Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > رفیع احمد قدوائی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

رفیع احمد قدوائی
ARI Id

1676046599977_54338001

Access

Open/Free Access

Pages

210

رفیع احمد قدوائی
رفیع احمد قدوائی مرحوم کی موت ہندوستان کا اتنا بڑا قومی حادثہ ہے کہ اس کی تلافی مدتوں نہ ہوسکے گی، کم از کم مسلمانوں میں ان کا بدل پیدا ہونا دشوار ہے ان کی صحت عرصہ سے خراب تھی، قلب کے دورے پڑتے تھے، ڈاکٹر برابر ان کو آرام کرنے کی تاکید کرتے تھے، مگر انھوں نے کام کے مقابلہ میں کبھی اپنی صحت کی پروا نہ کی اور میدان جنگ میں لڑتے ہوئے سپاہی کی طرح قوم و ملک کا کام کرتے کرتے اس راہ میں جان تک دے دی، موت و زندگی کا تماشہ کوئی عجیب چیز نہیں، روزانہ ہوتا رہتا ہے اور بڑے بڑے صاحب وجاہت بھی مرتے رہتے ہیں، مگر ان کی موت کا عام خلق پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اور ایک خاص دائرہ تک محدود رہتا ہے، مگر انسانی بڑائی کے نمونوں کی موت سے ایک دنیا متاثر ہوتی ہے رفیع مرحوم دنیادی وجاہت کے ساتھ اخلاق و سیرت اور انسانیت و شرافت کے لحاظ سے بھی بہت بڑے آدمی تھے اور ان کے فیض سے ایک عالم مستفیض ہوتا تھا، اس لیے ان کی موت دنیائے انسانیت کا حادثہ ہے اور ان کے ساتھ بہت سی خوبیاں دفن ہوگئیں۔
وہ اپنے بہت سے اوصاف اور خصوصیات میں فرد تھے، ان کی پوری زندگی ملک و قوم کی بے لوث خدمت میں گزری اور اس راہ میں بڑی قربانیاں کیں، وہ ہندوستان کے جہاد آزادی کے سرفروش مجاہد، میدان سیاست کے بے نظیر مدیر، قلم مملکت کے بے مثل منتظم تھے، ان کے تدبر کا لوہا مخالفین تک مانتے تھے، اور حکومت کے جو انتظامی کام بڑے بڑوں سے نہ ہوسکے ان کو انھوں نے تنہا کرکے دکھا دیا، ان کی زندگی ذاتی اغراض و فوائد کے داغ سے بالکل پاک تھی، اپنے عہدے سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا، ان کے پاس جو کچھ تھا، دوسروں کے لیے وقف تھا، جو ملا دوسروں پر صرف کردیا اور خود ہمیشہ تہی دامن رہے اور عجب نہیں مقروض بھی رہے ہوں جس کی مثال اتنے بڑے عہدہ داروں کی زندگی میں مشکل سے مل سکتی ہے، ان کا سب سے بڑا وصف خدمت خلق، غریبوں کی امداد و دستگیری اور اہل حاجت کی روائی تھا، ان کے دشمن تک ان سے فائدہ اٹھاتے تھے، خدا ہی کو علم ہے کہ ان کی ذات سے کتنے حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری ہوتی تھیں، اور اس اخفا کیساتھ کہ کسی کو خبر تک نہ ہونے پاتی تھی، دارالمصنفین کے بھی وہ محسن تھے، اور اس کے اس نازک دور میں انھوں نے خود بھی اس کی مدد کی، اور دوسروں سے امداد دلوائی۔
وہ اتنے اونچے انسان تھے اور ان کا دل اتنا وسیع تھا کہ اس میں دشمنوں تک کے لیے برائی کی گنجایش نہ تھی، اپنے بڑے سے بڑے دشمن کے ساتھ بھی احسان و سلوک کرتے تھے، تعصب و تنگ نظری سے دامن اتنا پاک تھا کہ جن سنگھ اور مہاسبھا جیسی متعصب اور فرقہ پرست جماعتوں تک کو ان کی خالص قوم پروری کا اعتراف تھا، اور اس زماہ میں وہ ’’الفضل ماشھدت بہ الا عداء‘‘ کی تنہا مثال تھے، جس ملک میں گاندھی جی جیسی شخصیت کی موت پر بعض جماعتوں نے خوشی منائی ہو، اس میں رفیع مرحوم کا جیسا متفقہ ماتم مقبولیت کی آخری سند ہے وہ ہندوستان کا فخر اور مسلمانوں کی آبرو تھے ان کی ذات سے مسلمانوں کا سر اونچا تھا، اب اُن میں ان کی جیسی شخصیت نہیں پیدا ہوسکتی، وہ خدمت خلق کے لیے لہو پیدا ہوئے تھے اور خدمت ہی کرتے کرتے دنیا سے اٹھے، خلق کی خدمت اور غریبوں اور بے نواؤں کی امداد و دستگیری اتنا بڑا کام ہے جو کہ تنہا یہی ایک کام مسلمان کی مغفرت کے لیے کافی ہے اور رفیع مرحوم کے اس عمل خیر کا پلہ اتنا بھاری ہے کہ انشاء اﷲ میزان عدل میں بھاری نکلے گا، اور امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کے طفیل میں بشری کمزوریوں سے درگذر کر کے ان کو عالم آخرت کی مقبولیت اور سربلندی سے بھی سرفراز فرمائے گا۔ (شاہ معین الدین ندوی، نومبر ۱۹۵۴ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...