو ان کے عزیز ہوائی جہاز سے بھوپال لائے، جہاں ایک زمانہ سے مختلف خدمتوں کے تعلق سے ۱ن کا قیام تھا۔
مرحوم سے میری ملاقات غالباً ۱۹۲۱؁ء میں لکھنو دارالعلوم ندوہ کے اندر اس وقت ہوئی جب علی گڑھ ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے سبب سے ملک کے اکابر و مشاہیر لکھنؤ آئے تھے، البرامکہ میں کم سنی میں پڑھ چکا تھا، مصنف سے واقف تھا شاہ سلیمان صاحب، پھلواروی اس زمانہ میں دارالعلوم میں قیام فرما تھے، مشتافوں کا ان کے پاس ہجوم تھا انہی میں مولوی عبدالرزاق صاحب تھے، شاہ صاحب نے ان کی طرف اشارہ کرکے مذاقاً فرمایا کہ یہ برامکہ صاحب ہیں، اس تعارف سے مجھے خوشی ہوئی۔
اس کے بعد ۱۹۰۵؁ء میں جب حضرۃ الاستاذ علامہ شبلی نعمانی ؒ حیدرآباد سے قطع کرکے دارالعلوم میں معتمد ہوکر آئے، تو مرحوم کی آمد ورفت بکثرت ہونے لگی، یہ وہ زمانہ تھا، جب مرحوم نظام الملک سلجوتی لکھ رہے تھے، اور اس سلسلہ سے اپنے مسودات مولانا کو دکھانے لاتے تھے اور ان سے مشورے چاہتے تھے۔
مرحوم کی علمی استعداد اس قدر تھی کہ وہ فارسی اچھی طرح جانتے تھے، اور عربی سے مانوس تھے، اور عبارت سے مطلب سمجھ لیتے تھے البرمکہ لکھتے وقت اس سے ہی کم واقفیت تھی، اس زمانہ میں ندوہ کا دفتر کانپور میں تھا، اور اسی تعلق سے مولانا سید عبدالحئی صاحب مدد گار ناظم ندوۃ العلماء جو بہت اچھے ادیب تھے، کانپور میں رہتے تھے، اور منشی عبدالرزاق صاحب جیسا کہ وہ اس وقت کہلاتے تھے البرامکہ لکھ رہے تھے، اﷲ تعالیٰ نے ان کو فطری مذاق بخشا تھا، اور حیات سعدی و المامون وغیرہ سے اردو میں سوانح نگاری کی ایک طرح پڑچکی تھی، مرحوم عربی تاریخی اور ادبی کتابوں کو لفظ لفظ دیکھتے تھے، اور جہاں برامکہ یا برمکی کا لفظ دیکھتے، نشان لگادیتے تھے، اور بعد کو اس کا مطلب سمجھ کر اس کو اردو میں لکھ لیتے، عربی اشعار کے سارے ترجمے جیسا کہ سنا مولانا سید عبدالحئی صاحب کے کئے ہوئے ہیں اور پورا مسودہ حضرۃ الاستاذ کی نظر سے گذارا گیا تھا، اور شاید اسی جذبہ کے تحت مصنف نے بڑے ادب کے ساتھ مولانا کے نام اس کو منسوب کیا تھا اور یہ شعر لکھا تھاـ:
مسند علم اؤزو جودت منبع اداب باد
آستانت قبلہ جان اولی الالباب باد
کانپور میں اس وقت جدید ادبی مذاق کا مرکز منشی رحمت اﷲ صاحب رعدمالک نامی پریس کانپور کا مبطع تھا، جہان سے منشی صاحب پہلے ایک مصورؔ رسالہ نکالتے تھے، اور پھر نامی جنتری نکالنے لگے تھے، منشی عبدالرزاق صاحب اس وقت جیسا کہ یاد آتا ہے، کانپور میونسلپٹی میں ملازم تھے اور وہیں رحمت اﷲ رعد اور مولوی عبدالرزاق صاحب میں دوستانہ اتحاد پیدا ہوا، منشی رحمت اﷲ رعد صاحب کو سرسید کی تعلیمی تحریک سے دلچسپی