Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا فضل الحسن حسرتؔ موہانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا فضل الحسن حسرتؔ موہانی
ARI Id

1676046599977_54337982

Access

Open/Free Access

Pages

190

مولانا فضل الحسن حسرتؔ موہانی
شاید جہاں سے حسرتِ دیوانہ چل بسا
ہاں ہاں جب بھی تو چشمِ جنون اشکبار ہے
بالآخر کئی مہینہ کی موت و حیات کی کشمکش کے بعد ہمارے قافلہ آزادی کا پہلا حدی خوان اور میرکاروان بھی کوچ کرگیا اور گلستانِ تغزل کا بلبلِ نغمہ سنج ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا، یعنی گذشتہ ۱۳؍ مئی کو سیدالاحرار مولانا فضل الحسن حسرت موہانی نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا کلُّ مَنْ عَلَیھْاَ فَانٍ ویبقی وجہ رَبِّکَ ذوالجلال وَالاکرام۔[الرحمن:۲۶۔۲۷]
مولانا حسرت کی ذات ستودہ صفات مجموعہ اضداد و کمالات تھی، وہ ملک و وطن کے جانباز مجاہد اور شاعرِ رنگین نوا بھی، انقلابی سوشلسٹ بھی تھے اور صاحبِ و جدوحال صوفی بھی، بوریہ نشینِ فقرومسکنت بھی اور مسندنشینِ غروتمکنت بھی انہوں نے اس زمانہ میں انگریزوں کی مخالفت کی صدا بلند کی ، جب اسکی پاداش دارورسن تھی، اس زمانہ میں آزادی کا صور پھونکا جب کانگریس بھی اس نام سے گھبراتی تھی اور بڑے بڑے محبِ وطن آزادی کے کھلونوں میں الجھے ہوئے تھے، اور اس زمانہ میں قوم و ملک کے لیے قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں جب جیل سیاسی تفریح گاہ نہیں بلکہ حقیقۃً قید محن تھے، انہوں نے اس راہ میں جو قربانیاں کیں اور جتنے مصائب اٹھائے اسکی مثال اس زمانہ کے کسی لیڈر کی زندگی میں مشکل ہی سے مل سکتی ہے اور موجودہ مدعیانِ آزادی کو توآزادی کا شعور و احساس بھی نہیں تھا، بلکہ حق یہ ہے کہ گاندھی جی بھی ایک عرصے تک اس راہ میں ان سے بہت پیچھے رہے، حسرت کایہ دعوی اولیت بالکل صحیح ہے۔
تو نے کی حسرت عیاں تہذیبِ رسمِ عاشقی
اس سے پہلے اعتبارِ شانِ رسوائی نہ تھا
وہ اخلاص و صداقت حق گوئی و حق پرستی اور جرات و بے باکی کے جس درجہ پر تھے، اس میں ریانفاق اور مصلحت اندیشی کا کہیں گذر نہ تھا، اور اپنے خیالات میں اتنے پختہ اور متشدد تھے کہ اس میں ادنیٰ لچک بھی گوارا نہ تھی، ان کی بعض رائیں بھی عام رایوں سے الگ اور نرالی ہوتی تھیں اس لیے وہ موجودہ پر فریب سیاست کے ساتھ نہ چل سکے، اور نہ سیاست فروش لیڈروں کی طرح کوئی دنیاوی جاہ و منصب حاصل کر سکے، لیکن ان کے کردار و سیرت کا اثر موافقین و مخالفین سب پر تھا، اور ہردل میں ان کی عزت و وقعت تھی اور وہ بتدا سے کانگریس کے سرگرم رکن اور آزادی کی تحریک میں اتنا آگے تھے کہ کانگریس بھی ان کا ساتھ نہ دے سکی تھی، مگر ادھر چند برسوں سے وہ اس کی فرقہ پرستی سے بددل ہوکر لیگ میں شامل ہوگئے تھے، مگر اس وقت بھی ان کے خیالات کی شدت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا چنانچہ لیگ میں آزادیِ کامل کارزولیشن زیادہ تر انہی کی کوشش سے پاس ہوا تھا قائداعظم اپنی خودرانی اور نزاکتِ مزاج کے باوجود مولانا کا بڑا احترام اور ان کے اخلاص و صداقت کی بڑی قدر کرتے تھے، ان کا یہ کردار بھی لائقِ ستائش ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد انہوں نے حصولِ جاہ کے لیے پاکستان کی راہ نہیں لی، بلکہ ہندوستان میں رہ کر مسلمانوں کے درد و دکھ میں برابر کے شریک رہے ان کے خیالات میں بڑی اپچ تھی، انہوں نے ایک اسلامی کمیونزم ایجاد کی تھی جس کے بڑے مبلغ تھے، چند سال ہوئے اعظم گڑھ آئے تھے تو دارالمصنفین بھی تشریف لائے اور اسلامی کمیونزم کو سمجھانے کی کوشش کی تھی ، اور اس سے متعلق اپنی ایک نظم بھی سنائی تھی، اس سلسلہ میں دو ادبی لطائف یاد رہ گئے ایک یہ کہ سویٹ اسلامی سویت (مساوات) سے اور کامریڈ اخوت سے ماخوذ ہے۔
خارزارسیاست کی اس رہ نوردی کے ساتھ وہ اس دور کے سب سے بڑے غزل گو تھے اور آخری دور کے بگڑی ہوئی مذاقِ شاعری کی اصلاح انہی نے کی ، اور بے لطف رسمی تغزل کو صحیح معنوں میں دل کی واردات بنادیا، جس میں حقیقی تغزل کی ساری لطافتیں اور رعنائیاں موجود تھیں، اس لحاظ سے وہ اردو غزل کے مصلح و مجدد تھے اور اس میں یکتائی کا یہ دعوی بالکل صحیح تھا۔
حسرت مرے کلام میں مومن کے رنگ ہیں
ملکِ سخن میں مجھ سا کوئی دوسرا نہیں
شاعری کے علاوہ انہوں نے دوسرے ادبی پہلووؤں سے بھی اردو کی بڑی خدمت کی ایک زمانہ میں ان کا رسالہ اردوئے معلی اردو کا سب سے ممتاز رسالہ تھا، اور اردو کی خدمت میں اس کا کوئی حریف نہ تھا مگر اب وہ ایک عرصے سے قریب قریب بند ہوگیا تھا، تاہم چند سال پہلے تک کبھی کبھی اس کا کوئی نمبر نکل آتا تھا، اس میں زیادہ تر ان قدیم اساتذہ کے کلام کا انتخاب ہوتا تھا، جن کے دیوان اب تک نہیں چھپ سکے ہیں، اس طرح انہوں نے سیکڑوں پرانے اساتذہ کے کلام کا معتد بہ حصہ محفوظ کردیا، جو اردو زبان کی بڑی خدمت ہے۔
مولانا کے پاس شعراء کے مطبوعہ و غیرمطبوعہ دواوین اور تذکروں کا نہایت عمدہ ذخیرہ تھا، جو مشکل سے کسی ایک جگہ مل سکتا ہے ان کی گذشتہ آمد کے موقع پر میں نے پوچھا مولانا آپ کے بعد یہ ذخیرہ کیا ہوگا جواب دیا جو اہلِ ہوگا وہ لے لے گا، میں نے عرض کیا ہم لوگوں سے زیادہ کون اہل ہوگا ہنس کے فرمایا تم ہی لوگ لے لینا، مولانا کے ورثہ کو چاہیے کہ وہ اسی قیمتی ذخیرہ کو ضائع نہ ہونے دیں، مرحوم کی ادبی یادگاروں میں ان کے مطبوعہ دواوین اردوئے معلی کے مضامین، بعض اساتذہ کے مرتب و شائع کردہ دیوان قدیم اساتذہ کے کلام کا انتخاب اور دیوان غالب کی شرح ہے، خیال ہے کہ ان کے علاوہ وہ کچھ غیر مطبوعہ یادگاریں بھی ہوں گی جن کی اشاعت کا انتظام ان کے ورثہ اور دوسرے علم دوست اصحاب کو کرنا چاہئے۔
ذاتی حیثیت سے مولانا اخلاق و شرافت اور سادگی و تواضع کا پیکر تھے، ان کی زندگی بڑی درویشانہ اور مجاہدانہ تھی، سادگی و مساوات کی حد تک وہ عملاً کمیونسٹ اور شان استغنا و بے نیازی اور فقرودرویشی میں مرد قلندر تھی عقیدۃً خوش عقیدہ اور صوفی مشرب تھے، حضرت مولانا عبدالوہاب فرنگی محلی رحمتہ اﷲ علیہ سے بیعت تھے، قوالی و سماع سے بڑا ذوق تھا اپنے سلسلہ کے بزرگوں کے عرسوں میں بڑی پابندی سے شریک ہوتے تھے، انتقال بھی مرشد ہی کے آستانہ فرنگی محل میں اور انہی کے زیر سایہ باغ مولانا انوار میں آسودہ خواب ہوئے اور ان کی یہ پیشن گوئی پوری ہوئی:
گردِ پیر مغان تھا میں یہاں تک حسرتؔ
کہ فنا ہوکے بھی خاک درِ میخانہ ہوا
اﷲ تعالیٰ اس گردِپیر مغان کو کوثر و تسنیم کی شراب ِ طہور سے نوازے۔
(شاہ معین الدین ندوی، جون ۱۹۵۱ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...