1676046599977_54338012
Open/Free Access
217
اچار نریندر دیوجی
افسوس ہے کہ اچار نریندر دیوجی کی موت سے ہندوستان ایک بڑی شخصیت سے محروم ہوگیا، وہ اپنے اوصاف کے لحاظ سے ہندوستان کے ممتاز ترین لیڈروں میں تھے، سیاسیؔ خدمات، ایثارؔ و قربانی، علمی قابلیتؔ، بے تعصبیؔ، اور شرافت و وضعداری میں اس دور کے کم لیڈر ان کا مقابلہ کرسکتے تھے، وہ پنڈت جواہر لال کے پرانے رفیق اور جنگ آزادی کے نامور سپاہی تھے، اس راہ میں پنڈت جی کے دوش بدوش قیدو بند کی مصیبتیں جھیلیں، اردوؔ، انگریزیؔ، ہندیؔ، اور سنسکرتؔ چاروں زبانوں میں ان کو عبور حاصل تھا، اور ان کے بڑے اچھے مقرر تھے، ان کا یہ کمال تھا کہ جب اردو یا ہندی میں تقریر کرتے تھے تو دوسری زبان کا ایک لفظ بھی نہ آنے پاتا تھا، اودھ کی پرانی راجدھانی فیض آباد ان کا وطن تھا، اس لیے اردو ان کی مادری زبان تھی اور وہ بڑی فصیح و بلیغ اردو بولتے تھے، علمی قابلیت اور تعلیمی تجربہ کی بنا پر لکھنؤؔ اور ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے، متعدد کتابوں کے مصنف تھے، ان سب سے بڑھ کر ان کی بے تعصبی اور شرافت و وضعداری تھی، ہندوستان میں اس کے جو نمونے رہ گئے ہیں ان میں سے ایک وہ بھی تھے، ایک زمانہ تک کانگریسی رہے پھر اس سے بددل ہوکر سوشلسٹ پارٹی قائم کی، اگر وہ کانگریسی رہتے تو آج مرکزی حکومت کے وزیر ہوتے، مگر انھوں نے اپنے اصول و نظریات کے مقابلہ میں دنیاوی منصب وجاہ کی کوئی پرواہ نہ کی، اب ان کی جیسی شخصیتیں مشکل سے پیدا ہوں گی، اس لیے ان کی موت ایک بڑا قومی حادثہ ہے۔
(شاہ معین الدین ندوی، فروری ۱۹۵۶ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |