1676046599977_54337964
Open/Free Access
168
یعقوب بخش راغب قادری بدایونی
پروفیسر ضیاء احمد بدایونی (لکچرار مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کے خط سے یہ معلوم کرکے دل کو بڑا رنج ہوا کہ میرے پرانے دوست مولوی یعقوب بخش صاحب راغب بدایونی نے ۲۱؍ فروری ۱۹۴۸ء کو علی گڑھ میں جہاں وہ دینیات کے استاد تھے، اچانک قلب کی حرکت بند ہوجانے سے وفات پائی، جنازہ علی گڑھ سے بدایوں لے جایا گیا اور درگاہ قادریہ میں وہ سپرد خاک ہوئے، عمر غالباً ساٹھ برس کے قریب ہوگی۔
مرحوم بدایوں کے ایک نامور اور صاحب علم گھرانے سے تھے، ان کے پرنانا مولوی علی بخش صاحب صدرالصدور تھے، جن سے سرسید کے تحریری مناظرے رہے ہیں، کیا عجیب بات ہے کہ اس کا پرناتی جس کا پرنانا سرسید سے ایسا مذہبی اختلاف رکھتا تھا جس میں کفر و اسلام تک کا تفرقہ تھا وہ سرسید کی تعلیم گاہ میں دینیات کا مدرس ہوکر رہا۔
مرحوم سے میرے تعلقات بڑے پرانے تھے، ان کا آغاز شعر و سخن سے ہوا، مرحوم اردو کے اچھے شاعر تھے، انہوں نے اپنا کلام مجھے میری رائے معلوم کرنے کو بھیجا، میں نے اس کی بڑی داد دی اور اس طرح مکاتبت کا سلسلہ جاری ہوا پھر تحریک خلافت کے زمانہ میں محب عزیز (جن کا نام اب بھی محبت کے ساتھ زبان پر آتا ہے) مولانا عبدالماجد مرحوم بدایونی کے توسط سے معرفت اور شناسائی کا تعلق دوستی سے بدل گیا، ملاقات کا اتفاق بدایوں کے ایک جلسۂ خلافت کے سلسلہ میں ہوا، جس میں مولوی عبدالماجد صاحب بدایونی مجھے صدر بناکر لے گئے تھے اور کئی روز ان کے مکان پر ٹھہرنا پڑا۔
مرحوم عربی کے بڑے عالم، ادب و لغت کے فاضل اور ہیئت و نجوم کے استاد تھے، عربی میں قصیدے بہت لکھے اور بہت اچھے لکھے، بدایوں کے سلسلۂ قادریہ میں حبِّ رسول کی بناء پر سیادت سے بے انتہا شیفتگی ہوتی ہے، اس سلسلہ میں مرحوم کو مجھ ’’بدنام کنندۂ نکونامے چند‘‘ سے بھی محبت کی عقیدت تھی، چنانچہ اپنے عربی قصیدوں کو میری طرف نسبت دے کر میری عزت بڑھائی۔
ہیئت و نجوم سے ان کو خاص ذوق تھا، ان کے گھر میں بزرگوں کا اندوختہ بڑا اچھا کتب خانہ تھا، جس میں بعض نادر قلمی کتابیں تھیں، انہیں میں محقق طوؔسی اور دوسرے قدیم مسلمان علمائے ہیئت کے قدیم رسالے تھے، مرحوم نے اپنے ذوق سے ان کو پڑھ کر اور صحیح کرکے الانجم الطوالع کے نام سے شائع کیا، سرشاہ سلیمان مرحوم کے اشارہ سے علامہ بیرونی کی قانون مسعودی کے کچھ اجزاء کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔
مرحوم نے درس نظامیہ کے اسباق مولانا رفاقت اﷲ اور مولانا فضل احمد بدایونی سے پڑھے، تبرکاً چند سبق مولانا عبدالمقتدر بدایونی ؒ سے بھی پڑھے تھے۔
حدیث میں ان کا سلسلہ تلمذ مولانا سید یونس علی صاحب المتوفی ۱۳۵۹ھ بدایونی کے شاگرد مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی کے واسطے سے خاندان والی اللّٰہی تک اور معقول میں مولانا محب احمد صاحب بدایونی المتوفی ۱۳۳۵ھ کے توسط سے خانوادۂ خیرآباد تک منہتی ہوتا ہے، اردو شاعری میں شیخ احمد علی شوق لکھنویٔ کے شاگرد تھے اور بیعت سلسلۂ قادریہ میں مولانا عبدالقادر صاحب بدایونی رحمۃ اﷲ تعالیٰ سے حاصل کی تھی، عقیدہ میں سخت حنفی سنی قادری تھے، تاہم اس سختی میں لچک اتنی تھی کہ مجھ جیسے نرم و گرم سے بھی نباہ کرلیتے تھے۔
پہلے گھر ہی پر بدایوں میں پڑھانے کا شغل رکھتے تھے، ۱۹۳۸ء میں مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیایت میں مقیم ہوکر علی گڑھ منتقل ہوگئے تھے۔
مرحوم کی دوستی کا ایک نادر تحفہ یہ تھا کہ جب ان کا جی چاہتا، بدایوں کے پیڑے ڈاک سے اعظم گڑھ بھیجتے اور اس کے معاوضہ میں صرف ایک تشکر کا ہدیہ کافی سمجھتے، ان کا سب سے آخیر خط مجھے بھوپال میں ملا، جس میں اپنے ہونہار صاحبزادہ کا تعارف مجھ سے کرایا تھا، اﷲ ان کے صاحبزادہ کو علم دنیا کے ساتھ علم دین کا حصہ بھی عنایت کریں اور اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر قائم رکھیں۔ (سید سلیمان ندوی، مئی ۱۹۴۸ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |