Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناحبیب الرحمن خان شروانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناحبیب الرحمن خان شروانی
ARI Id

1676046599977_54337977

Access

Open/Free Access

Pages

186

مولانا حبیب الرحمن خان شروانی
افسوس ہے کہ ہماری بزم دوشین کی وہ آخری یادگار شمع بھی خاموش ہوگئی، جس سے مدتوں بزم کمال منور رہی، یعنی ۱۱؍اگست کو نواب صدر یارجنگ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی نے چھیاسی سال کی عمر میں اس خاکدان سفلی کو الوداع کہا، عمر طبعی کو پہنچنے کے بعد موت ناگزیر ہے، لیکن بعض مرنے والوں کے ساتھ ایک پورا عہد اور پوری تاریخ دفن ہوجاتی ہے، مولانا شروانی مرحوم کا حادثۂ وفات انہی میں ہے، وہ مشرقی و اسلامی تہذیب و شرافت کا نمونہ اور علم و عمل، فضل و کمال، دین و تقویٰ، وقار و متانت، اخلاق و تواضع کا پیکر اور تنہا ایک عالم تھے، کامل ساٹھ سال تک مسلمانوں کی قومی زندگی سے وابستہ رہے، اس لئے ان کی وفات شخصی نہیں بلکہ قومی حادثہ اور ایک مرقعِ کمال اور قدیم تہذیب و شرافت کا ماتم ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ان کو دنیاوی دولت و وجاہت سے بھی نوازا تھا، وہ خاندانی رئیس تھے اور اپنے اوصاف میں دور زوال کے امراء سے بالکل مختلف تھے، وہ خود صاحب علم، اصحاب علم کے قدردان، علم دوست، علما نواز، اور علم فن کے شیدائی اور سرپرست تھے، ان کی پوری زندگی علمی مشاغل میں گزری، مسلمانوں کی علمی و تعلیمی تحریکوں میں ان کا نمایاں حصہ رہا، وہ ابتدا سے مدرسۃ العلوم، مسلم یونیورسٹی، اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن رکین، معاون و مددگار آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سکریٹری انجمن ترقی اردو کے سرپرست اور مجلس دارالمصنفین کے صدرنشین تھے، عرصہ تک ریاست حیدرآباد کے شعبہ امور مذہبی کی صدارت پر فائز رہے، ان کی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے، کوئی علمی و تعلیمی ادارہ ان کی اخلاقی امداد و امانت سے محروم نہ تھا، مسلم یونیورسٹی نے ان خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔
وہ عربی کے عالم، فارسی کے ذوق شناس، انگریزی سے واقف، اردو کے صاحب طرز ادیب اور نکتہ سنج، سخن فہم اور سخن گو تھے، ان کا ادبی ذوق بڑا ستھرا اور پاکیزہ تھا، اسلامی علوم و فنون اور مسلمانوں کی علمی تاریخ سے ان کو عشق تھا، ان کا مشغلہ خالص علمی تھا، مختلف مذہبی، علمی، ادبی اور تاریخی موضوعوں پر دو درجن سے زیادہ چھوٹی بڑی تصانیف، ایک مجموعہ مضامین مقالات شروانی اور دیوان فارسی، ان کی علمی یادگار ہیں، نادر کتابوں کا بڑا شوق تھا، خود اپنی تلاش و محنت اور زرکثیر صرف کرکے ایک عمدہ کتب خانہ جمع کیا، جو نوادر کتب کا بیش قیمت ذخیرہ ہے، اس کو اپنی زندگی میں مسلم یونیورسٹی پر وقف کرگئے تھے۔ان کی ذات میں جدت و قدامت کا بڑی لطیف امتراج تھا، وہ خود پرانی تعلیم و تہذیب کی یادگار لیکن زمانہ کے حالات و ضروریات سے واقف تھے، ان کا وطن علی گڑھ مغربی تعلیم کا مرکز تھا، اس لئے وہ جدید تعلیم اور نئی مفید تحریکوں کے حامی و مددگار تھے لیکن اس کے سحر سے مرعوب و مسحور نہ تھے، اور جدید تعلیم و تہذیب میں بھی اسلامی روح دیکھنا چاہتے تھے، قدیم تہذیب سے والہانہ شیفتگی تھی، ان کی تحریروں میں جہاں اس کا ذکر آجاتا اور ان کی بہت کم تحریریں اس ذکر جمیل سے خالی ہوتی تھیں، ان کا قلم بے قابو ہوجاتا اور ان کی تحریر قدیم تہذیب کا مرثیہ بن جاتی۔
صورۃً خوش جمال، کشیدہ قامت اور طبعاً نفاست و لطافت پسند تھے، وضع قطع، لباس، رفتار و گفتار، نشست و برخاست، ہر چیز میں تہذیب و نفاست نمایاں تھی، بڑے خوش لباس اور جامہ زیب تھے، بڑھاپے کے نور نے اس میں اور زیادہ لطافت اور جذب وکشش پیدا کردی تھی، زندگی کے تمام معمولات میں وضعداری کی شان تھی، پوری زندگی کسی معمول میں کوئی فرق نہیں آیا، ان کے تعلقات بہت وسیع اور مختلف و متضاد مذاق و مشرب کے لوگوں کے ساتھ تھے، جن کو آخر تک نباہا، سیاست سے طبیعت کو ذوق و مناسبت نہ تھی، اور اس خارزار سے ہمیشہ دامن بچایا، لیکن بہت سے اصحاب سیاست سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے جو برابر قائم رہے، اور ان پر اختلاف رائے خیال کا اثر نہ پڑنے پایا، مولانا شبلی مرحوم سے ان کے بڑے گہرے اور مخلصانہ تعلقات تھے، جو ان کے بعد وراثۃً ارکانِ دارالمصنفین کے حصہ میں آئے، اور آخر تک برابر قائم رہے، وہ دارالمصنفین کے محض قانونی صدر نہ تھے، بلکہ اس کے اور اس کے کارکنوں کے ساتھ ان کو دلی تعلق تھا، چنانچہ پیرانہ سالی میں کئی مرتبہ اس اجڑے دیار میں آنے کی زحمت گوارا کی جب آنا ہوتا تو بلالحاظ عمر و رتبہ ہر شخص کی قیام گاہ پر جاکر ملتے اور بڑی شفقت و محبت سے خیریت و حالات پوچھتے اب اس وضعداری کی مثال کہاں ملے گی۔
مرحوم کی ذات پر ایک عزیز دور اور اس کی خصوصیات کا خاتمہ ہوگیا، جس کا ذکر اب صرف تاریخ کے اوراق میں ملے گا، اﷲ تعالیٰ اس مرقع کمال کی تربت پر رحمت و مغفرت کے پھول برسائے، اللّٰھُمَّ صبب علیہ شابیب رِضوْانِکَ برحْمتِکَ یااَرحْمَ الرّٰحمیْن۔ (شاہ معین الدین ندوی،ستمبر ۱۹۵۰ء)
دسمبر ۱۹۵۰ء
آہ! مولانا حبیب الرحمان شروانی
اگست کی کوئی آخری تاریخ تھی، کہ لاہور کے کسی اخبار میں سرسری طور سے یہ خبر چھپی کہ مولانا شروانی کا انتقال ہوگیا، خبر پڑھ کر دل دھک سے ہوگیا اور اپنی دوری، مہجوری اور مجبوری پر بڑا افسوس آیا، میں نے مرحوم کی زندگی ہی میں ان کے واقعات اور خاندان شروانی کے بعض احوال لکھواکر دارالمصنفین میں رکھ لئے تھے اب جب ان کا سانحہ پیش آیا تو تقدیر کی مجبوری دیکھئے کہ تدبیر کوئی کام نہ آئی۔
مرحوم نے چھیاسی سال کی عمر میں بتاریخ ۱۱؍ اگست ۱۹۵۰؁ء اس دنیائے رنگ و بو کو خیرباد کہا اور سلف صالحین سے جاملے (ان کی ولادت کی تاریخ ۲۸؍ شعبان ۱۲۸۳؁ھ مطابق ۱۸۶۶؁ء ہے) مرحوم سے میرے تعلقات اس قدر گوناگوں تھے کہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کو کہاں سے شروع کیا جائے اور کیا کہا جائے اور کیا چھوڑا جائے، میں نے موصوف کو سب سے پہلے ۱۹۰۰؁ء میں نصف صدی پہلے پٹنہ کے اجلاس ندوہ میں دیکھا تھا، بھرا شباب، مردانہ حسن و جمال، سپید رنگ سیاہ خوب صورت ڈارھی اور سر پر زلفیں، بلند و بالا قامت، لطیف و قیمتی لباس، جلسہ کے ہر اجلاس میں نیا جوڑا زیب بدن، کبھی سرپر عمامہ، کبھی گول ٹوپی، کبھی ترکی ٹوپی، جدھر نکل جاتے، آنکھیں اٹھ جاتیں، انگلیاں اشارہ کرتیں، لوگ ایک دوسرے کو دکھاتے اور بتاتے، اسی طرح میں نے دیکھا اور بتایا گیا کہ یہ علی گڑھ کے رئیس عالم ہیں۔
۱۹۰۱؁ء میں جب ندوہ آیا، تو مدرسہ ان کے ذکر جمیل سے پرشور تھا، انتظامی جلسے سال میں چند بار ہوتے اور وہ ان میں جب آتے تو جلسہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ۱۹۰۴؁ء میں جب الندوہ نکلا اور وہ اس کے اڈیٹر ہوئے اور میرے ایک دو مضمون اس میں نکلے، تو تعارف بڑھا، جب وہ آتے میں حاضر ہوتا اور وہ اپنے بزرگانہ لطف و نوازش سے نوازتے، ۱۹۰۶؁ء میں جب میری جماعت کی دستار بندی کا جلسہ ہوا ور خاکسار کی عربی تقریر نے حاضرین سے دادتحسین حاصل کی، اور حضرۃالاستاذ نے خوش ہوکر اپنے سر سے دستار اتار کر میرے سر پر رکھی، تو اس جلسہ میں مولانا شروانی شریک نہ تھے، تاہم حضرۃ الاستاذ نے خود اپنے قلم سے لکھ کر ان کو اس واقعہ کی بڑی مسرت سے خبر دی، (یہ خط ’’مکاتیب شبلی‘‘ میں درج ہے) استاد کی یہ وساطت مولانا شروانی سے تقریب کا نیا ذریعہ بنی۔
۱۹۱۰؁ء میں جب مکاتیب شبلی کی تدوین کا خیال آیا تو استاد نے پھر مولانا شروانی سے تقریب کی کہ ان کے پاس شبلی کے جو خطوط ہوں وہ سید سلیمان کو دیئے جائیں، ۱۹۱۲؁ء میں جب ندوہ میں حضرۃالاستاذ کے حسب ایما انگریزی مدارس کے نصاب تاریخ کی غلطیوں کی تصحیح کا کام میرے سپرد ہوا، تو پھر تازہ تقریب کی گئی، نومبر ۱۹۱۴؁ء میں جب حضرت الاستاذ بیمار ہوئے اور حالت مایوسی کو پہنچی تو خاکسار حاضر خدمت تھا، سب سے پہلے اس شدت تعلق کی بناء پر جو ان دونوں دوستوں میں تھا، اس مضمون کا ایک مختصر کارڈ ان کو بھیجا ’’افسوس کہ ’’الفاروق‘‘ کا مصنف اس وقت موت و حیات کی کشمکش میں ہے‘‘۔ ۱۸؍ نومبر کو مولانا نے وفات پائی، اس کی اطلاع دی، اس کے بعد سے جو ان سے مکاتبات کا سلسلہ شروع ہوا تو آج سے دو برس پہلے تک اس وقت تک برابر قائم رہا جب تک ان کی قوت حافظ اور عام قوت جسمانی کام دیتی رہی، آج سے دو سال پہلے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کورٹ کے میٹنگ میں سب سے آخری دفعہ ان سے ملا میں نے دیکھا کہ ان کا تیر سا قد نیم کمان بن چکا ہے، وہ چہرہ جو گلاب سا تر و تازہ اور شاداب رہتا تھا، پژ مردہ اور مرجھایا تھا، اسی وقت دل نے کہا کہ یہ چراغ سحر بجھا ہی چاہتا ہے۔
میرا عمر بھر یہ دستور رہا کہ حضرۃ الاستاذ کے مخصوص احباب اور دوستوں سے بزرگداشت کا تعلق رکھوں اور ہمیشہ ان کے سامنے اپنے کو چھوٹا سمجھوں، چنانچہ مرحوم سے خصوصیت کے ساتھ میری طرف سے خوردانہ اور ان کی طرف سے بزرگانہ تعلق قائم رہا، میں انہیں مخدوم لکھتا، وہ عزیز لکھتے، دارالمصنفین کی تاسیس میں مرحوم کی بزرگانہ حمایت ہمیشہ رہنما رہی، دارالمصنفین کے پہلے صدر جسٹس مولوی کرامت حسین اور دوسرے نواب عمادالملک اور تیسرے مولانا شروانی ہوئے، اس تعلق سے بھی ان سے خط و کتابت کا سلسلہ اکثر رہا، ایک دفعہ جب احباب اور بزرگوں کے محفوظ خطوط گنے تو سب سے زیادہ جن کے خطوط میرے پاس نکلے، وہ انہی کے تھے، میں نے جب انہیں اس کی اطلاع دی، تو اس پر مسرت ظاہر فرمائی اور لکھا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے، اس کا الٹا ہوتا تو تعجب ہوتا۔
وہ قدیم و جدید تعلیم کا بہترین مجموعہ تھے، فارسی و عربی تعلیم گھر پر حاصل کی، عربی کی اونچی کتابیں حضرت مولانا مفتی محمد لطف اﷲ صاحب علی گڑھی کے درس میں پڑھیں، انگریزی تعلیم میٹرک تک آگرہ اسکول میں پائی، ان کی جوانی تک علم و فن اور دین و تقویٰ کے باکمال اکابر موجود تھے، وہ ہر ایک کے در تک پہنچے اور ہر اک سے حسب استعداد کسب فیض کیا شیخ حسین یمنی عرب مقیم بھوپال سے سند حدیث حاصل کی، قاری عبدالرحمان صاحب پانی پتی سے فیض پایا، بیعت قطب الوقت حضرت مولانا شاہ فضل رحمان گنج مراد آبادی سے کی تھی، مولانا محمد نعیم صاحب فرنگی محلی کی زیارت سے بھی فیضیاب تھے۔
ان کا سب سے پہلا مضمون جس نے لوگوں سے خراج تحسین وصول کیا وہ بابرؔ پر ہے۔ جو رسالہ ’’حسن‘‘ حیدرآباد میں چھپا تھا اور جس پر مصنف کو ایک اشرفی انعام ملی تھی، مولانا شبلی کی المامون پر ان کا تبصرہ ان کا پہلا تنقیدی کارنامہ ہے، جو غالباً ۱۸۸۶؁ء میں شوقؔ قدوائی کے اخبار آزاد میں چھپا تھا، ان کے رسائل میں دو بہترین تاریخی رسائل ہیں، یہ دونوں ندوہ کے سالانہ جلسوں میں پڑھے گئے تھے، پہلے کا نام ’’علمائے سلف‘‘ ہے اور دوسرے کا نام ’’نابینا علماء‘‘ یہ دونوں انیسویں صدی کی یادگار ہیں، ۱۹۰۱؁ء میں لاہور سے جب مخزن نکلا تو اس کی محفل میں بھی یہ شریک تھے، حضرت خسرو کے غزلیات پر اس میں ان کا مضمون چھپا تھا، ۱۹۰۴؁ء میں الندوہ کے شریک اڈیٹر ہوئے، تو اخلاق پر ان کے مضامین نکلے۔
علی گڑھ کی مجلسوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے حالات میں الصدیق لکھ کر پیش کی، حیدرآباد کی میلاد کی مجلسوں کے وہ بانی تھے، ان میں سیرۃ پر مختلف رسائل لکھے، جو چھپے اور پھیلے، معارف میں ان کے مضامین اور ان کی غزلیں اکثر زیب اوراق ہیں۔
شعر و شاعری کا ذوق ان کو آغاز سے تھا، حسرت تخلص کرتے تھے، اردو اور فارسی دونوں میں مشق سخن کرتے تھے، اردو میں حضرت امیرمینائی سے اصلاح اور فارسی میں مولانا شبلی سے مشورہ کرتے تھے، فارسی کے مشہور شاعر حضرت خواجہ عزیز سے بھی مولانا شبلی کے ذریعہ سے تعلق رکھتے تھے۔
ان کے اخلاقی فضائل میں وضعداری بڑی نمایاں تھی، جس سے جتنا ملتے تھے، تمام عمر اسی طرح ملتے رہے، جب لکھنؤ آتے تو منشی احتشام علی صاحب کی کوٹھی میں ٹھہرتے تھے اور تمام عمر میں کبھی اس وضع میں فرق نہیں آیا، پھر اس قیام میں جن جن بزرگوں اور دوستوں سے ملنے کا دستور تھا، اسی طرح وہ جاکر ملتے اور اتنی دیر بیٹھتے، لکھنؤ میں فرنگی محل اور وہاں بھی مولانا محمدنعیم صاحب کی نشست گاہ میں ضرور حاضر ہوتے۔
ان کی جوانی تھی کہ ندوہ کا غلغلہ بلند ہوا، یہ وہ مجلس تھی، جس کی روحانی اور علمی صدارت جن دو بزرگوں سے نسبت رکھتی تھی، یعنی مولانا شاہ فضل رحمان صاحب گنج مراد آبادی اور حضرت مولانا محمد لطف اﷲ صاحب دونوں ہی سے ان کو قلبی تعلق تھا اس لئے وہ ندوہ کے ان اصلی ارکان میں تھے جن سے ندوہ کی مجلس عبارت تھی، وہ سب سے پہلے ۱۹۱۷؁ء میں ندوہ کے اجلاس ناگپور کے صدر ہوئے اور یہیں اسی وقت دولت آصفیہ مرحوم کی صدارت امور مذہبی کی خبر عام ہوئی، جس کے بعد ان کا بارہ تیرہ برس کے قریب حیدرآباد میں قیام رہا اور جامعہ عثمانیہ کی تاسیس اور شعبۂ دینیات کے افتتاح میں ان کی مساعی مشکور ہیں، حیدرآباد کا حال وہاں کے مقیم احباب سنائیں گے۔
حیدرآباد کے قیام کے زمانہ میں بھی وہ دو دفعہ ندوہ کے اجلاس کے صدر ہوئے، پہلی دفعہ انبالہ میں اور یاد آتا ہے کہ دوسری دفعہ لکھنؤ میں مرحوم کو قومی اداروں میں سے علی گڑھ، ندوۃ العلماء اور دارالمصنفین اعظم گڑھ سے خصوصیت کا تعلق تھا، مولانا شبلی مرحوم کے بعد غالباً ۱۹۰۵؁ء میں وہ انجمن ترقی اردو کے بھی ناظم ہوئے اور دو تین سال کے قریب خدمت کے بعد قرعۂ فال مولوی عبدالحق صاحب کے نام نکلا، ان اداروں کے علاوہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہرالعلوم سہارنپور کے بزرگوں سے بھی ارتباط رکھتے تھے اور ان درسگاہوں کی بھی امداد فرمایا کرتے تھے۔
عجیب اتفاق ہے کہ نادانستہ ۱۹۲۶؁ء میں سفر حج میں بھی میرا ان کا ساتھ ہوا، یہ موتمر اسلامی والا موقع تھا، یہاں یہ سخت بیمار پڑ گئے تھے، مگر بڑی ہمت کے ساتھ سارے ارکان ادا کئے، مدینہ منورہ کے قیام کے زمانہ میں ان کا تعارف شیخ ابراہیم حمدی مدیر کتب خانہ شیخ الاسلام سے کرادیا، یہ تعلق چونکہ علمی اور روحانی دونوں تھا، اس لئے بڑا سازگار آیا اور اخیر اخیر وقت تک قائم رہا، حرمین محترمین کی خدمت بھی وہ سالانہ کیا کرتے تھے، اخیر دفعہ جب دو سال ہوئے میں نے اپنے ارادہ حج کی اطلاع ان کو دی، تو لکھا کہ اس دفعہ حرمین شریفین کی خدمت کی رقم آپ ہی کے ذریعہ جائے گی، مگر روانگی کے وقت نہ ان کو یاد رہا اور نہ میں نے یاد دلایا۔
ان کو نادر اور قلمی کتابوں کا بڑا شوق تھا اور اس شوق کی تاریخ خود انہوں نے لکھ کر معارف میں چھپوائی ہے، مولانا شبلی مرحوم کے ذریعہ سے اور ان کی پسند سے کتابیں خریدا کرتے، لکھنؤ میں عبدالحسین اور واجد حسین قلمی کتابوں کے تاجر تھے، لکھنؤ آتے تھے تو ان کے نوادر دیکھتے اور چھانٹ کر لے جاتے، یوں بھی کتابیں ان کے پاس پہنچتی رہتی تھیں، حیدرآباد کے قیام کے زمانہ میں بھی بہت سی کتابیں حاصل کیں، میں جب ۱۹۲۰؁ء کے آخر میں یورپ سے واپس آیا، تو عزیزوں بزرگوں کے لئے جو تحفے لایا مرحوم کے لئے نستعلیق کے اچھے خطاطوں کی وصلیوں کی عکسی تصاویر کا مجموعہ لاکر پیش کیا۔
پہلے تو اصل وطن علی گڑھ میں بھیکم پور میں تھا، بعد کو بھیکم پور سے کچھ دور ان کے نام سے ان کے والد مغفور نے حبیب گنج کے نام ایک گاؤں آباد کیا تھا، وہیں زنانہ اور مردانہ مکانات، مسجد اور ایک کتب خانہ کی عمارت تیار کی تھی، زمینداری کے شغل کے بعد بھی یہی کتب خانہ ان کی دلچسپی کا مرکز تھا۔معمول تھا کہ صبح کی نماز کے بعد ہاتھ میں ایک بڑی سی لکڑی لے کر باغ میں سیر کو نکل جاتے، اس وقت ان کے دوسرے ہاتھ میں تسبیح ہوتی، لکھنؤ آتے تو صبح کو پیدل منشی احتشام علی کی کوٹھی، واقع خیالی گنج سے مولوی عبدالباری صاحب ندوی کی کوٹھی ہارڈنگ روڈ تک پیدل جاتے، واپسی سواری پر ہوتی، دارالمصنفین آتے تو احاطہ کے اندر کمرہ کے باہر روش پر ٹہلا کرتے۔
ایک دفعہ دارالمصنفین کا جلسۂ انتظامیہ رمضان المبارک میں مقرر کیا، ہم نے عذر کرنا چاہا تو جواب میں لکھا کہ کیا رمضان مسلمانوں کے کام میں مانع ہے، غرض تشریف لائے، اس زمانہ میں وہ چائے کے بجائے اُولٹین پیتے تھے، میں کافی اور مولوی مسعود علی صاحب چائے پیتے تھے، سحری میں یہ تینوں شراب الصالحین لائی جائیں اور ہر ایک کا ایک ایک دور چلتا اور بڑی خوشی سے پیتے اور بعد کی ملاقاتوں میں اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے۔ دارالمصنفین کی مسجد مرحوم ہی کی کوشش سے نواب مزمل اﷲ خان مرحوم کی امداد سے مولوی مسعود علی صاحب کی نگرانی اور انجینئرنگ میں بنی، پھر دارالعلوم ندوہ کی مسجد بھی برادر موصوف ہی کی نگرانی اور انجینئرنگ میں بنی، مرحوم دونوں کو دیکھ کر برادر موصوف کے تعمیری ذوق کو بہت پسند فرماتے تھے، چنانچہ جب وہ علی گڑھ میں حبیب منزل بنوانے لگے تو مولوی صاحب موصوف کو بلواکر ان سے مشورہ کیا۔ انہوں نے جو مشورہ دیا، اس میں سے سامنے کی روکار عمارت ہے، فرماتے تھے کہ اگر یہ حصہ نہ بنتا، تو یہ عمارت کچھ نہ ہوتی۔
مرحوم کے اخلاق کی دو خصوصیتیں عجیب تھیں، ایک یہ جس شخص سے جس جہت سے ان کا تعلق ہوتا، وہ اس سے اسی جہت سے ملتے اور اسی کے متعلق باتیں کرتے اس کی دوسری جہتوں سے ان کا کوئی تعلق نہ ہوتا، حکیم اجمل خان مرحوم سے گہرے تعلقات تھے، مگر یہ یک جہتی، قدیم قلمی مخطوطات اور قدیم تہذیب و شرافت کے افکار سے تھی، ان دونوں کی ملاقاتوں میں یہی تذکرے رہتے، کہیں بیچ میں سیاست کا نام نہیں آتا، مولاناابوالکلام سے بھی مولانا شبلی کے واسطہ سے ان کے تعلقات تھے، ان کی ملاقات اور مکاتبت بھی جو چھپ چکی ہے سیاست کے تذکرہ سے خالی ہے، میری زندگی پر مختلف دور گزرے ہیں، جن میں سیاست بھی ہے، مگر کبھی کسی خط میں نہ میں نے اس کے متعلق کچھ لکھا اور نہ کبھی انہوں نے پوچھا۔ ان کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ ان کی مجلس میں کبھی کسی کی برائی یا غیبت نہیں ہوتی، کوئی کرتا بھی تو اڑا دیتے، خطوط میں بھی احتیاط تھی، اگر نا گزیر طور سے کچھ ذکر آتا تو اس طرح اشارہ کنایہ میں کہتے کہ غیر اس کے سمجھنے سے قاصر رہتے۔
مرحوم کو اچھی اور تاریخی یادگاروں کا شوق تھا، بعض بادشاہوں کے فرامین تلواریں یا خنجر ان کے پاس تھے۔ میں جب ۱۹۳۴؁ء میں کابل کے سفر سے واپس آیا اس کے بعد مرحوم دارالمصنفین آئے، تو قالینوں کا تذکرہ نکلا، میں نے عرض کیا کہ نادر شاہ شاہ کابل نے مجھے ایک قالین عنایت کیا ہے، ان کو دکھایا تو اس کو پسند کیا، ملا صاحب سے جو ان کے رفیق خاص تھے اور ہمیشہ سفر میں ساتھ رہتے تھے، فرمایا ’’ملاجی یہ تو پٹھانوں کا مال ہے، ساتھ باندھ لو‘‘۔ چنانچہ وہ قالین ان کے نذر کردیا کہ شاہاں بشاہاں می دہند، فقیروں کے یہاں اس کا کیا کام، البتہ شاہ کی دی ہوئی تسبیح سبزشاہ مقصود کی فقیر کے پاس ہے۔
مرحوم بزرگوں کے قصے، لطیفے، حالات اور حکایتیں اس قدر ذوق و شوق و لطف سے مجلس میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ اس وقت وہ بلبل ہزار داستان معلوم ہوتے تھے، ان کی تقریروں کا بھی یہی رنگ تھا، آواز گو پست تھی، مگر تقریر مسلسل اور تاریخی واقعات کے حوالوں سے پرتاثیر ہوتی تھی، ان کی انشاء پردازی کا بھی ایک خاص رنگ تھا، نہایت ستھرا اور پاکیزہ تکلف سے بری، تصنّع سے خالی اور آورد سے پاک، بزرگوں کے تذکرے ادب سے کرتے تھے، زبان فطرۃًنہایت ادب شناس عنایت ہوئی تھی، لہجہ میں سختی اور آواز میں کرختگی مطلق نہ تھی، گرم سے گرم موقعوں پر بھی وہ حدود سے باہر قدم نہیں رکھتے تھے۔
بظاہر وہ اخلاق میں بڑے نرم اور مرنج و مرنجان تھے، مگر جب کسی وقت کسی چیز پر اڑ جاتے تو پھر اس سے نہ ٹلتے تھے، چنانچہ حیدرآباد سے علیحدگی کا سبب یہی پیش آیا، اس پر ایک شعر انہوں نے کہا جو مجھے لکھ بھیجا تھا۔
شاہبازِ ہمتم ، ربطے بدست شاہ داشت
دستِ دیگر ترک کردہ در ہوا پرواز کرد
یہ بھی ان کی سیرت کا قابل ذکر واقعہ ہے کہ باوجود ایک رئیس ابن رئیس ہونے کے اور حکام ضلع سے اچھے تعلقات رکھنے کے سرکاری اعزاز و احترام اور خطاب و القاب سے بچتے تھے، ایک دفعہ ان کو شمس العلماء کا خطاب ملنے والا تھا، ان کو خبر ہوئی تو پوری کوشش کی کہ اس خطاب سے ان کو بری رکھا جائے، فرماتے تھے کہ حیدرآباد کا خطاب اس لئے قبول کیا کہ یہ ایک دولت اسلامیہ کی نشانی تھی۔
مرحوم کو ملت اسلامیہ سے بڑی محبت تھی، اس کے اچھے واقعات اور مسرت بخش تذکروں سے خوش ہوتے تھے اور اس کے نفاق و اختلاف کی باتوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہتے، ندوہ کے باہمی اختلاف کے زمانہ میں باوجود اس کے طرفین دوست تھے، دونوں سے بیگانہ رہے اور جب مولانا شبلی کی وفات کے بعد مصالحت کا زمانہ آیا تو وہ سب سے آگے تھے۔
مرحوم گو سیاست سے سروکار نہیں رکھتے تھے، تاہم ملک کے پچھلے واقعات سے بہت غمگین تھے، عمر کے ساتھ کچھ ملکی اور کچھ خانگی افکار نے بھی ان کے دل و دماغ کو متاثر کیا، مگر ضابط اور متحمل ایسے تھے کہ کبھی اس داستان کاایک حرف زبان پر نہیں آیا، ان کے قویٰ میں سب سے پہلے ان کے حافظہ نے جواب دیا، اکثر بات بھول جاتے، جب کاروان خیال نکلا، تو اس میں مولانا ابوالکلام کے جواب میں ان کا یہ بیان پڑھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ’’ہاں مجھے یاد ہے کہ دو نوجوان ابوالنصر اور ابوالکلام نمایاں ہوئے تھے اسی سلسلہ میں سنا کہ آپ بغداد چلے گئے۔ تفصیلات اب معلوم ہوئیں‘‘۔ میں نے انہیں لکھا کہ یہ صحیح ہے کہ سفر عراق پر (شاید ۱۹۰۶؁ء میں) دونوں جوان عراق کے سفر کو نکلے تھے جن میں سے ایک ابوالنصر غلام یاسین (مولانا ابوالکلام کے بڑے بھائی) تھے، ابوالکلام نہیں تھے، ان کے رفیق اس سفر میں حافظ عبدالرحمان امرتسری تھے اور اس وقت مولانا ابوالکلام امرتسر میں وکیل کے ایڈیٹر تھے، بیچارے ابوالنصر نے عراق میں انتقال کیا، ہندوستان خبر آئی، تو مولانا ابوالکلام نے وکیلؔ میں اپنے حزن و غم کا اظہار فرمایا، اخیر میں میں نے لکھا کہ آپ کے اسطرح تصدیق کردینے سے افسانہ بھی تاریخ بن جائے گی۔اس پر مرحوم نے خاموشی اختیار کی اور کچھ جواب نہیں دیا، یہ ان کی خاص عادت تھی کہ جس بات پر گفتگو کرنا نہیں چاہتے اس کے جواب سے اعراض کرتے، اسی سے ان کے اداشناس ان کے مطلب کو سمجھ جاتے۔
مرحوم کو بزرگوں کی یادگاروں سے والہانہ شیفتگی تھی، پٹنہ کے اجلاس ندوہ میں غالباً حاجی شاہ منور علی دربھنگوی بانی مدرسہ امدادیہ دربھنگہ جو حضرت حاجی امداداﷲ صاحب مہاجر مکی کے خلیفہ تھے، ندوہ کے جلسہ میں وہ دستار سرپر باندھ کر آئے جو حضرت حاجی صاحب کا عطیہ اور تبرک تھا، ایک تعلیم یافتہ کی تقریر پر جلسہ میں ایک ایسا پرعظمت جوش، علماء، مشائخ، صلحاء اور عامۂ مسلمین پر طارہ ہوا کہ جو جس کے پاس تھا وہ ندوہ کے نذر کردیا، شاہ منور علی صاحب نے وہی دستار اتار پھینک دی، وہ دستار نیلام ہوکر بڑی قیمت پر فروخت ہوئی۔ وہ کون خوش قسمت تھا، جس نے آگے بڑھ کر اس کی حسب حیثیت قیمت ادا کی اور اس کو اٹھا کر آنکھوں سے لگایا۔ نوجوان حبیب الرحمان خان شروانی! پھر اس کو وہ ہمیشہ اپنے لئے طرۂ سعادت سمجھتے رہے۔ ان کے اخیر دور کی یادگاروں میں استاذ العلماء مولانا لطف اﷲ صاحب کی سوانح عمری اور خطیب بغدادی پر حنفی نقطۂ نظر سے تبصرہ ہے، جو معارف میں چھپے ہیں اور الگ بھی شائع ہوئے، انہوں نے مولانا سلیمان اشرف صاحب کی کتاب المبین پر ایک تبصرہ لکھا اور میرے پاس بھیجا، اسی زمانہ میں فقیر کی تصنیف ’’عرب و ہند کے تعلقات‘‘ چھپی تھی، جی چاہا کہ مرحوم کے قلم سے اس پر ایک تبصرہ شائع ہوتا تو مصنف کو فخر و مباحات کا ایک موقع ہاتھ آتا، اس موقع پر اپنے مطلب کو میں نے اس طرح ادا کیا، ’’ المبین پر تبصرہ ملا، یاد آیا کہ حضرۃالاستاذ کی تصنیفات پر آپ کا تبصرہ ہمیشہ ہوا کرتا، چنانچہ المامون، الغزالی، سوانح مولانا روم اور شعرالعجم وغیرہ پر تبصرے پڑھے، کیا حضرۃ الاستاذ کی متروکہ موروثی سعادتوں میں سے راقم کو بھی اس سنت دیرینہ کی موروثی سعادت کے حصول کا موقع ملے گا‘‘، مرحوم نے بڑی خوشی سے تبصرہ لکھا، جو معارف میں شائع ہوا۔
مرحوم کی پابندی وضع کی ایک خاص یادگار علی گڑھ میں مولانا سلیمان اشرف صاحب کی قیام گاہ میں اخیر وقت کی حاضری تھی، جو بعد مغرب تک جاری رہتی۔ جب وہ علی گڑھ آتے، یہ حاضری بلاناغہ ہر موسم میں اور ہمیشہ رہی۔ اس وقت دلچسپی کا سامان علمی مسائل پر گفتگو رہتی، مولانا سلمان اشرف صاحب کی وفات کے بعد مولانا مفتی عبداللطیف صاحب کی قیام گاہ پر اسی وقت اور اسی حیثیت سے یہ مجلس جاری رہی۔
مرحوم اپنے دور کے خاتم تھے، اب اس جوہر شرافت کا نمونہ کبھی دیکھنے میں نہ آئے گا، اب گلستاں کا رنگ اور ہے، چاردانگ میں ہوائیں اور سمت کی چل رہی ہیں اب ریاست اور ریاست کے ساتھ کمالات و فضائل کا یہ اجتماع گزشتہ تاریخ کا ورق بن کر رہ جائے گا، مگر انشاء اﷲ یہ ورق یادگار رہے گا۔
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
(سید سلیمان ندوی، دسمبر ۱۹۵۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...