Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > قائداعظم محمد علی جناح

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

قائداعظم محمد علی جناح
ARI Id

1676046599977_54337966

Access

Open/Free Access

Pages

169

قائداعظم محمد علی جیناؔ رحمہ اﷲ
افسوس ہے کہ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۸؁ء کی شب کو قائداعظم محمد علی جناح کا کراچی میں بہتر (۷۲) برس کی عمر میں انتقال ہوگیا، پاکستان و ہندوستان اور عالم اسلام نے اس حادثہ پر بڑا صدمہ محسوس کیا، دوسرے دن عصر کے وقت کئی لاکھ کے مجمع میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور تدفین عمل میں آئی، عام مسلمانوں میں ان کو جوہر دلعزیزی حاصل تھی اس کا اثر یہ ہے کہ ہندوستان اور اکثر اسلامی ملکوں، ریاستوں اور شہروں نے ان کا ماتم کیا اور ان کے لئے قرآن خوانی اور مغفرت کی دعا کی گئی۔
مرحوم کے سیاسی کارنامے آفتاب کی طرح روشن ہیں، وہ بڑے قانون داں، بڑے مناظر اور اجتماعیات کے بڑے نبض شناس تھے اور اپنے پیروؤں پر بلا کا اثر رکھتے تھے، ان کی بڑی خصوصیت اپنی بات پر جم کر دوسروں سے اپنی بات منوانے کی قوت تھی، انہوں نے اپنی اس قوت کا مظاہرہ پاکستان کے مطالبہ میں پوری طرح کیا اور بالآخر کامیابی حاصل کی اور ایک ایسی حکومت قائم کی جس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس وقت سب سے بڑی اسلامی حکومت ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا میں اس کا پانچواں درجہ ہے۔
ہندوستان کی سیاست میں مرحوم کا بڑا حصہ ہے اور ۱۹۱۶؁ء سے لے کر جب لیگ اور کانگریس میں ان کی کوشش سے مشہور پیکٹ ہوا، ۱۹۴۸؁ء تک سوائے ان چند سالوں کے جب وہ ترک موالات کی تحریک میں کانگریس سے الگ ہوگئے۔ ہمیشہ ایک لیڈر کی حیثیت سے ملک میں ممتازرہے، ان کی نسبت ان کے دوست اور دشمن ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نہ کبھی حکومت وقت سے ڈرے اور نہ جاہ و منصب کی کوئی حرص و طمع ان کو اپنی جگہ سے ہلاسکی۔
مرحوم پاکستان کے بانی اور یہ کہنا چاہئے کہ اس کی کشتی کے تنہا ملاح تھے، ایسے طوفان حوادث کے موقع پر جب ہر ملک اندرونی و بیرونی خطروں سے گھرا ہوا ہے، ان کی وفات حد درجہ افسوسناک ہے، یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کے حکمران اور رہنما صرف اپنی بے لوث خدمت، مخلصانہ کوشش، سادہ زندگی، ایثار، حُبِّ ملّت عاقبت اندیشی اور ذاتی اغراض سے بلند ہوکر باہمی اعتماد سے پورے ضبط و نظم کو قابو میں لاکر اپنی مملکت کو نشوونما دے سکتے ہیں اور تاریخ میں نئے شاندار کارناموں کا اضافہ کرسکتے ہیں، ورنہ ان کی ذرا سی غلطی اس نئے ملک کو ایسا سخت صدمہ پہنچائے گی جس سے وہ صدیوں تک عہدہ برآنہیں ہوسکتا۔
مرحوم سے میری ذاتی ملاقات کبھی نہیں ہوئی، البتہ چار دفعہ ان کو دور دور سے اور ایک دفعہ نزدیک سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، پہلی دفعہ میں نے انہیں اس وقت دیکھا جب ۱۹۱۶؁ء میں لکھنؤ میں کانگریس اور مسلم لیگ کے اجلاس تھے، اور وہ پہلی دفعہ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے مسلمانوں میں ظاہر ہوئے، سابق مہاراجہ محمودآباد کی سرکردگی میں لکھنؤ نے ان کا شاندار شاہانہ استقبال کیا تھا، اس وقت یہ نظم موزوں ہوئی:
اِک زمانہ تھا کہ اسرار دروں مستور تھے

کوہِ شملہ جن دنوں ہم پایۂ سینا رہا،
جب ہمارے چارہ فرما زہر کہتے تھے اُسے

جس پہ اب موقوف ساری قوم کا جینا رہا
بادۂ حُبِّ وطن کچھ کیف پیدا کرسکے،

دور میں یوں ہی اگریہ ساغر و مینار رہا
علّتِ دیرینہ سے گو اصلی قویٰ بیکار ہیں

گوش شنوا ہے، نہ ہم میں دیدۂ بینا رہا
پر مریضِ قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ اُمید
ڈاکٹر اس کا اگر مسٹر علی جینا رہا
اس کے بعد دوسرے سال بمبئی میں لیگ و کانگریس کے اجلاس ہوئے، مسلم لیگ کے صدر مظہرالحق مرحوم تھے اور جینا صاحب اس اجلاس کے بانی اور داعی تھے، لیکن مسلم لیگ کا یہ جلسہ جیسا کہ اس وقت سمجھا گیا انگریزی حکومت کے چند کارندوں کی شرارت سے درہم برہم ہوگیا، یہ مرحوم قائداعظم کے دیکھنے کا دوسرا موقع تھا، اس وقت قلم نے یہ نظم لکھی:
حق و باطل مدتوں تک معرکہ آرا رہا

ابر، خورشیدِ حقیقت پر بہت چھایا رہا
پر شبِ تاریک اب تاریک پہلی سی نہیں

ملک میں پچھلے دنوں کچھ کچھ اجالا سا رہا
وہ زمانہ جاچکا جب بت پرستی عام تھی

جب خدا کا حکم، ہر عیَّار کا ایما رہا
جب متاعِ رہنمائی تھی سزاوار خرید

جب کہ ہر قاروں پہ ہم کو خضر کا دھوکہ رہا

پھر بھی تمیز حق و باطل کا وہ جوہر نہ تھا

جو ہمیشہ قوم میں شمع رہِ صحرا رہا
رزمگاہِ نور و ظلمت بمبئی مدت سے ہے

گریہیں انوارِ حق چمکے تو کیا بے جا رہا
آیتِ قرآں کہ جاءَ الحّق مصدّق ہوگئی
مجلسِ آئین ہماری ’’مظہرحق‘‘ ہوگئی
تیسرا موقع یہ آیا کہ ۱۹۲۱؁ء میں خلافت کی تحریک کے زمانہ میں محمد علی مرحوم اڈیٹر کامریڈ کے ساتھ جناح صاحب کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں دونوں لیڈروں میں اس وقت کے مسئلوں پر گفتگو ہوئی اور جس کا خاتمہ بالآخر ایک کی دوسرے سے علیحدگی پر ہوا۔
اس کے بعد میں نے انہیں ناگپور کی کانگریس میں دیکھا جب ترک موالات کی تجویز کی مخالفت کے لئے وہ کھڑے ہوئے اور پورے جلسہ کی مخالفت کے باوجود وہ اپنی بات پر اڑے رہے اور اس کے بعد وہ کانگریس کے اجلاس بلکہ کانگریس سے نکل گئے اور پھر اس میں شریک نہیں ہوئے، سالہا سال کے بعد ابھی دو سال ہوئے جامعہ ملیہ کی جوبلی میں انہیں دیکھا اور ان کی تقریر سنی۔
ایک بات زبان پر آکر رکتی نہیں، کسی کو پسند ہو یا ناپسند ہو اب یہ حقیقت کہ ہندوستان کا براعظم ایک بار پھر دو مملکتوں میں بٹ گیا، اب ان دونوں مملکتوں کی بقا ان کے درمیان صلح و آشتی ہوسکتی ہے۔ ان دونون مملکتوں میں ہزارہا خاندانوں کے لاکھوں افراد بکھر گئے ہیں، ان کی سلامتی ان دونوں مملکتوں کی سلامتی و خیرخواہی ہی میں ہے، اس لئے ان دونوں میں جتنا زیادہ باہمی اتحاد اور اعتماد بڑھے۔ اتنا ہی انسانیت اور دنیا کے امن کے لئے مفید ہے۔ (سید سلیمان ندوی، اکتوبر ۱۹۴۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...