Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناشبیر احمد عثمانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناشبیر احمد عثمانی
ARI Id

1676046599977_54337973

Access

Open/Free Access

Pages

175

علامہ شبیر احمد عثمانی
افسوس کہ آج قلم کو اس ہستی کا ماتم کرنا پڑ رہا ہے جو ساری عمر قوم و ملت کی غم گسار رہی، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کی وفات کا سانحہ نہ صرف پاکستان بلکہ علمی و مذہبی دنیا کا بڑا حادثہ ہے، و ہ اس دور کے جلیل القدر عالم، متبحر فاضل، نامور خطیب اور صاحبِ بصیرت مدبر تھے، دینی علوم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا، ان کی ساری عمر ان کی خدمت میں گذری، برسوں دارالعلوم دیوبند میں ان کا علمی فیض جاری رہا۔ پھر ڈابھیل (سورت) کی مشہور دینی درسگاہ میں چلے گئے اور وہاں کئی سال تک ان کے درس و افاضہ کا سلسلہ قائم رہا۔ قرآن مجید پر ان کا اردو حاشیہ موضح الفرقان اور صحیح مسلم کی ضخیم عربی شرح فتح الملہم ان کا بڑا علمی و دینی کارنامہ ہے، اس کے علاوہ چند چھوٹی چھوٹی تصانیف بھی ان کی یادگارہیں۔
ملکی اور قومی کاموں میں بھی ان کا حصہ رہا ہے، وہ عرصہ تک جمعیۃ العلماء کے شریک کار رہے، پھر پاکستان کی تحریک کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے، اور جمعیۃ علمائے اسلام کے صدر منتخب ہوئے اور پاکستان کی تبلیغ و اشاعت میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا، اس کے چند ممتاز بانیوں میں سے ایک وہ بھی تھے، قیام پاکستان کے بعد کراچی چلے گئے، اور اس کی دستور ساز اسمبلی کے رکن مقرر ہوئے، پاکستان میں ان کی حیثیت مذہبی مشیر کی تھی، اور حکومت کے ارکان پر ان کے علم و عمل، تقویٰ و دیانت، فہم و فراست، اخلاق و سیرت اور استغنا و بے نیازی کا بڑا اثر تھا، اور ان کی ذات سے پاکستان کی مذہبی اصلاح کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں، لیکن افسوس موت نے اس کا موقع نہ دیا، اور گذشتہ ۱۳؍ دسمبر کو بغداد الجدید ریاست بھاولپور میں علم و عمل کی یہ شمع دفعتہ خاموش ہوگئی، اس حادثہ سے علمی و مذہبی دنیا ایک جلیل القدر عالم سے محروم ہوگئی، اﷲ تعالیٰ اس خادم دین و ملت کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے۔ (شاہ معین الدین ندوی،جنوری ۱۹۵۰ء)

مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ
دسمبر ۱۹۴۹؁ء کے وسط میں جدہ میں تھا، ۱۳؍ دسمبر کی شام کو مغرب کے بعد حکومت سعودیہ کی وزارت خارجیہ جدہ میں ایک ہندوستانی مسافر کی دعوت تھی، شہر کے کچھ معززین، اسلامی حکومتوں کے سفیر اس میں شریک تھے، ہندوستان پاکستان، مصر و عراق وغیرہ کے سفیر اور وزارت خارجہ سعودیہ کے بعض ارکان موجود تھے میں ہندوستانی کونسل کے نمائندوں پروفیسر عبدالمجید خان انڈین کونسل اور مولانا عبدالمجید الحریری کمشنر حج متعین جدہ کے ساتھ وہاں پہنچا، احباب کچھ آچکے تھے کچھ آرہے تھے، مختلف موضوعوں پر گفتگو تھی، خصوصیت سے کراچی میں اسلامی ملکوں کی جو اقتصادی کانفرنس ہورہی تھی اس میں حجاز کی طرف سے حجاز کی اقتصادی حالت کی جو مطبوعہ رپورٹ اس وقت سامنے رکھی تھی اس پر گفتگو ہورہی تھی کہ اتنے میں جدہ میں پاکستانی کونسل مسعود صاحب جو مولانا ابوالبرکات عبدالروف صاحب وانا پوری کے صاحبزادہ ہیں، تشریف لائے اور نہایت افسوس کی ساتھ یہ ذکر کیا کہ آج مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کا انتقال ہوگیا، اس خبر کے سننے کے ساتھ مجلس پر اداسی چھا گئی، میرے سامنے سے پوری نصف صدی کی معاصرانہ مسابقتوں کی ایک دنیا گزرگئی۔
۱۹۰۲؁ء کی بات ہے وہ دارالعلوم دیوبند میں اور راقم دارالعلوم ندوہ میں تعلیم پارہے تھے، یہ زمانہ دونوں درسگاہوں کا زریں زمانہ تھا، دارالعلوم ندوہ میں میرے ساتھ میرے ایک عزیز قریب و ہم وطن (مولوی سید محمد قاسم صاحب خلف الرشید مولانا شاہ تجمل حسین صاحب خلیفہ شاہ فضل رحمان صاحب گنج مراد آبادی، و حضرت مولانا شاہ امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی، (رحمہم اﷲ تعالیٰ) رفیق درس تھے، وہ اپنے والد کے حکم سے ندوہ چھوڑ کر دیوبند چلے گئے تھے، اُن کو طالب علموں کی انجمن سازی اور دفتری داری کا بڑا اچھا سلیقہ تھا، چنانچہ دیوبند پہنچ کر انہوں نے اس سلیقہ کا ثبوت دیا، اور دیوبند میں طالب علموں کی تقریر و تحریر کی ایک انجمن کی بنیاد ڈالی، مولانا شبیر احمد صاحب جو ان دنوں اُنہی کی عمر کے طالب علم تھے، اور تقریر و تحریر کا فطری ذوق رکھتے تھے، ان جلسوں میں دلچسپی لیتے تھے، اور اسی مناسبت سے مولوی قاسم سے بھی ان کو محبت تھی، مولوی قاسم نے ندوہ و دیوبند کو ملانا چاہا۔ وہ میرے خطوں میں مجھ سے مولانا شبیر احمد صاحب کا تذکرہ کرتے تھے اور سلام پہنچاتے تھے، اور میرا تذکرہ ان سے کرتے تھے، اور میری طرف سے ان کو سلام پہنچاتے تھے، اس تعلق کا یہ اثر ہوا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے آشنا اور ایک دوسرے سے واقف ہوگئے، یہ وہ زمانہ تھا جب دیوبند سے القاسم اور ندوہ سے الندوہ نکل رہا تھا، اور ہم دونوں کے مضامین اپنے اپنے پرچہ میں نکلتے تھے، اور چھپتے تھے، اسی زمانہ میں مرحوم کسی تعلق سے لکھنؤ آئے، تو مدرسہ میں مجھ سے ملنے آئے، یہ میری اُن کی طالب علمانہ ملاقات کا پہلا موقع تھا یہ غالباً ۱۹۰۴؁ء کی بات ہے۔
۱۹۰۶؁ء میں میری دستار بندی ہوئی، اور دستار بندی کے جلسہ میں برجستہ عربی تقریر کی وجہ سے عربی مدرسوں میں ایک خاص شہرت حاصل ہوئی، اور اسی زمانہ میں مولانا کو بھی فراغت حاصل ہوئی وہ دارالعلوم دیوبند میں اور میں دارالعلوم ندوہ میں مدرس ہوگئے، اسی کے سال دو سال کے بعد کسی انجمن کی دعوت پر پنجاب جانے کا اتفاق ہوا، تو راہ میں سہارنپور اُترکر دیوبند چلا گیا، یہ میری حاضری کا پہلا اتفاق تھا، ان دونوں دارالعلوم دیوبند میں میرے عزیز دوست ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب (خلف مولانا سید حکیم عبدالحی صاحب ناظم ندوہ) ندوہ کی تعلیم سے فارغ ہو کر دیوبند میں حدیث کے دورہ میں شریک تھے، میں نے اس کا اہتمام کیا کہ مجھے کوئی پہچانے نہیں منہ چادر میں لپیٹے تھا، مدرسہ پہنچ کر سید عبدالعلی صاحب کو پوچھ کر ان کے کمرہ میں گیا، وہ مجھے یک بیک دیکھ کر زبان سے کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ میں نے اشارہ سے ان کو منع کیا اور وہ رُک گئے، اور ساتھ لے کر مدرسہ اور درس کے کمرے دکھانے لگے، اور آخر میں اوپر چھت پر دارالشوریٰ اور دارالاہتمام دکھانے لے گئے، اتفاق دیکھئے کہ ایک طالب علم جو پہلے ندوہ میں پڑھتے تھے، اور اب دیوبند میں زیر تعلیم تھے، وہ دارالاہتمام سے نکل رہے تھے، وہ مجھے دیکھنے کے ساتھ دوڑ کر مولانا حبیب الرحمان صاحب نائب مہتمم کی خدمت میں چلے گئے، اور میرا نام بتادیا، موصوف نے جو ہمہ تن متواضع اور خاکسار تھے، ایک معمولی طالب علم کے لیے یہ زحمت فرمائی کہ تشریف لائے اور اپنے ساتھ اندر کمرہ میں لے گئے، اور چائے کی دعوت فرمائی جس میں اکثر حضرات مدرسین شریک تھے، دوسرے وقت حضرت مولانا حافظ احمد صاحب مہتمم مدرسہ نے اپنے فضیلت کدہ پر کھانے کی دعوت فرمائی۔
ایک طالب علم کے لیے سب سے بڑی دعوت طالب علموں کے جلسہ کی ہوسکتی تھی، چنانچہ مولانا حبیب الرحمن صاحب نے جلسہ کا اہتمام فرمایا، یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ صدر مدرس تھے مگر اس خدمت سے علیحدگی کا خیال کررہے تھے، اور حضرت مولانا انور شاہ صاحب اور حضرت مولانا حسین احمد صاحب تازہ تازہ حجاز سے ہندوستان وارد ہوئے تھے، جلسہ آراستہ ہوا، طالب علموں نے تقریریں کیں، آخر میں مولانا انور شاہ صاحب اور مولانا حسین احمد صاحب نے عربی میں تقریریں کیں، اور پھر اس کم سواد کو عربی میں تقریر کا حکم ہوا، اور اُس نے تعمیل کی۔
اس زمانہ میں آریوں کی تحریک سے شدھی کا زور تھا، اور عربی مدرسوں میں آریوں سے مناظرہ کی تعلیم دی جاتی تھی، چنانچہ جلسہ کے بعد طالب علموں نے آریہ اور مسلمانوں کے مناظرہ کا مظاہرہ کیا، طالب علموں کے دو گروہ بنے، ایک، ایک مسئلہ کا حامی تھا، دوسرا اس پر معترض، باہم سوال و جواب اور ردو قدح کا سلسلہ قائم تھا کہ ایک فریق کمزور سا پڑگیا، مولانا شبیر احمد صاحب جو مدرسین کے ساتھ میرے قریب بیٹھے تھے، مولانا حبیب الرحمن صاحب سے اجازت لے کر مدرسین کی صف سے نکل کر طالب علموں میں مل گئے، اور اس کمزور فریق کی حمایت میں فرمانے لگے، اور آخر اپنی تقریر کی قوت اور استدلال کے زور سے ہارا ہوا میدان جیت لیا، اور سب نے ان کی ذہانت اور طباعی کی داد دی، میں نے حضرت شیخ الہندؒ کی تمام عمر میں ایک دفعہ زیارت کی، اور وہ اسی موقع پر نہایت سادگی اور خاموشی کے ساتھ ایک کمرہ میں جس میں کھری چارپائی اور ایک چٹائی اور ایک مٹی کا لوٹا تھا، تشریف فرماتھے۔
اس واقعہ پر سالہا سال گزر گئے، مولانا شبیر احمد صاحب دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے، اور سال بہ سال ادنی سے اعلیٰ کتابوں کا درس دیتے ہوئے کتبِ حدیث کا درس دینے لگے، کچھ دنوں کے بعد مدرسہ فتح پوری دہلی میں صدر مدرس ہوگئے، اسی زمانہ میں میرا بھی دلی جانا ہوا، تو مدرسہ میں اُن سے ملاقات ہوئی، مگر پھر دارالعلوم دیوبند لوٹ آئے، اسی زمانہ میں مولانا عبیداﷲ سندھی حضرت مولانا شیخ الہندؒ کی طلب پر دیوبند آکر مقیم ہوئے تھے، ان کا مشن یہ تھا کہ دیوبند پر جو تعلیمی فضا محیط ہوگئی تھی، اور سید احمد شہید اور مولانا اسمعٰیل شہید کی مجاہدانہ روح جو اس حلقہ سے دبتی چلی جارہی تھی، اس کو دوبارہ زندہ کیا جائے، اور اس سلسلہ میں موتمر الانصار کی بنیاد پڑی، اور اس کا ۱۹۱۱؁ء یا اس کے پس و پیش زمانہ میں مراد آباد میں بہت بڑا جلسہ ہوا، جس میں علی گڑھ اور ندوہ اور دیوبند کے اکثر رجالِ علم و عمل جمع ہوئے، اور تمام ہندوستان سے مسلمانوں کا بہت بڑا مجمع اس میں شریک تھا، ندوہ سے حضرت الاستاذ مولانا شبلی مرحوم شریک ہوئے تھے، اس جلسہ میں مولانا شبیر احمد صاحب نے العقل و النقل کے نام سے اپنا ایک کلامی مضمون پڑھ کر سُنایا، حاضرین نے بڑی داد دی، اس مضمون میں گو جدید معلومات حضرۃ الاستاذ کی تصنیف سے لئے گئے تھے، مگر اس کا نتیجہ اس کے برعکس نکالا گیا تھا، یہ گویا حامیانِ عقل کے اس علم کلام کا رد تھا، جس میں خرق عادت کے وجود اور معجزات کے صدور پرناک بھوں چڑھائی جاتی تھی، حضرت الاستاذ نے واپس آکر مجھ سے فرمایا تھا، کہ انھوں نے معلومات میری کتاب سے لی اور پھر میرا ہی رد کیا۔
دیوبند کے حلقہ میں اس زمانہ میں یہ بات برملا کہی جاتی تھی کہ مولوی شبیر احمد صاحب کو حضرت مولانا قاسم صاحب کے علوم و معارف پر پورا احتوا ہے، وہ حضرت مولانا کے مضامین و معانی کو لے کر اپنی زبان اور اپنی طرز ادا میں اس طرح ادا کرتے تھے کہ وہ دلنشین ہوجاتے تھے، یہ خیال رہے کہ مولانا قاسم صاحبؒ کے مضامین نہایت غامض، دقیق اور مشکل ہوتے تھے، جن تک عوام کی پہنچ نہیں ہوسکتی تھی، اس لئے اُن کے مضامین اور حقائق کو سمجھنا، پھر زمانہ کی زبان میں اس کی تعبیر و تفہیم کوئی آسان بات نہ تھی، اور اسی لیے مولانا شبیر احمد کی تقریر و تحریر کی تعریف کی جاتی تھی۔
۱۹۱۲؁ء سے ۱۹۲۰؁ء تک مسلمانوں کی سیاست کروٹ لے رہی تھی، یکے بادیگرے طرابلس، پھر کانپور کی مسجد، پھر بلقان کی جنگ، پھر یورپ کی پہلی جنگ عظیم کے واقعات پیش آئے، اور ہندو مسلمانوں کے میل ملاپ کی سیاسی تحریک بڑھتی اور پھیلتی گئی۔
یہاں پر ایک بات مجھے بے محاباکہنا ہے یہ وہ وقت تھا کہ جب مولانا ابوالکلام کا الہلال نکل رہا تھا، اور ان کی آتش بیانی سے مسلمانوں میں آگ سی لگی ہوئی تھی، اور وہ جہاد جس کے نام لینے سے لوگ ڈرنے لگے تھے، مولانا ابوالکلام نے اس کا صور اس بلند آہنگی اور بیباکی سے پھونکا کہ یہ بھولا ہوا سبق لوگوں کی زبانوں پر آگیا، الہلال دیوبند کے حلقہ میں بھی آتا تھا، اور حضرت مولانا محمود حسن کی مجلس میں پڑھا جاتا تھا، میں نے اس زمانہ میں حضرت مولانا محمود حسن صاحب کا یہ فقرہ سنا تھا کہ ہم نے جہاد کا سبق بھلادیا تھا، اور ابوالکلام نے ہم کو پھر یاد دلادیا۔
اس زمانہ میں مولانا عبیداﷲ صاحب سندھی حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ کے ترجمان تھے، مگر یہ حالت دیر تک قائم نہ رہی، اس حلقہ کی ایک جماعت پر مدرسہ کے مصالح مقدم تھے، اور دوسرے پر اسلام کے مصالح، مولانا محمود حسن صاحب دل سے دوسری جماعت میں شریک تھے، میں نے سُنا کہ انھوں نے ایک دفعہ فرمایا کہ ہمارے بزرگوں نے تو مدرسہ اپنے اصلی مقصد (جہاد) پر پردہ ڈالنے کے لیے بنایا تھا، بہرحال مولانا عبیداﷲ سندھی کو دیوبند سے ہٹنا پڑا، اور دہلی میں مسجد فتح پوری کے ایک گوشہ میں دائرۃ المعارف کی بنیاد ڈالی، اور اس میں انگریزی خواں تعلیم یافتوں اور عربی کے فارغ التحصیل عالموں کو قرآن پاک کا درس اس جہادی اسپرٹ میں دینے لگے، جو سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی زندگی کی روح تھی، اور مجاہدین سرحد (یاغستان و چمرقند) سے حلقۂ اتصال قائم کیا گیا، اس وقت یورپ کی جنگ کے شعلے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے، اور ہندوستان میں بغاوت کا خیال روز افزوں تھا، انگریزی حکومت کی جاسوسی اپنا کام کررہی تھی، مولانا ابوالکلام، محمد علی، شوکت علی، حسرت موہانی وغیرہ احرارسب نظر بند تھے، یاجیل میں تھے، حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ نے ہندوستان سے ہجرت کی، اور وہ حجاز میں قید ہو کر مالٹا میں نظربند ہوئے، اور مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا سیف الرحمن اور مولانا عبداﷲ انصاری چھپ کر افغانستان چلے گئے، جو لوگ اب باقی رہ گئے تھے، ان میں بڑے لوگ حکیم اجمل خان مرحوم، ڈاکٹر انصاری مرحوم اور مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی تھے، ان لوگوں نے قوم کی باگ اپنے ہاتھ میں لی اور پہلے مجلس خلافت اور پھر جمعیۃ العلماء کی بنیاد ڈالی، اس وقت تک مولانا حسنؒ مالٹے میں تھے، ۱۹۲۰؁ء میں جو وفد خلافت لندن گیا تھا اس کا ایک ممبر یہ راقم الحروف بھی تھا، غالباً مارچ یا اپریل میں جب مسٹر فشر وزیر تعلیم قائم مقام وزیر ہندسے ملاقات ہوئی، تو میں نے حضرت شیخ الہندؒ کی اسیری و نظربندی کے معاملہ کو ان کے سامنے پیش کیا، یاد آتا ہے کہ موصوف اسی سال کے اخیر لیا ۱۹۲۱؁ء کے شروع میں مالٹا سے چھوٹ کر مع خدام کے جن میں حضرت مولانا حسین احمد صاحب بھی تھے، واپس آئے مگر شاید چند ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہے،اور وفات پائی، اس درمیان میں عقیدتمندوں نے ہر سمت سے ان کو بلایا، مگر خود تشریف نہ لے جاسکے، اپنے قائم مقام یا ترجمان کی حیثیت سے مولانا شبیر احمد صاحب ہی کو بھیجا، ان مقامات میں سے خاص طور سے دہلی کے جلسہ میں ان کی نیابت نہایت یادگار اور مشہور ہے گائے کی قربانی ترک کرنے کے مسئلہ میں بھی جس کو حکیم اجمل خان مرحوم نے اٹھایا تھا، حضرت مولانا شیخ الہند کی طرف سے مولانا شبیر احمد صاحب نے نہایت و اشگاف تقریر فرمائی تھی، یہ ترجمانی اور نیابت مولانا شبیر احمد صاحب کے لئے نہ صرف فخر و شرف کا باعث بلکہ ان کی سعادت اور ارجمندی کی بڑی دلیل ہے۔
