Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ثناء اﷲ امرتسری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ثناء اﷲ امرتسری
ARI Id

1676046599977_54337963

Access

Open/Free Access

Pages

166

مولانا ثناء اﷲ امرتسری
۱۵؍ اگست ۴۷؁ھ کے بعد مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر جو قیامت گزری، اس کی تاریخ قیامت تک ناقابل فراموش رہے گی، مسلمانوں کے لئے یہ سانحہ کتنا حسرتناک ہے کہ اب امرتسر سے لے کر دلّی کے کناروں تک ساری مسجدیں بے چراغ خانقاہیں سونی، مدرسے بے نشان اور کتب خانے ویران ہوگئے، اسی حادثہ میں مولانا ابوالوفا ثناء اﷲ صاحب امرتسری کے صاحبزادہ عطاء اﷲ سنا ہے بحالت نماز شہید ہوئے، ان کا کتب خانہ لٹ گیا اور وہ خود مع خاندان بہ ہزار خرابی گوجرانوالہ پہنچے اور اب خبر آئی ہے کہ انہوں ۱۶؍ مارچ ۱۹۴۸؁ء کو بعارضۂ فالج وفات پائی، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مولانا ہندوستان کے مشاہیر علماء میں تھے، فن مناظرہ کے امام تھے، خوش بیان مقرر تھے، متعدد تصانیف کے مصنف تھے، مذہباً اہلحدیث تھے اور اخبار اہلحدیث کے اڈیٹر تھے، قومی سیاسیات کی مجلسوں میں کبھی کبھی شریک ہوتے تھے۔
مرحوم سے مجھے نیاز اپنی طالب علمی ہی سے تھا، وہ سال میں ایک دو دفعہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں آتے جاتے لکھنؤ آتے تھے اور دارالعلوم ندوہ میں تشریف لاکر احباب سے ملتے تھے، اسی سلسلہ میں مجھے بھی نیاز حاصل ہوا، ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ مرحوم مدرسہ میں تشریف لائے، میں درس میں تھا، ان کو آتا دیکھ کر ان کی طرف لپکا، مگر مرحوم نے میرے بجائے سبقت استاذی شمس العلماء مولانا حفیظ اﷲ صاحبؒ کی طرف کی اور حدیث کا یہ ٹکڑا پڑھا۔ کبِّرالکبُر یعنی بڑے کو بڑائی دو۔
مرحوم ندوہ کے رکن بھی اکثر رہے، بلکہ خود ان کے بقول ندوہ کانپور میں ان کی دستار بندی ہی کے جلسہ میں پیدا ہوا، مرحوم نے ابتدائی تعلیم کے بعد کچھ دنوں مدرسہ دیوبند میں پڑھا، پھر وہ کانپور آکر مدرسہ فیض عام میں داخل ہوئے اور یہیں ۱۳۱۴؁ھ میں فراغت پائی۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعووں سے پنجاب میں فتنہ پیدا ہوگیا تھا، انہوں نے مرزا کے خلاف صف آرائی کی اور اس وقت سے لے کر آخر دم تک اس تحریک اور اس کے امام کی تردید میں پوری قوت صرف کردی، یہاں تک کہ طرفین میں مباہلہ ہوا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صادق کے سامنے کاذب نے وفات پائی۔
یہ پرانے قصے ہیں جن کو دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
موجودہ سیاسی تحریکات سے پہلے جب شہروں میں اسلامی انجمنیں قائم تھیں، اور مسلمانوں اور قادیانیوں اور آریوں اور عیسائیوں میں مناظرے ہوا کرتے تھے، تو مرحوم مسلمانوں کی طرف سے عموماً نمائندہ ہوتے تھے اور اس سلسلہ سے وہ ہمالیہ سے لے کر خلیج بنگال تک دواں اور رواں رہتے تھے۔
اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا۔ اس کے حملے کو روکنے کے لئے ان کا قلم شمشیر بے نیام ہوتا تھا اور اسی مجاہدانہ خدمت میں انہوں نے عمر بسر کردی۔ فجزاہ اﷲ عن الاسلام خیر الجزاء۔
وہ مصنف بھی تھے، مخالفین اسلام کے اعتراضوں کے جواب میں ان کے اکثر رسالے ہیں، ان کی تصنیفات میں دوتفسیریں خاص ذکر کے قابل ہیں، تفسیر ثنائی اردو میں اور تفسیر القرآن بالقران عربی میں، مرحوم کو خود بھی یہ تفسیریں پسند تھیں، مرحوم چونکہ مناظر تھے، اس لئے پہلی تفسیر میں آیات صفات کے باب میں سلفی عقائد کے بجائے حضرت شاہ ولی اﷲ صاحبؒ کی پیروی میں تاویل کی راہ اختیار کی تھی، اس سے امرتسر کے غزنوی علمائے اہلحدیث نے ان کی بہ شدت مخالفت کی، ۱۹۲۶؁ء میں جب جج کی تقریب سے خاکسار اور مرحوم اور دیگر علمائے اہلحدیث کا حجاز جانا ہوا، تو یہ نزاع سلطان ابن سعود کے سامنے بھی پیش ہوا اور سلطان نے کوشش کرکے فریقین میں صلح کرادی، مرحوم مجھ سے فرماتے تھے کہ افسوس ہے کہ نجد کے علماء حضرت شاہ ولی اﷲ کی قدر و قیمت سے واقف نہیں اور مجھ سے چاہتے تھے کہ میں اس باب میں سلطان سے کچھ عرض کروں۔
مرحوم کبھی کبھی قومی جلسوں میں بھی شرکت کرتے تھے، ۱۹۱۲؁ء میں ندوہ کی تحریک اصلاح کے سلسلہ میں جب حکیم اجمل خاں مرحوم کی دعوت پر دہلی میں ایک عظیم الشان اجلاس ہوا، جس میں سارے ہندوستان کے مسلمان نمائندے شریک تھے، تو مولانا شبلی کی تحریک پر مرحوم ہی صدر مجلس قرار پائے تھے، ۱۹۱۹؁ء میں جب تحریک خلافت کا پہلا ابتدائی جلسہ لکھنؤ میں ہوا، جس میں سارے ملک کے اکابر اور مشاہیر جمع تھے، اس میں بھی مرحوم شریک تھے، ۱۹۲۵؁ء کی جمعیۃ العلماء کے اجلاس کلکتہ میں جس میں اس خاکسار کی صدارت تھی مرحوم موجود تھے اور خاص طور سے اس لئے آئے تھے کہ جمعیۃ کے اس اجلاس میں دارالحرب میں سود کے مسئلہ پر بحث کرنے والے تھے، حضرت مولانا انور شاہ صاحبؒ اور دوسرے علمائے دیوبند بھی تشریف فرما تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضرات علماء دیوبند حنفیہ کے مشہور مسلک لاربوابین الحربی والمسلم فی دارالحرب پر متفق ہوں تو میں بھی تائید کروں گا، مگر علماء میں نج کی گفتگو ہوکر رہ گئی، کھلے اجلاس میں کوئی بحث نہیں ہوئی۔
مرحوم ۱۹۲۶؁ء میں حجاز کے موتمر اسلامی نمائندہ اہلحدیث کی حیثیت سے شریک تھے اور عربی میں ایک دو مختصر تقریریں بھی اپنے طرز کی موتمر میں کی تھیں، مدینہ منورہ بھی حاضر ہوئے تھے، کہتے تھے کہ جو اہلحدیث یہاں نہ آئے وہ محبت سے خالی ہے، (اُن کا اصل فقرہ اس وقت پوری طرح یاد نہیں)۔
مرحوم کو ایک دفعہ مجھ سے شکایت بھی پیدا ہوئی، اس کی صورت یہ ہوئی کہ دس پندرہ برس ہوئے، مرحوم اور ان کے حنفی حریف مولانا عبدالعزیز صاحب خطیب گوجرانوالہ مصنف اطراف بخاری کے درمیان حدیث وَاِذَا قَرَءَ الْاِمَامُ فَانْصِتُوْا کے صحیح مسلم میں موجود ہونے یا نہ ہونے پر اخبارات میں تحریری مناظرہ ہورہا تھا، فریقین نے اس باب میں مجھے حکم مانا، میں نے مولانا مرحوم سے کچھ پوچھے بغیر صرف دونوں کی تحریروں کو دیکھ کر فیصلہ مرحوم کے خلاف اور مولانا عبدالعزیز صاحب کے موافق کیا۔ جس پر مرحوم نے مجھے لکھا حتی یسمع من الاٰخر کی بنا پر طرف ثانی کا بیان سنے بغیر آپ نے فیصلہ کیسے کردیا، مگر ان کی یہ شکایت محض مناظرانہ تھی، ورنہ اس کے بعد بھی ان کی شفقت میرے حال پر ویسی ہی رہی، ڈاکٹر اقبال کی وفات کے بعد جب میرا لاہور جانا ہوا اور ان کو خبر ہوئی تو مجھے پیغام بھیجا کہ واپسی میں ان سے ملے بغیر نہ جاؤں، چنانچہ واپسی میں امرتسر اترا اور ان کے پاس دو دن ٹھہرا اور بہت سی باتیں ہوئیں، جن میں سے ایک جیسا کہ خیال آتا ہے، اہلحدیث کے انتشار اور پراگندگی کی گفتگو تھی، میں مرحوم کو لکھتا رہتا تھا کہ آپ آمین اور رفع یدین وغیرہ مسائل فقہ پر جن کا ہر پہلو جائز اور ثابت ہے، مناظرانہ تحریروں میں وقت ضائع نہ کریں، مگر وہ ان کی اہمیت پر بھی مصر تھے۔
ان کی عمر میرے خیال میں اسّی سے کچھ متجاوز ہوگی، ابھی چند سال ہوئے وہ گر پڑے تھے، جس سے کولھے کی ہڈی پر چوٹ لگی تھی، جس کے سبب سے وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے، پنجاب کے گزشتہ حادثہ میں ان کے جوان بیٹے کی مفارقت کا اثر یقینا پڑا ہوگا، لیکن اس کے بعد پاکستان و ہندوستان کے درمیان جو دیوار قائم ہوگئی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مجھے مرحوم کی وفات کی اطلاع بھی اس سے پہلے نہیں ہوئی اور یہ اطلاع بھی جمعیۃ العلماء دہلی کے تازہ جلسہ میں تعزیت کی تجویز سے ہوئی اِنّالِلّٰہ، اگر کوئی صاحب ان کی وفات کی تاریخ و روز وقت و مقام سے مطلع کریں تو ممنون ہوں گا۔
مرحوم اسلام کے بڑے مجاہد سپاہی تھے، زبان اور قلم سے اسلام پر جس نے بھی حملہ کیا اس کی مدافعت میں جو سپاہی سب سے آگے بڑھتا وہ وہی ہوتے، اﷲ تعالیٰ اس غازی اسلام کو شہادت کے درجات و مراتب عطا فرمائے۔ (سید سلیمان ندوی، مئی ۱۹۴۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...