Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناشاہ حلیم عطا

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناشاہ حلیم عطا
ARI Id

1676046599977_54338008

Access

Open/Free Access

مولانا شاہ حلیم عطا
دوسرا حادثہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شیخ الحدیث مولانا شاہ حلیم عطا صاحب کی وفات ہے، وہ حضرت شاہ پیر محمد عطا سلونویؒ کی اولاد میں تھے اور موجودہ سجادہ نشین شاہ نعیم عطا صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ یہ خاندان علم و فضل دونوں کا جامع رہا ہے۔ شاہ حلیم عطا صاحب بڑے وسیع النظر عالم اور اسلامی علوم کا زندہ کتب خانہ تھے۔ خصوصاً حدیث اور اس کے متعلقہ فنون پر ان کی نظراتنی گہری اور وسیع تھی کہ اس دور کے علماء میں اس کی مثالیں کم ملیں گی۔ حضرت الاستاذؒ فرمایا کرتے تھے کہ شاہ صاحب کے علم کی تھا نہیں ملتی اور اس علم و فضل کے ساتھ ایسے خاکسار اور متواضع، سادہ مزاج اور بھولے بھالے تھے کہ ان کو دیکھ کر کوئی شخص مشکل سے ان کے لکھے پڑھے ہونے کا گمان کرسکتا تھا۔ اپنے سے کمتر علم والوں کی باتیں اس شوق اور توجہ سے سنتے کہ معلوم ہوتا خود استفادہ کررہے ہیں۔ حافظہ حیرت انگیز تھا، کتابوں کے صفحے کے صفحے زبانی یاد تھے مگر ان کمالات کے ساتھ قوت گویائی اور قوت ِ تحریر نہ تھی، اس سے بھی زیادہ ان کی تواضع اور استغنانے ان کو نام و نمود سے بے نیاز کردیا تھا، اس لیے ایک محدود علمی حلقہ کے سوا علمی دنیا بھی ان کے کمالات سے واقف نہ ہوسکی، تقریباً پندرہ سال سے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حدیث نبوی کا درس دیتے تھے اور اسی مبارک شغل میں چند دنوں فالج میں مبتلا رہ کر انتقال کیا۔ انتقال کے وقت ۶۵ سال کی عمر رہی ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ اس پیکر علم و اخلاق کو اس کے پاک شغل کے طفیل میں عالم آخرت کی سربلندی عطا فرمائے۔
(شاہ معین الدین ندوی، نومبر ۱۹۵۵ء)