۱۹۲۳؁ء کے آخر میں گیا میں کانگریس اور جمعیۃ العلماء کے شاندار اجلاس ہوئے، جمعیۃ کے اعلیٰ اجلاس کے صدر مولانا حبیب الرحمان صاحب تھے، ان کے ساتھ حلقۂ دیوبند کے اکثر اساتذہ آئے ہوئے تھے، ان میں مولانا شبیر احمد صاحب بھی تھے کانگریس اور جمعیۃ کے یہ اجلاس ایک خاص حیثیت سے اہمیت رکھتے ہیں یعنی اس اجلاس میں کانگریس کی سیاست میں ایک اہم تبدیلی ہوئی اور پنڈت موتی لال، سی آر داس، حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری وغیرہ کی رہنمائی، میں ترک موالات کی جگہ جس میں کونسلوں اور اسمبلیوں کا بائیکاٹ بھی تھا، یہ تجویز سامنے رکھی گئی کہ ان کونسلوں اور اسمبلیوں پر قبضہ کرکے حکومت کو بے دست و پا کردیا جائے، گویا مقصد یہ تھا کہ مقصود کے حصول کے لیے طریق جنگ اور لڑائی کے ڈھنگ کو بدلا جائے، اس تحریک کے حامیوں نے سوراج پارٹی، اپنا نام رکھا، اس وقت گاندھی جی، ابوالکلام، محمد علی وغیرہ جیل میں تھے، ان کے خالص پیرووں نے اس کی سخت مخالفت کی اور نوچنجر (نہ بدلنے والے) کا لقب پایا کانگریس کی طرح جمعیۃ میں بھی حکیم صاحب نے اس تجویز کو پیش کیا، اور اس کے فیصلہ کے لیے ارکان جمعیۃ کا خاص جلسہ ہوا، تجویز کے حامیوں کی طرف سے خاکسار نے اور مخالفوں کی طرف سے مولانا شبیر احمد صاحب نے تقریریں کیں، مولانا شبیر احمد صاحب کی اس تقریر کا صرف ایک حصہ مجھے یاد ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ حضور انور علیہ الصلوۃ والسلام خانہ کعبہ کی فتح کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتے تھے، مگر چونکہ قریش نومسلم تھے ان کو یہ بات کعبہ کی حرمت اور ادب کے خلاف نظر آئی، اس لیے حضورؐ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا سے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہاری قوم تازہ مسلمان نہ ہوتی، تو میں کعبہ کو ڈھاکر پھر اس کی بنیاد ابراہیمی اساس رکھتا، یہ واقعہ بیان کرکے مولانا نے فرمایا کہ ترک موالات کے بدولت ابھی ہماری قوم انگریزوں کی غلامی سے نئی نئی نکلی ہے، یہ کونسل اور اسمبلی کے چکر میں پڑکر پھر نہ غلام بن جائے، بہرحال ووٹ لئے گئے، اور مولانا کی مخالفت کامیاب ہوئی۔
مولانا حسین احمد صاحب کا نام اس وقت تک خواص سے نکل کر عوام تک نہیں پہنچا تھا، وہ اس تمام ہنگامہ کے وقت حضرت شیخ الہند کے ساتھ مالٹے میں تھے، ساتھ ہی ۱۹۲۱؁ء میں ہندوستان واپس آئے، اور سب سے پہلی دفعہ ہندوستان کی سیاست میں کراچی خلافت کانفرنس میں مقرر کی حیثیت سے نمودار ہوئے اور اس مشہور انقلابی تجویز کے مؤیدین میں تھے، جس میں مسلمان فوجیوں سے فوج کی ملازمت ترک کرنے کی تحریک تھی، اس کے محرک محمد علی اور مؤید مولانا حسین احمد، پیر غلام مجدد اور سیف الدین کچلو وغیرہ تھے، آخر سب پر مقدمے چلائے گئے، اور سب کو چند سال کی قید کی سزا ہوئی،
؂ بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد
اس قید سے آزادی کے بعد حضرت مولانا حسین احمد صاحب بیش از بیش تحریکات میں حصہ لینے لگے اور آخر خلق کی زبان نے ان کو شیخ الہند کا جانشین مان لیا، اور اب حضرت شیخ الہند کے مسلک کی ترجمانی اور اُن کی جماعت کی نمائندگی مولانا موصوف فرمانے لگے، تاہم خلافت اور جمعیۃ کے جلسوں میں مولانا شبیر صاحب بھی آتے جاتے رہتے تھے، لیکن یہ آمدورفت بھی کم ہوتی رہی۔
۱۹۲۶؁ء میں جب سلطان ابن سعود نے مکہ معظمہ میں عالمگیر اسلامی کانفرنس بلائی، اور ہندوستان کی مختلف مجلسوں کی طرف سے وفد بھیجے گئے، تو خلافت کے وفد کی صدارت حکیم صاحب اور احرار پنجاب کے اصرار سے اس خاکسار کے حصہ میں آئی، اور اس کے ممبر محمد علی، شوکت علی، شعیب قریشی ہوئے، اور جمعیۃ العلماء کے وفد کے صدر مولانا کفایت اﷲ صاحب، اور ممبر حافظ احمد سید صاحب، مولانا شبیر احمد صاحب مولانا عبدالحلیم صدیقی صاحب اور مولانا عرفان صاحب مرحوم تھے، یہ کل وفد ایک ہی جہاز پر حجاز کو روانہ ہوا، اور اس طرح اس سفر میں مرحوم کو بہت پاس سے دیکھنے کا موقع ملا طبیعت میں بڑی نزاکت تھی، اور بات بات میں وہ چیز ظاہر ہوتی تھی، اس لیے رفقائے سفر ان کی بڑی رعایت کرتے تھے ایک یمنی طالب علم جو دیوبند میں ان کے شاگرد تھے، ان کی خدمت کرتے تھے، اور یہ خدمت پورے سفرحجاز میں انہوں نے کی، جدہ سے مکہ معظمہ تک ہم سب ایک لاری میں آئے، جب مکہ معظمہ قریب آیا تو مرحوم پر عجب کیفیت تھی، انہوں نے قران کا احرام باندھا تھا اور ہم سب تمتع کے احرام میں تھے، جیسے جیسے مکہ معظمہ قریب آتا جاتا تھا، ان پر گریہ کا غلبہ ہوتا جاتا تھا، اور پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے، یہ ان کا دوسرا حج تھا، مکہ میں موتمر کے جلسے ایک ماہ کے قریب ہوتے رہے، ان میں ہم لوگ شریک ہوتے رہے اور اکثر مولانا شبیر احمد صاحب بھی شریک ہوتے تھے، اسی سفر میں مجھے علم ہوا کہ موصوف عربی تحریر و تقریر پر اچھی طرح قادر تھے، سلطان نے خلاف اور جمعیۃ کے دونوں وفدوں کو ایک ساتھ ملنے کو بلایا، اور مختلف موضوعوں پر گفتگو کی، مولانا شبیر احمد صاحب نے اس موقع پر خلافت توقع اپنے اکابر دیوبند کے عقائد اور فقہی مسلک پر اچھی اور شستہ گفتگو کی، اور سلطان اس کو دیر تک سنتے رہے۔
موتمر کی کاروائیوں میں تو مولانا نے کوئی خاص حصہ نہیں لیا، مگر موتمر کے آخری اجلاس میں ایک مضمون انہوں نے پڑھ کر سنایا، جس کو پہلے سے وہ لکھ لائے تھے، مگر اپنے رفقاء کو وہ پہلے سے نہیں دکھایا تھا، میں اس آخری جلسہ میں شریک نہ تھا، مگر وفد جمعیتہ کے ارکان کو مولانا کے اس تنہا بیان سے بڑی حیرانی تھی، بہرحال بات چپ چپ ختم ہوگئی۔
حج کے مناسک میں بھی ان کی رفاقت رہی، یہ زمانہ گرمی کا تھا، بادسموم کے جھونکے چل رہے تھے، ظہر کے وقت ذوق و شوق میں مسجد نمرہ میں نماز پڑھنے کی آرزو تھی، مگر آفتاب کی حدت اور دھوپ کی تمازت دیکھ کر ہمت نہیں پڑتی تھی، مگر مولانا کفایت اﷲ صاحب اور حافظ احمد سعید نے اونٹوں کا سامان کرلیا تھا، آخر مولانا کفایت اﷲ صاحب کے ساتھ اونٹ پر ان کا ردیف بن کر چلا، مجھے ہر قدم پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب گرا، اور تب گرا، اسی خوف سے واپسی میں پیدل آیا، اسی موسم کی شدت میں مولانا شبیر احمد صاحب پیدل ہی روانہ ہوئے، مسجد کے قریب ہی پہنچے تھے کہ بادسموم کے ایک جھونکے نے ان کو آلیا، مگر بال بال بچ گئے۔
اس نماز میں آنے کا شوق اس خیال سے بھی تھا کہ سلطان امامت کریں گے، اور ایک سلطان وقت کے پیچھے ہم ہندوستان کے غلام نماز پڑھیں گے، مگر مسجد میں جماعت تیار تھی، سلطان کا انتظار رہا، وہ نہیں آئے، تو ایک مصری شیخ نے نماز پڑھائی نماز ختم ہوئی تو دیکھا کہ سلطان اپنے نجدی ہمراہیوں کے ساتھ ننگے سر اور ننگے پاؤں لمبے لمبے قدم رکھتے ہوئے آرہے ہیں، بعد کو جب سلطان سے ملاقات ہوئی تو میں نے حاجیوں کی طرف سے شکایت پیش کی کہ نماز میں آپ کا بڑا انتظار رہا۔ سلطان نے کہا ہمارے نجدی بھائی آپ جانتے ہیں کہ چھتری نہیں لگاتے، اس لیے میں نے چاہا کہ ذرا آفتاب ڈھل جائے، توچلوں، مگر میرے پہنچنے سے پہلے ہی نماز ہوگئی، پھر کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں بچپن ہی سے بے گھر ہوگیا، تعلیم جیسی چاہیے نہیں ہوئی، بدوی ہوں، قرات نہیں جانتا، بدآواز بھی ہوں، اس لیے نماز پڑھانے سے گریز کرتا ہوں، میں نے مذاقاً کہا کہ سال میں ایک دفعہ لوگ آسانی سے اس آواز کو گوارا کرسکتے ہیں، مولانا شبیر احمد صاحب نے فرمایا کہ ہم ہندوستان کے مسلمان تو مشتاق رہتے ہیں کہ کسی بادشاہ یا امیر کے پیچھے نماز پڑھیں، امیر افغانستان جب ہندوستان آئے تھے، تو مسلمان سیکڑوں کوس سے اُن کے پیچھے نماز پڑھنے آئے تھے۔
مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک سفر میں بھی رفاقت رہی، میں گو محمد علی و شوکت صاحب وغیرہ کے ساتھ تھا، مگر ہم جنسی اور ہم مذاقی کے سبب سے اکثر جمعیتہ والوں کے یہاں آکر بیٹھا کرتا تھا، اونٹوں کا سفر تھا، بارہ روز میں منزلیں تمام ہوئیں، ہر روز ایک نئی منزل میں قیام تھا۔
ہر روز مرا نیا مقام
صبح کہیں، کہیں ہے شام
عشق کی منزلیں تمام
راہِ دور و دراز میں
میں مرحوم کی خدمت میں بیٹھتا، اور طرح طرح کی باتیں ہوتیں ایک منزل میں مرحوم نے غدر دہلی کے زمانہ میں حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب رحمہ اﷲ تعالیٰ اور ان کے رفقائے جہاد، مولانا محمد قاسم صاحب، مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی، اور حافظ ضامن علی صاحب شہید کے واقعات اور تھانہ بھون اور شاملی پر تاخت اور مجاہدین کا حملہ اور حافظ صاحب کی شہادت کے واقعات کو اس پر اثر طریقہ سے بیان فرمایا کہ روح نے لذت پائی۔
واپسی میں مولانا جہاز پر بہت علیل ہوگئے تھے، حالت بہت نازک معلوم ہوتی تھی، دوسرے درجہ میں ان کا سفر تھا، جو جہاز کے پچھلے حصہ میں تھا، وہاں بڑی تکلیف جہاز کے بعض آلات کا دھڑ دھڑ کر کے نیچے گرنا تھا، اسی حالت میں ہندوستان پہنچے، بالآخر اُن کو صحت ہوگئی۔
اُن کی آنکھیں کمزور تھیں، ایک دفعہ تو تکلیف بہت بڑھ گئی تھی، موگا (پنجاب) کے ڈاکٹر آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر تھے، ان سے علاج کرایا تو درست ہوگئی تھیں۔
مرحوم اب تک دارالعلوم دیوبند میں مدرس تھے، دارالعلوم دیوبند کے اکابرین میں حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کی وفات کے بعد سے کچھ انتشار سا تھا، جو رفتہ رفتہ بڑھتا جاتا تھا، ایک طرف مولانا حبیب الرحمن صاحب اور مولانا حافظ احمد صاحب اور کچھ مدرسین تھے، دوسری طرف مولانا انور شاہ صاحب، مفتی عزیزالرحمن، مولانا سراج احمد صاحب، مولانا شبیر احمد صاحب اور بعض نوجوان مولوی عتیق الرحمن صاحب وغیرہ تھے، آخر دوسرا گروہ دیوبند کو چھوڑ کر گجرات میں ڈابھیل ضلع سورت میں منتقل ہوگیا، جہاں پہلے سے ایک معمولی سا مدرسہ قائم تھا، مگر عمارت اچھی خاصی تھی، مولانا انور شاہ صاحب اور مولانا شبیر احمد اور مولانا سراج احمد صاحب وغیرہ نے یہاں دوسرا دیوبند قائم کیا، بہت سے سرحدی اور ولایتی اور بنگالی، اور ہندوستانی طالب علم بھی اُن کے ساتھ آئے، اور چند سال تک زور و شور سے ان صاحبوں کا درس وہاں جاری رہا۔
