Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناعبدالسلام ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناعبدالسلام ندوی
ARI Id

1676046599977_54338019

Access

Open/Free Access

Pages

219

آہ مولانا عبدالسلام ندوی
تو نظیریؔ نہ فلک آمد وبودی جو مسیح
باز پس رفتی وکس قدر تو نشنافت دریغ
حضرت الاستاذ رحمۃ اﷲ علیہ کا غم ابھی بھولا نہ تھا، مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ کی یاد ابھی بالکل تازہ تھی کہ ایک اور قدیم اور اہم علمی یادگار مٹ گئی اور مولانا عبدالسلام صاحب ندوی نے ۳ اور ۴ اکتوبر کی درمیانی شب کو دفعتہ انتقال کیا، دارالمصنفین کی پرانی بزم علمی کی یہی ایک شمع رہ گئی تھی جس سے اس دور کی یاد قائم تھی، افسوس کہ وہ ابھی گل ہوگئی، مرحوم مولانا شبلی کے شاگرد رشید دارالمصنفین کے پرانے رکن رکین اور اس کے علمی کاموں میں حضرت الاستاذ کے دست راست تھے، ایک زمانہ میں دونوں کا نام ساتھ ساتھ لیا جاتا تھا، وہ دارالمصنفین کے قیام کے ساتھ ہی اس سے وابستہ ہوگئے تھے اور مر کر اس سے جدا ہوئے۔
وہ فطری مصنف و اہل قلم اور ادیب و انشا پرداز تھے، ان کی اس استعداد کا اعتراف مولانا شبلیؒ کو ان کی طالب علمی کے زمانہ سے تھا، اور انھوں نے ان کے ایک کامیاب مصنف بننے کی پیشین گوئی کی تھی، یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اور ہندوستان کے نامور مصنفین میں ان کا شمار ہوا، ان کی تصانیف نے دوسروں کو مصنف اور ادیب و انشا پرداز بنادیا اور ملک کا علمی مذاق بنانے میں ان کا بھی حصہ ہے، ان کی قوت اخذ بڑی تیز تھی، سرسری مطالعہ سے کتابوں کا جوہر کھینچ لیتے تھے قلم برداشتہ لکھتے تھے اور اس پر نظرثانی اور حک و اصلاح کی ضرورت بہت کم پیش آتی تھی، ان کا مسودہ اولیٰ ہی مبیضہ ہوتا تھا، قلم کی یہ پختگی کم مصنفین کو نصیب ہوتی ہے، علامہ شبلی کی زندگی ہی میں، الندوہ کے سب اڈیٹر اور اس کے بعد اڈیٹر ہوگئے تھے، پھر الہلال میں مولانا ابوالکلام کے شریک کار رہے، دارالمصنفین کے قیام کے بعد ۱۹۱۴؁ء میں یہاں چلے آئے اور آخرعمر تک اس سے وابستہ رہے۔
اپنی بہت سے خصوصیات میں وہ اس زمانہ میں یگانہ تھے، نہایت معصوم اور بے نفس انسان تھے، وہ ایک مشہور مصنف اور نامور اہل قلم تھے، مگر اس حیثیت کا احساس تک ان کو نہ تھا اور علم کے پندرا اور شہرت و نام و نمود کی طلب کا تصور بھی ان کے دماغ میں نہ آتا تھا، پوری زندگی قناعت اور شان استغنا کے ساتھ ایک گوشہ میں گزار دی، تحمل و بربادی کا پیکر تھے، ناگوار سے ناگوار باتیں سن کر پی جاتے تھے اور چہرہ پر شکن تک نہ پڑتی تھی، حقوق العباد سے ان کا دامن اتنا پاک تھا اور معاملات کے اس قدر صاف تھے کہ کسی کا کوئی حق ان کے ذمہ نہ تھا اور ان کے حقوق بہتوں کے ذمہ نکلیں گے وہ اپنی حق تلفی پر بھی چشم پوشی سے کام لیتے تھے، ان کی ذات سے کسی کو ادنی تکلیف بھی کبھی نہیں پہنچی اور وہ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ کا عملی نمونہ تھے، اس قدر سادہ مزاج اور بے تکلف تھے کہ چھوٹے بڑے ادنی و اعلیٰ ہر شخص سے ایک طرح سے ملتے تھے اور ادنی ملازمین تک ان سے بے تکلف تھے، ان کا ظاہر باطن یکساں تھا، نفاق کے نام سے ناآشنا تھے، باتیں ایسی معصوم اور بھولی کرتے تھے کہ ناواقف آدمی ان کو بمشکل پڑھا لکھا تصور کرسکتا تھا، جو لوگ ان کی تصانیف کے ذریعہ ان کو جانتے تھے وہ ان سے ملنے کے بعد ان کے مصنف ہونے کا یقین نہیں کرسکتے تھے، ان کی زندگی کن فی الدنیا کانک غریب اوعابر سبیل کا عملی نمونہ تھی، ناگزیر ضروریات زندگی کے علاوہ تعیش اور نمائش کا کوئی سامان کبھی نہیں رکھا، ان کا پورا اثاثہ اور دارالمصنفین کی ۴۵ سالہ زندگی کا حاصل چند جوڑے کپڑوں، دو بکس ایک ایک پلنگ اور ایک بستر سے زیادہ نہ تھا، یہ وہ اوصاف ہیں جو اس زمانہ میں کسی ممتاز انسان میں مشکل سے مل سکتے ہیں، اس لحاظ سے مرحوم بڑے انسان تھے، مگر افسوس ظاہر پرست دنیا نے، ان کی قدر نہ کی اور اپنے کمالات کے لحاظ سے وہ جس درجہ کے مستحق تھے، وہ حاصل نہ ہوسکا، اگرچہ وہ خود اس سے بہت بلند اور بے نیاز تھے۔
اس بے نفسی، سادگی اور بے تکلفی کی وجہ سے ہر طبقہ میں یکساں مقبول تھے اور خواص سے زیادہ عوام اور غربا، ان سے محبت کرتے تھے، ان کی موت کے بعد ہر زبان پر ان کی خوبیوں کا افسانہ اور ہر دل ان کی یاد میں مغموم تھا اور،
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
کا منظر نظر آرہا تھا، جو انشاء اﷲ عنداﷲ ان کی مقبولیت کا ذریعہ ہوگا، کامل ۳۲ سال تک راقم کا ان کا اس طرح ساتھ رہا کہ سفر کے علاوہ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے، اس طویل تجربہ میں ہر حیثیت سے ان کو نہایت نیک نفس انسان پایا۔ یوں تو بشری کمزوریوں سے کوئی انسان بھی مستثنی نہیں ہے، اس لیے وہ بھی معصوم عن الخطا نہ تھے، مگر ان کی خطائیں بھی معصوم تھیں۔
انھوں نے نصف صدی تک علم و فن کی خدمت کی اور مختلف علمی، ادبی اور مذہبی موضوعوں پر ہزاروں صفحات لکھے، ان کی مستقل تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے، شعر و ادب سے خاص ذوق تھا اور اس پر بڑی گہری اور استادانہ نظر رکھتے تھے، جس پر ان کی تصنیف شعرالہند شاہد ہے، مذہبی تصانیف میں تاریخ اخلاق اسلامی، اسوۂ صحابہؓ، اسوۂ صحابیاتؓ اور سیرت عمرؓ بن عبدالعزیز جیسی کتابیں لکھیں، متعدد مذہبی کتابوں کے ترجمے کیے، جنھوں نے کتنوں کو مسلمان بنادیا، اس حیثیت سے ان کی مذہبی خدمات بھی کم نہیں ہیں، ان کی آخری تصنیف حکمائے اسلام (حصہ دوم) حال ہی میں شائع ہوئی ہے، اس کو لے کر وہ اپنے قدیم رفیق مولانا ابوالکلام صاحب سے ملنے کے لیے دلی جانے والے تھے اور بڑے ذوق و شوق سے اس کی تیاریاں کررہے تھے کہ پیام اجل آگیا اور ایسا دفعتہ جدا ہوئے کہ اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا، ان کی یاد مدتوں فراموش نہ ہوگی اور ان کی ایک ایک ادا یاد آکر دلوں کو تڑپاتی رہے گی۔
اے تو مجموعۂ خوبی بچہ نامت خوانم
بارالٰہا اس نیک نفس انسان کی نیکیوں کے طفیل میں اس کی بشری لغزشوں سے درگزر فرما، اپنے رحم و کرم سے اپنی رحمت و مغفرت کے دروازے اس کے لیے کھول دے اور جس طرح تو نے دنیا میں اس کو مقبولیت عطا فرمائی تھی، اسی طرح آخرت کی مقبولیت سے بھی سرفراز فرما۔ الھم صبب علیہ شأبیب رحمتک و رضوانک یا ارحم الراحمین۔ (شاہ معین الدین ندوی،اکتوبر ۱۹۵۶ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...