اور سرسید کے نورتن سے ادبی لگاؤ تھا، اس تعلق سے مولوی عبدالرزاق صاحب بھی اسی مرکز سے وابستہ ہوئے اور تاریخ کی دلچسپی کے سبب سے خاص طور سے مولانا شبلی سے ان کو زیادہ انس ہوا، مولانا نے سلسلہ فرمانروایانِ اسلام کی بنیاد ڈالی تھی، اور المامون لکھ چکے تھے، الفاروق کا غلغلہ تھا، اس مناسبت سے مولوی عبدالرزاق صاحب کے ذہن میں ’’سلسلہ وزرائے اسلام‘‘ لکھنے کا خیال آیا، اور سب سے پہلے ۱۸۹۷؁ء میں البرامکہ اور اس کے ۱۵ برس بعد ۱۹۱۲؁ء میں نظام الملک سلجوتی لکھی، اور ملک میں بہت مقبول ہوئی، البرامکہ خصوصیت سے زیادہ مقبول ہوئی، اور بہت پڑھی گئی، اور کئی دفعہ چھاپی گئی، اخیراڈیشن ابھی چند سال ہوئے، مرحوم نے نظر ثانی کے بعد مع جدید اضافوں کے شائع کیا تھا، ان دو تصنیفات کے علاوہ انھوں نے مضامین بھی لکھے ہیں مرزا افرحت شیرازی کی کتاب آثار عجم سے لے کر ایرانی یادگاروں پر کچھ ان کے مضامین معارف علی گڑھ میں نکلے تھے، زردشت جاماسپ اور برز چمہر وغیرہ کی حکایات اور امیروں کے پرانے افسانوں سے بھی اُن کو دلچسپی تھی۔
مرحوم کی پچاسی سال کی عمر کے لحاظ سے ۱۸۶۲؁ء میں پیدائش ہوئی ہوگی اور اُن کے ہوش کا زمانہ سرسید اور اُن کے رفقاء کی جدوجہد کا دور تھا، وہ علی گڑھ جا کر مولانا شبلی کے یہاں بھی مقیم ہوتے تھے، اور خود مولانا بھی ندوہ کے تعلق سے کانپور آتے جاتے تھے، اس لئے اس دور کے اکابر اور مشاہیر فن سے ان کی شناسائی تھی، اسی تعلق سے میں نے اُن سے خواہش کی تھی کہ اپنے زمانہ کے دیکھے ہوئے بزرگوں اور اُن کی محفلوں کے مشاہدات یکجا کردیں، چنانچہ اس زمانہ میں جب سرراس مسعود بھوپال میں وزیر تعلیم ہوکر آئے، انھوں نے اپنے ان مشاہدات کو قلمبند کیا اور وہ سلسلہ کسی مقامی پرچہ میں چھپتا رہا، بعد کو ان مطبوعہ اوراق کو میرے پاس بھیجا کہ میں انھیں مبطع معارف سے شائع کروں، مگر یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا، کاغذ کی نایابی سے وہ ہمارے ہاں نہ چھپ سکا، اور مولف کو واپس کردیا گیا سنا ہے کہ وہ حیدرآباد دکن سے چھپ کر شائع ہوا۔
نظام الملک کی قدردانی نواب عمادالملک مولوی سید حسین بلگرامی نے پوری کی، ریاست آصفیہ کی طرف سے اس کے بہت سے نسخے خریدے گئے اور شاید مصنف بھی انعام سے سرفراز ہوئے اسی سلسلہ میں حیدرآباد کے ادارہ سے وہ بھوپال وارد ہوئے اور سرکار عالیہ نواب سلطان جہاں بیگم مرحومہ سے ملے انھوں نے ازراہ قدردانی اپنی ریاست میں تحصیلداری کے عہدہ پر مقرر کردیا، یہ واقعہ ۱۹۱۴؁ء یا ۱۹۱۵؁ء کا ہوگا، بعد کو جب کسی ضرورت سے میرا یہاں آنا ہوا تو سابق نواب ولی عہد بہادر کی ڈیوڑھی سے ان کو وابستہ پایا اور ان کی فرمایش سے