اسی زمانہ میں خاکسار کو کسی جلسہ کے سلسلہ میں راندھیر ضلع سورت جانے کا اتفاق ہوا، ڈابھیل قریب ہے، مولانا شبیر احمد صاحب کو معلوم ہوا تو ایک حیدرآبادی طالب علم کو خط دیکر بھیجا، میں نے آنے کا وعدہ کیا، اور دوسرے روز ڈابھیل گیا، مدرسہ کو دیکھا، حضرات مدرسین سے ملاقات ہوئی، طلبہ سے ملا، طلبہ نے میرے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا، جس میں تقریریں ہوئیں، رات کو قصبہ میں جلسہ کا انتظام ہوا، جس میں مختصر تقریر کی، اس کے بعد خود مولانا نے تقریر فرمائی، جس میں میری حقیر ذات کی نسبت ایک فقرہ استعمال کیا تھا، جو درحقیقت میری حقیقت ہے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ مجھے اُن سے بہت اُنس ہے، اس لیے کہ یہ علماء اور تعلیم یافتوں کے درمیان ایک سفیر و متوسط کی حیثیت رکھتے ہیں، پھر میری کتاب ارض القرآن کی تعریف فرمائی۔
اُن کے گجرات کے قیام کے زمانہ میں اُن کی آمدورفت حیدرآباد دکن کی طرف بہت بڑھ گئی تھی، شرح صحیح مسلم کی امدادی تحریک جاری تھی، اور کبھی کبھی میرا بھی جانا ہوجاتا تھا، ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک میلاد کی مجلس میں میرا ان کا ساتھ ہوگیا، اسی جلسہ میں خود حضور نظام بھی آنے والے تھے، میری تقریر ہورہی تھی کہ وہ آگئے، میرے بعد مولانا شبیر احمد صاحب نے تقریر شروع کی، حضور نظام نے بڑی داد دی، اور اہل محفل محظوظ ہوئے، لوگوں میں باہمی ترجیح کی اچھی خاصی ردوکد شروع ہوگئی، مگر الحمداﷲ دونوں مقروں کے دل باہم صاف رہے اور زبانیں محفوظ۔
مولانا شبیر احمد صاحب بڑے خطیب و مقرر تھے، عالمانہ استدلال کے ساتھ بڑے دلچسپ قصے اور لطیفے بھی بیان کرتے تھے، جس سے اہل محفل کو بڑی دلچسپی ہوتی تھی، اور ظریفانہ فقرے اس طرح ادا کرتے تھے کہ خود نہیں ہنستے تھے، مگر دوسروں کو ہنسا دیتے تھے، ان کی تقریروں میں کافی دلائل بھی ہوتے تھے، اور سیاسی اور علمی اور تبلیغی اور واعظانہ ہر قسم کے بیان پر ان کو قدرت حاصل تھی، ذہانت و طباعی، اور بدیہہ گوئی ان کی تقریروں سے نمایاں ہوتی تھی، اکبر کے ظریفانہ اور فلسفیانہ شعر ان کو بہت یاد تھے، وہ ان کو اپنی تقریروں میں عمدگی سے کھپاتے تھے۔
ان کی تحریر بھی صاف شستہ تھی، اور اس عصر کے اچھے لکھنے والوں کے لڑیچر کو غور سے پڑھا تھا، اور اس سے فائدہ اٹھایا تھا، جمعیتہ و خلافت کے جلسوں میں علماء کی بعض تجویزوں کی انگریزی بنانے میں بڑی دقت ہوتی تھی، اس موقع پر محمد علی مرحوم نے کہا تھا کہ مولوی شبیر احمد صاحب کی عبارت کی انگریزی بنانے میں بڑی آسانی ہوتی ہے، کیونکہ اس کی ساخت انگریزی طرز پر ہوتی ہے۔
موصوف کے مضامین اور چھوٹے رسائل تو متعدد ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے تصنیفی اور علمی کمال کا نمونہ اردو میں ان کے قرآنی حواشی ہیں، جو حضرت شیخ الہند رحمہ اﷲ تعالیٰ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ چھپے ہیں، ان حواشی سے مرحوم کی قرآن فہمی، اور تفسیروں پر عبور اور عوام کے دلنشین کرنے کے لیے ان کی قوتِ تفہیم حدِ بیان سے بالا ہے، مجھے امید ہے کہ ان کے ان حواشی سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا ہے، ان حاشیوں میں انہوں نے جابجا اپنے ایک معاصر کی تصنیف کا حوالہ صاحب ارض القرآن کے نام سے دیکر اس بات کا ثبوت بہم پہنچایا ہے کہ وہ معاصرانہ رقابت سے کس قدر بلند تھے، میں نے اپنے حلقۂ درس میں ان کے حواشی کی افادیت کی ہمیشہ تعریف کی ہے، اور ان کے پڑھنے کی ترغیب دی ہے، افسوس یہ ہے کہ یہ حاشیے بہت باریک چھاپے گئے ہیں، اس لئے اُن سے استفادہ میں مشکل پڑتی ہے، ان حواشی کی افادیت کا اندازہ اس سے ہوگا کہ حکومت افغانستان نے اپنے سرکاری مطبع سے قرآنی متن کے ساتھ حضرت شیخ الہند کے ترجمہ اور مولانا شبیر احمد صاحب کے حواشی کو افغانی مسلمانوں کے فائدہ کے لیے فارسی میں ترجمہ کرکے چھاپا ہے، صحیح مسلم کی شرح لکھنے کا خیال ان کو اپنی نوجوانی کے عہد سے تھا، صحیح بخاری کی شرح تو احناف میں سے حافظ بدرالدین عینی نے بہت پہلے لکھ کر احناف کی طرف سے حق ادا کردیا تھا، مگر صحیح مسلم کی کوئی شرح حنفی نقطۂ نظر سے اب تک نہیں لکھی گئی تھی، اس کے لیے مرحوم نے اپنے دست و بازو کو آزمایا۔
انگریزوں کے عہد میں دیوبند میں جو بعض سیاسی اختلافات پیدا ہوگئے تھے، اور کانگریسی اور لیگی خیالات میں جو آویزش تھی، اس کی اطلاع حیدری صاحب صدر اعظم حیدر آبادکے کانوں تک پہنچی تھی، اس سلسلہ میں انہوں نے مناسب سمجھا کہ مولانا شبیر احمد کو مہتمم بناکر دیوبند بھیجیں، چنانچہ وہ اس صورت سے ڈابھیل سے واپس آکر دیوبند میں مقیم ہوئے، اور اہتمام کا کام شروع کیا، مگر ظاہر ہے کہ صرف تقرر اور منصب سے خیالات اور نظریوں کا اختلاف دور نہیں ہوسکتا تھا، چنانچہ طلبہ میں اسٹرایک ہوئی اور بعض نامناسب واقعات پیش آئے، جن کا نتیجہ ان کا استعفاء تھا۔
