Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مفتی کفایت اﷲ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مفتی کفایت اﷲ
ARI Id

1676046599977_54337992

Access

Open/Free Access

Pages

204

مولانامفتی کفایت اﷲ
ٍ افسوس ہے کہ گذشتہ مہینہ ہماری دینی و ملی عمارت کا ایک بڑا ستون گرگیا، اور ۳۱؍ دسمبر کی شب کو حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ صاحب مرحوم نے انتقال فرمایا، مفتی صاحب مرحوم اپنے فضل و کمال، دین و تقویٰ اور فہم و فراست کے لحاظ سے طبقۂ علماء میں نہایت ممتاز اور منفرد شخصیت رکھتے تھے، دینی علوم خصوصاً فقہ و فتاویٰ میں ان کا پایہ بہت بلند تھا ان کی پوری زندگی علمِ دین کی خدمت میں گزری اور وہ نصف صدی سے زیادہ درس و افتا کی مسند پر فائز رہے، دہلی کی مشہور دینی درس گاہ مدرسۂ امینیہ کے صدر مدرس بلکہ اس کے جزو کل تھے، اور یہ مدرسہ انہی سے عبارت تھا، اس علم و تقویٰ کے ساتھ وہ ایک مجاہد کا دل اور مدبر کا دماغ رکھتے تھے، خلافت اور ترک موالات کی تحریک کے زمانہ سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک تمام مذہبی و ملّی اور قومی و سیاسی تحریکوں میں ان کا نمایاں حصہ رہا، ایک زمانہ تک جمعیۃ العلماء کے صدر اور کانگریس کے رکن رکین رہے، اور ان دونوں کو ان کی بصیرت اور رہنمائی سے بڑا فائدہ پہنچا۔
مرحوم کا دماغ بڑا نکتہ رس اور سلجھا ہوا تھا، اور ان کی رائے نہایت متین اور صائب ہوتی تھی، پیچیدہ سے پیچیدہ گتھیوں کواپنی فراست سے سلجھادیتے تھے، اس لیے مذہبی اور ملکی و سیاسی دونوں جماعتوں میں ان کا بڑا وزن تھا، ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں ان کا خاص حصہ ہے، ملکی سیاست میں وہ اخیر تک کانگریس کے ہم خیال رہے، لیکن جب سے اس پر فرقہ پرستوں کا غلبہ ہوگیا تھا، اور اس میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت اور ان کی قربانیوں کی کوئی قدر باقی نہ رہ گئی تھی، عملاً اس سے کنارہ کش ہوگئے تھے، طبعاً نہایت سنجیدہ و متین تھے، اگرچہ مرحوم طبعی عمر کو پہنچ چکے تھے، انتقال کے وقت ۷۹ سال کی عمر تھی، مگر اب طبقۂ علماء میں ایسی جامع الحیثیات شخصیت کا پیدا ہونا مشکل ہے ، اس لیے ان کی وفات ہندوستان کے مسلمانوں کا بہت بڑا قومی حادثہ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ اس پیکر علم و عمل کو اپنی رحمتوں سے نوازے۔ (شاہ معین الدین ندوی، فروری ۱۹۵۳ء)

فقیہ الامۃ مولانا کفایت اﷲ رحمہ اﷲ
ولادت ۱۲۹۲؁ھ ؍ وفات ۱۳۷۲؁ھ
عیسوی سال ۱۹۵۲؁ء کے ختم کو ایک گھنٹہ ۳۵ منٹ باقی تھے، کہ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۵۲؁ء کو دس بجکر ۲۵ منٹ پر حضرت مفتی مولانا کفایت اﷲ صاحب دہلوی نے اپنے گھر واقع کوچہ چیلاں دہلی میں وفات پائی، یہ خبر یکم ۱۹۵۳؁ء کی صبح کو کراچی پہنچی اور لوگوں کو اس حادثۂ فاجعہ کے علم سے بڑا صدمہ ہوا، مختلف علماء نے اپنے تاثرات اخباروں میں چھپوائے اور جمعیۃ علمائے اسلام کی مجلس عالمہ اور ۳۲ علماء کی دستوری مجلس نے جس میں سارے پاکستان کے منتخب علماء موجود تھے، اس حادثہ پر غم کا اظہار کیا اور دعائے خیر کی۔
مرحوم کے نام سے واقفیت مجھے ۱۹۱۴؁ء میں ہوئی، جب ندوۃ العلماء کا اصلاحی اجلاس حکیم اجمل خاں صاحبؒ کی طلب پر دہلی میں منعقد ہوا تھا اور ارکان کی باہمی مخالفت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ مولانا شبلی کی تکفیر کا فتوےٰ دہلی میں مرتب ہوا، جس پر مفتی صاحب مرحوم کے دستخط تھے، اس کے بعد یہ نام ذہن سے اترگیا اور یکایک ۱۹۱۹؁ء میں جب مسلم لیگ کا استقبالیہ خطبہ ڈاکٹر انصاری نے پڑھا اور اس میں خلافت اور جزیرۃ العرب سے متعلق فقہی اور لغوی بحث پیش کی توخیال ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کو یہ مواد کس نے پیش کیا، اس سلسلہ میں مفتی صاحب کا نام پھر سنا اور اتفاقِ وقت دیکھئے کہ ایک ہی سال کے بعد ۱۹۲۰؁ء میں مجلس خلافت کی تحریک کے سلسلہ میں حکیم صاحب مرحوم کے دولت کدہ پر ایک جلسہ تھا، جس میں مفتی صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی، سب سے اول ان کی ظاہری صورت اور متواضع لباس کی بنا پر قیافہ نے ان کے فضل و کمال سے حسن ظن پیدا ہونے نہ دیا، مگر تھوڑی بات چیت سے پتہ چل گیا کہ اس غلاف کے اندر تلوار کیسی ہے، اس کے بعد خلافت اور جمعیۃالعلماء کے اجلاسوں میں بار بار ملاقات اور خلط ملط ان کے علمی، ذہنی اور اخلاقی علوئے شان کی نشاندہی کرتا چلا گیا، پھر تو یہ حال ہوا۔
یزیدک وجھہ حسنا

#اذا ما زدتہ نظراً
ممدوح کا چہرہ حسن میں اتنا ہی ترقی کرتا چلا جاتا ہے جتنا تم اس کو دیکھتے جاؤ۔
کئی دفعہ مرحوم کے ساتھ یکجائی سفر کا اتفاق ہوا، جس میں سب سے طویل سفر ۱۹۲۶؁ء میں حجاز کی موتمر اسلامی میں شرکت اور حج کی غرض سے کیا گیا تھا، ایک جہاز سے ہم سب کا جانا اور آنا مکۂ معظمہ میں قریب قریب قیام اور مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک اونٹوں پر ایک ہی قافلہ میں روانگی اور عرفات میں ایک ہی اونٹ پر مسجد نمرہ تک سواری نصیب ہوئی۔
دوسرا موقع یہ آیا کہ مفتی صاحب کے صاحبزادوں کی بات میں نے اعظم گڑھ میں ایک خاندان میں چھیڑی اور مفتی صاحب مع حافظ احمد سعید صاحب اعظم گڑھ میں دارالمصنفین آکر میرے مہمان ہوئے اور چند روز قیام فرمایا، وہ بات پکی نہیں ہوئی، لیکن اس اثناء میں ہماری دوستی پکی ہوگئی، آخری ہمرہی و ہمسفری ۱۹۴۱؁ء میں دہلی سے بھوپال تک ہوئی، جہاں ہم دونوں ریاست کی دعوت پر اس کے نکاح و طلاق کے ضابطوں پر نظرثانی کرنے کو بلائے گئے تھے اور ساتھ ہی سرکاری مہمان خانہ کے ایک ہی کمرہ میں ٹھہرے تھے۔
وطن اور خاندان: مرحوم کا وطن شاہجہاں پور تھا، مرحوم کا وجود اسلام کے عظیم الشان معاشرتی مساوات کا عملی ثبوت تھا، مولوی حافظ احمد سعید صاحب نے جو ان کے سب سے زیادہ قریب رہنے والے اور ان کے دست راست تھے مجھے بتایا کہ مرحوم کے مورثِ اعلیٰ یمن سے آئے تھے، روایت یوں بیان کی جاتی ہے کہ یمن سے سوداگروں کا ایک قافلہ بادبانی کشتی میں بیٹھ کر ہندوستان کی جانب روانہ ہوا، لیکن ہندوستان کے ساحل پر پہنچنے سے پہلے وہ ایک طوفان میں پھنس کر تباہ ہوگیا، اس قافلہ میں شیخ جمال نام ایک کم سن لڑکا بھی سوار تھا، وہ کشتی کے ایک تختہ پر بیٹھ کر کنارہ لگ گیا، وہاں بھوپال کا ایک شخص اس کو اپنے ساتھ بھوپال لے آیا اور اس کو اپنی تربیت میں رکھ کر اپنے ہی خاندان کی ایک لڑکی سے اس کی شادی کردی، یہی شیخ جمال مفتی صاحب مرحوم کے مورثِ اعلیٰ تھے، بھوپال سے یہ خاندان شاہجہان پور کو منتقل ہوا، اور محلہ سن زئی میں سکونت اختیار کی اور گزر بسر کے لئے نائی کا پیشہ اختیار کیا، اور یہ اسلام کی علمی تاریخ کے لئے کوئی نیا واقعہ نہیں، اسلام کی تاریخ میں کتنے علمائے حدیث و فقہ اور مسند نشینانِ فضل و کمال جوتا بنانے والے، کپڑے بننے والے، تیل بیچنے والے، جوتا گانٹھنے والے اور دوسرے معمولی پیشہ کرنے والے بزرگ تھے اور آج تک وہ خصّاف، نساج، حلاّج، دباّغ، حلوائی، حصیری، حریری کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور درس و ارشاد کی مسند پر قریش و سادات کے پہلو بہ پہلو بٹھائے جاتے ہیں اور ساری دنیائے اسلام ان کے آگے اپنے احترام کا سرجھکاتی ہے، یہ کوئی نہ کہے کہ یہ اسلام کی گزشتہ روایات کا سماعی واقعہ ہے، مرحوم مفتی صاحب کا وجود اسلام کی معاشرتی مساوات کا آج بھی ناقابل تردید واقعہ ہے، انہوں نے مسلسل بیس برس تک سارے علمائے ہند کے رئیس کی حیثیت سے جمعیۃ العلماء کی صدارت کی اور کسی نے ان کے اس استحقاق سے سرتابی نہیں کی اور وہ بڑے سے بڑا احترام جو ایک انسان دوسرے انسان کو دے سکتا ہے وہ تمام عمر مسلمانوں میں ان کو حاصل رہا اور دنیا نے ان کو مفتی اعظم ہند کہہ کر پکارا۔
مرحوم کے والد ماجد کا نام شیخ عنایت اﷲ تھا اور شیخ جمال یمنی تک ان کا سلسلۂ نسب یہ ہے۔
شیخ عنایت اﷲ بن فضل اﷲ بن خیراﷲ بن عباداﷲ۔
بھوپال کا شہر امیر دوست محمد کی حکومت میں ۱۲۰۰؁ھ میں آباد ہوا اس سے ظاہر ہوا کہ شیخ جمال یمنی کی بھوپال میں آمد زیادہ سے زیادہ تیرھویں صدی ہجری کے آغاز کا ہوسکتا ہے، جو انیسویں صدی عیسوی کے مطابق ہے۔
تعلیم و تربیت: مرحوم کے والد گو غریب تھے، مگر ہمتِ عالی رکھتے تھے اور بچے کو عالم دین بنانے کی تمنا دل میں رکھتے تھے، پانچ سال کی عمر میں شہر کے محلہ میں حافظ برکت اﷲ صاحب کے مکتب میں داخل ہوئے اوریہیں قرآن مجید ختم کیا، اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم محلہ درک زئی میں حافظ نسیم اﷲ کے مکتب میں ہوئی، اسی زمانہ میں محلہ خلیل شرقی میں مولوی اعزاز حسن صاحب کا مدرسہ اعزازیہ قائم ہوا تھا، مکتبی تعلیم سے فارغ ہوکر اسی مدرسہ میں داخل کئے گئے، یہاں انہوں نے فارسی کی اعلیٰ اور عربی کی ابتدائی کتابیں، حافظ بدھن خان صاحب سے پڑھیں، یہاں کے اساتذہ میں ایک ولایتی افغان عالم مولانا عبیدالحق خاں صاحب ۱؂ تھے (جو مولانا فضل اﷲ خان صاحب شاہجہانپوری کے جن کو بمبئی اور کراچی کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں اور جو بالفعل جمعیۃ الفلاح کراچی کے ناظم ہیں، والد بزرگوار تھے) بچپن ہی سے مفتی صاحب مرحوم کی ذہانت و طباعی آشکار تھی، ان کے استاد ان سے محبت کرتے تھے، مولانا عبیدالحق صاحب نے اپنے ہونہار شاگرد کی طرف بیش از بیش توجہ کی اور شیخ عنایت اﷲ صاحب کو مجبور کرکے ۱۳۱۰؁ھ میں ان کو مرادآباد کی شاہی مسجد کے مدرسہ میں بھجوایا، جہاں انہوں نے وہاں کے مدرسین مولانا عبدالعلی صاحب میرٹھی، مدرس اول سے جو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کے شاگرد تھے اور بعد کو مدرسۂ عبدالرب دہلی میں صدر مدرس ہوئے اور مولوی محمد حسن صاحب اور مولوی محمود حسن سہسوانی سے کتابیں پڑھیں۔
مفتی صاحب دوسال کے بعد یہاں سے ۱۳۱۲؁ھ میں مدرسۂ دیوبند چلے گئے اور وہاں کے مدرسین میں مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی، مولانا حکیم محمد حسن صاحب و حضرت شیخ الہند کے چھوٹے بھائی مولانا غلام رسول صاحب اور مولانا خلیل احمد صاحب انبیٹھوی سہارنپوری سے اسباق پڑھے اور کتب حدیث کا درس مولانا عبدالعلی صاحب میرٹھی اور حضرت مولانا محمود حسن صاحب سے حاصل کیا۔
صحاح سِتّہ کے دورہ میں اٹھارہ حضرات شریک تھے، جن میں سے چند کے نام یہ ہیں، مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ، حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی، مولانا محمد شفیع صاحب دیوبندی (حال شیخ الحدیث مدرسۂ عبدالرب دہلی) مولوی محمد امین صاحب ایلولوی بانی مدرسہ امینیہ دہلی، ۱۳۱۵؁ھ میں ۳۲ برس کی عمر میں دیوبند سے فراغت ہوئی۔
مولانا عبیدالحق صاحب نے شاہجہانپور میں ۱۳۱۴؁ھ میں ایک مدرسہ عین العلم قائم کیا تھا، مولانا کفایت اﷲ صاحب جب فراغت کے بعد وطن واپس آئے، شفیق استاد نے ان کو اسی مدرسہ میں جگہ دی اور تقریباً ۵ سال اس میں کام کرتے رہے، اسی زمانہ میں شاہجہاں پور میں قادیانیت کی تحریک پہنچی، تو اس کے رد میں ۱۳۲۱؁ھ میں البرہان نام کا ماہانہ رسالہ جاری کیا، مدرسۂ عین العلم میں جن اصحاب نے آپ سے پڑھا ان میں سے حسب ذیل اصحاب کے نام قابل ذکر ہیں: حضرت مولانا اعزاز علی صاحب استاذالادب و الفقہ دیوبند، مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند، مولوی اکرام اﷲ خانصاحب ندوی ایڈیٹر کانفرنس گزٹ علی گڑھ۔
مدرسۂ امینیہ دہلی کو جس سے مفتی صاحب کو پچاس برس تعلق رہا، ان کے رفیق درس مولوی امین الدین صاحب ایلولوی نے ۱۳۱۵؁ھ میں قائم کیا تھا، موصوف ایلولہ احاطہ بمبئی کے باشندہ تھے، مگر اپنی علمی و عملی کوششیں دہلی میں خرچ کیں، اس مدرسہ کے سب سے پہلے مدرس حضرت مولانا انور شاہ صاحبؒ کشمیری مقرر ہوئے تھے حضرت شوق نیموی عظیم آباد کی کتاب آثار السنن جب شائع ہوئی تو مولانا کاشمیری یہیں مدرس تھے، چنانچہ ان کی منظوم تقریظ اس کتاب کے آخر میں شامل ہے، مولانا انور شاہ صاحب کی تشریف بری کے بعد مولوی امین الدین صاحب شاہجہان پور جاکر مفتی کفایت اﷲ صاحب کو ۱۳۲۱؁ھ میں یہاں لے آئے اور مولوی صاحب کی زندگی تک وہ صرف مدرس رہے ۱۳۴۰؁ھ مطابق ۶؍ جون ۱۹۲۰؁ء میں مولوی صاحب کا انتقال ہوا، تو اہل شوریٰ نے مفتی صاحب کو مہتمم بھی بنادیا، جس کے کام کو وہ آخر تک نباہتے رہے۔
یہ مدرسہ امینیہ پہلے سنہری مسجد میں تھا، یہاں جانے کا مجھے صرف ایک دو دفعہ اتفاق ہوا، آخر میں مفتی صاحب کے اہتمام میں ایک اور مسجد کے پاس مدرسہ کی موجودہ عمارت بنی، اس میں بھی مفتی صاحب کی ملاقات کا جذبہ کئی دفعہ مجھے کھینچ کرلے گیا۔ ۲؂
(سید سلیمان ندوی، یاد رفتگاں، ص ۴۴۷۔۴۵۲)

۱؂ افغانستان وطن تھا، حصول تعلیم کے لئے ہندوستان آئے، مولانا مفتی لطف اﷲ صاحب علی گڑھ ہی سے تلمذ تھا اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی سے بیعت کی، ۳۲ برس کی عمر میں ۱۳۲۱؁ء میں شاہجہاں پور میں وفات پائی، ان کے معاصرین اور رفقاء میں مجاہد شہیر مولانا سیف الرحمان صاحب اور مدرس شہیر مولانا محمد سہول صاحب بھاگلپوری تھی۔ سید سلیمان ندوی
۲؂ علم و فضل کا ماتم گسار یہیں تک پہنچ پایا تھا کہ خود ان کے رخصت ہونے کا وقت آگیا، علالت شروع ہوگئی، قلم رک گیا، پھر روح نے بھی جسم کا ساتھ چھوڑ دیا، یہ نوحۂ غم ان کی زندگی کا آخری ماتم ثابت ہوئی اس کے بعد تو آہ خود بھی انہی کا ماتم بپا ہوگیا۔ ’’عاصم‘‘ (یادِ رفتگان از سید سلیمان ندوی، کراچی: مجلس نشریات اسلام، ۱۹۳۸ء، ص ۴۵۲)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...