Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناسید سلیمان ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناسید سلیمان ندوی
ARI Id

1676046599977_54337996

Access

Open/Free Access

Pages

207

آہ سید صاحب!
علم و اخلاق کی دنیا اجڑ گئی
رفتی واز رفتینِِ تو عالمے تاریک شد
تو مگر شمعی چو رفتی بزم برہم ساختی
آہ گذشتہ مہینہ ۲۲؍ نومبر کی رات کو کراچی ریڈیو اسٹیشن سے یہ جانکاہ خبر بجلی بن کر گری کہ حضرت الاستاذ مولانا سید سلیمان ندوی رحمتہ اﷲ علیہ نے ۲۲ اور ۲۳ کی درمیانی شب کو ساڑھے سات بجے اس جہاں فانی کو الوداع کہا، یہ خبر وابستگانِ دامنِ سلیمانی کے لیے ایسی ناگہانی اور ہوش ربا تھی کہ کچھ دیر تک سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا ہوگیا، مگر مشیت الٰہی پوری ہو کر رہی اور بالآخر یقین کرنا پڑا کہ اس مسیحا نفس نے بھی جان جان آفرین کے سپرد کردی، جو عمر بھر اپنی زبان و قلم سے مردہ دلوں میں روح حیات پھونکتا رہا، اور امراضِ ملت کا وہ ماہر طبیب اٹھ گیا، جس نے اس کے ناتواں جسم میں نئی طاقت و توانائی پیدا کی، وہ چشمۂ فیض خشک ہوگیا جس کی آبیاری سے دین و ملت کا چمن سیراب تھا وہ شیخ کامل اُٹھ گیا، جس نے دلوں کی دنیا منور کی، وہ شمع خاموش ہوگئی، جو نصف صدی تک علم و فن کی ہر مجلس میں ضیا بار رہی، وہ تاجدار رخصت ہوگیا، جس کا سکہ علم و فن کی پوری اقلیم میں رواں تھا، اسلامی علوم کا وہ امام و مجدد اٹھ گیا، جس نے اُن کو نئی زندگی بخشی، مذہب اسلام کا وہ متکلم اور اسلامی تاریخ و تمدن کا وہ محقق اٹھ گیا، جس نے ان کو اُن کی اصل شکل اور نئے لباس میں جلوہ گر کیا، پیغام محمدی کا وہ شارح و ترجمان خاموش ہوگیا، جس نے اپنی بصیرت سے اُس کے اسرار و حکم بے نقاب کئے، اور اس کی ذات جامع الصفات پر علوم کی جامعیت کا خاتمہ ہوگیا۔
لیس من اﷲ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحد
وہ مذہب و سیات علم و فن، تالیف و تصنیف تعلیم و تدریس تقریر و تحریر انشاء و خطابت و عظ و پندار، شاد و ہدایت، ہر مجلس کا صدر نشیں اور اپنے علمی کمالات میں ائمہ سلف کی یادگار تھا، تفسیر و حدیث، فقہ و کلام، مغازی و سیرت، طبقات و تراجم، تاریخ و جغرافیہ، شعر و ادب جملہ فنون پر اس کی نظر مجتہدانہ، اور اس کے زبان و قلم کی روانی و حکمرانی یکساں تھی، اور ان میں وسعت و دقت نظر فہم و بصیرت تلاش و تحقیق، اور مہارت فن کی ایسی یادگاریں چھوڑیں جو مدتوں علمی دنیا کی رہنمائی کرتی رہیں گی، اس کے علمی کمالات کا لوہا دنیا سے اسلام کے نامور علماء اور یورپ کے مستشرقین تک مانتے تھے۔
وہ جدت و قدامت کا سنگم، اسلامی علوم کے ساتھ جدید افکار و تصورات نئے رجحانات اور عہد حاضر کی تحریکات سے پوری طرح واقف اور تلاش و تحقیق اور نقد و نظر کے جدید طریقوں کا بھی ماہر تھا، اس دور کا وہ پہلا متکلم ہے، جس نے اسلامی علوم اور مذہبی عقائد و خیالات پر فکر و تدبر، اور ان کی تعبیر و ترجمانی کا ایسا حکیمانہ طریقہ اختیار کیا کہ دین و مذہب، نقل و روایت اور سلفیت و قدامت کی روح کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوئے ان سے عقل و درایت اور جدت و روشن خیالی کی نقیض مٹادی، ان کو ان کا معاون و مددگار بنا دیا، اور مذہب اسلام، اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے معترضین اور نکتہ چینوں کی جہالت کا پردہ چاک کر کے ان کو ایسے حکیمانہ اور دلنشین انداز میں پیش کیا کہ مخالفین و منکرین بھی ان کی عظمت ماننے پر مجبور ہوگئے، اور علمائے امت نے بھی اس کو تحسین کی نظر سے دیکھا، اور اس طرز فکر اور طریقہ تعبیر کی ایسی شاہراہ قائم کردی کہ آج اس راہ کے سارے راہ رواسی راستہ پر گامزن ہیں۔
اس کی ذات میں روشن ضمیری و روشن دماغی ذوق کے تنوع علوم کی جامعیت عقائد میں رسوخ و پختگی، اعمال میں استقامت، ثقاہت و متانت، قلب و نظر کی وسعت، مسلک میں اعتدال و توازن، لوچ اور نرمی، احسن مذاق، اور لطافت مزاج کا ایسا عجیب و غریب و اجتماع تھا کہ طبقہ، علماء میں اس کی نظیر مشکل سے ملے گی، اور اس مسلک اعتدال کا وہ مبلغ بھی تھا، اس لیے مختلف مشرب و مسلک کے مسلمانوں میں وہ مقبول رہا۔
اس کا مزاج و مذاق ابتدا سے دینی تھا، کسی دور میں بھی اس کا قدم جادہ مستقیم سے نہ ہٹا، اور عمر کے ساتھ ساتھ یہ رنگ برابر گہرا ہوتا گیا، اور آخر میں تو سیرۃ النبی کی برکت اور سلوک و تصوف کے فیض سے ہو بہو سلف صالحین کی تصویر، اور سراپا کیف و اثر بن گیا تھا، اس کی صحبت میں بیٹھ کر، اس کی باتیں سن کر اس کی صورت دیکھ کر ایمان میں تازگی پیدا ہوتی تھی، اس کے اعمال و اخلاق خلق عظیم کی عملی تفسیر تھے، وہ فطرہً پاک دل، پاک طینت، سراپا شرافت و انسانیت، سراپا خلق و مروت، سراپا مہر و محبت اور سراپا جمال تھا، عزیزوں کا معاون و مددگار دوستوں کا ہمدرد و غمگسار اور غریبوں اور بے کسوں کا ہمدم و غمخوار تھا، ضبط و تحمل کا پہاڑ، ایثار و قربانی کا پیکر اور عفو و درگذر کی تصویر تھا، اس کو خدا نے حقیقی بڑائی بخشی تھی، اس لیے مصنوعی اور خود ساختہ بڑائی کے پیچھے کبھی نہیں پڑا، اور دنیاوی جاہ و اقتدار کی ہوس سے ہمیشہ دور اور کبر و نخوت سے نفور رہا۔
اس کی پوری زندگی ایثار و قربانی اور حلم و عفو کا نمونہ تھی، اور یہ وصف حداعتدال سے بڑھ گیا تھا، اس کا سینہ بے کینہ، اور اس کا دل ایسا شفاف و مجلی آئینہ تھا، جس میں دشمن کے لیے بھی گرد کدورت کی گنجائش نہ تھا، اس نے قدرت و اختیار کے باوجود کبھی دشمنوں سے بھی انتقام نہیں لیا اور بداندیشوں کے ساتھ ہمیشہ بھلائی کی، اور اس کے لیے ہر نقصان گوارا کیا، اور بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا، اس لیے وہ محبوب القلوب تھا، اور اس کی عزت و محبت دلوں میں جاگزیں تھی، جو عنداﷲ اس کے مقبول ہونے کی سب سے بڑی سند ہے، قلم اس کے کمال و جمال کی مصوری سے عاجز و درماندہ ہے، اس کی جو تصویر کھنچی جائے گی، وہ ناقص و نا تمام ہی ہوگی۔
ہر چند مدحت می کنم لیکن ازاں بالاتری
ملک و قوم دین و ملت اور علم و فن کا کوئی رخ اور کوئی پہلو بھی اس کے خدمات سے خالی نہیں ہے اس راہ میں اس کے کارنامے بڑے عظیم الشان اور گوناگوں ہیں، اس لیے اس کی موت درحقیقت ایک حادثہ نہیں مجموعہ حوادث ہے اور اس کا ماتم ایک شخص ایک وصف ایک کمال ایک قوم اور ایک ملک کا ماتم نہیں بلکہ دین و مذہب کا ماتم ہے، ملک و ملت کا ماتم ہے، فضل و کمال کا ماتم ہے علم و فن کا ماتم ہے خلق و شرافت کا ماتم ہے، اور پوری ملت اسلامیہ اس کے غم میں سوگوار ہے کہ آج غزالی و رازی ابن تیمیہ و ابن قیم رومی و سنائی شاہ عبدالحق اور شاہ ولی اﷲ دہلوی کی یادگار دنیا سے اٹھ گئی اور شبلی کی مسند ویران ہوگئی، ایسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
سرور رفتہ باز آید کہ ناید
نیمے از حجاز آید کہ ناید
برفت از بزم عرفان آن حکیمے
دگر داناے راز آید کہ ناید
(شاہ معین الدین ندوی، دسمبر ۱۹۵۳ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...