وہ اس زمانہ میں اُن کے والد نواب احمد علی خان کی سوانح عمری اور افغانان جلال آباد (ضلع مظفر نگر) کی تاریخ قلمبند کررہے تھے، میں نے مبارکباد دی کہ کیا عجب آپ بھی کسی زمانہ میں یہاں کے نظام الملک بن جائیں، مگر ولی عہد بہادر نے ۱۹۲۴؁ء میں وفات پائی، اور سرکار عالیہ نے ان کو تاریخ اسلام لکھنے پر مقرر فرمایا یہ اس کام کو ایک مدت تک انجام دیتے رہے، مگر پھر بساط ایسی الٹی کہ گوشہ نشین سے ہوگئے، اس کے بعد سرراس مسعود نے اپنی وزارت تعلیم کے عہد میں جب تالیف و ترجمہ کا ایک سرکاری ادارہ قائم کیا، تو مرحوم اس کے اسٹاف میں داخل ہوئے اور تاریخ بھوپال وغیرہ کی طرح ڈالی مگر سرراس مسعود کا زمانہ جلد ختم ہوگیا، اور ۱۹۲۵؁ء میں انتقال کرگئے، تو یہ ادارہ بھی خواب پریشان ہوکر رہ گیا۔
وہ ادھر ضعف عمر کے سبب سے کمزور بھی ہوگئے تھے، تاہم کچھ نہ کچھ لکھتے پڑھتے رہتے تھے، اخیر تصنیفات تاریخ اسلام وغیرہ کے مسودات اُن کے وارثوں کے پاس ہیں اور عجب نہیں کہ وہ اُن کو شائع کریں۔
مرحوم چونکہ یوپی سے بھوپال آگئے تھے، اور وہاں کے علمی و ادبی حلقوں سے الگ ہوگئے تھے اس لیے لوگ ان کو اُن کی زندگی ہی میں بھول چکے تھے، اور انہیں خود بھی یہ خیال تھا کہ لوگ انہیں مردہ سمجھ چکے ہوں گے، اس لیے مجھ سے دودفعہ غالباً یہ خواہش کی کہ میں ان کی زندگی کی خوشخبری لوگوں کو پہنچادوں چنانچہ معارف کے شدرات میں ان کی یہ تحریریں ہوں گی۔
مولانا شبلی مرحوم کے دوسرے دوستوں کے ساتھ میں جو ادب ملحوظ رکھتا تھا، وہی اُن کے ساتھ رکھتا تھا، اور وہ بھی مجھے اپنے عزیزوں میں شمار کرتے تھے، آج اس مساوات کے زمانہ میں نوجوان خوردی و بزرگی کے ان آداب کو شاید نہ سمجھ سکیں۔
۱۰؍ فروری ۱۹۴۸؁ء کی دوپہر کو دفتر دارالقضاء میں ٹیلیفون سے مجھے کسی نے مطلع کیا، کہ رات مولوی عبدالرزاق صاحب نے انتقال کیا، ۲ بجے نماز جنازہ ہوگی اور امن شاہ کے تکیہ میں مدفون ہوں گے لیکن افسوس کہ جب میں قبرستان میں پہنچا، تو اُن کے احباب اور اعزہ ان کو دفن کر کے واپس جاچکے تھے اور اس وقت اُن کی قبر کو مزدور پتھر سے گھیر رہے تھے، دعائے مغفرت پڑھی، اور اُن کے عزیز کے گھر جا کر جہاں انھوں نے وفات پائی تھی فرضِ تعزیت ادا کیا۔
مرحوم بلند بالا، خوش خلق اور متواضع تھے، ہر حال میں وہ اپنے علمی کاموں میں منہمک رہتے تھے، اب زمانہ کے حالات میں جو انقلاب ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ایسے شائقین و خدمت گزاراہِ علم و ادب کی توقع بہت کم کی جاسکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ (سید سلیمان ندوی،مارچ ۱۹۴۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...