مولانا شاہ حلیم عطا
( شاہ محمد حسن عطاء)
سید احمد شہید کے رائے بریلی میں کئی تاریخی قصبات ہیں، جائس جس کے بطن سے پدماوت کا شہرہ آفاق مصنف پیدا ہوا، نصیر آباد جس کے آغوش میں اولو العزم سادات پلے، سلون جہاں بیٹھ کر سا لکان حقیقت نے معرفت کا درس دیا، اور ویزکیھم ویعلمھم الکتاب [آل عمران: ۱۶۱]کی سنت سنیہ پر عمل پیرا ہوئے۔ عہد کہن کی مرثیہ خوانی اور درس سلوک کی حکایت بیان کرنے کے لیے ابتک سلون میں ایک پر شکوہ آرام گاہ موجود ہے، جس پر ذیل کی تاریخ ثبت ہے۔
حضرت پیر محمد قطب دیں چوں ز دنیا بالِ آگاہ رفت
سال تاریخ شہہ ہر دوسرا گفت ہاتفِ عارف بااﷲ رفت
اس آرام گاہ میں وہ خدا رسیدہ بوریا نشینان مسند بے نیازی محو خواب ہیں، جو کبھی کج کلاہو ں کی شوکت سے مرعوب نہ ہوئے اور جن میں سے ہر ایک نے بڑے وقار اور شریعت و طریقت کی جامعیت کے ساتھ زندگی گذاری، شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے جو تیموری دبدبہ کی آخری یادگار تھا، اسی مقبرہ کے ایک ابدی مکین حضرت پیر محمد سلونی کو عطاء ملوکانہ سے سرفراز کرنے کے لیے طلب کیا انھوں نے قلندرانہ جواب دیا۔
فقیر رایں حوصلہ نمی آید۔ دہقانی رادر مجلس سلطانی چہ کار کریمے دارم چوں گر سنہ می شوم مہمانی میکند و چوں می خسپم پا سبانی میکند، گاہے گاہے کسے ازرا ہی می آید، در کریم بازاست وکریم ما بے نیاز، اﷲ بس باقی ہو س۔
ان ہی صاحبان قبور میں پیر اشرف، پیرپناہ، پیر عطا اور جانشینان اورنگ زیب کے مخدوم حضرت شاہ کریم عطا سلونی ہیں، جن سے ملنے کے لیے نہ صرف شاہ عالم، صفدر جنگ، شجاع الدو لہ بلکہ مجاہد کبیر عارف باﷲ حضرت سید احمد رائے بریلوی بھی سلون آئے، ان ہی میں ابو الفضل، ظہیر الدین شاہ پناہ عطا اپنی الگ علمی منزلت رکھتے تھے، احمد شروانی، حضرت شاہ عبد العزیز، مرزا قتیل، اور اس دور کے دوسرے اکابر و مشاہیر سے آپ کے معاصرانہ تعلقات تھے، مشکوٰۃ پر آپ کی تعلیقات آپ کے علمی کمال کی شاہد ہیں اسی سلسلہ کے ایک بزرگ شاہ حسین عطا نے نواب سعادت علی خاں کی اس ترغیب وترہیب کو کہ اگر وہ تشیع قبول کرلیں تو جائد اد میں اضافہ ہو گا ورنہ ضبط ہو جائے گی، حقارت سے ٹھکرادیا، اس سجادہ کی آخری زینت میرے دادا حضرت شاہ مہدی عطا صاحب قدس سرہ تھے، جنھوں نے تصوف پر ایک بے مثل تصنیف لمعتہ الانوار یادگار چھوڑی ہے، آپ فارسی، اردو، ہندی تینوں زبانوں میں بڑے خوش گفتار تھے، اس مقالہ کی شخصیت کو آپ کی فرزندی کا شرف حاصل ہے۔
صدر المحدثین حضرت مولانا حافظ شاہ محمد حلیم عطا صاحب رحمتہ اﷲ علیہ ۱۳۱۱؁ء میں سلون میں پیدا ہوئے، آپ کی والدہ دیوہ شریف (ضلع بارہ بنکی) کے ایک عالی نسب سادات گھرانے سے تھیں، ابھی عہد شیر خوارگی پر چند ہی ما ہ گذرے تھے کہ آپ مادرانہ شفقت سے محروم ہو گئے، پھر زندگی کی ساتویں بہار کا آغاز بھی نہ ہوا تھا کہ آپ یتیم الطرفین ہوگئے، اس جانگداز واقعہ کے بعد خاندان کے اقتدار کی باگ ایسے ہاتھوں میں پہنچ گئی، جنھوں نے اس سجادہ کے تقدس کو خاک میں ملادیا اور چند ہی برسوں کے اندر اس کے زمین و آسمان بالکل بدل گئے۔
افسوس اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے
لیکن عین اسی زمانہ میں اس خانقاہ میں ایک ایسی شخصیت پیدا ہوئی جس نے اس کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھال لیا، یہ شخصیت جناب مولانا شاہ حلیم عطا رحمتہ اﷲ کی تھی، آپ نے نہایت کم عمری میں درسیات سے فراغت حاصل کرلی تھی، اور ایام شباب میں خاندانی کتب خانہ کی تمام کتابیں آپ کے مطالعہ سے گذر چکی تھیں، اسی زمانہ میں نواب صدیق حسن خان کے استاد حضرت شیخ حسین ابن محسن یمانی سلون میں فروکش ہوئے، ان سے حدیث کی باقاعدہ سند لی، پھر جب میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد مولانا ابوالحسن دہلوی کئی برس تک سلون میں آکر مقیم ہوئے، تو ان کی نگرانی میں حدیث کا مطالعہ کیا، پھر جب بیس بائیس سال کی عمر سے لکھنؤ جانے کا اتفاق ہونے لگا تو وہاں کے کتب خانوں سے واقفیت حاصل کی اور علامہ شبلی رحمتہ اﷲ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اس ملاقات کا ذکر والد صاحب ہمیشہ بڑے فخر و مباہات سے کرتے تھے۔
اس زمانہ میں مولانا عبدالحئی صاحبؒ سابق ناظم ندوۃ العلمأ لکھنؤ میں مطب کرتے تھے، جب کبھی والد صاحب کا گذر ادھر سے ہوتا تو وہ بڑی شفقت اور عنایت سے بلاکر بٹھلاتے تھے، ان صحبتوں نے طبیعت میں بڑی جلا پیدا کی، اور تاریخ و حدیث کے نکتہ داں بننے میں بہت مفید ثابت ہوئیں، میرے عہد شیرخوارگی میں علاج کے سلسلہ میں جھوائی ٹولہ لکھنؤ میں کچھ دنوں قیام کرنا پڑا، اس قیام کے زمانہ میں ایک نئی تبدیلی پیدا ہوئی، درس نظامی سے طبیعت ہٹی اور ندوہ کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہوا، مولانا سید طلحہ حسنی ایم اے، شیخ خلیل عرب اور مولانا کلیم احمد سے تمام زندگی کی مودت کا رشتہ قائم ہوا، اور مولانا یو سف سو رتی اور شیخ خلیل عرب کی صحبت میں یمنی مصنفین سے شناسائی حاصل ہوئی، اس سے نگاہ میں بڑی وسعت پیدا ہوئی اور دمشق، قاہرہ، بیروت اور لندن وغیرہ کی مطبوعات منگا کر مطالعہ میں رہنے لگیں، اور اس کا سلسلہ برابر جاری رہا، تاآنکہ آج سے سولہ سترہ سال پہلے مولانا سید ابوالحسن علی صاحب ندوی مدظلہ العالی کی ترغیب پر والد صاحب نے ندوہ سے باضابطہ تعلق پیدا کرلیا، تنخواہ کی ابتدا چالیس روپئے ماہوار سے ہوئی اگرچہ یہ معاوضہ بہت قلیل تھا، اور سلون میں ان کو تمام آسائشیں میسر تھیں، لیکن محض علم کی خدمت کے ذوق میں اس کو قبو ل کرلیااور سولہ سترہ سال کی مدت میں بڑے بڑے انقلابات آئے، بہت سے اساتذہ نے دوسرے اداروں کا رخ کیا، لیکن والد صاحب کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی، اور انھوں نے منصب وجاہ اور دولت دنیا کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، اور نہ کبھی ندوہ کی مجلس انتظامیہ سے اپنے علم کا بھاؤ طے کیا، جب میں علی گڑھ اور دہلی سے گھر جا تے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے ندوہ ٹھہرتا تھا تو ان کی انتہا سے زیادہ سادگی کو دیکھ کر مجھے سخت رنج ہوتا تھا، بعض طالب علموں کو اپنی اولاد پر بھی تر جیح دیتے تھے، کتابوں کے عاشق تھے، لیکن پنجاب کے ایک طالب علم کو طبقات ابن سعد کا پورا سیٹ دے دیا، لکھنے والے ان سے تصنیف و تالیف میں مدد لیتے تھے، لیکن محترمی مولانا محمد اویس ندوی، مولانا ظفر الدین اور مولانا مجیب اﷲ ندوی کے علاوہ کم لوگوں نے اس کا اعتراف کیا ہے، علمی تجربہ کا یہ عالم تھا کہ تفسیرؔ، حدیثؔ، رجالؔ، فقہؔ، تاریخؔ، وغیرہ جملہ علوم پر ان کی نگاہ یکساں وسیع تھی، دقیق سے دقیق مسائل کو ارتجالاً حل کردیتے تھے، مولانا سید ابو الحسن علی صاحب ندوی مدظلہ والد صاحب کے کمالات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:
’’طالب علمی کے بے قاعدہ اختتام کے قریب ضلع رائے بریلی کے ایک مردم خیز قصبہ سلون جانے کا اتفاق ہوا اور دو کتب خانے دیکھے، ایک زندہ و متکلم۔ ایک جامد و خاموش۔ زندہ کتب خانہ مولانا شاہ حلیم عطا صاحب اور جامد کتب خانہ ان کا قیمتی علمی ذخیرہ۔ شاہ صاحب کے واسطے سے حافظ ابن جوزی، حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم، حافظ ابن رجب اور امام عبد الہادی کی کتابیں دیکھیں، پھر وطن واپس جاکر احیاء العلوم مع تخریج عراقی، فضلؔ علم السلف علی الخلف، دفائنؔ الکنوز، تلبیسؔ ابلیس، مختصر منہاج القاصدین وغیرہ منگوائیں۔‘‘
مولانا سید محمد صاحب ندوی شیخ الجامعہ العباسیہ تعزیت نامہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’شاہ صاحب کے انتقال سے ایک بڑے عالم، محدث، مورخ اور ایک صوفی درویش کی جگہ خالی ہوگئی، اور دارالعلوم ندوہ ایک متبحر اور ایک بے مثل محدث و مورخ کے فیوض علمیہ سے محروم ہوگیا، میرے ایک مخلص دوست تھے اور انھوں نے میرے ساتھ برادرانہ اور عالمانہ سلوک کیے۔‘‘
مولانا عبدالسلام صاحب قدوائی صدر شعبہ دینیات جامعہ اسلامیہ لکھتے ہیں:
’’شاہ صاحب کی وفات کا سانحہ حد درجہ ملال انگیز ہے، اب ایسا علم و فضل، ذہانت و ذکاوت قوت حافظہ کا ہے کو کہیں نظر آنے لگا، مجھ پر خاص طور سے شفقت فرماتے تھے، اﷲ تعالیٰ اپنے دامان رحمت میں جگہ عنایت فرمائے، ایسے اشخاص صدیوں میں کہیں پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
مولانا مسعود عالم ندویؒ نے ایک بار اپنے ایک دوست کو تحریر فرما یا تھا:
’’کانوں نے جب سے سننا شروع کیا ہے اور آنکھوں نے جب سے دیکھنا، یہ تبحر دیکھا نہ سنا۔‘‘
مولانا حیدر حسن خاں صاحب مہتمم دارالعلوم نے جب ضابطہ کے طور پر ندوہ کی کرسی حدیث کے لیے حضرت سید صاحبؒ سے والد کا تعارف کرایا تو انکے الفاظ بعینہ یہ تھے ’’میاں حدیث یہ ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں‘‘۔
والد صاحب کو زندگی کی مصروفیت نے اس کا موقع نہ دیا کہ وہ ہندوستان اور ہندوستان کے باہر کے علمی مرکزوں کو دیکھ سکتے، ورنہ آج پوری علمی دنیا میں انکا ماتم ہوتا، والد صاحب نے کسی اکیڈمی میں تصنیف و تالیف کا کام نہیں سیکھا، پھر پانچ خورد سال اور دو جوان اولادوں کی موت نے انھیں بالکل مضمحل کردیا تھا، خاندانی تلخیاں علیحدہ تھیں۔ ان حالات میں انھوں نے جوعلمی خدمات انجام دیں اور جو تصانیف یادگار میں چھوڑیں، دوسرا شخص مشکل ان کو انجام دے سکتا تھا انکی بعض تصانیف کے نام یہ ہیں:
(۱) الکتاب الکریم فی استخراج الدرمن القرآن العظیم (۲)نخبتہ لسان العرب فی لغات القرآن العجب (۳)المعجم المفہرس (۴)تیسیرا الوصول الی اطراف اصحاب الا صول (۵)فتح المنعم فی اطراف الامام مسلم (۶)الیوا قیت الشمینہ فی اطراف عالم المدینہ (۷)تعجیل المنفعہ فی اطراف الائمتہ السبعہ (۸)اسمأ اصحاب رسول اللّٰہ علیہ وسلم وکنا ہم عمن روی عنہم الائمتہ السبعہ (۹)دیوان شعر۔
شعرو سخن سے بھی ذوق تھا، مگر طبیعت مشکل پسند تھی، اس لیے اردو کے بجائے عربی شاعر کی جانب توجہ کی، ان کی شاعری میں بقول علامہ سید سلیمان ندویؒ حالیؔ کی سادگی پائی جاتی تھی، بحتریؔ، ابن معتز اور ابو الفردوس ؔسے زیادہ متاثر تھے، ذیل کے اشعار سے ان کی عربی شاعری کا اندازہ ہوگا، یہ اشعار انھوں نے اس وقت کہے تھے جب ۵۳؁ءمیں مولانا سید سلیمان ندویؒ پاکستان سے ہندوستان تشریف لائے تھے۔
بشری لکم یا معثر النحلان

-بقدوم سید نا ابی سلمان
کنزول غیث بعد طول قنو طہا

اونضحۃ الا رواح فی الا بدان
;اعنی بہ جبل التقی علم الہدیٰ

بحر العلوم خزینۃ العرفان
والسید العلام فخر زمانہ

کنز المعارف منبع الا حسان
قد جا ٔنا نعم المحیٔ فمر حبا

لسحاب رحمتہ ربنا الرحمن
اہلاًوسہلاًبا لذی یشتاقہ

کل امریٔ کالماء للظمأن
یارب متعنا بطول بقاۂ

وادمہ فینا دائم الفیضان
اردو اور فارسی سے بعض پرانے علماء کی طرح بے تکلفی نہیں تھی، بلکہ اس کا بھی بہت اچھا ذوق رکھتے تھے، لیکن تمام علوم میں ان کو خاص ذوق احادیث نبوی سے تھا، قرآن مجید کی تفسیر میں میں نے مولانا ابوالحسن علی صاحب کو معیار پایا اور احادیث کی تشریح و تاویل میں والد صاحب کو۔ وفات سے کچھ دنوں پیشتر والد صاحب نے دہلی کا سفر کیا، اس سفر میں انھوں نے میری مملوکہ فارسی کتابوں کو سرسری نگاہ سے دیکھا اور آقای علی اصغر حکمت کی امثال قرآن کو پڑھ کر اس بارے میں امام ابن قیم اور بعض دوسرے علماء کے بے نظیر نظائر بیان کیئے کاش میں نے اس تقریر کو محفوظ کرلیا ہوتا، دوسال ہوئے ان کے شاگرد رشید مولوی عبدا لرشید لداخی نے علم کلام سے متعلق اپنے تحقیقی مقالہ کا ذکر کیا اس سلسلہ میں والدصاحب ڈیڑھ دو گھنٹے تک علمؔ کلام، متکلمین اور حکمائے اسلام پر تقریر کرتے رہے، اگر اس کو قلمبند کرلیا جاتا تو علمؔ کلام پر ایک مختصر اور جامع رسالہ تیار ہوجاتا۔
حدیث ان کا خاص فن تھا، اور اس فن کی تمام متداول و غیرمتداول کتابیں ان کے کتب خانہ میں موجود تھیں، بلا مبالغہ کئی ہزار حدیثیں مع سند انھیں حفظ تھیں، اور میں نے ان کے ایک معاصر کو کہتے سناکہ شاہ صاحب کے لیے کم و بیش وہی الفاظ کہے جاسکتے ہیں جو ابن تیمیہ کے کسی قدر شناس نے ان کے لیے استعمال کیے تھے کہ ’’حدیث لا یعرف ابن تیمیہ فھولیس بحدیث‘‘۔
حافظ قرآن تھے اور چودہ سال کی عمر سے لے کرآخر تک برابر تروایح میں کلام مجید سناتے تھے، اردو اور فارسی کے سیکڑوں اشعار نوک زبان تھے، اردو کی طویل اور مرصع نظمیں کہہ دینا ان کے لیے بہت آسان تھا، حالیؔ اور اکبرؔ کو بہت پسند کرتے تھے۔
میرے بڑے بھائی مرحوم کی تعلیم وتربیت انھوں نے بڑی توجہ سے کی تھی، اگر وہ زندہ رہے ہوتے تو علمی و دینی اعتبار سے ہندوستان کے ہونہار اور نامور نوجوانوں میں ہوتے، مگر افسوس کہ عین عنفوان شباب میں ان کا انتقال ہوگیا، اس غم نے والد صاحب پر وہی اثر ڈالا جو فردوسی کے بیٹے کی موت نے اس پر ڈالا تھا، وہ بالکل ٹوٹ گئے اور عمر سے پہلے بوڑھے ہوگئے، طبیعت زندگی سے اچاٹ ہوگئی، لیکن صبر کا یہ عالم تھا کہ جب میں علی گڑھ سے بھائی جان کی موت کے تیسرے دن سلون پہنچا تو وہ نشست گاہ کے سامنے غالباً شذرات الذہب پڑھ رہے تھے اور ان کے چہرے سے کسی قسم کا حزن و ملال ظاہر نہ ہوتاتھا۔ سلون اور لکھنؤ میں جن لوگوں کو والد صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کا کردار کس قدر پاک تھا اور وہ کس قدر معصوم اور فرشتہ خصلت انسان تھے، میں نے ان کو کسی شخص سے الجھتے نہیں دیکھا، میرے دادا رحمتہ اﷲ علیہ نے ایک پورا علاقہ چھوڑا تھا، ان کی موت کے بعد یہ دولت بے دریغ لٹتی رہی، لیکن والد صاحب میں اسقدر استغنا تھا کہ انھوں نے اس میراث کو جائز طور پر بھی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
والد صاحب مرحوم یوں بھی خلقۃً کمزور تھے، مسلسل حوادث نے ان کو اور زیادہ ضعیف اور نڈھال کردیا تھا، وفات سے چند مہینہ بیشتر فالج کا اثر ہوا، ڈاکٹرسید عبدالعلی صاحب، ڈاکٹر عبدالحمید صاحب اور کرنل اندر سنگھ کے علاج سے وہ قریب قریب صحت یاب ہو گئے اور تبدیل آب وہوا کی غرض سے الہ آباد تشریف لے گئے، وہاں بھی علاج ہوتا رہا اور میں دہلی چلا آیا، ایک دن ۷؍ اکتوبر ۵۵؁ء مطابق ۲۰؍ صفر المظفر ۷۵؁ھ کو جمعہ کے دن دفعتہ وفات کا تار ملا، میں اسی وقت دہلی سے ٹر نکال کیا، اور یہ طے ہوا کہ دائرہ حضرت شاہ علم اﷲ تکیہ کلاں رائے بریلی میں تدفین ہو، اور میں ہوائی جہاز کے ذریعہ لکھنؤ پہنچا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ندوہ کے اساتذہ اور طلبہ کا ایک گروہ الہ آباد روانہ ہو چکا ہے، ادھر ہزار دقتوں کے بعد لاش کو الہ آباد سے بذریعہ پرائیوٹ کار رائے بریلی لایا گیا، میں لکھنؤ سے سیدھا رائے بریلی پہنچا، یہاں پہنچ کر میری رائے بدل گئی اور والد صاحب کو سلون لے جاکر اس کتب خانہ کے سامنے جہاں بیٹھ کرانھوں نے غزالی و رازیؔ اور ابنؔ تیمیہ وابنؔ قیم سے سرگوشیاں کی تھیں، سپرد خاک کیا، اب یوم نشور تک اس دور کا یہ گمنام محدث یوں ہی محو خواب رہے گا، اﷲ اس کی تربت پر رحمت و رضوان کے پھول برسائے۔ (مارچ ۱۹۵۶ء)

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...