اس موقع پر مجھے ایک بات یاد آئی، ۱۹۱۳؁ء کی بات ہے کہ ندوہ میں مولانا شبلی کے استعفٰے پر ایک عظیم الشان اسٹرایک ہوئی تھی، جس میں علی گڑھ اور دیوبند وغیرہ ندوہ کے اہل اہتمام کے ساتھ تھے، اور ملک اور قوم کے آزاد اخبارات مولانا ابوالکلام کی رہنمائی میں طلبہ کی تائید میں تھے، اس وقت مولانا عبدالسلام صاحب ندوی کا ایک مضمون ’’الاعتصاب فی الاسلام‘‘ کے عنوان سے الہلال میں نکلا تھا، اس کے جواب میں مولانا شبیر احمد صاحب کا مضمون اسی الہلال میں نکلا تھا، جس میں اسٹرائک کو خلاف اصول بتایا تھا، اس مضمون میں ایک مصرع یہ بھی تھا،
؂ لو آپ اپنے جال میں صیاد آگیا
پھر جب دیوبند کے احاطہ تک اسٹرائکوں کا سیلاب پہنچا تو ان کا یہ مضمون مجھے بہت یاد آیا، موصوف کے حیدرآباد دکن اور نظام حیدرآباد سے گوناگوں تعلقات پیدا ہوگئے تھے، مرحوم نے اس ہنگامہ میں جو آریہ تحریک کے زمانہ میں حیدرآباد کے مسلمانوں میں پیدا ہوگیا تھا، اپنی تقریر سے بہت کچھ مسلمانوں میں سکون پیدا کیا، یہاں تک کہ حیدری صاحب نے اپنی ممنونیت ان کی ذات کی نسبت ظاہر کی، اور منصب میں ترقی کی، مگر ایک وقت ایسا آیا کہ جب نظام پر تفضیلیت کا غلبہ تھا، اور اتفاق سے وہ مکہ مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے، تو مرحوم نے تقریر فرمائی، جس میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے فضائل بہت دلنشین طریقہ سے بیان کئے تھے، اس دن لوگوں کو مرحوم کی تقریر سے بڑی خوشی ہوئی، اور ان کے بے باکانہ اظہار حق کی سب نے تعریف کی۔
مجھے خیال آتا ہے کہ مرحوم ۱۹۱۶؁ء یا ۱۹۱۷؁ء میں انجمن اسلامیہ اعظم گڑھ کی دعوت پر اعظم گڑھ آئے اور شبلی منزل میں میرے ہی پاس ٹھہرے، اس وقت ان کی شرح مسلم کی کچھ اجزاء ساتھ تھے، جن میں قرات فاتحہ خلف الامام وغیرہ اختلافی مسائل پر مباحث تھے، جن کو جابجا سے مجھے سنایا، ایک اور دفعہ اسی زمانہ میں وہ اعظم گڑھ آئے، ٹھہرے کہیں اور جگہ تھے، مجھ سے ملنے آئے میں نے چائے پیش کی، تو پینے سے انکار کیا، انکار کی وجہ نہ معلوم ہوئی مگر بعد کو خیال آیا تو قیاس ہوا کہ چائے کی پیالیاں جو جاپانی تھیں ان پر جانوروں کی تصویریں بنی تھیں، اس لئے ان میں پینے سے انکار کیا، بہرحال اس سے اُن کے تقوی اور بزرگوں کی صحبت کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔
مرحوم کی شرح مسلم جس کا نام فتح الملہم ہے لکھنے کا کام تمام عمر جاری رہا، اتنے بڑے کام کے لیے ان کو کسی ریاست سے امداد کی فکر تھی، چنانچہ اس کے لیے حیدرآباد دکن کا خیال تھا، اس کے لیے معروضہ پیش کیا اور آخر بڑے ردوکد کے بعد ریاست نے اس کی سرپرستی منظور کی، اور ہر جلد کے لیے کچھ امداد اور مصنف کے لیے ماہانہ وظیفہ منظور ہوا، اور مولانا نے جمعیت خاطر کے ساتھ اس کی چند جلدیں لکھ کر شائع کیں، اس سلسلہ میں یہ امر ذکر کے قابل ہے کہ جب ریاست نے ان کی امداد منظور کی تو مرحوم نے مجھے دوستانہ خط لکھا کہ اہل علم کی طرف سے ریاست کی اس کرمفرمائی کا شکریہ ادا کیا جائے، چنانچہ میں نے اس کی تعمیل معارف کے شذرات میں کی افسوس ہے کہ یہ کتاب ناتمام رہی۔
مرحوم سے میری آخری ملاقات اُس سال ہوئی جب جمعیتہ علمائے اسلام کا اجلاس کلکتہ میں ہوا تھا اور اس میں ان کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا تھا، جس کی اس زمانہ میں بڑی دھوم تھی، اور جس کے بعد مرحوم مسلم لیگ کی دعوت کی صف میں اہم عنصر کی حیثیت سے شامل ہوگئے، اور روز بروز ان کا تعلق لیگ سے بڑھتا ہی چلا گیا، مرحوم اس زمانہ میں بیمار تھے، نشست و برخاست سے معذور سے رہتے تھے، گھٹیے کا گمان تھا اور میرٹھ کے کسی ہومیوپیتھ کے علاج سے فائدہ ہورہا تھا، اتفاق سے اس زمانہ میں میرا دیوبند جانا ہوا تو ملاقات کو حاضر ہوا، بشاشت سے ملے، اور مجھ سے اپنے پیغام کے متعلق رائے پوچھی، تو میں نے اس کے نرم و ملائم لہجہ اور مصالحانہ انداز کی تعریف کی، اسی زمانہ میں ان کو حیدرآباد دکن کی ریاست اپنی عربی درسگاہ مدرسہ نظامیہ کی صدرمدرسی کے لیے پانچ سو ماہوار پر بلارہی تھی، مرحوم اس کے قبول و عدم قبول میں متردد تھے، مجھ سے بھی اس میں مشورہ پوچھا، مجھے اس مدرسہ کا اندرونی حال جو معلوم تھا، وہ بیان کیا، اور عدم قبول کا مشورہ دیا، بہرحال مرحوم نے بھی وہاں جانا قبول نہیں کیا، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ لیگ کی خدمتوں میں ایسے الجھتے چلے گئے، کہ پھر دوسری طرف ان کو خیال کا موقع ہی نہیں ملا، اور آخر ۱۹۴۷؁ء میں لیگ کے بڑے بڑے رہنماؤں کے ساتھ مرحوم بھی کراچی چلے گئے اور وہیں کے ہوگئے۔ مرحوم نے کراچی پہنچ کر گو کوئی سرکاری عہدہ حاصل نہیں کیا، مگر مذہبی معاملات میں ان کی حیثیت مشیر خاص کی تھی، اس لیے زبان خلق نے ان کو شیخ الاسلام کہہ کر پکارا، جو اسلامی سلطنتوں میں عموماً قاضی القضا کا لقب رہا ہے، اور زیادہ تر اس لقب کی شہرت دولت عثمانیہ میں رہی، اسی حیثیت سے مرحوم پاکستان کی مجلس آئین ساز کے رکن بھی تھے، اس جماعت کے روح رواں تھے، جو اس آئین کو اسلامی قالب میں ڈھالنا چاہتی ہے، اور اس راہ میں مرحوم ہی کی ابتدائی کوشش کی کامیابی کا وہ نتیجہ تھا جس کو پاکستان کی آئینی اصطلاح میں قرارداد مقاصد کہتے ہیں۔
