1676046599977_54337975
Open/Free Access
182
سر شیخ عبدالقادر
افسوس ہے کہ ہماری پرانی علمی و ادبی بزم کی ایک اور شمع گل ہوگئی اور گزشتہ ۹؍ فروری کو سر شیخ عبدالقادر مرحوم نے چھیتر سال کی عمر میں انتقال کیا، مرحوم کی ذات گوناگوں اوصاف کی جامع تھی، وہ اردو زبان کے مشہور ادیب اور اس کے پرانے محسن اور خدمت گزار تھے، ان کا مشہور رسالہ مخزن اپنے زمانہ کا اردو کا سب سے زیادہ ممتاز اور مقبول رسالہ تھا، اردو میں سنجیدہ نگاری اور اچھے اصحاب قلم پیدا کرنے میں اس کا بڑا حصہ تھا، مرحوم کا ادبی ذوق ہر زمانہ میں قائم رہا اور وہ کسی نہ کسی حیثیت سے برابر اردو کی خدمت کرتے رہے، مخزن کے جدید دور میں بھی وہ اس کے سر پرست تھے، پاکستان کے قیام سے پہلے تک وہ دارالمصنفین کے رکن تھے، ان علمی و ادبی کمالات کے ساتھ ان کو بڑے سے بڑے دنیاوی اعزاز بھی حاصل ہوئے اور وہ مختلف اوقات میں ہائی کورٹ کی ججی، وزارت تعلیم مرکزی پبلک سروس کمیشن کی رکنیت انڈیا کونسل کی ممبری وغیرہ جیسے مناسب جلیلہ پر فائز رہے، لیکن ان کی وضعداری میں کبھی فرق نہیں آیا، وہ نئی تعلیم کے ساتھ پرانی تہذیب و شرافت کا نمونہ اور ہر طبقہ و ہر فرقہ میں مقبول اور سب کے ساتھ ان کے یکساں تعلقات تھے، اب ایسی شخصیتیں مشکل ہی سے پیدا ہونگی، ایسی یادگاریں خواہ ہندوستان کی ہوں یا پاکستان کی کم از کم ایک دو نسلوں تک دونوں کی مشترک مِلک ہیں اور ان کی موت دونوں کا نقصان ہے، اﷲ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت و مغفرت سے سرفراز فرمائے۔ (شاہ معین الدین ندوی، مارچ ۱۹۵۰ء)
سر شیخ عبدالقادر
ہندوستان و پاکستان کی تقسیم نے اب ایسا کردیا ہے کہ ایک جگہ کا حال دوسری جگہ مشکل سے معلوم ہوتا ہے بہرحال چونکہ پہلے کی شناسائی ہے، اس لئے کچھ ابھی تعلق معلوم ہوتا ہے، اس کے بعد تو ایسا نظر آتا ہے کہ یہ دو مصنوعی ملک حقیقت میں دو ملک ہوجائیں، جس میں ایک کا حال دوسرے کو شاید ہی معلوم ہو، اور اگر ہو بھی تو دل کا تعلق ظاہر نہ ہو۔
سر شیخ عبدالقادر متحدہ ہندوستان کے ایک ممتاز ادیب تھے، اگر ان کا انتقال اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے ہوا ہوتا، تو سارا ہندوستان ان کا ماتم کرتا لیکن ان کا انتقال ۱۹۵۰ء میں ہوا، جب ہندوستان میں اُن کے انتقال کی خبر کسی نے سنی کسی نے نہ سنی اور جس نے سنی اس نے یہ بھی نہ جانا کہ یہ کون ہستی تھی۔
مجھے ان کے انتقال کی خبر ان کی وفات کے کئی ہفتے کے بعد ملی، ایک اردو اخبار دیکھ رہا تھا کہ اس میں یہ خبر نظر سے گذری کہ سر شیخ عبدالقادر نے ۹؍ فروری ۱۹۵۰ء کو پچھتر برس کی عمر میں لاہور میں وفات پائی، خبر پڑھنے کے ساتھ تعجب کے ساتھ زبان سے نکل گیا کہ ’’ارے! شیخ عبدالقادر نے وفات پائی‘‘، پاس والوں نے پوچھا کہ کون عبدالقادر! میں نے کہا ایک تھے، اب کیا کوئی سمجھے کہ اس ’’ایک تھے‘‘ میں پوچھنے والوں کے لیے کتنے تیر و نشتر چھپے ہیں۔
مرحوم سے میری واقفیت کو پوری نصف صدی گذر گئی، ۱۹۰۰ء میں ندوۃ العلماء کا سالانہ جلسہ بڑی ہی دھوم دھام اور تزک و احتشام سے پٹنہ عظیم آباد میں ہوا تھا، یہ پہلا اجتماع تھا جس میں ہیٹ اور عمامے ایک ساتھ جمع ہوئے، جسٹس سید شرف الدین، سید علی امام، سید حسن امام، نصیر الدین بیرسٹر اور خدا جانے کتنے نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں اور علماء اور مشائخ ایک صف میں دین و ملت کی خدمت کے لیے کمر بستہ نظر آئے، یہی وہ جلسہ تھا، جس میں میں نے مرحوم کو پہلی بار دیکھا یہ ان کی جوانی کا وقت تھا، انہوں نے ایک قومی کتب خانہ کے قیام کی تجویز پر تقریر فرمائی جس کووہ لکھ کر ساتھ لائے تھے، اس وقت میری عمر پندرہ سولہ برس کی ہوگی، عربی کی ابتدائی کتابیں زیر درس تھیں، مرحوم اس زمانہ میں ’’آبزرور‘‘ نامی ایک ہفتہ وار انگریزی اخبار کے اڈیٹر تھے، علماء کے جلسہ میں ایک انگریزی تعلیم یافتہ کی تقریر ایسے انداز میں جس میں پرانے بزرگوں کی تحقیقات کا احترام اور اُن کی اس متروکہ دولت پر فخر تھا، بڑی توجہ سے سنی گئی، میری عمر کا یہ پہلا واقعہ تھا، جس میں یہ اجتماع اور یہ منظر نظر آیا، محوحیرت تھا، اور میں کیا سارا مجمع مقرر کے جادو سے مسحور تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرحوم نے اپنی تقریر ایک ایسے انوکھے انداز سے شروع کی کہ جس میں اُن کا اور ان کے اخبار کا اشتہار بھی تھا، اور انداز بیان کی دلچسپی بھی تھی، انہوں نے کہا حاضرین اگر میں یہ کہوں کہ آپ کے بزرگوں نے آپ کے لیے ایک بڑا دفینہ چھوڑا ہے، تو آپ کو میری اس بات کا یقین نہیں آئے گا، خصوصاً اس لئے کہ میں ایک اخبار نویس ہوں، اخبار کی خبروں پر یقین کس کو آتا ہے (اس وقت ٹرنسوال میں بوئروں اور انگریزوں کی جنگ ہورہی تھی، اس کا حوالہ دے کر کہا) ابھی یہ خبر آئی ہے کہ بوئروں کو شکست ہوئی، اور کل اس کی تصحیح یوں ہوتی ہے کہ انگریزوں کی شاندار پسپائی ہوئی۔
مرحوم کی یہ پوری تقریر اس سال کی ندوہ کی روداد میں چھپی ہوئی ہے، اسی جلسہ میں مرحوم نے مخزن کا اشتہار تقسیم کیا تھا، اور آخر بیسویں صدی کے پہلے مالی سال اپریل ۱۹۰۱ء سے انہوں نے مخزن نکالنا شروع کیا، یہ اردو کا وہ پہلا رسالہ ہے جس نے نوجوان انگریزی تعلیم یافتہ اہل قلم کو اردو کی خدمت کی دعوت دی اور جدید و قدیم ادب نوازوں کو ایک میز پر جمع کیا کتنے اس وقت کے نو آموز اور نوجوان جو اب مرحوم ہوچکے ہیں، یا بوڑھے ہوگئے ہیں، اُن کے قلم کا پہلا ظہور اسی مخزن کے صفحات میں ہوا، ڈاکٹر اقبال اسی کے ذریعہ روشناس ہوئے، سید حسرت موہانی کی صورت سب سے پہلے اسی بزم میں ہم کو نظر آئی، مولانا ابوالکلام کا پہلا مضمون ’’اخبار‘‘ اسی میں نکلا، اور اسی طرح راقم الحروف کے سب سے پہلے مضمون ’’وقت‘‘ اور ’’معشوقہ عرب کی یاد میں‘‘ اسی میں چھپے، اردو ادب پر مرحوم کا یہ بڑا احسان ہے کہ انہوں نے نوجوان تعلیم یافتوں کو اردو ادب کی خدمت میں لگایا، اور اس سے زبان کو بڑا فائدہ پہنچا۔
مرحوم سے میرے تعلق خاطر کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اُن کو ندوہ کی تحریک سے دلچسپی تھی، اور وہ اس کے اکثر ابتدائی جلسوں میں شریک ہوتے تھے، اور تقریر کرتے تھے، اور اخیر اخیر تک وہ ندوہ کے رکن رہے، بارہ تیرہ برس کی بات ہے کہ دہلی کے ریڈیو اسٹیشن نے ایک سلسلہ تقریر شروع کیا تھا، ’’میں کن سے متاثر ہوا‘‘ اس سلسلہ کے پہلے نمبر میں مرحوم کی تقریر تھی، انہوں نے اپنے تاثر کا آغاز سرسید احمد خان مرحوم سے کیا تھا، اتفاق دیکھئے کہ اس تقریر کے دوسرے نمبر کے لیے میرا نام رکھا گیا، میں نے اپنی تقریر کا آغاز مرحوم سے کیا کیونکہ عمر میں پہلی دفعہ ان ہی کی تقریر سنی، اور انہی سے اثر پذیر ہوا۔
مرحوم کا آغاز گو انگریزی اور اردو کے ادیب کی حیثیت سے ہوا، مگر اُن کو اپنی روزی کے لیے یہ میدان بہت تنگ نظر آیا، اس لیے اس وقت کے سب سے ممتاز پیشہ قانون دانی کی طرف اُن کی توجہ مبذول ہوئی، اسی لئے ۱۹۰۴ء یا اس کے قریب زمانہ میں وہ بیرسٹری کے لیے لندن سدھارے، اور چند برس کے بعد بیرسٹر ہوکر لوٹے راہ میں قسطنطنیہ کی بھی سیر کی جس کی یادگار ان کا سفر نامہ ’’مقام خلافت‘‘ ہے، واپس آکر بیرسٹری شروع کی، مگر اس پیشہ میں جیسا چاہئے ان کو فروغ نہیں ہوا، اس لئے گورنمنٹ کی ملازمتوں اور عہدوں کی طرف اُن کی توجہ ہوئی، وہ ہائی کورٹ کے جج بھی ہوئے، لندن میں انڈیا کونسل کے ممبر بھی ہوئے اور پنجاب کونسل کے صدر اور وزیر تعلیم بھی رہے، اور لیگ آف نیشنس جینوا میں ہندوستان کے نمائندہ بنے، ان کا آخری عہدہ بھاولپور ہائی کورٹ کی ججی تھی، بارہ تیرہ برس ہوئے ہونگے کہ انہوں نے انجمن حمایت اسلام لاہور میں جس کے وہ اس وقت صدر تھے مجھے یاد فرمایا تھا، میں حاضر ہو کر ان کا مہمان ہوا، اسی اجلاس میں نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی بھی ان کے بلاوے پر گئے تھے، اور ان کے مہمان تھے۔
اس وقت کا ایک لطیفہ یاد آیا، مرحوم کی صدارت میں اس جلسے میں انجمن کو بہت چندے مل رہے تھے، بلکہ کہنا چاہئے کہ روپے برس رہے تھے، اتفاق سے میں ایک صبح کو اُن کے مکان سے ٹہلنے نکلا، تو ایک چھوٹی سی مسجد کے دروازہ پر یہ دعا لکھی نظر آئی ’’یاشیخ عبدالقادر شیاء ﷲ‘‘ واپس آکر میں نے شیخ صاحب سے عرض کی کہ حضرت انجمن میں اس قدر آپ کی صدارت میں روپے برسنے کی وجہ ابھی معلوم ہوئی، انجمن نے ’’یاشیخ عبدالقادر شیاء ﷲ‘‘ کا عمل پڑھا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم یونیورسٹی کے لیے ایک وائس چانسلر کی تلاش تھی، اور مرحوم کے احباب اس جگہ کے لیے ان کو کھڑا کرنا چاہتے تھے، مجھ سے بھی مشورہ چاہا، میں نے اس وقت کی وہاں کی صورت حال عرض کردی، بعد کو دوسرے صاحب اس جگہ پر ہوگئے، اور مرحوم بھاولپور جج ہو کر چلے گئی، مرحوم کو علی گڑھ کی تعلیمی تحریک سے بھی دلچسپی تھی، وہ ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس مدراس کے صدر تھے، اور مسلم یونیورسٹی کے رکن بھی تھے۔
مرحوم کی شخصیت گوناگوں اوصاف کی حامل تھی، اور ہر مجلس و محفل میں ان کی یکساں قدر و منزلت تھی، وہ نیک طینت، نرم مزاج، متواضع اور ملنسار تھے، اُن کی مختلف النوع خدمات میں میرے نزدیک سب سے بڑی خدمت اُن کی ادبی خدمت ہے اور وہ بھی خاص نوع کی یعنی لکھنے والے تو بیسوں ہیں مگر ان کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بیسیوں کو ادیب انشا پرداز اہل قلم مصنف اور شاعر بنادیا، اور حق یہ ہے کہ انھوں نے ہندوستان کو اقبال بخشا، اور انھیں کے فیض نے شاہ نامہ اسلام کے مصنف حفیظ جالندھری کو روشناس کیا۔مضمون لکھنے کے بعد اتفاق سے ماہ نو کراچی (اپریل ۱۹۵۰ء) میں ان کی زندگی کی سنین نظر سے گذرے جی چاہا کہ اوپر کے واقعات کی صحیح تعین کے لیے بعض سنین یہاں نقل کردوں۔
وہ ۱۸۷۴ء میں لودھیانہ میں پیدا ہوئے ۱۸۹۴ء میں بی اے ہوئے، ۱۸۹۵ء میں پنجاب آبزرور میں اسسٹنٹ ایڈیٹر اور تین سال کے بعد چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے، ۱۹۰۱ء میں مخزن نکالا، ۱۹۰۴ء میں بیرسٹری کے لئے لندن گئے، ۱۹۰۱ء میں واپس آکر دلی میں بیرسٹری شروع کی، ۱۹۰۹ء میں لاہور چلے آئے، ۱۹۰۶ء میں لائل پور میں سرکاری وکیل ہوئے اور آٹھ سال تک یہ کام کرتے رہے، ۱۹۲۱ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جج ہوئے ۱۹۲۲ء میں پنجاب لیجسلیٹیو کونسل کے صدر بنے، ۱۹۳۵ء میں وہ قائم مقام وزیر تعلیم مقرر ہوئے، ۱۹۲۴ء میں لیگ آف نیشنس میں ہندوستان کے نمائندہ ہوکر جنیوا گئے، ۱۹۲۶ء میں مسلم لیگ کے اجلاس دہلی کی صدارت کی، ۱۹۲۷ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی مدراس میں صدارت کی، ۱۹۲۸ء میں پنجاب ایگزکٹیو کونسل کے قائم مقام ممبر بنے اور سرکا خطاب پایا، ۱۹۲۹ء میں پبلک سروس کمیشن کے رکن ہوئے، ۱۹۳۰ء میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈشنل جج ہوئے، ۱۹۳۴ء میں انڈیا کونسل لندن کے ممبر ہوئے ، اور پانچ سال تک لندن رہے، جہاں سے ۱۹۳۹ء میں ہندوستان واپس آئے اور اسی سال کچھ عرصہ کے لیے وائسرائے کی ایگزیکٹیو کونسل کے قائم مقام ممبر رہے، ۱۹۴۲ء میں بھاولپور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے، جہاں سے ۱۹۴۵ء میں واپس آکر لاہور میں مقیم ہوئے اور آخر یہیں فروری ۱۹۵۰ء میں سپرد خاک ہوئے۔
اوپر کی سطروں کے پڑھنے کے بعد ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ مرحوم نے وقت کے اور حکومت کے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے حاصل کئے، اور بڑے بڑے دنیاوی اعزاز سے سرفراز ہوئے مگر دیکھنا کہ دنیا اگر انہیں یاد رکھے گی تو مدیرمخزن ہی کی حیثیت سے یاد رکھے گی اور ان کی قبر پر احترام کے پھول چڑھاتی رہے گی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علمی و ادبی احترام کے آگے دنیا کے سارے اعزاز ہیچ ہیں، اور آخر یہ اعزاز بھی تاریخ کے صفحوں میں آسودۂ خواب ہوجائے گا، دنیا نے کس کو یاد رکھا ہے اور کس کو یاد رکھے گی، شہرت بھی ایک فریب سراب ہے یا نقش برآب۔
مرحوم کو علماء اور اہل دین سے ایک نسبت تھی، وہ مذہبی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت پر یقین رکھتے تھے جس کا اظہار ندوہ کے اجلاس اور اس کی تقریر اور مسلم ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ منعقدہ مدراس کے خطبۂ صدارت میں انہوں نے کیا تھا۔ ابھی حال میں مدراس کے ایک بزرگ نے ان کی وفات کے فوراً ہی بعد اس کا اقتباس چھاپا ہے اور یہ معلوم کرکے کہ ان کا انتقال ہوگیا، تاریخ وفات کہی ہے بزرگوں کا ان کے حال پر یہ حسن التفات ان کی مغفرت کی بشارت ہے، رہے نام اﷲ کا۔
مرحوم کی یادگار میرے پاس اُن کے ہاتھ کے دو خط ہیں ایک اردو میں ایک انگریزی میں ۱۹۴۰ء میں وزارت تعلیم ریاست بھاولپور نے اپنے جامعہ عباسیہ کے نصاب تعلیم کے سلسلہ میں مجھے بلایا تھا، ریاست بھاولپور کے فرمارؤاں کے ہمارے دارالعلوم ندوۃ العلماء پر بڑے احسانات ہیں، اسی کی امداد سے دارالعلوم کی موجودہ نا تمام عمارت اس شان سے تعمیر پائی، جی چاہتا تھا کہ بقیہ عمارت بھی انھیں کی امداد سے تکمیل پائے میں بھاولپور جاتے ہوئے شیخ صاحب مرحوم سے لاہور میں ملا اور اُن سے خواہش کی کہ وہ وہاں کے چند اعلیٰ عہدہ داروں کے نام مجھے سفارشی خط لکھ دیں چنانچہ مرحوم نے اس تعلق کی بنا پر جو ان کو قدیم سے دارالعلوم ندوہ سے تھا، فوراً یہ دونوں خط لکھ دیئے ایک اردو میں کرنل قریشی صاحب کے نام، اور دوسرا انگریزی میں خان بہادر محمد حسین صاحب کے نام مگر وہاں کچھ مقامی حالات ایسے تھے کہ میں نے ان دونوں خطوں سے کام نہیں لیا، خود وزیر صاحب تعلیمات نے نواب صاحبب بھاولپور کو ادھر متوجہ کیا اور انہوں نے وعدہ فرمایا اور پندرہ ہزار کی رقم منظور ہوئی، جس کی باقاعدہ اطلاع وزیراعظم صاحب بھاولپور نے مجھے دی، مگر افسوس ہے کہ بار بار یاد دہانی کے بعد یہ وعدہ پورا نہ ہوا، کاش اگر اب بھی یہ رقم مل جاتی تو اس کو ایک طرح کا تعلق شیخ صاحب کی زندگی سے بھی ہوتا، اور ہندوستان میں ایک پاکستانی فرماں رواں کی یادگار قائم رہتی۔ (سید سلیمان ندوی، مئی ۱۹۵۰ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |