Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سرتیج بہادر سپرو

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سرتیج بہادر سپرو
ARI Id

1676046599977_54337967

Access

Open/Free Access

Pages

171

سرتیج بہادر سپرو
افسوس ہے کہ گزشتہ ۲۱؍ جنوری کو ملک کے نامور وکیل اور قانون دان سرتیج بہادر سپرو نے ۷۳ سال کی عمر میں انتقال کیا، عرصہ ہوا ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا، جس کے بعد ان کی صحت بگڑ گئی تھی، اور جس نے بالآخر ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا، وہ ایک بڑے قانون دان بلکہ قانون ساز اور عالی دماغ مدبر تھے، اپنے پیشہ میں بڑا نام پیدا کیا اور بڑی دولت کمائی اور صوبائی و مرکزی اسمبلیوں سے لے کر وایسرائے کی ایکزیکٹیو کونسل کی لاممبری اور پریوی کونسل کی رکنیت تک کے اعزاز ان کو حاصل ہوئے وہ سیاسیات میں اعتدال پسند تھے۔ اور اس دائرہ کے اندر انھوں نے ملک و قوم کی بھی مفید خدمات انجام دیں اور انہی حیثیتوں سے ان کا ماتم کیا گیا۔
لیکن قومی نقطۂ نظر سے ان کی سب سے بڑھ کر خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار اردو زبان کے بڑے حامی و مددگار اور ہماری پرانی مشترک تہذیب کا علمی نمونہ اور اس صوبہ میں غالباً اس کی آخری یادگار تھے اور اس فرقہ پرستی کے زمانہ میں بھی جب کہ بڑے بڑے قوم پرستوں کے قدم ڈگمگا گئے ہیں وہ اپنی جگہ قائم رہے اور مشترک زبان اور مشترک تہذیب کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹا، اور برسوں ہندوستانی اکیڈمی الٰہ آباد کے صدر رہے، کل ہند انجمن ترقی اردو کے مربی و سرپرست تھے اور تقسیم ہندوستان سے پہلے تک وہ اس کے مستقل صدر تھے، ابھی حال میں انھوں نے اردو زبان کی خدمت کے لئے الٰہ آباد میں روحِ ادب کے نام سے ایک مجلس قائم کی تھی، اردو کی تاریخ میں ان کا یہ فقرہ ہمیشہ یادگار رہے کہ اردو زبان ہندو مسلمانوں کا مشترک اور ناقابل تقسیم ترکہ ہے وہ خود اردو اور فارسی دونوں کا نہایت بلند اور ستھرا مذاق رکھتے تھے، اور نہایت فصیح اور شستہ اردو بولتے اور لکھتے تھے، اردو کی متعدد نظم و نثر کی کتابوں پر ان کے دیباچے اور مقدمے ان کی ادبی یادگار ہیں۔
کئی سال ہوئے کسی مقدمہ کے سلسلہ میں اعظم گڑھ انکا آنا ہوا تو دارالمصنفین دیکھنے کے لئے بھی آئے کتب خانہ میں فارسی کی الماری میں کلیات صہبائیؔ دیکھ کر کہا میرے دادا مولانا صہبائی کے شاگرد تھے، اور کلیات نکال کر دیر تک الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے ہندوستان میں آئندہ ان سے بھی بڑے وکیل، قانون دان اور مدبر پیدا ہونگے لیکن ہندو مسلم اتحاد اور دونوں کی مشترک تہذیب کا ایسا نمونہ شاید اب نہ پیدا ہوسکے اس لئے ان کا ماتم تنہا ایک مقنن اور مدبر کا ماتم نہیں بلکہ مشترک تہذیب کی یادگار اور اردو زبان کے ایک محسن کا ماتم ہے۔ (شاہ معین الدین ندوی، فروری ۱۹۴۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...