Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانامسعود عالم ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانامسعود عالم ندوی
ARI Id

1676046599977_54337999

Access

Open/Free Access

Pages

209

مولانا مسعود عالم ندوی
ابھی حضرت الاستاذ رحمہ اﷲ کا غم نہ بھولا تھا کہ ندوہ کے ایک نامور فرزند مولانا مسعود عالم ندوی کا ماتم گسار ہونا پڑا، مرحوم نے چند گھنٹوں کی علالت کے بعد ۱۶؍ مارچ کو کراچی میں وفات پائی، وہ ندوہ کے اس دور کی بہترین پیداوار تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو بڑی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں، عربی کے ممتاز ادیب و انشاء پر داز تھے انگریزی سے بقدر ضرورت واقفیت اور اردو کا ستھرا مذاق رکھتے تھے ان کے مضامین مصر و شام کے اخبارت و رسائل میں شائع ہوتے تھے، اور اہل زبان ادیبوں سے خراج تحسین حاصل کرتے تھے، ابتداء میں ندوہ میں ادب کے مدرس تھے، اسی زبان میں انھوں نے حضرت الاستاذؒ کی نگرانی میں عربی کا ایک رسالہ الضیاء نکالا تھا، جو چند سال نکلنے کے بعد بند ہوگیا، اس کے بعد اورنٹیل پبلک لائبریری پٹنہ میں فہرست نگار ہوگئے اور انگریزی میں عربی کے متفرق محظوطات کی فہرست کی ایک جلد مرتب کی جو چھپ کر شائع ہوگئی ہے۔
ان میں مسلمانوں کی دینی اصلاح کا جذبہ شروع سے تھا اور وہ وقتاً فوقتاً اصلاحی مضامین لکھتے رہتے تھے اس سلسلے میں شیخ محمد بن عبدولوہاب نجدی پر معارف میں ایک طویل مضمون لکھا تھا جو بعد میں ترمیم و اضافہ کے بعد کتابی صورت میں شائع ہوا، اسی جذبہ کے ماتحت وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور پاکستان ہجرت کر گئے تھے اس کے وہ بڑے سرگرم کارکن تھے، ان کی شرکت سے اس تحریک کو بڑا فائدہ پہنچا اس کو مضامین کے ذریعہ اسلامی ملکوں میں روشناس کرایا اس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے عراق و شام کا سفر کیا اس کی متعدد اہم کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ابھی حال میں ہندوستان میں اسلامی دعوت کی تاریخ اور جماعت اسلامی کے اغراض و مقاصد اور اس کے کاموں پر عربی میں ایک کتاب ’’نظرۃ اجمالیہ فی تاریخ الدعوۃ اسلامیۃ فی الہند و الباکستان‘‘ لکھی تھی جو مصر میں چھپی ہے، اردو میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی سوانح عمری اسلام اور اشتراکیت اور عراق و عرب کا سفرنامہ ان کی قلمی یادگار ہیں۔
مرحوم کو حضرت الاستاذؒ اور دارالمصنفین سے بڑا گہرا تعلق تھا، وہ بھی ان کو بہت مانتے تھے اس تعلق کو انھوں نے ان کی وفات کے بعد بھی قائم رکھا اپنی وفات سے چند ہی دنوں پیشتر میری فرمایش پر معارف کے سلیمان نمبر کے لیے ایک مضمون لکھ کر بھیجا تھا جو غالباً ان کا آخری مضمون ہے مگر کیا خبر تھی کہ اس کی اشاعت سے پہلے ہی خود مضمون نگار یاد گار بن جائیگا اس مضمون کو بھیجنے کے بعد ہی وہ مصر و شام کے سفر کے ارادہ سے راولپنڈی سے کراچی گئے تھے کہ پیام اجل آگیا اور دیار عرب کے مسافر نے سفر آخرت کی راہ لی ابھی کل ۴۴، ۴۵ سال کی عمر تھی جو علمی دنیا کے لیے گویا عنفوان شباب کی عمر ہے ان کی ذات سے بڑی توقعات وابستہ تھیں افسوس موت نے ان سب کا خاتمہ کردیا والبقاء ﷲ وحدہ اﷲ تعالیٰ ان کی دینی خدمات کے طفیل میں ان کو اپنی رحمت و مغفرت کے انعام سے مالا مال اور مسعو و عالم کو عالم آخرت کی سعادتوں سے سرفراز کرے۔
(شاہ معین الدین ندوی، اپریل ۱۹۵۴ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...