Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سید حسین
ARI Id

1676046599977_54337969

Access

Open/Free Access

Pages

182

سید حسین
دوسرا بڑا حادثہ مسٹر سیدحسین کی وفات ہے، مرحوم ہندوستان کی تحریک آزادی کے دور اول کی یادگار، انگریزی زبان کے بہترین خطیب و انشا پرداز اور نامور صحافی تھے، عرصہ تک الہ آباد کے مشہور پرانے اخبار انڈیپنڈنٹ کے اڈیٹر رہے، پھر وفد خلافت میں لندن گئے اور غالباً وہیں سے امریکہ چلے گئے اور پچیس تیس سال تک وہاں اپنے قلم و زبان سے ہندوستان کی خدمت کرتے رہے اور امریکہ کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بڑا نام پیدا کیا، ہندوستان کی آزادی کے بعد وطن واپس آئے اور نومبر ۱۹۴۷؁ء میں حکومت ہند کی جانب سے مصر کے سفیر بناکر بھیجے گئے، اور وہیں گذشتہ فروری میں انتقال کیا، آئندہ مسلمانوں میں ایسے صاحب کمال مشکل سے پیدا ہوں گے، اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی وفات پر ہندوستان کے اکابر کی خاموشی حیرت انگیز ہے۔
(شاہ معین الدین ندوی، مارچ ۱۹۴۹ء)

سیّد حسین کی موت
۲۵؍ فروری ۱۹۴۹؁ء کی رات کو ۹ بجے ریڈیو نے خبر سنائی کہ ہندوستانی سفیر متعین مصر سید حسین نے وفات پائی، دوسرے دن شاہانہ تزک و احتشام سے سرکاری طور سے ان کی تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں شاہ فاروق نے شرکت کی اور بعض علمائے ازہر نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
شاید لوگوں کو یاد ہوکہ ۱۹۲۰؁ء میں ہندوستان سے مجلس خلافت کا جو وفد یورپ بھیجا گیا تھا، اس کے ابتدائی ممبر تین تھے، محمد علی مرحوم، سید حسین اور سید سلیمان ندوی اور اس کے بعد شیخ مشیر حسین قدوائی اور ابوالقاسم (بنگال کے نامور لیڈر) بھی شامل ہوگئے، افسوس کے اس وقت راقم کے سوا سب ہی جنت کو سدھارے، اس وفد کے سکریٹری حسین محمد حیات صاحب تھے، جو بحمداﷲ اس وقت بھی بقید حیات ہیں اور یہیں بھوپال میں اعلیٰ حضرت فرمانروائے بھوپال کے سکریٹری ہیں، سیدحسین کی موت کی خبر ملتے ہی میں نے حیات صاحب کو فون کیا، وہ بھی خبر سن چکے تھے، کچھ دیر تک مرحوم کی وفات پر ہم دونوں افسوس کرتے رہے۔
وہ اس وقت گو جوان نہ تھے، ۶۲ برس کی عمر تھی، مگر چہرہ مہرہ اور بالوں کی سیاہی سے اب تک جوان بنے تھے، ان کی موت دل کی حرکت بند ہونے سے ہوئی، مصر کے تازہ آنے والوں سے سناکہ ان کی صحت اخیر دنوں میں اس حد تک گرچکی تھی کہ ان کا کسی وقت بھی ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرلینا تعجب خیر نہ تھا۔
مرحوم بہار و بنگال کے ایک ممتاز سادات کے گھرانے میں ۱۸۸۶؁ء میں پیدا ہوئے تھے وہ اردو کے مشہور ظریف انشا پرداز سید محمد آزاد کے چھوٹے بیٹے تھے، سید مرحوم اس زمانہ میں جب بہار بنگال ایک تھے، اعلیٰ سرکاری عہدوں پر ممتاز تھے، ان کے ظریفانہ مضامین اودھ پنچ لکھنؤ اور مشیر قیصر لکھنؤ میں چھپتے تھے اور بعد کو ان کے مضامین الگ بھی چھپے، اپنے زمانے میں مشہور ادیبوں میں ان کا شمار تھا۔
سیدحسین نے ابتدائی تعلیم کے بعد انگلستان کی راہ لی، شعر و سخن اور ادب و انشاء کی گودوں میں انہوں نے پرورش پائی تھی، گو وہ انگریزی کے ادیب و انشاء پرداز تھے، لیکن اردو شعر و ادب میں بھی ان کو خاصہ ملکہ تھا اور جس روانی سے انگریزی میں تقریر کرتے تھے، اردو میں بھی کرتے تھے، بڑے زندہ دل، ہنس مکھ اور باغ و بہار تھے۔
انگلستان میں جاکر انہوں نے اخبار نویسی سیکھی اور ۱۹۱۴؁ء والی بڑی لڑائی کے بعد جب ہندوستان میں سیاسی بیداری کا طوفان اٹھا وہ ہندوستان آئے اور پہلے مسٹر بارفی من کی نگرانی میں بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں داخل ہوئے اور اس کے بعد ۱۹۱۸؁ء میں جب موتی لال جی نہرو آنجہانی نے الٰہ آباد سے انڈیپنڈنٹ نکالا تو اس کی ایڈیٹری کے لئے اسی نوجوان صاحب قلم کا انتخاب کیا اور ان کو خود اپنے پاس رکھا، انڈیپنڈنٹ کی شہرت کے ساتھ ساتھ سیدحسین نے بھی شہرت حاصل کی، ان کو میں نے اسی زمانہ میں بعض قومی سیاسی جلسوں میں دیکھا، گورا رنگ، چھریرا بدن، بہترین انگریزی سوٹ میں ملبوس اور یہی اخیر تک ان کا فیشن رہا۔ اسی زمانہ میں جلسوں میں ان کی طرف نگاہیں اور انگلیاں اٹھتی تھیں۔
یہ وہ وقت تھا کہ کانگریس اور خلافت کے اتحاد سے ملک میں سیاسی بیداری کا سیلاب بڑھتا جارہا تھا اور آخر شکست خوردہ ترکی کے حصہ بخرہ کرنے کی تجویریں فاتح اتحادیوں میں پیش تھیں کہ وہ دسمبر ۱۹۱۹؁ء میں مجلس خلافت کے اس اجلاس میں جو کانگریس کے ساتھ امرتسر میں ہوا تھا اور جس میں علی برادران نظر بندی سے رہا ہوکر پہلی بار شریک ہوئے تھے، یہ طے ہوا کہ محمد علی کی قیادت میں سیدحسین اور سیدسلیمان ندوی کا وفد انگلستان اور یورپ کے دوسرے دارالحکومتوں میں اس غرض سے بھیجا جائے تاکہ وہ مسلمانوں کا اور ہندوستان کا نقطۂ نظر پیش کرے، محمد علی مسلمانوں کے اور سیدحسین ہندوستان کے سیدسلیمان علمائے دین کے نقطۂ نظر کو پیش کریں۔ اس کے علاوہ گاندھی جی نے سیدحسین کو اپنے نوٹ بھی لکھوا دیئے تھے کہ وہ ان کو وزرائے برطانیہ کے سامنے اپنی طرف سے پیش کریں، جن میں ہندوستان کے نقطۂ نظر کے مسئلہ خلافت کی توضیح تھی، چنانچہ سیدحسین نے انگلستان کے جلسوں اور وزیروں کی ملاقاتوں میں اسی حیثیت سے اپنے فرض کو انجام دیا۔
۳۱؍ جنوری ۱۹۲۰؁ء پہلا دن تھا، جب وفد خلافت کی یہ مختصر سی جماعت، ہنگریا جہاز سے یورپ کو روانہ ہورہی تھی، اسی تاریخ کو شام کو سیدحسین سے میری پہلی ملاقات ہوئی، سفر کا پہلا یا دوسرا دن تھا کہ شام کو محمد علی اور سیدحسین میں انگریزی کی ایک ضرب المثل پر جو حقیقت میں ہابیل و قابیل کے سلسلہ میں توراۃ کا ایک فقرہ ہے کہ ’’میں اپنے بھائی کا رکھوالا نہیں ہوں‘‘ مناظرہ چھڑ گیا، سیدحسین اس کی تائید اور محمد علی اس کی مخالفت کررہے تھے، یہ حقیقت میں ان دونوں کی زندگیوں کے اصول اور عقیدہ کا اختلاف تھا، محمد علی قومی مسلمان سے مذہبی مسلمان بن چکے تھے، جن کے نزدیک ہر مسلمان کا فرض تھا کہ دوسرے مسلمان کو غلطی سے روکے اور سیدحسین ابھی اس منزل سے پیچھے تھے، ان کے نزدیک شخصی آزادی اسی میں تھی کہ کسے رابا کسے کارے نباشد، یہ مناظرہ بڑے جوش و خروش سے فریقین میں جاری رہا اور بڑی مشکل سے اس کو روکا جاسکا۔
محمد علی اور سیدحسین دونوں ہی لائق اور قابل تھے اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اٹل اور اصول اور عمل رکھتے تھے، اس لئے ان دونوں شیروں کو تھپک تھپک رکھنا بڑا مشکل تھا، یہ کام اسی کو کرنا پڑتا تھا جو دونوں کے بیچ میں واوعطف کی طرح تھا اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں کو غصہ جلد آجاتا تھا، تاہم کام کی اہمیت کا خیال کرکے دونوں نے جس طرح بنا آٹھ مہینے کی مدت کی خیرخوبی کے ساتھ نباہا۔
وفد خلافت ستمبر ۱۹۲۰؁ء میں یورپ میں اپنا کام ختم کرکے امریکہ جانے کا خیال کررہا تھا کہ ہندوستان کے حالات نے اس کو ہندوستان لوٹنے پر مجبور کیا اور تنہا سیدحسین نے امریکہ جانے کا ارادہ کیا، چنانچہ ادھر وفد ہندوستان واپس ہوا اور ادھر سیدحسین نے امریکہ کی راہ لی، امریکہ پہنچ کر انہوں نے ہندوستان کی بڑی خدمت کی اور امریکہ میں اپنی تقریر و تحریر سے انگریزوں کے پروپیگنڈے کا جواب دیتے رہے اور ہندوستان کی بھلائی کا کام کرتے رہے، امریکہ سے ’’نوائے وطن‘‘ کے نام سے ایک اردو کا اخبار بھی نکالا اور اس سلسلہ میں ۱۹۲۰؁ء سے ۱۹۴۶؁ء تک گویا چوتھائی صدی امریکہ میں رہ کر اپنی زبان اور قلم سے ہندوستان کی خدمت میں مصروف رہے، اس دوران میں دس بارہ برس ہوئے چندماہ کے لئے ہندوستان آئے تھے، ہندوستانی یونیورسٹیوں میں ان کی خاص طور سے قدر کی تھی اور لاہور سے دکن تک اکثر یونیورسٹیوں کی دعوت پر انہوں نے تقریریں کیں، پھر وہ امریکہ واپس چلے گئے اور اخیر دفعہ وہ ۱۹۴۶؁ء میں ہندوستان واپس آئے، جب ہندوستان میں انگریز اپنی سیاست کا آخری تماشہ دکھا رہے تھے، میری ان کی ملاقات ایک چوتھائی صدی کے بعد ۱۶؍ نومبر ۱۹۴۶؁ء کو جامعہ ملیہ کو جوبلی میں دہلی میں ہوئی، بڑی گرم جوشی سے مصافحہ ہوا اور پچھلے گلے شکوے اور حکایات ہوئے، دوسری آخری ملاقات ۲۴؍ یا ۲۵؍ اگست ۱۹۴۷؁ء کو اسی دلی میں مولانا ابوالکلام صاحب کی کوٹھی میں ہوئی جس کے بعد وہ نومبر ۱۹۴۷؁ء میں ہندوستان کی طرف سے مصر کے سفیر ہوکر مصر روانہ ہوئے، کام کے لئے صرف ایک سال کی مہلت پائی، مگر سنا ہے کہ حکومت ہند نے ان کے کاموں کو پسند کیا۔
مرحوم نے اپنی عمر تجرد ہی کی حالت میں گزاری، اس لئے ان کی کوئی ظاہری یادگار نہیں اور اس سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انگلستان اور امریکہ میں گزارا، اس لئے ملک کو ان کی قابلیت سے براہ راست فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملا۔
مارا دیارِ غیر میں مجھ کو وطن سے دُور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم
مرحوم کے اعزہ بنگال اور کلکتہ میں موجود ہیں، ان کے دو عزیزوں کی شادیاں ہمارے گاؤں (دیسنہ ضلع پٹنہ) میں سادات کے گھرانے میں ہوئی ہیں۔
مرحوم کے ناتمام افسانۂ زندگی کی ان چند سطروں کے لکھنے کی حاجت نہ تھی۔ مگر میری ان کی آٹھ ماہ کی رفاقت کے حق نے لکھنے کا تقاضہ کیا تاکہ اس مسافرِ عدم کی یاد اہل وطن میں تازہ رہے۔
’’ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا ‘‘
(سید سلیمان ندوی،اپریل ۱۹۴۹ء)

تصحیحات: میرے ایک ہم وطن عزیز بشیرالحق صاحب بیدلؔ جو ان حالات سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں، مضمون مذکور کی غلطیوں کی تصحیح کرکے بھیجی ہے جو نذر ناظرین ہے:
اپریل کے معارف میں ’’سید حسین کی موت‘‘ کے عنوان سے جو نوٹ آپ نے دیا ہے، میرے خیال میں اس میں دو تین جگہ آپ سے تسامح ہوگیا ہے:
(۱) میرے علم میں نواب محمد آزاد کے مضامین الپنچ بانکی پور پٹنہ میں کبھی نہیں نکلے، ان کے مضامین مشیر قیصر لکھنؤ اور اودھ پنچ میں نکلتے تھے۔
(۲) آپ نے لکھا ہے کہ سید حسین اس وقت ۶۲ برس کے تھے، اور ۱۸۹۶؁ء میں پیدا ہوئے تھے اس حساب سے ان کی عمر صرف ۵۳ سال ہوتی ہے، معلوم ہوتا ہے کاتب کی غلطی سے ۱۸۸۶؁ء کی جگہ ۱۸۹۶؁ء چھپ گیا ہے اس حساب سے بھی ان کی عمر ۶۳ سال ہوتی ہے۔
(۳) سید حسین صاحب کے ایک ہی بھتیجے کی شادی دیسنہ میں ہوئی ہے، گزشتہ سال کے شروع میں جس لڑکے کی شادی دیسنہ میں ہوئی وہ سید حسین کے بڑے سوتیلے بھائی ڈپٹی اشرف صاحب مرحوم کا نواسہ ہے۔
(سید سلیمان ندوی،جون ۱۹۴۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...