Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > میر غلام بھیک نیرنگؔ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

میر غلام بھیک نیرنگؔ
ARI Id

1676046599977_54337990

Access

Open/Free Access

Pages

201

پروفیسر شیخ عبدالقادر سرفراز (پونا)
ناسک (بمبئی) کے ایک خط سے جو مرحوم کے چھوٹے بھائی نے مجھے لکھا تھا یہ معلوم کرکے بڑا تاسف ہوا کہ میرے چالیس برس کے دوست پروفیسر شیخ عبدالقادر سرفراز نے پونہ میں اپنے مکان کا شانہ حق میں ۱۰؍ دسمبر ۱۹۵۲؁ء کو ساڑھے نو بجے انتقال فرمایا، اس کے بعد مرحوم کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر شیخ عبدالحق ایم، اے۔ پی، ایچ، ڈی پروفیسر اردو فارسی (بمبئی) کی اطلاع سے اور بہت سی باتیں معلوم ہوئیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ مرحوم کو بڑھاپے اور شیخوخت کے ضعف کے سوا کوئی خاص مرض نہ تھا، بصارت سے معذور ہوچکے تھے، ایک ہفتہ سے ضعف بڑھتا جاتا تھا، ڈاکٹروں کے معائنہ سے قلب اور اعضائے رئیسہ توانا پائے گئے، حواس آخر تک بجا تھے، سوا نو بجے خود آنکھیں بند کرلیں لب ہل رہے تھے، غالباً کلمہ پڑھ رہے تھے، ۱۵ منٹ کے بعد یعنی ساڑھے نو بجے صبح کو اس دنیائے فانی سے سفر اختیار کیا۔
۱۹؍ جولائی ۱۸۷۹؁ء پیدایش کی تاریخ تھی، بہتر (۷۲) برس کی عمر پائی، مرحوم کا خاندان دراصل یوپی کا باشندہ تھا، غدر کے ایام میں بمبئی کی طرف نکل گیا، مرحوم کے والد شیخ سرفراز ڈاکٹر تھے، انہوں نے ناسک کو اپنا وطن بنایا لیکن مرحوم کی عمر کا بڑا حصہ پونہ اور بمبئی میں گزرا ۱۹۰۲؁ء میں بمبئی یونیورسٹی سے ایم، اے پاس کیا اور غالباً ان کا خاص موضوع فارسی تھا، اس زمانہ میں ایک شریف ایرانی فاضل پروفیسر مرزا حیرت بمبئی یونیورسٹی میں فارسی کے مسندنشین صدر تھے، ان کا غیر معمولی فضل و کمال تمام بمبئی میں مسلم تھا، مرحوم شیخ عبدالقادر کو فارسی کا ذوق انہی کی صحبت سے حاصل ہوا، چنانچہ مرزا حیرتؔ کی انہوں نے مختصر سوانح عمری بھی لکھی ہے اور مجلس میں اکثر ان کے فضائل اور اخلاق اور حالات کا ذکر کیا کرتے تھے۔
ایم، اے ہونے کے بعد وہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے، اس زمانہ میں سندھ کا صوبہ بمبئی کے احاطہ سے ملحق تھا، اس لئے ان کا تقرر پہلے سندھ میں ہوا اور اس طرح زبانوں کے شائق کے لئے ایک نئی زبان سندھی کا دروازہ کھل گیا اور وہ اس سے کچھ ہی دنوں میں آشنا ہوگئے، یہاں ان کا قیام مختصر رہا، یہاں سے وہ جلد بمبئی منتقل کردیئے گئے جہاں یکے با دیگرے انفنسٹن کالج بمبئی اور دکن کالج پونہ میں السنۂ شرقیہ کے پروفیسر رہے۔ ۱۹۳۳؁ء میں ریٹائرڈ ہوکر انہوں نے اپنی بیوی اور تین صاحبزادوں کے ساتھ حج کیا، واپسی کے بعد بدستور اپنے مکان موسوم کاشانۂ حق پونہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔
مولانا شبلی مرحوم سے ان کی ملاقات ۱۹۰۸؁ء میں بمبئی میں ہوئی، اس وقت مولانا شعرالعجم کی تکمیل میں مصروف تھے، دونوں میں تعلقات کی وابستگی کا رستہ یہی فارسی شعر و ادب کا ذوق تھا، وہ فارسی کے یورپین مستشرقین کی تحقیقات سے مولانا کو مطلع کیا کرتے تھے اور بعض مضامین کے ترجمے بھیجا کرتے تھے، مکاتیب شبلی میں مرحوم کے نام مولانا کے جو خطوط ہیں، ان سے ان تعلقات کی پوری حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔
راقم سے مرحوم کی واقفیت کا واسطہ بھی مولانا ہی تھے، ۱۹۱۳؁ء میں جب وہ الہلال کلکتہ سے قطع تعلق کرکے واپس آیا تو ایک ماہوار سالہ کا خیال دل میں تھا جو الندوہ کا جانشین ہو، مولانا نے اس خیال کو پسند فرمایا اور مجھے لکھنؤ بلالیا، ابھی اس اسکیم پر غور ہی ہورہا تھا کہ ایک نئی صورت پیش آگئی، جس نے زندگی کا رخ بدل دیا۔
اﷲ تعالیٰ کا ایک عجیب معاملہ اس بندۂ بے استحقاق کے ساتھ پوری زندگی میں جاری رہا ہے، کوئی خدمت یا کوئی علمی و قومی منصب ہو، میری طلب اور سعی و کوشش کے بغیر مجھے عنایت ہوا، چنانچہ جہاں گیا، بحمداﷲ مطلوب بن کرگیا، طالب بن کر نہیں، چنانچہ ایسا ہی اس وقت پیش آیا، انگریزی عہد میں کسی طلب و درخواست کے بغیر کسی سرکاری نوکری پانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، مگر میرے ساتھ یہ بھی ہوا، میں انہی دنوں لکھنؤ میں مقیم تھا کہ مجھے بمبئی گورنمنٹ کے محکمۂ تعلیم کا سرکاری لفافہ موصول ہوا کہ تم کو دکن کالج پونہ میں السنۂ مشرقیہ کا اسسٹنٹ پروفیسر مقرر کیا گیا میں سمجھا کہ میرے پتہ پر یہ غلط مراسلہ آگیا ہے، کیونکہ میں نے اس کی درخواست بھی نہیں دی تھی، میں اسی حیص بیص میں تھا کہ اس مراسلہ کو کیا کروں کہ شام کی حاضری میں مولانا سے اس واقعہ کو بیان کیا، فرمایا کہ مراسلہ آگیا اچھا ہوا، میں نے ہی تحریک کی تھی، پروفیسر عبدالقادر صاحب کو شکریہ کا خط لکھو اور پونہ روانہ ہوجاؤ، میں نے کچھ معذرت کرنی چاہی، مگر ان کی خوشی اسی میں پائی اور شیخ صاحب کے پاس پونہ روانہ ہوگیا اور ڈھائی تین سال کے قریب ان کے ساتھ رہا۔ انہوں نے اپنے بنگلہ کے پاس ہی ایک چھوٹی سی بنگلیا میں میرے قیام کا انتظام کیا اور اپنے ہی پاس مہمان رکھا اور اپنے ہی ساتھ مجھے کالج لانے اور لے جانے لگے، اس واقعہ کے ڈیڑھ سال کے بعد مولانا نے نومبر ۱۹۱۴؁ء میں انتقال فرمایا اور مجھے سب کام چھوڑ کر سیرت کی تکمیل کا اشارہ ہوا، چنانچہ دارالمصنفین کے قیام کے بعد ایک سال کے اندر مجھے پونہ چھوڑنا پڑا اور زندگی نے ایک نئے رخ پر پلٹا کھایا۔
شیخ صاحب کے ساتھ یہ چند سال اس طرح گزرے کہ روز و شب میں ضروری اوقات کے علاوہ ہمیشہ یکجائی رہتی اور تجربہ نے بتایا کہ شیخ صاحب جیسا شریف انسان دنیا نے کم پیدا کیا، وہ ایک مرنجان مرنج طبیعت رکھتے تھے، دوستوں کی ہر ضرورت میں کام آتے تھے، نہایت صاف دل اور بے تکلف تھے، پونہ سے چلے آنے کے بعد بانکی پور کی خدا بخش خان لائبریری کے دیکھنے کے بہانہ وہ میرے پاس پٹنہ اور پھر اعظم گڑھ دارالمصنفین آئے اور چند روز یہاں بہت خوشی اور دلچسپی کے ساتھ رہے، وہ بمبئی کے اضلاع کے علاوہ ہندوستان کے کسی دوسرے شہر یا صوبہ میں شاید کبھی گئے ہوں، اس لئے یوپی کے موسم اور آب و ہوا اور اسلامی تمدن وغیرہ کو دیکھ کر انہیں بڑی دلچسپی ہوئی۔
میرے قیام پونہ کی بڑی یادگار ’’ارض القرآن‘‘ کی تصنیف ہے، اگرچہ اس کا آغاز کلکتہ میں ہی کیا جاچکا تھا، مگر اس کی تکمیل اسی زمانہ میں ہوئی اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر شیخ صاحب کی رفاقت نہ ہوتی تو اس کتاب کو کبھی اس طرح نہ لکھ سکتا، پونہ میں ہونے کی وجہ سے جہاں اسرائیلی یہودیوں کی سکونت ہے، مجھے عبرانی سے آشنا ہونے کی فرصت ہاتھ آئی اور شیخ صاحب کے ذریعہ سے بمبئی کے کتب خانوں سے کتابوں اور پرانے علمی رسالوں کے ملنے کے مواقع ہاتھ آئے اور عجب نہیں کہ اسی کام کے لئے مشیت الٰہی نے پونہ کا قیام میرے لئے مقدر کیا تھا۔
شیخ صاحب مرحوم کو زبانوں کے سیکھنے کا عجب ملکہ تھا، وہ مہاراشٹر میں رہنے کے باوجود اردو مادری زبان کی طرح جانتے تھے اور لکھتے اور بولتے تھے، جدید اور قدیم فارسی دونوں پر قدرت حاصل تھی، عربی زبان وہ اس وقت نہیں جانتے تھے اور میرے بلوانے سے ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ عربی زبان سیکھیں چنانچہ میرے پہنچنے پر وہ باقاعدہ طالب علموں کی طرح کچھ دنوں عربی صرف و نحو پڑھتے رہے، اس کے بعد بمبئی کے قیام میں عربوں سے عربی بولنے کی مشق کی اور خاصی عربی بولنے اور سمجھنے لگے، مرہٹی زبان مثل ایک برہمن مرہٹہ کے وہ جانتے تھے اور اس بارہ میں خود برہمن مرہٹے اور گورنمنٹ ان کی قابلیت کو تسلیم کرتی تھی اور مرہٹی زبانوں کی کمیٹیوں میں ان کو ممبر بناتی تھی، بمبئی یونیورسٹی میں مرہٹی ٹیکسٹ بک کمیٹی کے ممبر رہے، مہاراشٹر یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی کا ممبر بھی حکومت نے ان کو بنایا، اس کمیٹی کا خیال تھا کہ مہاراشٹر کے مسلمانوں کی زبان مرہٹی ہے، مگر شیخ صاحب نے تاریخی دلائل اور شخصی شہادتوں سے ثابت کردیا کہ ان کی زبان دکھنی اردو ہے اور کمیٹی کی رپورٹ کے ساتھ ایک طویل اختلافی نوٹ لکھا، جس کو حکومت نے رپورٹ کے ساتھ شائع کیا۔
پوری یونیورسٹی میں السنۂ مشرقیہ کے دائرہ میں شیخ صاحب کی حیثیت ممتاز تھی، وہ اس کے نصاب، امتحان اور کمیٹیوں میں ہمیشہ ممبر ہوتے رہے، ۱۹۱۹؁ء میں وہ بمبئی یونیورسٹی کے فیلو اور ۱۹۲۰؁ء میں انڈین ایجوکیشنل سروس میں داخل ہوئے، ۱۹۲۴؁ء میں وہ بمبئی برٹش رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے فیلو اور ۱۹۲۶؁ء میں بمبئی جی پی یعنی جسٹس آف پیس مقرر ہوئے، اس کے علاوہ تقریباً چودہ مختلف تعلیمی انجمنوں کے صدر یا ممبر تھے، ۱۹۳۱؁ء میں گورنمنٹ کی ناقدرشناسی سے شمس العلماء کے بجائے خان بہادر بنائے گئے، جس کو انہوں نے اپنے نام کے ساتھ بہت کم استعمال کیا۔
شیخ صاحب مرحوم کا تحقیقاتی مطالعہ بہت وسیع تھا، کتابوں کے شائق تھے۔ اور اچھا خاصہ مختصر سا کتب خانہ ان کے پاس جمع تھا، دن رات مطالعہ اور تحقیقات کے سوا ان کا کوئی دوسرا کام نہ تھا، ان کو شکایت تھی کہ کام کرنے میں نیند آنے لگتی ہے اس کے لئے یہ تدبیر کی کہ میز اونچی کرکے کھڑے ہوکر کام کرنا شروع کیا، گو انہیں لکھنے کی فرصت کم ملتی تھی، باایں ہمہ انہوں نے اپنی کچھ تحریری یادگاریں بھی چھوڑیں، جو زیادہ تر انگریزی اور کچھ اردو میں ہیں، پروفیسر مرزا حیرت کے سوانح، قصائد، قاآنی اور انگریزی میں تاریخ طبری کے کچھ حصے کتابی شکل میں شائع کئے، مطبوعہ کتابوں کی تصحیح اور تحشیہ جیسے غیر دلچسپ کام سے بھی انہیں دلچسپی تھی، چنانچہ اپنے مطالعہ اور کورس کی کتابوں کی یہ خدمت اکثر انجام دیا کرتے تھے، اسی سلسلہ میں فارسی شعراء میں سے انوریؔ، ظہیر فاریابیؔ، قاآنیؔ اور خاقانیؔ کے دواوین اور سجۃ الابرار جامی کی پوری تصحیح کی اور حاشیے لکھے، وقائع نعمتؔ خان عالی کی نہایت دقت نظر سے تصحیح کی، متن درست کیا، تاریخی واقعات اور ادبی نکات پر نوٹ لکھے، جہاں کشائے نادری اور مثنوی معنوی پر حواشی چڑھائے، پروفیسر براؤن کی مشہور تصنیف تاریخ ادبیات ایران پر ناقدانہ انداز سے حاشیے لکھے، لیکن افسوس ہے کہ ان میں سے کوئی چیز شائع نہیں ہوئی اور یہ سب مسودے ان کے کتب خانہ میں سربستہ راز کی طرح امانت ہیں، شاید ان کے بڑے صاحبزادہ ڈاکٹر عبدالحق ادھر توجہ کریں۔ ان کی جو کتاب شائع ہوئی ہے وہ بمبئی یونیورسٹی کے فارسی، اردو اور عربی مخطوطات کی توضیحی فہرست ہے جو کئی سوصفحوں میں ہے اور جس کو یونیورسٹی نے شائع کیا ہے، یہ فہرست مشرق و مغرب کے اصول تنقید اور طرز تحقیق کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے اور مستشرقین کی تحقیقات پر جابجا تنقیدیں کی گئی ہیں، ایک بسیط مقالہ انگریزی میں فارسی یائے معروف ویائے مجہول پر لکھا، جو بمبئی رائل ایشیاٹک سوسائٹی میں چھپا اور اس کا خلاصہ ترجمہ معارف میں طبع ہوا۔
شیخ صاحب کو مولانا شبلی مرحوم سے عقیدتمندانہ شیفتگی اور ہم خواجہ تاشوں سے مخلصانہ محبت تھی، جس کو زمانہ کی قدامت اور مکانوں کی مسافت بھی کم نہ کرسکی، جب میرا کراچی آنا ہوا تو ایک خط میں حسب ذیل شعر لکھ کر بھیجا۔
وفا آموختی از مابکار دیگراں کردی
ربودی گوہرے از مانثارِ دیگراں کردی
افسوس کہ علم و فضیلت اور اخلاق و اخلاص کا یہ مجسمہ ہماری نگاہوں سے ہمیشہ کے لئے پوشیدہ ہوگیا، وہ پونہ کے ہندو اور مسلمانوں میں یکساں ہر دلعزیز تھے، اس لئے ان کی وفات پر سب نے سوگ کیا اور ان کے جنازہ کی مشایعت میں سب نے شرکت کی اور یٰسین قبرستان میں اپنی اہلیہ مرحومہ کی قبر کے پہلو میں دفن ہوئے، مگر مرحوم کا اصلی مزار ان کے احباب کے دل ہیں، جس میں ان کی یاد ہمیشہ بسی رہے گی۔
بعد از وفاتِ تربت زمیں مجو
درسینہ ہائے مردمِ عارف مزارِ ما
(سید سلیمان ندوی، مارچ ۱۹۵۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...