مرحوم گو مستقل طور سے پاکستان چلے گئے تھے، مگر تعجب ہوگا کہ انہوں نے نہ تو اپنا کوئی خاص گھر بنایا نہ کسی کی ذاتی کوٹھی پر قبضہ کیا، بلکہ بعض عقیدت مند اہل ثروت کے مکان میں رہے، اور اسی مسافرت میں اس مسافر نے اپنی زندگی بسر کردی۔
مرحوم مروت کے آدمی تھے اور اہل حاجت کی سعی و سفارش بدل و جان کرتے تھے، چنانچہ پاکستان کے اہل حاجت اور اہل غرض دونوں ان سے فائدہ اٹھاتے رہے، اور وہ اپنی جاہ و منزلت کا ذرا خیال کئے بغیر ہر ایک کے کام آتے رہے، اور حکام کے پاس جاجا کر بے تکلف ان کی سفارشیں کرتے رہے۔
مرحوم کا آخری کام ایک عظیم الشان عربی درس گاہ کے قیام کا خیال تھا، چنانچہ اس کے لیے انہوں نے مخلصین کی ایک جماعت بنائی تھی، میرے قیام حجاز کے آخری زمانہ میں مرحوم کی طرف سے اس جماعت کا دعوت نامہ مجھے بھی ملا تھا، اور انھوں نے مجھے بھی اس مجلس کا ایک رکن بنایا تھا۔
مرحوم کی صحت آخری دنوں میں اچھی نہ تھی، امسال پاکستان سے خیر سگالی کا ایک وفد حجاز جارہا تھا، اس کے ممبروں میں خواجہ شہاب الدین وغیرہ کے ساتھ مرحوم کا نام بھی تھا، مگر وہ اسی علالت کے سبب نہ جاسکے اور ان کی جگہ مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی گئے، مرحوم پر فالج کا اثر تھا، جس سے ان کے دل و دماغ ، اور جسمانی قویٰ پر بڑا اثر تھا، اتفاق وقت یا تقدیر کا تماشہ دیکھئے کہ دسمبر میں جب سردی انتہائی نقطہ پر تھی وہ جامعہ عباسیہ کی تعلیمی ضرورت سے بھاولپور گئے، جہاں سنا ہے کہ اس وقت بڑی سردی تھی، اس کے بعد کا حال کراچی کے ایک رسالہ ندائے حرم مورخہ جنوری ۱۹۵۰؁ء سے نقل کرتا ہوں۔
’’۱۷؍ صفر ۶۹؁ھ مطابق ۸؍ دسمبر ۱۹۲۹؁ء کو حضرت علامہ مرحوم و مغفور جامعہ عباسیہ کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے کراچی سے بھاولپور تشریک لے گئے، ۲۲؍ صفر ۶۹؁ھ مطابق ۱۳؍ دسمبر کی صبح تک طبیعت بالکل ٹھیک ہی معلوم ہوتی تھی، خلاف معمول اس روز ایک پیالی کے بجائے دو پیالیاں چائے پی، اور فرمایا رات کو کچھ حرارت رہی، چنانچہ اسی وقت ڈاکٹر کو ٹیلیفون کرکے طلب کیا گیا، ڈاکٹر نے بہت خفیف حرارت بتائی اور دوا دیدی، دس بجے کے قریب سینہ میں غیر معمولی گھبراہٹ محسوس ہوئی، دو بارہ ڈاکٹر کو بلایا گیا، نبض کی رفتار، اس وقت اپنی طبعی رفتار سے کچھ کم تھی، ایک طبیب اور دوسرے ڈاکٹر کو بھی طلب کرلیا گیا، بھاولپور کے وزیر تعلیم اور وزیراعظم اور وزیر مال بھی پہنچ گئے، چار پانچ انجکشن دیئے گئے، مگر نبض کی رفتار کم ہوتی گئی، آخر گیارہ بج کر ۵۰ منٹ پر یہ آفتاب علم غروب ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
میت اُسی روز شام کو بذریعہ پاکستان میل، ۷ بجے کے قریب بھاولپور سے کراچی روانہ کی گئی، اسی روز شام کو پاکستان کے اس مایہ ناز عالم باعمل کو لاکھوں اشک بار آنکھوں، اور سوگواروں نے سپرد خاک کیا، ڈیرہ نواب کے اسٹیشن پر نواب صاحب بھاولپور نے میت کی زیارت کی، اور اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا‘‘۔
کراچی کے اسٹیشن پر مسلمانوں کے بہت بڑے مجمع نے میت کو اتارا، اور پہلے مرحوم کے قیام گاہ پر لائے، اور پھر وہاں سے ان کے قیام گاہ کے سامنے ایک زمین میں جس کو عامل کالونی کہتے ہیں، دفن کیا گیا، سندھ کے اقطاع میں سے بھاولپور ہی وہ مقام ہے، جس سے دیوبند کے اکابر اور امداد اﷲی سلسلہ کے مشائخ کو تعلق خاطر رہا، اس لیے اگر مرحوم کو موت اسی سرزمین پر واقع ہوئی، تو عالم مثال کے حوادث میں کوئی عجیب چیز نہیں ہوئی۔
مرحوم کی کوئی ظاہری اولاد نہ تھی، لیکن الحمداﷲ کہ انھوں نے اپنی کثیر باطنی اولاد چھوڑی ہے، یہ ان کے تلامذہ ہیں، جو زیادہ تر دیوبند اور بعض ڈابھیل میں اُن کے شرف تلمذ سے مشرف ہوئے ہیں، ان میں بعض مشاہیر کے نام جو مجھے معلوم ہیں وہ یادگار کے طور پر سپرد قلم کرتا ہوں، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا ابوالماثر محمد حبیب الرحمان صاحبب اعظمی، مولانا محمد یوسف صاحب بنوری، مولانا محمد منظور صاحب نعمانی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی کہ ان میں سے ہر ایک بجائے خود دائرہ علم ہے۔
مرحوم کی پیدائش ۱۳۰۵؁ھ معلوم ہوئی ہے، اس لحاظ سے اُن کی عمر قمری حساب سے چونسٹھ سال کی ہوئی، اس وقت جب مرحوم کے نصف صدی کے واقعات کو سپرد قلم کررہا ہوں، میرا دل کانپ رہا ہے، اور لبِ معاصر مسافر عدم کے لیے مغفرت کی دعا میں مصروف ہیں، ایسے نادرۂ روزگار صاحب کمال صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کے مرقد کو پرنور فرمائے، اور اس پر اپنا ابر رحمت برسائے، وہ اب اس دنیا میں نہیں، مگر ان کے کارنامے دنیا میں انشاء اﷲ تعالیٰ حیاتِ جاوید پائیں گے۔
سالہا، زمزمہ پرداز جہاں خواہد بود
زین نواہا کہ دریں گنبد گردار زدہ است
(سید سلیمان ندوی، اپریل ۱۹۵۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...