Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مناظر احسن گیلانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مناظر احسن گیلانی
ARI Id

1676046599977_54338014

Access

Open/Free Access

Pages

218

مولانا مناظر احسن گیلانی
حضرت الاستاذ رحمۃ اﷲ علیہ کا حادثہ وفات ابھی فراموش نہ ہوا تھا کہ آسمان علم و ادب کا ایک اور آفتاب غروب ہوگیا اور مولانا مناظر احسن گیلانی نے ۵؍ جون ۱۹۵۶؁ء کو انتقال کیا، وہ اپنے اوصاف و کمالات میں علمائے سلف کی یادگار اور علوم کی جامعیت، ذہانت و ذکاوت، دین و تقویٰ اور اخلاق و سیرت میں اس دور میں یگانہ تھے، جو اسلامی علوم میں ان کی نگاہ نہایت وسیع اور اس کی ہر شاخ میں ان کے قلم و زبان کی روانی یکساں تھی، اپنی ذہانت و اطباعی سے ایسے ایسے گوشوں سے معلومات و مسائل کا استنباط اور معمولی معمولی باتوں میں ایسے ایسے لطائف و نکات پیدا کرتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی، علم ان کے تابع تھا وہ علم کے تابع نہ تھے ان کی ذہانت کتابوں کے انبار سے بے نیاز تھی، وہ تھوڑے معلومات سے ایسے مطول مضامین اور ضخیم کتابیں لکھ دیتے تھے جس کے لیے دوسرے مصنفین کو بڑے بڑے کتب خانوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان کا نکتہ آفریں دماغ اور موّاج قلم جدھر رخ کردیتاتھا، تحریر کا دریا بہادیتا تھا، اور اپنے زور میں لعل و جواہر اور خس و خاشاک سب کو بہالے جاتا تھا۔
وہ ایک عرصہ تک جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ دینیات کے صدر رہے، اور چوتھائی صدی سے زیادہ، ان کا علمی و تعلیمی فیض جاری رہا، اس زمانہ میں انھوں نے اپنے تلامذہ سے جو علمی و تحقیقی مقالات لکھوائے وہ اسلامی علوم کو جدید رنگ میں پیش کرنے کا ایک نمونہ ہیں، اس کے ذریعہ انھوں نے اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لئے ایک شاہراہ قائم کردی۔
جامعہ عثمانیہ کے طلبہ میں اسلامی علوم پر تحقیقات اور جدید علوم سے ان کے موازنہ کا جو ذوق پیدا ہوا، اس میں مولانا گیلانی کو بڑا دخل ہے جامعہ عثمانیہ کے تعلق سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور مغربی علوم کے ماہروں سے ان کا بڑا سابقہ رہا اس لیے وہ جدید افکار و خیالات سے پوری طرح آگاہ اور عقائد میں رسوخ و استقامت کے ساتھ بڑے وسیع المشرب اور نئے اور پرانے دونوں طبقوں میں نہایت مقبول اور خاص عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
علم کے ساتھ اسی درجہ کا تقویٰ بھی تھا، علوم ظاہری کے ساتھ باطنی کمالات سے بھی آراستہ تھے، اس حیثیت سے ان کو درویش کامل اور شیخ طریقت کہنا صحیح ہوگا، اس شراب طہور نے ان میں بڑی کیفیت اور مستی پیدا کردی تھی جس کا اثر ان کی تحریروں میں نمایاں تھا، ان کو حضرت شیخ اکبر اور مجدد ہندی دونوں کے رنگ سے یکساں ذوق تھا، مگر رسمی و خانقاہی تصوف اور اس کی بدعات سے ہمیشہ وامن پاک رہا، طبعاً بڑے مرنجان مرنج، خاکسار، متواضع، خوش مزاج، خندہ جبیں اور بذلہ سنج تھے، گفتگو ایسی شگفتہ، دلکش اور لطائف و ظرائف سے معمور ہوتی تھی کہ جس محفل میں بیٹھتے تھے شمع محفل معلوم ہوتے تھے، پندار کا ان میں شائبہ تک نہ تھا، اپنے چھوٹوں تک سے اس شفقت اور تواضع سے پیش آتے تھے کہ ان کو شرمندہ ہونا پڑتا تھا۔
طبیعت میں فقہ کا رنگ غالب تھا، ہزار بارہ سو ماہوار تنخواہ پاتے تھے، اس کی نصف پنشن رہی ہوگی، ایک زمانہ میں موٹر بھی تھا، کوٹھی بھی تھی، مگر کبھی ان چیزوں سے دل نہ لگایا، خود ان کی زندگی اتنی سادہ اور درویشانہ تھی کہ ان کی ظاہری حالت سے ان کی حیثیت کا قیاس نہیں کیا جاسکتا تھا، مگر دوسروں کے ساتھ بڑے فیاض اور مخیر تھے، جو کچھ پیدا کیا سب صرف کردیا اور دولت دنیا سے پاک و صاف اٹھے، انھوں نے دینی و اسلامی علوم و مسائل پر ہزاروں صفحات لکھے اور اپنے بعد بہت بڑا علمی و مذہبی ذخیرہ یادگار چھوڑ گئے، ایسے جامع العلوم قلندر مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کو عالم آخرت کی سربلندی سے سرفراز اور ان کے مدارج بلند فرمائے۔
دارالمصنفین سے ان کے تعلقات بڑے گہرے اور گوناگوں تھے، اس لیے ان کی یادگار میں انشاء اﷲ معارف کا ایک خاص نمبر نکالنے کا ارادہ ہے، امید ہے کہ ان کے تلامذہ اور احباب اپنے مضامین سے اس نمبر کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے۔
(شاہ معین الدین ندوی، جولائی ۱۹۵۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...